مارکس ازم ، سائیکو اینالاسسز اور تکفیری فاشزم – عامر حسینی

Saby Sagaal

سابی سیگال یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں سوشیالوجی کے پروفیسر رہے ہیں اور وہ سوشلسٹ ریویو اور سوشلسٹ ورکرز اخبار ميں باقاعدگی سے لکھتے ہیں ، ان کی حال ہی میں ایک کتاب ” انسانی فطرت ،سرمایہ داری اور نسل کشی “سامنے آئی ہے ، میرے لیے یہ کتاب اس لیے دلچسپی کا باعث بنی کہ اس میں سابی گال نے فاشسٹ اور جنونی گروپوں کے فاشزم اور ان کی جنونیت کے تجزیہ کے لیے سیاسی – سماجی تجزیہ کاری اور تحلیل نفسی یعنی سائيکو اینالائسسز کے باہمی اشتراک سے کام لینے کو لازم قرار دیا اور ولہم ریخ اور ایرک فرام کے فاشزم کی سائیکالوجی کو سمجھنے کے لیے جو سوشل کریکٹر اور سٹرکچر کریکٹر کی اصطلاح استعمال کی وہ بہت سے نئے در وا کرتی ہے ، سابی گال کی اس کتاب پر اینڈی رڈلی نے تنقید کی اور اسے بنیادی طور پر نفسیاتیاتی یعنی سائیکولوجسٹک میتھڈ قرار دیتے ہوئے اسے جدلیاتی تاریخی مادیاتی تصور کے خلاف قرار دیا جس کا بہت تفصیل سے سابی گال نے انٹرنیشنل سوشلسٹ جرنل میں شایع ہوا،

نیچے میں سابی سیگال کے مضمون کی ایک تلخیص دے رہا ہوں جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ میں یہ جو مذھبی بنیادوں پر دیوبندی وہابی فاشزم ہے اس کا تجزیہ کرنے میں سابی گال کا طریقہ کار ہماری مدد کرسکتا ہے اور سابی گال کا یہ تنقیدی آرٹیکل اس خامی کو بھی ہمارے سامنے لیکر آتا ہے جو ہمیں ” تکفیریت خارجی فاشسٹ سماجی مظہر ” کے کئی ایک مارکسی تجزیوں ميں نظرآتی ہے جیسے طارق علی اس کی ایک مثال ہیں اینڈی رڈلی نے نے میری کتاب ” حتمی حل : فطرت انسانی ، سرمایہ داری اور نسل کشی ” پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ پر دو قسم کے اصولی الزامات عائد کئے ہیں : سائیکولوجزم اور نازی ازم کی سماجی بنیادوں کے تجزیہ میں غلطی -نازی ازم کی سماجی بنیادوں کو سمجھنے میں میری غلطی پر پہلے سوال اٹھاتے ہوئے رڈلی کہتا ہے : کیا یہ صرف جرمن مڈل کلاس تھی جس کے ہاں ایسا مہلک پوٹینشل تھا ؟

بہت سے ماہر سماجیات ایسے ہیں بشمول مارکسی دانشور جنھوں نے یہ دکھایا ہے کہ معاشرے کا متوسط طبقہ تھا جس نے اس قسم کے جبر کا سامنا کیا جس نے ان کو سب سے زیادہ بحران کی طرف دھکیلا اور اسی بحران کے ان پر اثرات کا نتیجہ تھا جس کے سبب وہ نازی پارٹی کے حامی بنے اور اس کی رکنیت بھی حاصل کرنے کی طرف مائۂ ہوئے رڈلی نے میری کتاب میں ہٹلر کو جرمن لکھنے پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا کہ وہ تو آسٹریا میں پیدا ہوا تھا – یہ ٹھیک ہے کہ ہٹلر آسٹریا میں پیدا ہوا مگر وہ پیدا تو ایک جرمن خاندان میں ہوا تھا جوکہ آسٹریا میں ایک جرمن اقلیتی کمیونٹی کا حصّہ تھا ،جیسے ہٹلر دوسرے الٹرا نیشنلسٹ آؤٹ سائیڈرز کی طرح تھا جن میں نپولین جوکہ کورسیکا میں پیدا ہوا اور جوزف سٹالن جارجیا میں پیدا ہوا تاہم رڈلی کی بنیادی تنقید میری کتاب پر یہ ہے کہ اس میں ہالوکاسٹ کے زمہ داروں کے محرک کا تجزیہ کرنے کی جو کوشش ہے وہ نفسیاتیاتی ہے

