ایران کے بعد چین بھی دیوبندی و وہابی تکفیری دہشت گردی میں پاکستان کے کردار سے غیر مطمئن – بی بی سی اردو

140913155358_pakistan_taliban_624x351_ap

پاک افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے بی بی سی سیر بین میں ان سوالات کےتفصیلی جوابات دئیے جو کہ درج ذیل ہیں۔

سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں اوغر مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ ناراض ہیں اور ایسٹ ترکستان مومنٹ ان کی نمائندگی کا دعوی کرتی ہے۔ افغان جہاد کے دوران یہ لوگ افغانستان آگئے تھے اور طالبان نے بھی انہیں پناہ دی۔

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ لوگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے جہاں ان کا الحاق القاعدہ اور اسلامک مومنٹ آف ازبکستان سے ہوا۔ ان کے کچھ لوگ بھی فوجی کارروائیوں میں مارے گئے۔

پاکستانی حکام اور انٹیلیجنس ادارے چینی حکام سے کافی تعاون کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چینی انٹیلیجنس کو پاکستان میں رسائی بھی حاصل ہے تا کہ ان لوگوں کا پتہ چلا کر انہیں مار دیا جائے۔

چینی حکام کا دعوی ہے کہ ان کی تعداد 40 اور 80 کے درمیان ہے لیکن کچھ کا خیال ہے کہ ان شدت پسندوں کی تعداد 230 تک ہے۔

ان لوگوں کی موجودگی کی نشاندہی وزیرستان کے علاوہ افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں بھی ہوئی ہے۔ اور چین یہ چاہے گا کہ پاکستان ان کے خلاف مزید کارروائی کرے۔

چین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی افواج کے نکلنے کے بعد طالبان، القاعدہ اور چین مخالف ایسٹ ترکستان مومنٹ افغانستان میں اپنے قدم دوبارہ جما سکتے ہیں۔

چین نے افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ چین کے موقع پر بھی اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھے۔

چینی حکام کافی پریشان ہیں اور اسی لیے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں اور وہاں پر سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔

سیاسی طور پر بھی اور اب سکیورٹی کے لحاظ سے بھی چین نے افغانستان میں دلچسپی لینا شروع کی ہے۔ اور چین چاہتا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں چین سے تعاون کرے۔

یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلے یہاں پر ایسٹ ترکستان کے نام سے ایک اسلامی ملک قائم تھا جس پر چین نے قبضہ کر لیا تھا۔

وہ سمجھتے ہیں کہ چین نے انہیں برابری کے حقوق نہیں دیے اور ان کے ساتھ کافی زیادتی ہو رہی ہے۔

ابھی انھوں نے مسلح جدوجہد شروع کر دی ہے جس کا دائرہ کار اب انھوں نے چین سے بیجنگ تک بڑھا دیا ہے۔

انہیں وہاں پر اسلحہ نہیں ملتا لیکن یہ لوگ چاقوؤں کی مدد سے چینی حکام اور اور تھانوں وغیرہ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ چین کی طرف سے میڈیا میں معاملہ لانے کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔

’میرے خیال میں چین یا تو پاکستان کے تعاوں سے مطمئن نہیں اور یا پاکستان پر اس سلسلے میں مزید تعاون کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس سے یقیناً پریشانی ہو گی کیونکہ اب ایک قریبی دوست ملک بھی دہشت گردی سے پریشان ہے اور اس سے پاکستان پر دباؤ بھی بڑھے گا۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141108_china_pakistan_terrorism_ads

Comments

comments