کب سنبھلیں گے ہم؟ میاں نواز شریف کے نام – از عمار کاظمی

 

FILES-PAKISTAN-POLITICS-COURT-SHARIF

میاں صاحبان کے گزشتہ دور حکومت میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا۔ اصل لطیفہ تو پنجابی میں تھا مگر میں یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ واضع رہے کہ یہ انتہای گھسا پٹا لطیفہ پیش کرنا میرے مزاج کا حصہ نہیں بلکہ یہ روف کلاسرا، ناجی صاحب اور ان جیسے تمام سینیر صحافیوں کی وجہ سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے جو گاہے بگاہے اپنے مضامین اور بیانیے میں یہ جملہ ضرور شامل کرتے ہیں کہ “جس نواز شریف کو ہم جانتے تھے وہ دل میں عوام کا درد رکھنے والا انسان تھا”۔ خیر لطیفہ کچھ اس طرح تھا کہ۔
“میاں صاحب نے اپنے وزیروں مشیروں سے پوچھا’ ہماری حکومت کی کاکردگی اچھی نہیں اگلے الیکشن کے لیے کیا کریں کہ لوگ ہم سے خوش ہو جایں اور ہمیں ہی ووٹ دیں؟ مشیر: جناب یہ کونسا مسلہ ہے’ آپ زیادہ سے زیادہ مہنگای کریں’ ٹول ٹیکس لگایں جب عوام چیخیں مارنے لگے اور دھای دیتی آپ کے پاس آے تو آپ مہنگای میں کمی کر دینا۔ اس طرح لوگ آپ سے خوش ہو جایں گے۔ میاں صاحب: چلو تمام پلوں پر ٹول ٹیکس لگا دو۔ ٹول ٹیکس لگا دیا گیا مگر کوی بھی میاں صاحب کے پاس شکایت لے کر نہ آیا۔ میاں صاحب نے پھرمشیروں وزیروں کو اکٹھا کیا بولے کوی بھی نہیں آیا اب کیا کریں؟ مشیروں نے مشورہ دیا کہ ٹول ٹیکس ڈبل کر دیں۔ چنانچہ ٹول ٹیکس ڈبل کر دیا گیا مگر پھر ایک مہینہ گزر گیا اور میاں صاحب کے پاس کوی شکایت لے کر نہ آیا۔

میاں صاحب نے پھر مشیر وزیر اکٹھے کیے اور بولے اب؟ مشیروں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں اس بار ہم کچھ ایسا کرتے ہیں کہ لوگ مجبور ہو کر آپ کے پاس آءیں۔ آپ پلوں پر فوج بٹھا دیں اور فوجیوں سے کہیں کہ عوام سے چار گنا ٹیکس وصول کریں اور جاتے ہوے مرغا بنا کر پیٹھ پر جوتے بھی ماریں۔ چنانچہ میاں صاحب نے آرڈر پاس کر دیا۔ تقریبا ایک مہینے بعد ایک حال و بے حال عام آدمی یعنی عوام میاں صاحب کے گھر میں داخل ہوا تو مشیر وزیر چیخ اٹھے۔ ہم نہ کہتے تھے میاں صاحب کہ یہ ترکیب کامیاب ہوگی۔ اب یہ آپ سے فریاد کرے گا اور پھر آپ پلوں پر سے ٹیکس کم کر کے وہاں سے فوج پٹا دینا اور جوتے مروانا بھی بند کر دینا۔ عوام آپ سے بہت خوش ہو گی۔ عوام یعنی وہ بندہ برے حال میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا میاں صاحب کے پاس آیا تو میاں صاحب نے اپنے تمتماتے چہرے کے ساتھ اسے پوچھا۔ اے عام آدمی بتا تیرا کیا مسلہ ہے؟ عام آدمی: سر اور تو کوءی مسلہ کوی شکایت نہیں بس آپ ذرا پلوں پر فوج کی نفری بڑھا دیں جوتے کھانے کی باری بہت دیر سے آتی ہے”۔
یہ انیس سو اٹھانوے ننانوے یعنی میاں صاحب کے دوسرے دور حکومت کا لطیفہ ہے جب آبپارہ چوک اسلام آباد پاکستان میں پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی شخص نے نواز حکومت کی پالیسیوں اور مہنگای سے تنگ آ کر خود کو زندہ جلا دیا تھا۔ مگر پنجاب اور لاہوریوں نے دو ہزار تیرہ میں پھر نواز شریف کو الیکشن جتوا کر تیسری بار وزیر اعظم بنا دیا۔ تو قصوروار کون ہوا؟ بلا شبہ ہم جیسے ڈھیٹ لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے تھا جو آج ہورہا ہے۔ دہشت گدری، انتہاپسندی، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ، پٹرول نایاب۔ سکولوں میں سہمے ہوءے بچے۔ اور اوپر سے ہمارا یہ قومی بیانیہ کہ سانحہ پشاور کے بعد اے پی ایس کے بہادر بچے ایک بار پھر سکول پہنچ گیے ۔ بچوں نےدہشت گردی کو شکست دے دی۔ میرے منہ میں خاک لیکن اگر خدانخواستہ ایسا کوی اور واقعہ ہوگیا تو پھر ہم کیا کہیں گے؟ لال مسجد اسلام آباد میں بیٹھ کر ریاست کے سینے پر مونگ دلنے والے مولانا عزیز کو تو سزا دی نہیں جا سکی تو ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کا ہم کیا بگاڑ لیں گے؟ پینسٹھ سال میں ہم قومی تعلیمی نصاب کی اصلاح تو کر نہ سکے مدارس کے نصاب کی اصلاح کیا کریں گے؟
دوسری طرف پٹرول کی قلت سے دو چار لاغر حکومت نے بحران سے نمٹنے کے لاہور شہر کی حد تک سی این کھول دی ہے۔ جو تھوڑے سے سی این جی اسٹیشنز کھلے ہیں وہاں مالکان من مرضی کا ریٹ وصول کر رہے ہیں۔ اور دلچسپ مگر تلکیف دہ حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں سی این جی کھلتے ہی گھروں میں گیس کا پریشر ڈبل ہوگیا ہے جو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ نواز حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے سیٹھوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک مٹانے کے لیے ہی غریب عوام کا چولھا اور متوسط طبقے کا پہیہ جام کر رکھا تھا۔ اس ضمن حکومت کا حمایتی ایک مخصوس طبقہ اکثر یہ دلیل دیتا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو ترجیح دینے سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کی جیبیں بھرنے سے اتنی بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے جو سی این جی کی بندش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اُلٹا گھریلو صارفین کی اکثریت کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ وہی نواز حکومت ہے کہ جس نے پچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں شور مچاءے رکھا کہ پنجاب کے ساتھ سی این جی کے معاملے میں نا انصافی ہو رہی ہے۔ سی این جی تو دور کی بات اپنی حکومت آنے پر انھوں نے گھروں کے چولھے بھی بند کر دیے۔ اور یہ شہباز شریف کی حکومت ہی تھی کہ جس نے گیس کی قلت جانتے ہوے بھی یہاں سی این جی کی ڈیزل کٹس متعارف کروایں، پنجاب ٹرانسپورٹ کی بسوں میں بارہ بارہ سلنڈر لگاے گیے اور ان کی دیکھا دیکھی نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے بھی اپنی بسوں، ٹرکوں اور لوڈرز میں گنجاءش سے بھی زیادہ سلنڈر لگوا لیے۔ تاہم اس کا غریب عوام کو ایک دن بھی فایدہ نہ ہوا اور لوڈر اور بسوں کے کراے وہی پٹرول اور ڈیزل والے رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت مین بھی یہی گزارشات لکھتا رہا کہ لوڈرز، ٹرک اور بس میں سلنڈر لگانا زیادتی ہے

