پاک و ہند میں ریڈیکل دیوبندیزایشن سے ابھرتی تکفیری دہشت گردی – خالد نورانی
آج کل پاکستانی نام نہاد لبرل حلقوں میں جن کو میرے دوست عامر حسینی کمرشل لبرل مافیا کہتے ہیں میں اس بات سے کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ آخر پاکستان میں مین سٹریم میڈیا میں کسی حد تک اور سوشل میڈیا پر بہے تیزی سے مذھبی دہشت گردی کے حوالے سے دیوبندی تکفیری دہشت گردی کی اصطلاح مقبولیت حاصل کررہی ہے اور کمرشل لبرل مافیا جن کو میں ڈالر , ریال خور مافیا کہتا ہوں پاکستان میں بالعموم اور انڈین برصغیر میں بالخصوص مذھبی ریڈیکلائزیشن اور اس سے جڑی دہشت گردی کی تشریح کے لیے لفظ دیوبندی کے استعمال کو فوری طور پر فرقہ پرستی , مسلکی تنگ نظری کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ سنی ریڈیکلائزیشن یا سنیفیکشن
Sunnification or Sunni Radicalization
کی ٹرم کا استعمال کرتا ہے اور زیادہ کرے تو اس کو سلفی یا وھابائزیشن سے تعبیر کرتا ہے جبکہ وہ دیوبندی ازم یا
Deobandization
کی ٹرم کو استعمال کرنے سے گریزاں ہے جبکہ اس ریڈیکلائزیشن سے جس تکفیری دہشت گردی کا ظہور ہوا اسے وہ تکفیری دیوبندی دہشت گردی کہنے پر تو بہت ہی سیخ پا ہوجاتا ہے
عامر حسینی جوکہ میرے یونیورسٹی فیلو اور کلاس فیلو دونوں ہی ہیں نے اپنے ایک سٹیٹس میں ویانا یونیورسٹی کے پروفیسر کی مرتب کردہ ایک کتاب
New Approaches of Jihadism
میں شایع ہونے والے ایک مضمون کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ کہ آخر صوفی سنی اسلام جس کو برصغیر پاک و ہند میں بریلوی کہہ دیا جاتا ہے اسے اس قدر
Misrepresentation and Distortion
کا سامنا کیوں ہے ؟
اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں مین سٹریم میڈیا پر اس وقت جو کمرشل لبرل مافیا غالب ہے وہ صوفی سنی اسلام کے مقابلے میں مذھبی انتہا پسند ریڈیکلائزیشن کی دیوبندی بنیادیں چھپاتا ہے اور اعتدال پسندی بھی اسی ریڈیکلائزیشن کے پروموٹرز کے اندر تلاش کرتا ہے اور ایک طرح سے وہ انڈین برصغیر میں
Evolution , Growth and expansion of Radical Deobandism and Process of Deobandization
کے بارے میں
State of,Denial
کی حالت میں ہے اور انکار کی یہ حالت اسقدر زیادہ ہے کہ جیسے ہی آپ
DEOBANDIZATION OF INDIAN SUBCONTINENT
کی بات کرتے ہیں تو کمرشلز لبرلز کی بھویں تن جاتی ہیں , منہ سے جھاگ نکلنے لگتے ہیں اور وہ اس قدر تعصب و جہل کا شکار ہوتے ہیں کہ کہ وہ
SUNNI barelavi – Deobandi binary
کی تلاش کرتے ہیں اور دیوبندائزیشن اور اس سے جنم لینے والی تکفیری دیوبنڈائزڈ دہشت گردی کے مقابلے میں سنی بریلوی تکفیریت اور سنی بریلوی دہشت گردی کا افسانہ گھڑ کر لاتے ہیں
بہت سارے نام ہیں جن کی جانب سے ملائیت , تھیوکریسی , اسلامسٹ یا زیادہ کیا تو وھابایزیشن کی اصطلاح میں پاکستان کے اندر اور باہر مذھبی ریڈیکلائزیشن کو سمجھنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے یا پھر اسے سنی شدت پسند اسلام کا نام دے دیا جاتا ہے اور اس طرح سے صوفی سنی اسلام اور دیوبندی اسلام کو گڈ مڈ کرکے کھلے عام
OBFUSCATION of Deobandization in Indian Subcontinent
کا,ارتکاب کیا جاتا ہے یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا واقعی دیوبندائزیشن ایک فرقہ وارانہ یا مسلکانہ تنگ نظری پر مبنی اصطلاح ہے پہلی بات یہ ہے کہ دیوبندائزیشن کی اصطلاح ایسی نہیں ہے جو اسلام ، جہاداور ریڈیکلائزیشن کا علمی ، تاریخی اور سماجی جائزہ لینے والے سکالرز یا اکیڈمک سرکلز میں کہیں استعمال نہ ہورہی ہو یا اس اصطلاح کے استعمال کوفرقہ پرستی یا مسلکانہ تنگ نظری میں لیا جارہا ہو ، آپ اگر گوگول میں