اور وہ کہتا ہے کہ میں نے اس حوالے سے جو سائیکو اینلاسسز کے طریقہ کار کا استعمال کیا وہ غلط ہے اس کے خیال میں ہالوکاسٹ کرنے والے سماجی طبقے کی نفسیات نے مادی پروسس پر غلبہ کرلیا ہے جبکہ ہالو کاسٹ کو مکمل طور پر اس وقت کے سامراجیت ، جرمن فوجی مہم جوئی اور شکست کے تناظر میں ، نازی قیادت اور جرمن سرمایہ داری کے درمیان تناؤ ، اس وقت کے معاشی بحران ، شکستہ جرمن ریاست اور کمزور ، موقعہ پرست حکمران طبقے کے تناظر میں ہی پوری طرح سے سمجھا جاسکتا ہے رڈلی مزید مارکسی سائیکواینالسٹس ایرک فرام اور ولہم ریخ پر تنقید کرتا ہے کہ انھوں نے فاشزم کے ابھار اور ہالو کاسٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے طبقاتی تضاد ، بدلتے مادی ، سماجی اور سیاسی حالات کو زیادہ وزن نہیں دیا -اور اس طرح سے رڈلی مارکس ازم اور سائیکو اینالیٹکل روائیت کے حاصلات کے درمیان مطابقت تلاش کرنے کی فرینکفرٹ اسکول آف مارکس ازم کے کردار کو ماننے سے انکار کردیتا ہے

میرا جواب سہ جہتی ہے – پہلی جہت یہ ہے کہ ردلی نے اس وقیع تاریخی ، سماجیاتی اور سیاسی تجزئے کو نظر انداز کردیا جس کو میں نے وہ تناظر قرار دیا جس میں نازی ازم کا ظہور ہوا : جس طرح سے جرمن سرمایہ داری 19ویں صدی کے آخر تک نموپذیر ہوئی اس سے لیکر ان سماجی ،اقتصادی بحرانوں تک جو جرمن مڈل کلاس کے مختلف سیکشنوں ميں نظر آتے رہے اور جو بالآخر جرمنی کی پہلی جنگ عظیم میں شکست کا سبب بنے اور عظیم کساد بازاری کے اثرات تک کا تجزیہ میں نے نازی ازم کے ابھار کے تناظر کے طور پر پیش کیا

دوسری جہت مرے جواب کی یہ ہے کہ میں واضح کرتا ہوں کہ ولہم ریخ اور ایرک فرام دونوں نے جرمن مڈل کلاس کی نازی فیکشن کو جرمن سرمایہ داری کی ترقی اور بحران کے تناظر میں تلاش کیا ، میں یہاں ولہم ریخ کا تجزیہ درج کرتا ہوں سرمایہدارانہ معشیت کی بے قابو ترقی ۔مسلسل اور بے قابو پیداوار کی میکانیکیت ، اجارہ دارانہ سینڈیکٹس اور ٹرسٹس میں پیداوار کی متعدد شاخوں کا ادغام نے نچلے متوسط طبقے کو افلاس کے گڑھے میں پھینکا اور ان کو بھکاری بنادیا ایرک فرام لکھتا ہے نازی ازم نچلے متوسط طبقے کا نفسیاتی طور پر احیاء کے طور پر ابھرا جبکہ اس کی پرانی سماجی معاشی پوزیشن کی تباہی کردی – اس نے اس طبقے کی جذباتی توانائیوں کو تحریک دی اور وہ جرمن سامراجیت کے سیاسی عزآغم کی اہم قوت بن گیا ایرک فرام اور ولہم ریخ کے تجزیوں سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ دونوں کے ہاں نازی ازم اور ہالو کاسٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے طبقہ ، سرمایہ داری ترقی اور بحران اس کے بنیادی اجزاء ہيں رڈلی کے خیال میں ایرک فرام اور ریخ دونوں نازی آئیڈیالوجی کی ابہام پرست اورزھنی مالیخولیائی فطرت کو زیادہ وزن دینے میں ناکام رہے – یہ ہالوکاسٹ کا وہ فیچر ہے جس کا میں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے جائزہ لیآ ہے

 حتمی حل کی قبولیت نےنازی ازم کے یہودیوں کے بارے میں غلط عقیدہ کہ وہ ساری دنیا کے طاقتور آقا ہیں کی عکاسی کی ، یہ ایسا عقیدہ تھا بتدریج کلینکل سینس میں ترحم آمیزی پر مبنی تھا – امریکی ماہر تحلیل نفسی ہینز کوہٹ نے اس نفسیات کو ہٹلر کی بڑی فنتاسی قرار دیا جس میں ساحرانہ اذیت پسندانہ طریقے سے دنیا پر کنٹرول کے عناصر بھی موجود ہیں تیسری جہت میرے جواب کی یہ ہے کہ میں رڈلی کے اس دعوے کو ردکرتا ہوں کہ میرا تجزیہ نفسیاتیاتی ہے – وہ کہتا ہے کہ والدین کی ناقص تربیت نازی ظلم کی قوت متحرکہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ جرمن مڈل کلاس کی آمرانہ شخصیت کا سبب ہے -لیکن میرے تجزیہ کی بنیاد خاندانی زندگی نہیں تھی اور نہ ہی میں نے آمرانہ سماجی کردار کو ہی نازی ازم کی ساری اور آخری وجہ قرار دیا ، بلکہ وہ نازی ازم کی تشریخ و تعبیر کے سارے سلسلہ زنجیر میں ایک کڑی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سائیکو اینالاسسز نازی ازم کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے اور مارکسی تجزیہ کاروں کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئيے یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریخ اور فرام نے جوسٹرکچر کریکٹر ” اور ” سوشل کریکٹر ” کی اصطلاحیں نازی ازم کو سمجھنے کے لیے وضع کیں کیا وہ سائیکالوجسٹک ہیں ؟ ایرک فرام کہتا ہے

