عبادات اور اخلاقیات – آصف جاوید
میرے ایک دوست نے اس وڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھ سے میرا نقطہ نطر طلب کیا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو جو نقطہ نظر دیا، وہ اپ سب کی بھی نظر کررہا ہوں
میرا نقطہ نطر یہ ہے کہ عبادتیں اور اخلاق سازی دو مختلف ڈومینز ہیں۔ جب آپ عبادت کر رہے ہوتے ہیں تو خالص اللہّ کے حضور سر جھکا ئے کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف اپ اور آپ کا اللہّ ہوتا ہے ، کوئی درمیان میں نہیں ہوتا مگر جب اپ معاشرتی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو آپ کا واسطہ انسانوں سے پڑتا ہے ۔ انسانی رویّے انٹر ایکٹوِ ہوتے ہیں یعنی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو و معاملات بھی کرتے ہیں عمل اور ردِّ عمل بھی کرتے ہیں۔ ۔ رہ گئی اخلاقیات تو وہ ہمیں ہمارا دین بھی سکھاتا ہے اور معاشرہ بھی سکھاتا ہے۔
اس وڈیو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دین اور عبادتوں کا انسانی رویّوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اللہّ کے خوف سے انکار ممکن نہیں۔ اللہّ کا نظامِ عدل آفاقی اور اٹل ہے۔ اللہّ بیک وقت غفور و رحیم بھی ہے اور قہار اور جبّار بھی۔ اللہ گناہ گاروں کو معاف بھی کر دیتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے۔ یہ اللہّ کا اختیار ہے۔ مگر انسانی معاشرے میں جرم کو معاف کرنے کا مطلب جرم کی پرورش ہوتا ہے اور انسانی معاشروں کو انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ معاشرتی قوانین انسان کی نفسیات اور معاشرتی رویّوں کو مدِّ نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ اگر یہ کینیڈا ہوتا تو صرف ایک فون کال پر پولیس آتی ۔ باڈی اسالٹ یعنی جسمانی حملے کا چارج لگتا اور حملہ آور کو سزا ہوتی اور ڈیمیجز بھی دینا پڑتے۔ اس ہی لئے لہا جاتا ہے کہ انسانی معاشروں کو قابو میں رکھنے کے لئےقانون کا خوف اللہّ کے خوف سے زیادہ کار آمد ہوتا ہے ۔ مزہب، عقیدہ اور عبادتیں انسان کی روحانی تسکین کے لئے ہوتی ہیں۔ ایک منصفانہ نظامِ عدل جو کہ بنیادی انسانی حقوق، انسانی نفسیات، معاشرے کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے اور اس کو جب ایک جغرافیائی حدود میں بلا امتیاز مزہب و عقیدہ ریاست کے ہر فرد پر لاگو کیا جاتا ہے تو یہ نظامِ عدل معاشرے میں انصاف و توازن برقرار رکھتا ہے۔ ہمیں مزہب، عقیدہ، عبادت اور آئین و قانون میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مزہب سے بالا تر ہوکر سوچنے کا مقام ہے۔