دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ اسباب پر غور بھی ضروری ہے – عمار کاظمی
لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش محمد، جنداللہ، بوکو الحرم، داعش، القائدہ، طالبان وغیرہ وغیرہ، کیا یہ تمام گروہ، تنظیمیں اور لوگ دو مشابہہ مکاتب فکر کا حصہ نہیں ہیں؟ اتنی بڑی تعداد کے باوجود لوگ اپنی فکر کی اصلاح تو درکنار اس پر غور کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک بس یہی کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب یا فکر سے تعلق نہیں، یہ سب امریکہ اور مغرب کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
ارے بھائی ساری دنیا میں ردعمل صرف آپ کے لوگوں کو ہی دکھانا ہوتا ہے؟ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی شیعہ کا ردعمل ہیں، لشکر طیبہ کشمیر کا ردعمل ہے، القائدہ امریکہ کا ردعمل ہے، داعش ایرانی مداخلت کا ردعمل ہے، دیسی کرسچن گورے عیاسائیوں کے ردعمل میں مارے جاتے ہیں، احمدی کُفر کے فتووں کا شکار ہوتے ہیں، صوفی بریلوی سنی کا قتل عام شاید بدتوں کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ یعنی آپ اور آپ کے مکاتب فکر پوری دنیا میں ردعمل دینے کے اکلوتے ٹھیکیدار ہیں۔
کچھ خدا کا خوف کرو بھائی۔ کوئی ایک آدھ مثال ہو تو بندہ اتفاق کہہ کر ٹال دے یا یہ ہی کہہ لے کہ دو ایک مثالیں تو ہر مذہب اور مکتب فکر میں دہشت گردی یا انتہا پسندی کی موجود ہیں۔ مگر یہاں تو درجنوں مثالیں ہیں۔ سب کو کیسے اتفاق تسلیم کر لیا جائے؟ کہیں تو کچھ فکر اور بنیادی تصورات میں غلط ہے جو دنیا بھر کی درجنوں معروف دہشت گرد تنظیموں کا محض دو مکاتب فکر سے تعلق جڑتا ہے۔ زیادہ مذہبی لوگوں کا مسلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ بنیادی تصورات اور بزرگوں کے لکھے کہے پر سوچنے سمجھنے سوال اٹھانے کو گناہ تصور کرنے لگتے ہیں۔
بھائی اگر مذہب انسانیت کے لیے ہے اور اسلام امن کا دین ہے تو اپنے اپنے مکاتب فکر کو کھنگالو اور دیکھو کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہاں کہاں چھپی ہے؟ دنیا میں اتنی بڑی قتل غارت جس میں بچوں عورتوں بوڑھوں اور جوانوں کے گلے کاٹے جاتے ہوں وہ محض ردعمل یا بین الاقوامی سازشوں کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ اور اگر کسی مغربی سازش کو مان بھی لیا جائے تو کہیں تو کچھ ہے جو محض مخصوص فکر کے لوگ ہی سازشوں سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی طرف جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی مسلمان مکاتب فکر ہیں ان میں تو ایسا ردعمل کبھی سامنے نہیں آیا کہ وہ معصوم بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹیں اور دنیا بھر میں خود کُش دھماکے کریں۔