کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کالعدم دہشت گرد گروہ کے سرغنہ اورنگزیب فاروقی کے خلاف کاروائی سے گریزاں کیوں؟
پاکستان کےسب سے بڑے شہر کراچی میں کور کمانڈر کا غیر روایتی کردار سامنے آ رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار حکومت کی بدانتظامی پر کھلی تنقید کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ شہر کے اہم ’اسٹیک ہولڈروں‘ سے ملاقات کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے سیاسی جماعتوں کے مبینہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کاروائی کی لیکن کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ نام نہاد اہلسنت والجماعت کی طرف ان کا جھکاؤ نظر آتا ہے
وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے بعد کراچی میں رینجرز کے آپریشن کا آغاز ہوا جس میں رینجرز کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل اور موجود ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے ایک متحرک کردار ادا کیا۔ جنرل رضوان اختر کو صنعت کاروں میں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ شیعہ اور سنی صوفی کی نسل کشی اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں شامل اورنگزیب فاروقی گروپ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔
فوج میں اعلیٰ سطح پر تبادلوں کے بعد کراچی میں بھی قیادت تبدیل ہوئی۔ اس دوران طالبان سے ناکام مذاکرات اور ہپر پشاور میں سکول پر حملے کے واقعات پیش آئے جس کے نتیجے میں دستورِ پاکستان میں اکیسویں ترمیم اور قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور عملدرآمد کےلیے صوبائی ایپکس کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔
جامعہ کراچی کے پاکستان سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ انتظامی معاملات میں فوج کی شرکت گزشتہ سات آٹھ سال اور خاص طور پر جنرل مشرف کے دور سے نظر آتی ہے۔ کور کمانڈروں کے اجلاسوں جو بیان جاری ہوتا ہے، اس میں براہ راست سیاست پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ ’اکیسویں ترمیم اور پشاور سکول کے واقعے کے بعد یہ چیزیں زیادہ متحرک ہوئی ہیں، اب ایپکس کمیٹیوں میں عسکری اور سیاسی قیادت ساتھ بیٹھ کر امن و امان کی صورتحال پر بات کرتی ہیں جس سے فوج کا سیاسی کردار متحرک ہوا ہے ۔ اس سے سیاسی اور عسکری قیادت میں عدم توازن ہے وہ ماضی کے مقابلے میں نمایاں ہوکر سامنے آ رہا ہے۔‘ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت نے وقتی طور پر ان تعلقات کو قبول بھی کرلیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے چند روز قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال غلطیوں اور ناکامیوں کے باعث خراب ہوئی جن میں انتظامی ناکامی اور ناکارہ سیاست شامل ہے۔
گزشتہ روز کور کمانڈر سے تاجروں کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی۔ کور کمانڈر نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ بھتہ خوری اور دیگر مسائل حل کیے جائیں گے۔
تجزیہ نگار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ کور کمانڈر نے جو مقالہ پیش کیا تھا اسے واضح ہوجاتا تھا ہے کہ وہ سندھ کی انتظامیہ پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے عسکری قوتوں کی بالادستی کا معاملہ ہے اور تاجروں سے جو ملاقات ہوئی ہے وہ اس تاثر کو تقویت دیتی ہے۔
لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے برعکس صرف کراچی میں ہی کور کمانڈر کا متحرک کردار سامنے آ رہا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شہر کی صورتحال پر ان سے بریفنگ لیتے ہیں۔ اس سے پہلے اس نوعیت کے اجلاس وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں نظر آتے تھے۔ اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپا پڑا اور تنظیم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے فوجی قیادت پر الزام تراشی بھی ہوئی۔
سندھ کے سابق گورنر اور کور کمانڈر معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ یہاں کور کمانڈر کو ایک کام ملا ہوا ہے کہ’ کراچی میں امن امان ٹھیک کرو، ٹارگٹ کلرز کو مارو، اغوا کرنے والوں کو مارو، جو بینک لوٹ رہے ہیں انہیں پکڑو۔ وہ تو یہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں لیکن ساتھ میں دوسرے بھی کام کریں جو نہ کرنے کی وجہ سے پبلک میں بڑی بے چینی پھیل رہی ہے۔‘
سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر مخالف جماعتوں کی جانب سے بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ جماعتیں عمر رسیدہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاست میں مداخلت کی بدقسمتی سے روایات رہی ہے، جس کی ایک وجہ فوج کی مداخلت ہے تو دوسری سیاستدانوں کی نااہلی بھی ہے، جس سے دوسروں کو شہہ ملتی ہے۔
کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سیاست، معیشت اورامن و امان میں بہت سرگرمی سے دلچسپی لے رہے ہیں لیکن کالعدم تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ نام نہاد اہلسنت والجماعت، جو کہ لشکر جھنگوی اور طالبان کا ہی اصلی روپ ہے، کے خلاف کاروائی سے گریز کر رہے ہیں – بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں پاکستانی فوج کے بعض عناصر سنی بریلوی اور شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں اورنگزیب فاروقی جبکہ کوئٹہ میں رمضان مینگل کی سرپرستی کرتے ہیں، سول سوسایٹی کے رہنماؤں نے پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے