پھانسیوں کی قطار، تکفیری دیوبندیت اور بولتی بند – از خرم زکی
ہمارے معاشرے کے وہ نام نہاد دانشور اور اعتدال پسند جو ایک عرصے سے معاشرے کو یہ باور کروا رہے تھے کہ ملک میں جاری شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی اور بریلوی سنیوں کا قتل عام کوئی دو طرفہ فرقہ وارانہ مسلہ ہے یا ایران سعودی عرب پراکسی وار ہے ان کی زبانیں ملک میں دی جانے والی پہ درپہ پھانسیوں نے بند کر دی ہیں اور ان کا یہ جھوٹا اور بے معنی پراپیگینڈہ دم توڑ گیا ہے۔
ابھی تک 20 کے قریب دہشتگردوں کو پھانسی ہو چکی ہے جن میں ریاست کے خلاف دہشتگردی سے لے کر فرقہ وارانہ قتل عام تک کے کیسز شامل ہیں اور ان تمام دہشتگردوں کا تعلق بغیر کسی استثنا کے تکفیری دیوبندیوں سے ہے۔ اگر یہ کوئی دو طرفہ جنگ ہوتی تو اب تک اتنی ہی تعداد میں دوسرے مکاتب کے لوگ بھی پھانسی چڑھ چکے ہوتے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جاری قتل عام میں بنیادی طور پر صرف ایک ہی مکتب سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث ہیں اور اگر معدودے کوئی شیعہ یا بریلوی اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے بھی تو اس کی نوعیت دفاعی و جوابی ہے اور اس کا ہدف یہی تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ ہے جس کو آج پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔
اگر ریاست یہی کام پہلے کرتی تو نہ صرف یہ کہ اس طرح کی جوابی کاروائیاں نہیں ہوتیں بلکہ جو جنگ ان تکفیری دیوبندیوں نے ریاست کے خلاف شروع کر دی اس کی بھی نوبت نہیں آتی۔ اور یہی وہ روشن حقیقت ہے جس کے سامنے آنے کے بعد سراج الحق سے لے کر لدھیانوی تک اور فضل الرحمان سے لے کر حنیف جالدھری تک سارےنام نہاد دیوبندی مولوی میدان عمل میں آ گئے ہیں تا کہ اپنے مسلک و مدارس سے تعلق رکھنے والے ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی گردنیں بچا سکیں اور اسی چکر میں سعودی حکمرانوں اور وہابی مولویوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کا قتل عام ہو یا راولپنڈی میں فوجی مسجد میں نمازیوں کا قتل عام، آئی ایس آئی کے ملازمین پر حملہ ہو یا نیول بیسز پر حملہ ہو، جی او سی سوات کا قتل ہو یا گجرات میں آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر کا، کراچی میں عید میلاد النبی کے جلسے پر خود کش حملہ ہو یا عاشور کے جلوس پر حملہ، ان تمام واقعات میں صرف اور صرف تکفیری دیوبندی دہشتگرد اور ان سے منسلک مدارس اور کالعدم دہشتگرد گروہ انجمن سپاہ صحابہ ملوث ہیں۔ ان تمام واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد اس جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگینڈے کی کوئی بنیاد نہیں رہتی کہ یہ کوئی دو طرفہ لڑائی ہے بلکہ یہ ایک یک طرفہ جنگ اور یک طرفہ دہشتگردی ہے جو تکفیری دیوبندی دہشتگردوں نے ریاست پاکستان کے خلاف، شیعہ مسلمانوں اور بریلوی سنیوں کے اپر مسلط کی ہوئی ہے۔ البتہ معتدل دیوبندی علماء جیسے مولانا حسن جان بھی ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