خارجی – از جون ایلیا

Kharji-Hadeeth

 
.

میں ان دنوں اردو کے محترم شاعر جناب ہمایوں ظفر زیدی کی دعوت پر عمان آیا ہوا ہوں اور عمان کے دارالحکومت مسقط کے کے ایک مہمان خانے میں پاکستانی اور ہندوستانی شاعروں کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہوں۔ اس مہمان خانے میں جو نوجوان ہماری خدمت پر مامور ہے، اس کا نام پریم ہے اور تامل ناڈو کا رہنے والا ہے۔میں گزشتہ کئی برسوں سے عرب کی جن ریاستوں میں جاتا رہا ہوں، وہاں تامل، تلگو اور بنگالی بولنے والے ہندوؤں سے میرا زیادہ سابقہ پڑا۔ میرے تجربے کے مطابق عرب، مسلمان اور نامسلمان کی تفریق سے دور کا بھی سروکار نہیں رکھتے۔ میرا یہ تجربہ ان عرب ریاستوں سے مخصوص ہے جہاں میں جاتا رہا ہوں۔

عمان کے حکمران سلطان قابوس ہیں جو تاریخِ اسلام کے آشوب ناک اور دہشت انگیز فرقے یعنی فرقۂ خوارج سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے زنجبار بھی خوارج کے زیرِ نگیں تھے۔ بہرحال میں جس دن سے یہاں آیا ہوں اس دن سے میرے ذہن میں ۳۷ ھ بسا ہوا ہے۔ ۳۷ ھ سے پہلے مسلمانوں میں صرف دو فرقے پائے جاتے تھے یعنی سنی اور شیعہ۔ مگر جنگِ صفین کے نتیجے میں ایک تیسرا بے حد جسور اور سرشور فرقہ وجود میں آیا، جو خارجی کہلایا۔

میں نے جنگِ صفین کا ذکر کیا ہے۔ صفین شہرِ رقہ کے قریب دریائے فرات کے ساحل پر واقع ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ دریائے فرات بھی عجب واقعہ انگیز دریا ہے۔ اس کے ساحل نے جتنے مرثیے اور رجز کہلوائے اور پڑھوائے، اتنے مرثیے اور رجز دنیا کے کسی بھی دریا کے ساحل نے نہیں کہلوائے اور نہیں پڑھوائے۔ جنگِ صفین میں حضرت علی ابنِ ابی طالب کے لشکر کی تعداد نوے ہزار تھی اور معاویہ ابنِ ابی سفیان کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار۔ لیکن اہلِ تحقیق نے دونوں لشکروں کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ یہ جنگ، یہ بدبخت ترین جنگ ایک سو دس دن تک جاری رہی۔ اس جنگ نے دونوں طرف کے ستر ہزار مسلمانوں، یعنی انسانوں کی جانوں کی بھینٹ لی۔

آپ جانتے ہیں کہ اس جنگ کے آخری مرحلے میں کیا صورتِ واقعہ پیش آئی – جب معاویہ نے جو قانونی خلیفہ راشد حضرت علی کے باغی تھے اور قتل عثمان کا بہانہ استعمال کر کے اپنی ملوکیت کو استوار کرنا چاہتے تھے، یقینی شکست سے بچنے کے لئے نیزوں پر قرآن کو بلند کردیا اور جنگ روکنے کی دہائی دی، اس پیچیدہ صورتِ واقعہ کے نتیجے میں حضرت علی ابنِ ابی طالب کو نہ چاہتے ہوۓ بھی تحکیم پر رضامند ہونا پڑا، یعنی یہ کہ ایک شخص حضرت علی ابنِ ابی طالب کی طرف سے ‘حَکَم’ مقرر کیا جائے اور ایک شخص حضرت معاویہ ابنِ ابی سفیان کی طرف سے۔ اور وہ دونوں باہمی اتفاق کے بعد فیصلہ دیں ۔ یہ معاویہ کی عیاری اور پیسے کی چمک کا مرحلہ تھ – یہ ساعتیں تاریخِ اسلام کی فیصلہ کن ترین ساعتیں تھیں۔ اگر تاریخِ اسلام پر یہ وقت نہ پڑا ہوتا تو شاید امتِ مسلمہ کو مسلسل سیلِ خوں سے نہ گزرنا پڑتا۔ وہ مسلمانوں کی زندگی کا روزِ خوں طلب تھا جو آنے والی خونیں صدیوں کا سرچشمہ بنا۔

