تاریخ کے مفرور – عمار کاظمی
ہمارے ایک باشعور دیوبند دوست کا مودودی صاحب کی تصنیف “خلافت و ملوکیت” کے حوالے سے ایک کمینٹ۔۔۔
“یہ چرسیوں کی روایات ہیں جنہیں صرف شرپسندی کے مقاصد کے تحت پھیلایا جاتا ہے، مولانا مودودی کی جماعت اور اولاد اس کتاب سے اعراض کر چکی ہے ۔ اب اس کتاب کو یہودی چھپوا کر تقسیم کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا پھیلے ۔”
کیا مودودی صاحب نے خود اس کتاب سے اعراض فرمایا تھا؟ اگر خود مودودی صاحب اس کتاب سے اعراض فرماتے تو کچھ کہنے ماننے کی بات ہوتی۔ اعتراض تو ایک دیوبندی مولانا تقی عثمانی نے کیا تھا جہنوں نے ایک پوری کتاب مودودی صاحب کی کتاب کی تنقید اور بنو امیہ کے دفاع میں لکھ دی جس کے جواب میں جماعت اسلامی کے غلام علی صاحب نے تاریخی حوالوں اور دلائل کی بنیاد پر ان کا رد کیا – مودودی صاحب کی اولاد یا ان کی جماعت کے بعض لوگوں کی اختلافی رائے سے ان کی کسی تصنیف پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ڈر تو اس بات سے لگتا ہے کہ کہیں حضرت اب یہ نہ کہہ دیں کہ یہ کتاب لکھی بھی کسی یہودی نے تھی۔ سمجھ نہیں آتی کہ جب کوءی تاریخی حوالہ ہمارے اپنے ہی لکھنے والوں کی طرف سے ہماری پسند کے خلاف سامنے آتا ہے تو ہم جھٹ سے تاریخ کے مفرور کیوں بن جاتے ہیں؟ تاریخ کا مطالعہ لڑنے کے لیے نہیں جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
شیعہ، بریولوی یا کسی بھی دوسرے مسلک کے لوگوں کے لیے مولانا مودودی کی باتوں پر سو فیصد متفق ہونا کوئی شرط نہیں۔ اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب شیعہ یا کسی دوسرے مسلک کے لوگوں کی آگاہی یا انھیں خوش کرنے کے لیے نہیں لکھی گءی تھی۔ بلکہ یہ سب ان کے اپنے لوگوں کی جانکاری کے لیے تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان بننے سے پہلے کے دیوبند علما ان کے آج کے علماء کی نسبت کافی زیادہ وژنری تھے۔ مولانا مودودی کا یہ کی یہ تصنیف ابوالکلام آزاد کی پاکستان کے بارے میں تقاریر کے پس منظر کے حوالے سے دیکھی جاءے تو یہ شاید ان کے اپنے لوگوں کو فرقہ وارانہ انتہا پسندی سے دور اور ایک دوسرے کو قریب رکھنے کی ایک اپنی سی کوشش تھی۔ اور اس کا بنیادی مقصد شاید یہی تھا کہ مسلمانوں میں اتحاد کے خاطر ان حقاءق کو تسلیم کرتے ہوءے بھی بہت سی وزن دار دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوءی شیعہ خود کو علی والا کہتا ہے تو اسے فکر علی پر ہر حال میں عمل کرنا چاہیے، اسے ہر اس شخص کو قبول کرنا چاہیے جسے حضرت علی نے قبول کیا، اسے ہر اس شخصیت کے خلاف زبان بند کر لینی چاہیے جس کے خلاف حضرت علی نے کوءی لڑاءی نہیں کی۔ اور اسے لڑاءی ختم بھی اسی طریقے اور فکر کے تحت ہی کر دینی چاہیے جیسے حضرت علی نے کی۔ شاید علی والا کہلانا سب سے مشکل کام ہے۔
دیکھتے ہیں کہ آج کل شیعہ حضرات بھی آپسی بحثوں میں الجھے ہوءے ہیں۔ یہ لڑاءی گھر گھر اور حتی کی انٹرنیت پر بھی جاری ہے۔ کچھ جدید فکر کے لوگ بعض شیعہ رسومات پر معترض نظر آتے ہیں۔ اور اس آپسی لڑاءی کے اظہار یا تبلیغ کے لیے انھیں انٹرنیت بہترین ذریعہ محسوس ہو تا ہے۔ جبکہ میرا ان حضرات سے محض یہ سوال ہے کہ کیا پہلے لوگ صدیوں تک جھک مار رہے تھے جو آج انھیں یہ سب یاد آ رہا ہے؟ یہ درست ہے کہ عزاداری میں بہت سی رسومات شیعہ حضرات نے وقت کے ساتھ اپناءی ہونگی۔ اور ان کے اپنانے کی وجہ بھی شاید محبت، عقیدت یا مذہب، مسلک اور پیغام میں دلچسپی پیدا کرنا رہا ہوگا۔ تاہم اگر عزاداری نہ ہوتی تو کیا لوگ اسی طرح واقعہ کربلا اور امام حسین سے واقف ہوتے؟
اگر کوئی رسم کسی کو درست نہیں لگتی یا وہ خلاف شریعت و اسلام محسوس ہوتی ہے تو وہ اس پر عمل نہ کرے مگر یوں عقاءد اور ان سے جڑی رسومات کا پبلک فورمز پر تماشہ لگانا کیا درست ہے؟
ہم ہمیشہ سنتے آءے ہیں کہ یہ سب کچھ مولوی کا کیا دھرا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسالک میں عوام کی اکثریت خود علماء سے بھی زیادہ پر تشدد اور شدت پسند ہے۔ جب بھی کوءی عالم مسلمانوں کے ان بیچ کے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے مسلک کی اکثریت کی حمایت کھو دیتا ہے۔ مولانا مودودی ہوں طاہرالقادری یا پھر کوءی ڈاکٹر ڈاکٹر علی شریعتی جیسا دانشور۔ سب کے بارے میں ان کے اپنے مسالک کے عام فہم لوگوں کی مخالفت کا پیمانہ کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ عوام خود اسی پر زیادہ واہ واہ کرتی ہے جو رج کے دوسرے کی مٹی پلید کرے اور دوسرے کو سو فیصد جھوٹا قرار دے۔
اور ایک آخری جملہ تمام اُمہ کے لیے یہ ہے کہ مہربانی فرما کر اس یہودیوں کی ایجاد یعنی سوشل میڈیا کو مذہب کی قدیم تاریخ اور تبلیغ و تدریس کا ذریعہ مت بناءیں۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ نیا دیکھنا اور سیکھنا ہوتا ہے۔