Deobandization
کی کمانڈ دیکر سرچ کریں گے تو آپ کو لاتعداد بکس ، آرٹیکلز اور ریسرچ کےلنکس ملیں گے جو خاص طور پر پاک و ہند کے اندر یا انڈین برصغیر کے اندرمذھبی ریڈیکلائزیشن اور مذھبی بنیادوں پر ہونے والی دھشت گردی کے تناظرکو سمجھنے کے لئے
Deobandization , Deobandism , Deobandi Radicalization and Deobandi
based terrorism
کی اصطلاح استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور اس کے تاریخی و سماجی روٹس کاجائزہ بھی لیتے نظر آتے ہيں ، اور ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرتےنظر آتے ہیں کہ اںڈین برصغیر میں جو سنّی اسلام ہے وہ تکثیری اور صوفیازم پر مبنی ہے اور اسے سب سے زیادہ چیلنج
Process of growing Deobandization in Indian subcontinet
سے ہےجس کتاب کا حوالہ عامر حسینی نے اپنے فیس بک سٹیٹس میں دیا ، اس میںاگرچہ دیوبندائزیشن کے پروسس کے متوازی بریلوی ریڈیکل ازم کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے اور سنّی تحریک کے سائز اور اس کے دائرہ کار کو بھی خوفناکبناکر پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور غلط طور پر گلگت بلتستان میں اہلسنتوالجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان / لشکر جھنگوی کو سنّی تحریک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے اور ان پر آغا ضیاء الدین اور پولیس افسران کے قتل کا الزام دھر دیا گیا اور اس میں پاکستان سنّی تحریک پر پابندی کا بھی غلط تذکرہ موجود ہے اوراسے دیوبندی تکفیری دھشت گرد تںطیموں کی طرح کی ایک دھشت گرد تںظیم بناکر پیش کیا گیا ہے لیکن اس کتاب میں بھی ہمیں
Deobandization
کی اصطلاح ملتی ہے اور مضمون نگار لکھتا ہے
In late 1970s State politics of Deobandization of Barawli mosques in Pakistan.In the late Deobandi organizations like JUI and SSp managed accumulated financial resorces , weapons and trained fighters during year of so called Jihad in Afghanistan with favour of Zia regime , Saudi and American fundings and above mentioned fighters started to extend their attack against Shia also to Barilwis .
( New Approached of analysis of Jihadism: Online and Offline , Pages 42, 43 )
لیکن اس کتاب میں صوفی سنّی المعروف بریلوی اسلام کے بارے میں دیوبندی ازم سے تقابل کرتے ہوئے جو لکھا گیا ، ایک تو وہ تاریخی حقائق کے منافی ہے اور دوسرا ایک اتہام ہے اہلسنت سواد اعظم پرمضمون نگار دیوبندی ازم کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے
Agent of rational reformist , Neo Orthodox purist school of thought
قرار دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی ازم دارالعلوم دیوبند کے قیام سے ہی مسلمانوں کی اکثریت کے مذھبی شعائر ، صوفی اشغال اور تکثریت پسندی کی مخالفت پر کمربستہ تھا اور اس نے تکفیر کو بطور سیاسی ہتھیار بھی استعمال کیا ، 1929ء میں اس نے اتر پردیش اور پنجاب کے اندر شیعہ کے خلاف تحریک کے نام پر آل اںڈیا مسلم لیگ کے خلاف تحریک چلائی اور 1940ء میں قائداعظم سمیت کئی اہم لیگی رہنماؤں کے خلاف کفر کا فتوی بھی دیا اور سرسید کے تعلیمی ادارے اور جدید تعلیم کی سخت مخالفت کی اور حنفیت کے نام پر اس نے وہابی خیالات کو آگے بڑھایامضمون نگار صوفی سنّی المعروف بریلوی کو
Counter reformist , emtional lovers of Prophet