social character is “the essential nucleus shared by members of a group which has developed as the result of the basic experiences and mode of life common to that group…the specific form in which human energy is shaped by the dynamic adaptation of human needs to the mode of existence of a given society”

۔ رڈلی ہالوکاسٹ کی تشریح کو مادیاتی تجزیہ تک محدود رہنے کی بات کرتا ہے جبکہ ایرک اور ریخ دونوں کے تصورات کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ مادی ، سماجی اور سیاسی حالات کے اندر گڑی ہوئی ہیں اور ایرک و ولہم ریخ استحصال اور جبر کی خارجی صورت اور افراد اور سماجی طبقات کی داخلی ذھنی کیفیات کے درمیان تعلق اور صورت گری میں ہماری مدد کرتے ہیں اس لیے میں رڈلی کے اس دعوے کو رد کرتا ہوں کہ سائیکالوجی آف فاشزم میں جو تکنیک برتی گئی ہے وہ تجریدی ، جبری اور جامد ہے -یہ ایسی ہوتی اگر میں ایک ذھنیت کے ہمیشہ ایک سی رہنے کی بات کرتا اور یہ کہتا ہے کہ اس ميں تاریخی تنآظر بے کار ہوجاتا ہے اور تاریخی حوالہ اس ميں آتا نہیں ہے لیکن سوشل کریکٹر کا تصور تاریخی تناظر کو لیکر آتا ہے ، تاریخی حالات و واقعات و شواہد کو اس کی صورت گری کے لیے استعمال میں لاتا ہے اور اسی وجہ سے میں ان غلطیوں کے ارتکاب سے بچ پایا جس کی طرف رڈلی نے اشارہ کیا ہے رڈلی نفسیاتی حساسیت جوکہ ایک اندرونی رجحان پر مشتمل ہوتی ہے ،

جذباتی پہلؤں کا ایسا سیٹ جیسے غصّہ ، تشویش ، ڈپریشن ، دباؤ جس کی جڑیں ایک فرد یا طبقے کے تاریخی تجربے میں ہوتی ہيں جوکہ تاہم سارے وقت ایکٹو نہیں ہوتیں اور ان خاص حالات میں جب یہ ایکٹو ہوجاتی ہیں کے درمیان امتیاز کو نظر انداز کرتا ہے -اصل میۂ یہ بڑا سماجی ، معاشی یا فوجی بحران ہوتا ہے جوکہ ایک خاص قسم کی حساسیت کو ہلاکت انگیز عمل و اقدام میں بدل دیتا ہے حساسیت اور نشیبی عوامل بہت ضروری ہیں اگر ہم ایک مکمل تشریح چاہتے ہیں اور وہی فکری اعتبار سے بھی اور تجرباتی اعتبار سے بھی دونوں طرح سے درست و معقول تشریح ہوسکتی ہے،

میں نے اپنی کتاب میں یہ ہی کہا ہے کہ نازی اقتدار میں جرمن سرمایہ داری کے گہرے بحران کے سبب آئے اور اس بحران کو عظیم کسادبازاری نے مزید کءرا کردیا اور روسی محاذ پر شکست نے ہالوکاسٹ کا فیصلہ کرنے پر نازیوں کو چلایا میں نے جرمن مڈل کلاس کے جس آمرانہ سماجی کردار کا زکر کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گروپ وسعی طور پر ایسی زاتی کرداری خاصیتوں کا حامل تھا جس نے اس کی تاریخ کی وجہ سے اور خاص قسم کے تاریخی محدودات کی وجہ سے اسے ایسا بنایا اور اس نے اسی وجہ سے زیادہ تباہ کن طریقے سے اس بحران پر ردعمل دیا جس سے دوسرے سماجی طبقات بھی گزر رہے تھے اور یہی جواب ہے کہ اس خاص مرحلے سے پہلے جرمن مڈل کلاس نے وہ ردعمل ظاہر کیوں نہ کیا ؟

Source:

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/12/blog-post_13.html

Comments

comments