آئی ایس آئی کا کیا دوش ؟ – وسعت اللہ خان
اگر سب ٹھیک رہا تو لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اکتوبر سنہ 2017 تک آئی ایس آئی کے اکیسویں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کریں گے۔
کہنے کو تو آئی ایس آئی انٹر سروسز انٹیلی جینس یعنی تینوں مسلح افواج کے لیے ہے اور اس کے مختلف شعبوں میں بحریہ اور فضائیہ کے افسر بھی ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں مگر پہلے انچارج کرنل شاہد حامد سے لے کر آج تک اس ادارے کا سربراہ بری فوج ہی کا کوئی افسر رہا ہے۔
دیگر ممالک میں کلیدی قومی سراغرساں ایجنسیوں کی سربراہی عموماً کسی سویلین یا ریٹائرڈ فوجی افسر کو سونپی جاتی ہے کیونکہ یہ ایجنسیاں کسی مخصوص ادارے کو نہیں بلکہ براہِ راست حکومتِ وقت کے اعلیٰ ترین آئینی عہدیداروں کو جوابدہ ہوتی ہیں۔
مگر پاکستان جیسے ممالک میں حساس اداروں میں خصوصی تقرریوں کی روایت سے کوئی معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اصل فیصلہ ساز اور سیاسی قوت کس کے پاس ہے۔
بھٹو دور تک ایک عام پاکستانی صرف سی آئی ڈی اور انٹیلی جینس بیورو سے واقف تھا۔اگر آپ ضیا دور سے پہلے کے کسی ڈی جی آئی ایس آئی کا نام کسی بھاری بھرکم سیاسی تجزیہ کار سے بھی پوچھیں تو بمشکل ایک آدھ نام ہی بتا پائے گا لیکن سنہ 80 میں جب جنرل اختر عبدالرحمان کا نام دائیں بازو کے میڈیا میں بطور معمارِ جہادِ افغانستان آنا شروع ہوا تب سے ایک عام پاکستانی کے لیے آئی ایس آئی ہاؤس ہولڈ برانڈ ہوگیا۔
ضیا دور ہی میں اس تاثر کو بھی فروغ ملا کہ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا اگر کوئی نگہبان ہے تو وہ آئی ایس آئی ہے جو اپنی حیرت انگیز سمعی صلاحیت، غیر معمولی قوتِ شامہ اور ہمہ وقت کھلی آنکھوں سے ملک کو نہ صرف بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ اندرونِ ملک بھی سیاسی قبلہ درست کرواتے رہنا اس کے مقدس فرائض کا حصہ ہے۔
اسی غیر اعلانیہ ذمہ داری کا پاس کرتے ہوئے جنرل اختر عبدالرحمان کے جانشین لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوا کر سنہ 1988 کے انتخابی نتائج کا قبلہ درست رکھا۔ مگر بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے حمیدگل کے ڈیزائن کردہ جلال آباد آپریشن کی ناکامی کے بعد آئی ایس آئی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ریٹائرڈ جنرل شمس الرّحمان کلو کو ڈی جی بنایا۔
لگ بھگ ایک برس بعد بے نظیر حکومت اور ان کے ڈی جی ایک ساتھ گئے۔
اگلے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے بقولِ خود اپنے باس کے کہنے پر سنہ 1990 کے انتخابات سے مثبت نتائج پیدا کرنے کے لیے بذریعہ مہران بینک اصلی حب الوطنی کی سکہ بند تشریح پر پورے اترنے والے سیاست دانوں پر رقومات خرچ کیں۔ اسی طرح سنہ 2002 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو پیچھے دھکیل کر پیراشوٹ سے مسلم لیگ ق کو میدان میں اتارا گیا۔
ساتھ ہی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی سیاسی جماعتیں متحدہِ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر ابھریں۔ اس وقت جنرل احسان الحق ڈی جی آئی ایس آئی تھے مگر انتخابات کی فریمنگ کے سلسلے میں ان کے ایک نائب میجر جنرل احتشام ضمیر کا نام ذرائع ابلاغ کی زینت بڑھاتا رہا۔
جنرل احسان الحق کے بعد آنے والے ڈی جی اشفاق پرویز کیانی نے بھی اپنی ذمہ داریاں تندہی سے نبھانے کی کوشش کی مگر ان کا دور اس اعتبار سے عجیب و غریب رہا کہ ایک ساتھ بہت کچھ یکے بعد دیگرے ہوتا چلا گیا: ڈاکٹر قدیر ایٹمی سکینڈل، چیف جسٹس کی برطرفی کا بحران، لال مسجد کا واقعہ، بلوچستان میں شورش اور کالے کو گورا کرنے والا این آر او فارمولا۔