قرار دیتا ہے ، اہلسنت بریلوی یا صوفی سنّیوں کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شدید وابستگی کی بنیاد قرآن ، سنت ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اہل بیت اطہار کی روش اور تابعین و تبع تابعین و صلحائے امت کا اجتماعی طریقہ کار پر ہے ، یہ جذباتی انس کسی بنیاد کے بغیر نہیں ہے جیسا کہ مضمون نگار نے تاثر دینے کی کوشش کی جبکہ اہلسنت بریلوی کو کاؤنٹر ریفارمسٹ قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے ، کیونکہ سرسید کے علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے ڈین اعلی حضرت الشاہ احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ مجاز سید سلیمان بہاری تھے جبکہ اسی یونیورسٹی کے پرنسپل ڈاکٹر ضیاءالدین بنے جوکہ اعلی حضرت الشاہ احمد رضا خان بریلوی سے ہی بیعت تھے اور سواد اعظم اہلسنت نے آل انڈیا مسلم ليگ اور تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور دیوبندی جمعیت العلمائے ہند اور
دارالعلوم دیوبند کی طرح اس تحریک کی مخالفت نہ کی اور نہ ہی کفر و الحاد کے فتوے دئے اور عام مسلمانوں کو لیگ کے قآئدین کے خلاف تشدد پر نہیں اکسایا
فاضل مضمون نگار نے فتاوی حسام الحرمین کا حوالہ دیا ہے جس میں بعض دیوبندی مولویوں پر کفر کے فتوؤں کی تصدیق علمائے حرمین سے کرائے جانے کا زکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بریلوی تمام دیوبندیوں کو کافر قرار دیتے ہیں ، یہ صریحا غلط بیانی ہے کیونکہ “دیوبندی ” پر مطلق فتوی کفر اعلی حضرت نے کبھی نہیں دیا اور یہ چند دیوبندی مولویوں کے بارے میں تھا اور اسے دیوبندی ریڈیکل تکفیریت کے ساتھ جوڑنا انتہائی غلط ہے ، کیونکہ صوفی سنّی بریلویوں نے کبھی بھی دیوبندیوں ، یہاں تک کہ غیر مقلدین کے خلاف بھی ان کو ریاستی سطح پر کافر قرار دلوانے کی کوئی سیاسی پرتشدد تحریک نہ متحدہ ہندوستان میں چلائی ، نہ تقسیم ہند کے وقت اور نہ ہی بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیش میں جبکہ دیوبندی سپاہ صحابہ پاکستان موجودہ اہلسنت والجماعت ، سمیت دیوبندی تکفیری جماعتیں اور عسکری گروپ اہلسنت بریلوی کے خلاف فتوی شرک تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان کی نسل کشی تک جاپہنچتے ہیں
ایک اور کتاب جو کہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ اور اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر اور جارج ٹاؤن میں سعودی شہزادہ الولیدسنٹر برائے ہم آہنگی مابین مسیحی و مسلمان کے ڈائریکٹر
John Louis Epostio
نے لکھی ہے اور اسے آکسفورڑ یونورسٹی پریس امریکہ نے شایع کیا ہے اور اس کا عنوان ہے
Asian Islam in 21st Century
مذکورہ بالا پروفیسر کے بارے میں یہ معروف ہے کہ وہ وہابی ازم کا عذر خواہ ہے ، اپالوجسٹ ہے اور اس حوالے سے
Stephen Schwartz Director of Center for Islamic Pluralism
نے ایک آرٹیکل
John L.Epostio : Apologist for Wahhabi Islam
کے عنوان سے لکھا ہے اور بتایا کہ کیسے وہ سعودی عرب ، آل سعود اوروہابیت کی خاطر علمی دیانت کو بھی قربان کردیتا ہے ، لیکن جب پوسٹ نائن الیون کے بعد امریکی پالیسی جنوبی ایشیا میں مذھبی ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے بدلی تو اس نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے ص 42 پر لکھا
Hence , it is the second meaning of Talibanization _ Islamization of Pathan nationalism -That is at work in Pakistan . The rise of MMA suggests that Deobandis have completed their domination of Pathan politics and nationalism in Pakistan in the same manner that Taliban had done in Afghanistan.