from facebook
Amjad Abbas
عہدِ بنی امیہ کی سیاہ کاریاں:
بنو امیہ کی حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے دشمنی تاریخی حقیقت ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا نہ کہنے پر زاہد و عابد صحابی حضرت حجر بن عدی کو زیاد جیسے فاسق کے ہاتھوں شہید کروا دیا گیا۔
امام ابنِ تیمیہ کے شاگرد حافظ ابنِ کثیر نے بھی ان واقعات کو درج کیا ہے، اموی حکومت کے سرکاری مورخ ابنِ خلدون نے بھی ان واقعات کو لکھا ہے۔ سب سے قدیم مورخ امام طبری نے بھی ذکر فرمایا ہے بنی امیہ کے اِن سیاہ کرتوتوں کا۔۔۔
العیاذ باللہ
from facebook:
Engr Ali Abbas Ammar Kazmi … I read this book when I was a young student or you can say right that time when it was brought in market. It was a bold attempt at the part of Molana Moudoodi … though our Scholars never agreed 100% to its contents.. but I being a a common man appreciated that book. Many observations however were made on the Contents of this book .. by Deobandi Scholars.
Yesterday at 8:48am · Like · 3
Engr Ali Abbas Molana Ghulam Ali [later on Justice Ghulam Ali] Special Assistant to Molana Moudoodi wrote a book which replied the observations on this book. The name of this book is “Khilafat O Malookiat per eitrazat aur un ke Jawabaaat” . I had the chance to read that book right after reading Khilafat O Malookiat . Ammar Kazmi in my opinion the book by Molan Ghulam Ali itself is a bigger book than written by Molana Moudoodi
23 hrs · Like · 1
Ali Abbas Taj Molana Ishaq even went further. I think the concept that a bad deed should be condemned for the simple reason that you don’t follow it is a powerful concept.
https://lubp.net/archives/327017
23 hrs · Like · 1
Ali Abbas Taj This is the result of uncritical eulogy of historical figures:
https://lubpak.com/wp-content/uploads/2014/11/isis.png
23 hrs · Like · 2
Engr Ali Abbas Late Molana Hussain Bakhsh Jharra ..authored a book by the name of “Imamat O Malookiat” to counter many contents of Khilaft O Malookiat …itself it a also a big book. It also negates the idea that Shias accepted Molana Mouddodi’s book as it is …
23 hrs · Like · 2
Engr Ali Abbas Ammar Kazmi …. Molana Moudoodi at many times had to face an in house opposition from JI leadership on so many of his thinkings …more glaring was his support for Madir e Millat , Mohtrama Fatima Jinnah in the Presidential Elections against Ayub Khan. You will recall that Molana Kausra Niazi then Amir JI lahore departed his ways with JI on this point.
23 hrs · Like · 2
Engr Ali Abbas I had a chance to see Molana Moudoodi for the first time in my life when he came at Sialkot with Madir e Millat along with other leadership … I was vice President of Students Union those days. I must say one thing Molana was a handsome person …. That time I saw so many of our real leaders .. Ammar Kazmi .. many time I recall those times and extracts from the “urdu” speech of Madir e Millat …
23 hrs · Like · 1
Ammar Kazmi
شیعہ، بریولوی یا کسی بھی دوسرے مسلک کے لوگوں کے لیے مولانا مودودی کی باتوں پر سو فیصد متفق ہونا ضروری نہیں۔ اور شاید یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب شیعہ یا کسی دوسرے مسلک کے لوگوں کی آگاہی یا پسند کرنے کے لیے نہیں لکھی گءی تھی۔ بلکہ یہ سب ان کے اپنے لوگوں کی جانکاری کے لیے تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان بننے سے پہلے کے دیوبند علما ان کے آج کے علماء کی نسبت کافی زیادہ وژنری تھے۔ Engr Ali Abbas Ali Abbas Taj
23 hrs · Like · 3
Engr Ali Abbas Deoband with all differences was accepted as a bigger religious school … Late Allama Akhtar Abbas ..a famous Shia Scholar got his education for a certain period at Dar Ul Aloom Deoband ….
23 hrs · Like · 2
Engr Ali Abbas Kilafat O Malookiat was originally published in installments in JI’s organ in installments …. and yes Molana didn’t wrote it for Shias or Sunnis ..
23 hrs · Like · 4
Engr Ali Abbas Ammar Kazmi … the information shared about Late Allama Akhtar Abbas is based upon a book “Tazkara Ulma E Imamia” jointly authored by Late Molana Hussain Arif Naqvi and Late Molana Saqlain Kazmi …