کیونکہ اس کا غریب عوام کو کوی فایدہ نہیں ہوتا۔ مگر مرکزی حکومت کی کمزوری کہ وہ ایسا کوی ضابطہ پیش نہ کر سکی کہ جس میں لوڈرز، بس اور ٹرک مین سی این جی ڈالنے پر پابندی لگاے جاتی۔ دو دن پہلے جب سی این جی کھلی دیکھ کر لائن میں لگا تو ایک لوڈر میں کافی دیر سے گیس بھری جا رہی تھی۔ میں نے قریب ہو کر دیکھا تو اس میں چوبیس سو روپے سے اوپر گیس بھر چکی تھی۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ صاحب نے لوڈر مین بھی چھ سلنڈر لگوا رکھے ہیں۔ تو وہ حکومت جس کی ایک کال پر سی این جی اسٹیشنز خوف کے مارے بند ہو جاتے ہیں کہ کہیں لاکھوں کا جرمانہ نہ ہو جاے کیا وہ ایسے کسی قانون پر عملدرامد نہیں کروا سکتی تھی کہ ان نجی اور تجارتی مقاصد میں استعمال ہونے والو لوڈرز، بس اور ٹرک کو سی این جی نہ دی جاے؟ مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ اس وقت انھیں اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کو پیپلز پارٹی کی حکومت کو مکمل طور پر ناکام ثابت کرنا تھا۔ میڈیا کا نام اس لیے لے رہا ہوں کہ میڈیا نے بھی اس اہم تجویز پر کوی زور نہیں دیا۔ اس تجویز پر عمل ہو جاتا تو سی این جی بند ہی نہ کرنی پڑتی۔ قومیں ایک آدھ بار دھوکہ کھانے اور گرنے کے بعد سنبھل جاتی ہیں’ پتہ نہیں کتنی بار گرنے کے بعد سمبھلیں گے ہم؟ کب سمبھلیں گے ہم؟
باقی جب یہ سچ سامنے آ ہی گیا ہے کہ پنجاب کے حصے کی گیس کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ہی ہڑپ کر رہی تھی تو میاں صاحب کے لیے ایک آخری مشورہ یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی گیس فوری طور پر بند کر کے ان کے لیے کول یا دیگر سستے متبادل ذراءع پیش کرے اور ایک فیصد سے بھی کم طبقے کو خوش کرنے کی بجاءے ننانوے فیصد عوام کا سوچے اور گھریلو صارفین اور سی این جی سیکٹر کو گیس فراہم کرے۔ پاور سیکٹر کو بھی گیس نہیں دینی چاہیے کیونکہ وہ بھی ریاست سے فرنس آئل کے پیسے ہی چارج کرتے ہیں۔ باقی سولہ سو سی سی سے زاید ہر طرح کی سرکاری و نجی گاڑیوں، لوڈرز، پک اپس، بسوں ٹرکوں میں سی این جی کے استعمال پر فوری پابندی لگای جاے۔

 

 

 

Comments

comments