حقیقت یہ ہے کہ طالبانائزیشن – دیوبندائزیشن کے انتہائی دھشت گردانہ پروسس نے خیبر پختون خوا ، فاٹا ، بلوچستان کے اندر پشتون ایریاز میں خاص طور پر صوفی سنّی اسلام ، تکثریت پسندی دفاعی پوزیشن میں پہنچادیا ہے اور یہ سارا پروسس تاریخی اعتبار سے ایک تو سعودی – سی آئی اے فنڈڈ نام نہاد جہادی پراکسی ، ریاست پاکستان کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی ، جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں شروع ہونے والی دیوبندائزیشن سے یہاں تک پہنچا ہے اور سعودی عرب ، القائدہ ، داعش جیسی انٹرنیشنل سلفی تکفیری دھشت گرد تںظیموں نے بھی برصغیر پاک و ہند کے اندر اپنے نیٹ ورک کے لئے ریکروٹمنٹ کے لئے دیوبندی ازم پر ہی انحصار کیا اور جن دیوبندی دھشت گرد تںطیموں کو اپنے ساتھ ملحق کیا تو ان کی حنفی شناخت کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سعودی سلفی ازم کا بازوئے شمشیر زن دیوبندی ازم ہی ہے
میرے سامنے ہیرالڈ ٹرائبون کی 6 دسمبر 2011ء کی جھنگ میں دیوبندی- شیعہ تنازعہ کے بارے میں شایع ہونے والی ایک خبر موجود ہے ، اس خبر کو فیصل آباد اور جھنگ کے رپورٹروں نے مل کر ترتیب دیا اور یہ رپورٹ پاکستان کے اندر بالعموم اور جھنگ کے اندر بالخصوص تکثریت پسند صوفی اسلامک کلچر کے دباؤ میں آنے اور فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گاری کی تشریح دیوبندائزیشن – طالبانائزیشن – وہابائزیشن جیسی مخلوط ٹرم سے کرتی ہے
میں جب برصغیر پاک و ہند میں ” دیوبندائزیشن ” کے پروسس اور اس اصطلاح کےتحت ہونے والے علمی تحقیقی کام کی تلاش کررہا تھا تو میرے سامنے 47 صفحات کا ایک ریسرچ پیپر ایک فرانسیسی نژاد محقق
Audun Kolstad Wigg
کا ہاتھ لگا ، جس کا عنوان ہے
Islamist Opposition in the Islamic Republic Jundullah and the spread of Extremist Deobandism in Iran
Published by : Norwegian Defence Research Establishment (FFI )
2 July ,2009.
اس رپورٹ میں جند اللہ کے ایک بلوچ قوم پرست مزاحتمی گوریلا تنظیم سےدیوبندی تکفیری تنظیم بننے تک کے ارتقاء کو بیان کیا گیا ہے ، اگرچہ اس رپورٹ کا مرتب کہیں ، کہیں امریکی اور یورپی ایران مخالف لائن کے زیر اثر نظر آتا ہے لیکن یہ ایرانی اور پاکستانی بلوچستان میں ” دیوبندائزیشن “کے پروسس کو بہت ہی تفصیل سے بیان کرتا ہے اور مجھ ابتک بلوچستان کی دیوبندائزیشن پر یہ سب سے جامع تحقیق لگتی ہے ، رپورٹ کا آغاز اس عبارت سے ہوتا ہے
Transformation of Sunni Islam through growth of Auster Deobandi Current which underlies sectarian strife in number of Muslim countries and displacement of the heart of Radical Islamism from Arab Pensuila to Indian subcontinent
اور اس رپورٹ کے ص 17 سے ایک عنوان کے تحت دیوبندائزیشن کا جائزہ شروع ہوتا ہے
Deobandization In Pakistan