اس امر یعنی ‘تحکیم’ پر حضرت علی ابنِ ابی طالب کے لشکریوں کا ایک سخت گیر اور سرشور گروہ بھڑک اٹھا اور اس نے چیخ چیخ کر نعرہ لگایا کہ ‘لا حَکَم الا اللہ’ یعنی فیصلہ دینے کا حق خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اور حضرت علی ابنِ ابی طالب کے خلاف بغاوت کر دی اور خارجی (لفظ خوارج کا واحد) کہلایا۔خوارج نے حضرت علی ابنِ ابی طالب سے پہلے کسی بھی خلیفۂ راشد کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے ‘تحکیم’ کے فیصلے کے سوا اس دن تک حضرت علی ابنِ ابی طالب کے کسی فیصلے سے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا تھا۔ سو اُن کا یہ نعرہ کہ فیصلے کا حق خدا کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں، محض جہل اور ہٹ دھرمی پر مبنی تھا۔ تاریخوں میں یہ  لکھا ہے کہ معاویہ نے کچھ خوارج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور خلیفہ راشد حضرت علی کی جائز حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی – آج کے دور میں معاویہ کے نام لیوا کئی وہابی اور دیوبندی گروہ  امام علی کے نام لیواؤں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کو قتل کرتے ہیں

عربی کے مشہور ادیب اور نقاد استاد حسن الزیات نے خوارج کے مزاج اور سیرت کا جو مطالعہ پیش کیا ہے، وہ استفادے کے قابل ہے۔ فرماتے ہیں: “خوارج کی اکثریت بدو، غیر مہذب، خانہ بدوش۔۔۔ اپنے فیصلوں میں ظلم پر عامل، مذہب کے باب میں متشدد، عبادت میں انتہا پسند، معاملات میں سخت گیر اور جدال و قتال کی قائل تھی۔۔۔ انہوں نے خلفا کے اعمال اور عام مسلمانوں کے عقیدے کا جائزہ لیا اور ان میں سے بعض کو مجرم اور بعض کو کافر قرار دیا۔

“خوارج کو انسانوں کی تاریخ کا عجیب و غریب گروہ قرار دیا جانا چاہیے۔ ایسا مجموعۂ اضداد گروہ آج تک پیدا نہیں ہوا۔ بیک وقت بے حد ظالم اور بے حد عادل، بے حد حق پسند اور بے حد باطل کوش۔ دین کے لیے جان دے دینے والے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ دوسرے مسلمانوں کی عورتوں، معصوم بچوں اور بوڑھوں پر ذرا بھی رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کے ساتھ ہیبت ناک بے رحمی سے پیش آتے تھے اور اسے بالکل جائز سمجھتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے خیال میں اپنی جان اور اپنے مال کو جنت کے عوض خدا کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔

خوارج نے بنو امیہ کے عہد میں آہستہ آہستہ بہت زور پکڑ لیا اور حکومت کے لیے ایک مسئلہ بن گئے۔ اس دوران ان کے ایک گروہ نے عراق اور ایران میں اور دوسرے گروہ نے عرب میں تسلط حاصل کر لیا تھا۔ بنو امیہ کے عہد کے بعد وہ بنو عباس کی جان کا جنجال بن گئے۔ کم و بیش ڈھائی تین صدی تک انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو سخت نقصان پہنچایا۔ وہ خاص طور پر بنو امیہ کے حکمرانوں کو غلیظ ترین دشنام طرازی کا ہدف بناتے تھے۔اب میں جو بات ان کے مسلک کے بارے میں عرض کروں گا، وہ خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ پہلے یہ عرض کر دوں کہ سنیوں کے مسلک کی رو سے خلیفۃ المسلمین کا قریشی ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ آنحضرت قبیلۂ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی مرتبۂ خلافت کے باب میں آنحضرت کی قرابت داری فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ حقِ خلافت کے بارے میں شیعوں کی منطق بھی اسی نوع کی ہے، یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ یا امام کا اہلِ بیت میں سے ہونا واجب ہے۔