مگر جنرل کیانی واحد ڈی جی آئی ایس آئی گزرے ہیں جنھیں بری فوج کی سربراہی عطا ہوئی۔ عبوری دور میں جنرل ندیم تاج ڈی جی آئی ایس آئی رہے اور ان کے ہوتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا جس کی تحقیقات آج بھی نامکمل ہیں۔ البتہ کیانی کے بعد اگر کوئی زمانہ یاد رہے گا تو وہ دورِ پاشا ہے۔
لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا کی تقرری سے ذرا پہلے زرداری حکومت نے آئی ایس آئی کو وزراتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا مگر پانچ گھنٹے کے اندر ہی یہ حکم نامہ واپس لے لیا گیا۔اس کے بعد سے فریقین میں بدظنی سی ہوگئی۔ نومبر سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کے نتیجے میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ بڑھ گیا تو زرداری حکومت نے تحقیقات میں مدد کے لیے جنرل پاشا کو دہلی جانے کو کہا مگر کچھ ہی گھنٹے بعد یہ نامعقول تجویز بھی واپس لے لی گئی۔
جنرل شجاع پاشا کے دور میں ہی اسامہ بن لادن امریکی مرینز کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں ہلاک ہوئے۔ چنانچہ فوجی قیادت اور آئی ایس آئی پر ہر طرف سے تنقید شروع ہوگئی۔ جنرل پاشا نے پارلیمنٹ کے رو برو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی بھی پیش کش کی مگر ان کے اس بڑے پن سے پارلیمنٹ ایسی متاثر ہوئی کہ سب نے ان کی خواہش پرنم آنکھوں سے مسترد کر دی۔
ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن بھی بنا مگر رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔ جنرل پاشا کے ہی دور میں میمو گیٹ سکینڈل بھی اٹھا لیکن مطلوبہ مقاصد حاصل ہونے کے بعد اس سکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی عدالتی کوششوں کو بھی زنگ لگ گیا۔
ویسے تو جنرل کیانی کے دور سے ہی بلوچستان میں لاپتہ افراد اور مسخ لاشوں کا مسئلہ شروع ہوگیا تھا تاہم جنرل پاشا کے دور میں یہ مسئلہ شدید ہو گیا۔ ان کے دور میں طالبان دہشت گردی میں خاصا اضافہ ہوا اور اہم فوجی تنصیبات بھی نشانہ بنیں۔ انھی کے دور میں مہران بیس کراچی پر دہشت گرد حملے میں اندر کے کچھ لوگوں کی ملی بھگت کے شبے پر مبنی رپورٹ شائع ہونے کے بعد صحافی سلیم شہزاد کی لاش منڈی بہاؤ الدین کی ایک نہر میں اٹکی ملی۔
اس بابت ایک تحقیقاتی ٹریبیونل بھی بنا جس میں صحافیوں کی بھی نمائندگی تھی۔ ٹریبیونل اس نتیجے پر پہنچا کہ اس قتل میں یقیناً کسی قاتل کا ہاتھ ہے۔
جنرل پاشا کئی برس بعد ایسے ڈی جی آئی ایس آئی ثابت ہوئے جنھیں ان کے باس نے ایک سال کی توسیع دے دی اور جب وہ مارچ سنہ 2012 میں ریٹائر ہوئے تو لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ان کے جانشین بنے۔ 2013 میں بین الاقوامی رسالے فوربز نے جنرل ظہیر کو دنیا کے سو طاقتور افراد میں 52ویں نمبر پر رکھا۔
ان کے دور میں مئی سنہ 2013 کے انتخابات ہوئے جو بظاہر سنہ 2008 کے انتخابات کی طرح شفاف تھے۔ لیکن نواز شریف کے تیسری بار برسرِ اقتدار آتے ہی میاں صاحب کی فوج سے کشیدگی کی اطلاعات ملنے لگیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ دراصل نواز شریف عادت سے مجبور ہیں، وہ جب بھی وزیرِ اعظم بنے ان کی کسی چیف آف آرمی سٹاف سے نہیں بنی۔ مگر نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد ہی ان کی ممکنہ سبکدوشی کی افواہیں گردش کرنے لگیں اور پھر یہ گردش جھکڑ میں بدلنے لگی۔
گذشتہ اپریل میں معروف صحافی حامد میر پر حملے کے بعد سے سپہ سالار راحیل شریف کی اطمینان بخش تقرری کے باوجود فوج اور حکومت کی کشیدگی کھلتی چلی گئی۔ آئی ایس آئی نے اپنے سربراہ پر جنگ گروپ کی جانب سے کھلم کھلا صحافتی شب خون پر بظاہر کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا مگر مشکیں کسنے کا عمل شروع ہوگیا جو جنگ گروپ کی جانب سے معافی تلافی کے باوجود آج تک جاری ہے۔