رپورٹ کہتی ہے کہ دیوبندی ازم کو پاکستان کے اندر تیزی سے فروغ ملناشروع ہوا ، اس وقت جب جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آگیا اور دیوبندی ازم کےاندر ریڈیکل ، پرتشدد رجحان غالب آنا شروع ہوا ، دارالعلوم دیوبند آغازکار سے سنّی تکثریت پسندی کے قدرے مخالف دھارے کے طور پر وہابیت کے ساتھ اشتراک کی طرف مائل تھا اور پاکستان میں یہ باقاعدہ ایک سیاسی رجحان کےطور پر سامنے آیا ، سپاہ صحابہ پاکستان کا قیام دیوبندی ریڈکلائزڈ اوروائلنٹ رجحان کے غالب آجانے کی علامت تھا اور اس کا اثر بتدریج پورےپاکستان میں پھیل گیا اور یہی اثر پاکستانی بلوچستان سے سفر کرتا ہوا
ایرانی بلوچستان بھی گیا
اس رپورٹ میں ایک باب
Deobandization of Pakistani Baluchistan
کا بھی ہے اور اس باب کے آغاز میں رپورٹ مرتب کرنے والا یہ تسلیم کرتاہے کہ بلوچ تاریخی اعتبار سے لبرل مذھبی رہے ہیں ( اصل میں مغرب جسے لبرل اسلامسٹ کہتا ہے تو اس سے مراد صوفی اسلامی اقدار ہوتی ہیں ) اور وہ کہتاہے کہ پاکستانی بلوچ سماج میں صوفی لبرل اقدار کے مقابلے میں دیوبندائزیشن کا پروسس بلوچ سماج میں بلوچ نیشنل ازم اور علیحدگی پسندی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے پشتونائزیشن کو متعارف کرانے کی وجہ سے شروع ہوا ، جبکہ افغان فیکٹر بھی اس کا ایک سبب بنا ، رپورٹ کہتی ہے کہ 80ء کی دھائیمیں بلوچستان میں کوئٹہ اور پشتون پٹی کے اندر دیوبندی مدارس تیزی سےبڑھے اور ڈیموگرافک پوزیشن میں پشتونوں کے مستحکم ہونے اور وہاں دیوبندی مدارس کی تعداد میں اضافے میڑ راست متناسب کا تعلق ہے ،
رپورٹ کہتی ہے کہ بلوچستان کے اندر دیوبندی مدارس کے کھلنے میں کراچی کے دار العلوم اور جامعہ بنوریہ العالمیہ نے اہم ترین کردار ادا کیا ، رارالعلوم کراچی اورجامعہ بنوریہ کی ان کنت شاخیں پاکستانی بلوچستان میں موجود ہیں جبکہ دارالعلوم کراچی کے اندر ہر سال 1500 ایرانی بلوچ اور 1000 پاکستانی بلوچوں کو داخلہ ملتا ہے ، اس رپورٹ کے مرتب کرنے والے کے مطابق آٹھ سال جاری رہنے والی عراق – ایران جنگ کے دوران بھی درجنوں دیوبندی مدرسےپاکستانی بلوچستان میں سعودی عرب اور دیگر گلف ریاستی سرمائے کی مدد سےتعمیر کئے گئے اور اسی زمانے میں بلوچ پٹی کے اندر بھی سپاہ صحابہ پاکستان کے قدم جمے اور ایک بلوچ سیاسی لیڈر کا کہنا تھا کہ اصل میں سعودی عرب نے ایرانی باڈر کے ساتھ ، ساتھ دیوبندی مدارس کی ایک دیوارکھڑی کی تھی اور پھر نائن الیون کے بعد مسلسل کوئٹہ طالبان کی آمجگاہ بنا اور ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار سے زیادہ طالبان لڑاکے بلوچستان میںموجود ہیں اور پھر بلوچستان میں مقامی آبادی کی ریکروٹمنٹ پر بھی توجہ دی گئی ، اس منظم دیوبندائزیشن نے بلوچستان کو ایک آتش فشاں میں بدل ڈالا ہے
فرانسیسی محقق لکھتا ہے کہ دیوبندائزیشن کا یہ پروسس پشتون پٹی سے ہوتاہوا بلوچ پٹی تک آیا ہے ، اور یہ محقق اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ 1960ءمیں ایوب رجیم نے بلوچ انسرجنسی سے نمٹنے کے لئے بلوچوں میں تبلیغی جماعتکو راستہ دیا اور تبلیغی جماعت نہ صرف پاکستانی بلوچستان میں گئی بلکہ اس نے ایرانی بلوچستان تک کا سفر بھی کیا اور بلوچ سماج میں سنّی صوفی اسلامی روائت سب سے غالب رہی لیکن اب اسے وہاں دیوبندی ریڈیکل اسلام پیچھے دھکیل رہا ہے اور یہ ارتقاء بلوچستان میں بھی ویسے ہی ہے جیسے ہم نے پاکستان کے دوسرے خطوں میں ہوتا دیکھا ہےفرانسیسی محقق ایرانی بلوچستان میں دیوبندائزیشن کے پروسس کا جائزہ لیتے ہوئے ایرانی بلوچستان میں شاہ بخش بلوچ قبآئل کا زکر کرتے ہوئے بتاتا ہے