خوارج امرِ خلافت و امامت کے بارے میں سنیوں اور شیعوں دونوں کو غلط اندیش بلکہ گمراہ سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کو انتخاب کے ذریعے مقرر ہونا چاہیے۔ اس کا قریشی، فاطمی یا عرب ہونا ہرگز ضروری نہیں ہے۔ کوئی بھی مسلمان چاہے وہ عرب ہو یا عجمی، تازی ہو یا ترکی، خلیفہ ہو سکتا ہے۔ سو، اگر کوئی مسلمان، کوئی بھی مسلمان انتخاب کے ذریعے خلافت حاصل کر لے اور احکامِ الٰہی پر کاربند رہے، وہ خلیفۂ برحق قرار پائے گا۔

خوارج وقت کے ساتھ ساتھ کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ ان کے قابلِ ذکر فرقے چار ہیں: یعنی ازارقہ، نجدات، اباضیہ اور صفریہ۔ لیکن ‘ایمان’ کے بارے میں ان کے تقریباً تمام فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دین کے احکام پر عمل کرنا ایمان کا جزو ہے۔ یعنی ایمان کا تعلق صرف عقیدے سے نہیں بلکہ عقیدے اور عمل دونوں سے ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص خدا کی وحدانیت اور آنحضرت کی نبوت کا تو قائل ہو، مگر دین کے فرائض پر عمل نہ کرے اور گناہوں کا مرتکب ہو، وہ کافر ہے اور اس کا قتل واجب ہے۔ ان کے اس مسلک کے مطابق سنیوں اور شیعوں کی اکثریت کافر قرار پاتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے عہد میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ کئی صدیوں تک حاجیوں کے قافلے کو لوٹتے اور مارتے رہے۔

عمان میں اباضی خارجیوں کی حکومت اور انہیں کی اکثریت ہے۔ میں نے عمان کی حکومت کے مزاج میں ایک جمہوریت کی سی کیفیت پائی۔ کوئی ایسا سنی اور شیعہ جو عمان نہ گیا ہو، کیا سوچ بھی سکتا ہے کہ خوارج کے ملک میں اس کے لیے ایک دن بھی زندہ رہنا ممکن ہے؟ اور یہ کہ اس ملک میں امام باڑے بھی پائے جا سکتے ہیں؟ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ وہاں کی مسجدوں کے دروازے مسلمانوں کے تمام فرقوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ چاہے کوئی ہاتھ باندھ کے نماز پڑھے یا ہاتھ کھول کے۔ مجھے بتایا گیا کہ بہت پہلے ایک عام خارجی اس بات پر حیران ہوا کرتا تھا کہ نماز ہاتھ باندھ کے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صدیوں تک دوسرے مسلمانوں سے کٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان کے مختلف فقہی مسلکوں سے واقف نہیں تھے۔

عمان میں خوارج، غیر خوارج اور مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ وہاں ہر مسلک کے لوگ اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ ایک ایسی بات تھی جس پر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ میں جو وہاں کی کئی باتوں پر حیران ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اب سے چالیس اکتالیس برس پہلے اسلام کی عربی تاریخوں کا جو مطالعہ کیا تھا، ان میں چوتھی پانچویں صدی ہجری تک خارجیوں کا تذکرہ پایا۔ اس کے بعد مؤرخین خوارج کے بارے میں آہستہ آہستہ خاموش ہوتے چلے گئے، چنانچہ میں اپنے مطالعے کی روشنی میں خوارج کو اجڈ، اڑیل اور خونی اور جنونی سمجھتا رہا۔ مجھے اس حقیقت کا ذرا بھی علم نہیں تھا کہ خوارج میں گزشتہ کئی صدیوں سے رفتہ رفتہ تبدیلی آتی چلی گئی اور وہ کچھ کے کچھ ہوتے چلے گئے۔

