اوریا مقبول جان کی دیوبندی مدارس کے دفاع کیلیئے لا حاصل عرق ریزی ۔۔۔از نور درویش
اوریا مقبول جان غیرت بریگیڈ کے سپہ سالار ھیں۔ یہ اپنے کالموں میں تاریخی حوالے، مختلف ملکوں کی مثالیں، اور قران و حدیث کے حوالہ جات لکھ کر اسے حرف آخر اور مدلل بنانے کی کوشش کرتے ھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بہت سے کالم نگار اپن کالموں کا وزن بڑھانے کیلیئے کسی انگریزی مصنف کی لکھی ھوئی کتابوں کے اقتباسات پیش کرتے ھیں۔ اسی لیئے موضوع چاھے مشرق وسطی ھو، بھارت ھو، مسئلہ خلافت ھو، داعش ھو، جھات النصرہ ھو یا تحریک طالبان یا ملا عمر، اوریا مقبول جان مختلف حوالہ جات کو مکس اپ کر کے ایک ایسا کالم تیار کر دیتے ھیں جسے پڑھ کر یہ اندازہ تو ھو جاتا ھے کہ موصوف محنت تو بہت کرتے ھیں لیکن ھمیشہ غلط سمت میں اور غلط نتیجہ نکالنے کیلیئے۔کاش اتنی محنت کبھی درست سمت میں کر لیتے۔
اس کالم میں انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے کہ مدرسہ جیسے تاریخی،، علمی اور مرکزی اسلامی ادارے کو بند کرنے کی کوشش کی جا رھی ھے۔ اور ایسا وہ صرف اس لیئے سمجھتے ھیں کیونکہ مخصوص مدرسوں کی مانیٹرنگ اور نگرانی کا مطالبہ کیا جا رھا ھے۔ اس مطالبے پر صرف اور صرف مکتب فکر دیوبند اور اھلحدیث کے علماء کو اعتراض ھے جو کہ قطعا پاکستان کے اکثریتی مسلک نہیں ھیں۔ حقیقیت تو یہ ھے کہ شہید سرفراز نیعیمی کے فرزند مفتی راغب نعیمی جو کہ معروف بریلوی مدرسہ جامعہ نیمیہ لاھور کے مہتم بھی ھیں، نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ھے اور علامہ طاھر القادری کے نمائندے ڈاکٹر رحق عباسی سمیت بہت سے بریلوی علماء نے مدرسوں کی مانیٹرنگ اور رجسٹریشن پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ ان دونوں حضرات نےتو یہ سوال بھی اٹھایا ھے کہ آخر دیوبندی مولویوں کو ھی کیوں اعتراض ھے اس مطالبے پر؟ جواب ھم سب کو پتہ ھے کہ مذھبی شدت پسندی اور دہشت پسندی میں ملوث اب تک جتنے بھی مدرسے کے طالب علم یا فارغ التحصیل پکڑے گئے ھیں وہ سب کے سب دیوبندی مدرسوں سے تعلق رکھتے ھیں۔نہ ھی پاکستان کے اکثریتی مسلک سنی بریلوی حضرات کو اپنے مدارس کی چیکنگ پر اعتراض ھے اور نہ ھی اھل تشیع کو، اعتراض صرف دیوبندی حضرات کو ھے کیونکہ پانی ھمیشہ نشیب کی جانب بہتا ھے۔
لہذا اگر آپ اوریا مقبول کے کالم میں موجد حوالہ جات اور اخذ کردہ نتیجہ سے متاثر ھونے کا فیصلہ کر رھے ھیں تو رک جایئں، نہ ھی کوئی مدرسوں کو بند کرنے کی بات کر رھا ھے اور نہ ھی کوئی دور دراز گاوں میں ایمانداری اور خلوص سے مسجد کو سنبھالنے والے مولوی کی نیت پر شک کر رھا ھے۔ اوریا صاحب کے روحانی پیشواوں کے دیس سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں مدارس اور مساجد ایک مروجہ نظام کے تحت موجود ھیں۔ وھاں تو خطبہ تک آل شیخ سے منظور ھو کر آتا ھے، پیش امام بھی انہیں کے مقرر کردہ ھوتے ھیں۔ گویا پرا نظام مکمل طور پر مانیٹرڈ اور کنٹرولڈ ھے۔ مدارس اور مساجد یقینا شعائر اسلامی ھیں، ھمیں عزیز ھیں اور انکا مقام بہت ھی زیادہ ھے۔ لیکن انہیں میں ھمیں لال مسجد بھی نظر آتی ھے اور تکفیری جماعتوں کے زیر انتظام چلنے والے مدارس بھی، جن میں شدت پسند پنپتے ھیں اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جاتی ھے۔ کیا بینظیر کو قتل کرنے کا پلان مولوی سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ میں نہیں بنایا گیا؟
اس مطالبے سے تکلیف صرف دیوبندی علماء اور ان کے وکیلوں کو کیوں ھے، اس کا جواب شہید سرفراز نعیمی کے صاحبزادے مفتی راغب نعیمی نے پہلے ھی دے دیا ھے۔ لہذا اوریا صاحب کی تمام محنت اور تحقیق لا حاصل رھے گی۔
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102624301&Issue=NP_LHE&Date=20150112