کہ ان بلوچ قبائل میں برٹش سامراج کے دور سے ہی دیوبندی ازم خاصا مضبوط لگتا ہے اور اس کی دلیل دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ 1930ء میں شاہ بخش قبائل نے مولوی عبدالعزیز ملّا زادہ کی سربراہی میں صوفی اسلامی رسوم و رواج کے خلاف پرتشدد اور مسلح تحریک چلادی اور اسی ملّا عبدالعزيز نے زاہدان کے اندر دیوبندی دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور اس مدرسے کی کئی اور شاخیں
ایرانی بلوجستان میں پھیل گئیں ، جبکہ اسی شاہ بخش قبائل سے تعلق رکھنے والا ملّا محمد علی زابل شہر کے گردو نواح میں دیوبندی مدرسہ ابو حنیفہ کا سرغنہ ہے ، 1987ء میں دارالعلوم زاہدان کا کنٹرول ملازادہ عبدالحمید نے سنبھالا اور اس وقت سے لیکر کافی مدت تک دارالعلوم کراچی کے سربراہ دیوبندی مفتی تقی عثمانی ، جے یوآئی کے مولوی فضل الرحمان ، دیوبندی ، سابقہ استاد اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر محمود احمد غازی جنھوں نے کئی کتابیں دیوبندی ازم پر لکھی ہیں اس دارالعوم کے سالانہ جلسوں میں جاتے رہے ، اس مرتبہ ایرانی حکومت نے فضل الرحمان کو ویزہ نہیں دیا
فرانسیسی محقق نے لکھا ہے کہ جنداللہ نے دیوبندی تکفیریت کے ساتھ مل جانے کی طرف بتدریج سفر کیا ، پہلے اس کے بلاگ پر پوسٹ لگی کہ اس نے الحق نزھت نامی دیوبندی دھشت گرد تںظیم سے الحاق کرلیا اور پھر سپاہ رسول اللہ نامی دوسری دیوبندی تنظیم سے اس کے انضمام کی خبر اس کے بلآگ پر پوسٹ ہوئی اور پھر شاہ بخش قبیلے کے دیوبندی دھشت گرد گروپ حاجی نعمت اللہ شاہ بخش گروپ اور حاجی خدا بخش شاہ بخش گروپ کے الحاق کی خبریں موصول ہوئیں ،
فرانسیسی محقق نے بلوچ شاہ بخش ٹرائبس کے بارے میں بات کرتے ہوئے عنوان جو دیا وہ بھی بہت دلچسپ ہے
Shahbakhsh Tribes , Drug and Deobandism
فرانسیسی محقق کہتا ہے کہ شاہ بخش ایرانی بلوچ قبائل نہ صرف منشیات اوراغواء برائے تاوان کے دھندے میں یکتا ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ لگن کےساتھ دیوبندی ازم کو فروغ دیتے ہیں
بنگلہ دیش میں دیوبندائزیشن کے پھیلاؤ کا جائزہ پروفیسر ممتاز حسین نےاپنے تیار کردہ ایک رپورٹ میں لیا ہے ، جس کا مطالعہ درج زیل پی ڈی ایف لنک میں کیا جاسکتا ہے
http://www.iiu.edu.pk/wp-content/uploads/downloads/ird/downloads/islamic-education-in-bangladesh-first-year-report.
تو مرے نزدیک دیوبندائزیشن ، دیوبندی ازم ، دیوبندی تکفیری فاشزم ،دیوبندی تکفیری دھشت گردی جیسی اصطلاحیں ہرگز فرقہ وارانہ نہیں ہیں خاص طور پر جنوبی ایشیا اور پاکستان میں انتہا پسندی اور دھشت گردی کے تناظر کو سمجھنے کے لئے بلکہ یہ سنّی اکثریت کے صلح کل ، صوفیانہ ثقافتی امیج کو مسخ ہونے سے بچانے کے لئے بہت مناسب اصطلاحیں ہیں
Source