اس دوران کچھ مذہبی سیاسی گروہوں اور انجمنِ اہلیانِ سمہ سٹہ ٹائپ تنظیموں نے جنرل ظہیر السلام کے حق میں نہ صرف جلوس نکالے بلکہ تصویری پوسٹر بھی چسپاں کیے۔ غالباً یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی انٹیلی جنیس ایجنسی کے حاضر سروس سربراہ کے حق میں جلسے جلوس منعقد ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ جنگ گروپ کے مالک اور کچھ ماتحتوں پر توہینِ رسالت کے قانون کے تحت مقدمے بھی درج ہو گئے۔
پھر ماڈل ٹاؤن لاہور کا سانحہ ہوگیا اور عمران خان اور طاہر القادری میدان میں نکل آئے اور پھر ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی بات ہونے لگی۔ چند دنوں بعد یوں محسوس ہوا جیسے امپائر اور حکومت میں ٹھنڈا ٹھنڈی ہو گئی ہے اور اگر کوئی انگلیانہ سکرپٹ تھا بھی تو اسے فی الحال کسی دراز میں ڈال دیا گیا ہے۔
جنرل ظہیر السلام نے افغانستان، بھارت اور بلوچستان کے تناظر میں اپنے پیشروؤں کی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ اس دوران بلوچستان میں البتہ مذہبی شدت پسندی میں اور اضافہ ہوا۔ خضدار میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے نامعلوم افراد کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں مگر ڈی چوک کے دھرنے کے میڈیائی ہلے گلے میں خضدار کہیں دب دبا گیا۔اس بابت ایک تحقیقاتی ٹریبیونل بنا اور وہ بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوا اور کس نے کیا۔
بات یہ ہے کہ فوج ہو کہ اس کے ماتحت ادارے اور ان کے سربراہ، جو بھی پالیسیاں اور حکمتِ عملی طے ہوتی ہے وہ کسی ایک ذاتِ شریف کے سبب نہیں بلکہ ادارتی و اجتماعی انداز میں طے ہوتی ہے۔ اور انٹیلی جینس ادارے تو بالخصوص دنیا بھر میں اپنے حلقہِ اثر اور خود سے وابستہ عہدیداروں اور افراد کا پورا تحفظ کرتے ہیں۔
یہ ادارے اور ان سے منسلک لوگ کتنے اور کسے جوابدہ ہیں اس کا فیصلہ توازنِ طاقت کا نظام خودکار طریقے سے کرتا ہے۔ اسی سبب پاکستان کی کوئی بھی سویلین حکومت ہو کہ عدلیہ، انٹیلی جینس ایجنسیوں کا دائرہ اور طریق ِکار جلی حروف میں طے کرنے میں ناکام رہیں۔ چنانچہ آئی جے آئی سکینڈل ہو کہ مہران گیٹ کہ غائب لوگوں کا معاملہت ثبوت اور اقبال کے باوجود کسی ایجنسی کے کسی حاضر چھوڑ سابق عہدیدار پر گرفت کجا، جواب دہی تک نہ ہو سکی اور نہ ہی کوئی فوری امکان ہے۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کے کردار کو مربوط بنانے کے لیے ایئرچیف مارشل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان کی سربراہی میں جو کمیشن بٹھایا اس کے مطابق ایک مشترکہ انٹیلی جینس کمیٹی بنانے کی سفارش کی گئی تاکہ تمام ایجنسیوں کی سرگرمیاں مربوط ہو جائیں۔
ان کے درمیان پیشہ ورانہ رقابت کے بجائے اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ہم آہنگی اور رابطہ کاری کو فروغ ہوا۔ آئی ایس آئی کو محض دفاعی اور بیرونی ذمہ داریاں سونپی جائیں اور داخلی سکیورٹی کی ذمہ داری ایک توسیع شدہ جدید انٹیلی جینس بیورو کو دی جائے۔ ہر ایجنسی کا چارٹر ہو جس میں کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں کر سکتے کی مکمل وضاحت ہو۔
آج 25 برس بعد ذوالفقار کمیشن رپورٹ اپنے مصنف سمیت آسودۂ خاک ہے۔
ظہیر الاسلام چلے گئے اور ان کی جگہ رضوان اختر آ گئے۔ رضوان اختر کی جگہ تین برس بعد کوئی اور ڈی جی آ جائے گا۔ مگر جب تک یہ بنیادی مسئلہ طے نہیں ہو جاتا کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی (بشمول افغانستان، بھارت، چین اور امریکہ) ایٹمی پروگرام، دفاعی بجٹ اور داخلی امور میں فوج اور سیاسی ڈھانچے کی ساجھے داری ہی چلتی رہے گی یا پھر وہ دن بھی آئے گا جب سب کو پارلیمنٹ کی ہی ماننا ہوگی۔
تب تک یہ چمن یونہی رہے گا، بھلے چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا حق وزیرِ اعظم کے پاس تاقیامت رہے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141106_isi_responsibilities_analysis_rk