اب ایک اور بات سنو۔ بات یہ ہے کہ ایک دن میں اردو کے جواں سال شاعر عابد فاروق کے ساتھ مسقط کے ایک ہوٹل میں گیا۔ اس کا نام ‘فندق قصر البستان’ ہے۔ میں نے اس ہوٹل کو اپنی دیکھی ہوئی مشرقی اور مغربی دنیا کا سب سے زیادہ شاندار ہوٹل پایا۔ میں اسے دیکھ کر ششدہ رہ گیا، لیکن چند لمحوں کے بعد میں نے جو کچھ دیکھا، اس نے مجھے ‘فندق قصر البستان’ کے حُسنِ تعمیر سے بھی زیادہ ششدر کیا۔ میں نے اپنی ششدری کی کیفیت پر قابو پانے کے بعد عابد فاروق سے پوچھا: “یا اخی! یہ کیا ماجرا ہے؟” اس نے کہا: “جون بھائی! کیا ماجرا، کیسا ماجرا۔۔۔” تو میں نے مختلف میزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “یہ، یہ، یہ اور وہ، وہ اور وہ” تو اس نے کہا کہ یہاں شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

مجھے جو اِس بات نے بے حد ششدر کیا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ خوارج اپنی ایک خاص افتاد اور اپنے مزاج کے اعتبار سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ‘مسلمان’ رہے ہیں۔

اب ایک اور بات سنو! وہ یہ کہ میں مشرق کے متعدد ملکوں میں گیا ہوں اور بارہا گیا ہوں۔ میں نے انہیں طرزِ تعمیر کے اعتبار سے عین مین مغربی پایا۔ مگر عمان میرے دیکھے ہوئے مشرقی ملکوں میں واحد ملک ہے، جس کی عمارتیں اپنی ساخت اور ‘شناخت’ میں یکسر مشرقی ہیں اور ان کا نمایاں تریں امتیاز ‘محراب’ ہے۔
میں نے اس سلسلۂ کلام میں خوارج کے بارے میں اگر ایک بات نہ کہی تو ان کے مزاج اور ان کے کردار کے تغیر اور انقلاب کا معاملہ ایک معجزہ قرار پائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ معجزوں کا عہد گزرے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ رہی ‘کرامت’ تو اس باب میں گفتگو کا سلسلہ ‘دراز’ ہو سکتا ہے۔ خوارج کے ذہن اور مزاج میں جو تغیر آیا، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخِ اسلام کی کئی صدیوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ یہاں میں اس تغیر اور انقلاب کا آخری سبب بیان کروں گا۔ وہ سبب کیا ہے؟ وہ ہے برطانیہ کا تسلط۔ عمان ایک زمانے سے برطانیہ کے زیرِ تسلط رہا ہے اور اس کے بعد امریکی تسلط کا اضافہ ہوا۔ بہرحال یہ ایک طول طلب موضوع ہے۔
میں نے جو گفتگو کی، وہ یوں ہی نہیں کی۔ اس گفتگو کا ایک خاص مقصد ہے۔ میں جو کانٹے کی بات کہنا چاہتا تھا، وہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر فرقہ دوسرے فرقوں کو بڑی فراغت اور سہولت کے ساتھ بات بات پر کافر قرار دے دیتا ہے، لیکن خوارج جو مسلمانوں کی اکثریت کو صدیوں تک کافر قرار دیتے رہے ہیں، اب ایک زمانے سے وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آ چکے ہیں۔

یہ تو خوارج کا معاملہ ہوا۔ اب ذرا خود سنیوں اور شیعوں کے مسلم مسلک کو دیکھیے۔ ان کے عقیدے اور مسلک کی رو سے خوارج کبھی غیر مسلم قرار نہیں پائے، حالانکہ خوارج ان کی اکثریت کو کافر ٹھہراتے رہے اور ان کی جان کو آتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے چوتھے خلیفہ اور شیعوں کے پہلے امام حضرت علی کو شہید کر دیا۔
کہیے کیا حکم ہے، دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟

Comments

comments