انسانی حقوق میں تعصب: لباس معکوس زیب تن کئے فرقہ پرست – عامر حسینی

hrs

جو بھی میری یہ تحریر پڑھنے جارہا ہے اس سے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں اگر وہ کہیں یہ محسوس کرے کہ میں اس کے جذبات کو مشتعل کررہا ہوں یا اس کا جذباتی استحصال کررہا ہوں

روزنامہ ڈان مجھے صبح دس بجے مل جاتا ہے اور اسے پڑھے بغیر میں خود کو ادھورا سا محسوس کرتا ہوں – آج صبح جب اس اخبار کو پڑھ رہا تھا تو ایک صفحے پر میری نظر ٹھہر گئی ، ڈان کے اسلام آباد کے رپورٹر نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے سر شام ایران کی خاتون ریحانہ جباری کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی سول سوسائٹی کی ایک تنظیم کی تقریب کی روداد رقم کی گئی تھی ، میں نے پڑھا کہ اسلام سے تعلق رکھنے والے کالج اور جامعات کے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ریحانہ جابری کی مظلومی میں موت پر آنسو بھی بہائے اور ایرانی حکومت اور اس کے ہاں حدودات ک حوالے سے بنائے ہوئے قوانین میں موجود عورت دشمنی کی بھی مذمت کی – اسد نامی ایک طالب علم نے کہا کہ وہ ریحانہ جباری کی یاد میں اس لیے بھی شمعیں روشن کررہے ہیں کیونکہ اس حوالے سے پاکستان کے اندر بھی خواتیں کے حوالے سے امتیازی قوانیں پائے جاتے ہیں اور یہاں بھی عورتوں کو انصاف نہیں ملتا

میرے نزدیک یہ بہت اچھی بات تھی لیکن نہ جانے کیوں میرے دل کے کسی گوشے سے آواز اٹھی کہ ” انسانی حقوق ” کے لیے آواز اٹھانے والی یہ این جی او کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ کراچی میں اس شیر خوار بچی بتول زہرا کی یاد میں بھی شمعیں روشن کرنے کا اہتمام کرتی جسے تین روز قبل اسلامک ریسرچ سنٹر امام بارگاہ کراچی پر سپاہ صحابہ اورنگزیب فاروقی گروپ کے ایک گرینڈ بم کے حملے سے زخم آئے تھے اور وہ ان زحموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئی تھی – یہاں پرکوئٹہ کی 6 سال کی بچی سحر بتول کے لیے بھی شمعیں ہونی چاہئیں تھیں جسے اغواء کیا گیا اور پھر بے دردی سے گلے پر چھری پھیر کر زبح کردیا گیا اور اس کی لاش پولیس لائن کوئٹہ کےقریب ملی اور اس اغواء اور قتل میں سپاہ صحابہ کے رمضان مینگل دیوبندی گروپ کو ملوث بتایا جارہا ہے – اس سے پہلے کراچی میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والد کی شہادت کو دیکھنے اور خود شدید زخمی ہونے والی محضر زہرا کی تصویر بھی میری آنکھوں کے سامنے تھی

میں اس بات کی خواہش کررہا تھا کہ محضر زہرا کے والد اور سحر بتول اور اس شیر خوار بچی بتول زہرا کے قاتلوں کی مذمت بھی کی جاتی تاکہ پوری دنیا تک پیغام پہنچتا کہ یہاں پاکستان کے اندر شیر خوار بچیوں اور 6 سال کی بچیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور ان کو بھی اس تکفیری دھشت گردی کا اسی طرح سے سامنا ہے ، جس طرح سے نوجوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو سامنا ہے اور دیوبندی دہشت گردوں نے جن کے ڈیتھ وارنٹ فقط اس لیے جاری کردئے ہیں کہ وہ شیعہ ہیں

لیکن سحر بتول ، محضر زھراء اور اس شير خوار بتول زھراء کی ایسی قسمت کہاں کہ ان کی یاد میں سول سوسائٹی کے اندر شمعیں روشن کی جائیں اور ان کے مبینہ قاتلوں کی مذمت کی جائے ، ان پر سوشل میڈیا پر خصوصی پوسٹ دیکھنے کو ملیں اور اس تکفیری لابی کو بے نقاب کیا جائے جس کے ایما پر یہ سب کچھ ہورہا ہے

اور کسی کو پتہ ہے کہ اس خاتون ڈاکٹر کا کیا نام تھا جو اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں کار میں سوار اپنے گھر کی طرف جارہی تھی جب ان پر دو موٹر سائیکل سواروں نے فائر کھول دیا اور یہ موٹر سائیکل سوار پھر پکڑے گئے اور ان کا تعلق سپاہ صحابہ سے نکلا – جبکہ ایک اور خاتون کا شوہر بینکر اپنی بیوی کو کھونے کے بعد لاہور میں آکر بیٹھ گیا ہے اور یہ دونوں خواتین بھی شیعہ تھیں ، لیکن آج دو ماہ گزر گئے ہیں ،ریحانہ جباری کے غم میں ہلکان ہونے والے ، شمعیں روشن کرنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو ان دو عورتوں کا نام بھی پتہ نہیں ہوگا ، میں بھی اب وہ نام نہیں لکھ رہا ہوں

صباح حسن تو اپنے اس بینکر دوست سے ملے بھی تھے اور پھر انھوں نے اس کی داستان بھی فیس بک پر اپنی وال اور شیعہ نسل کشی کے نام سے بنے اس پیج پر رقم بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ریحانہ جباری کی موت پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے نام نہاد لبرل، مارکسسٹ یا سیکو لر افراد کی وال پر ، ان کے آزاد خیالی کو فروغ دینے والے صفحات پر اور ان کے سوشلزم و کمیونزم کی دھائی دینے والے، انسانی نجات کی آواز لگانے والے صفحات پر ان عورتوں کے قاتلوں اور ان کی شناخت کے بارے میں کوئی پوسٹ دیکھنے کو نہیں ملی تھی

میں نے شام اور اب آہستہ آہستہ اترنے والی رات تک انتظار کیا ، ایک شکل جو مجھے اس کینڈل لائٹ وجل میں نظر آئی جس کا رابطہ نمبر مرے پاس تھا کو میسج بھی بھیجا اور جن تصویروں کو آپ کے ساتھ شئیر کرنے لگا ہوں ان کو اس کے ان باکس میں بھی بھیجا اور کہا کہ ان مظلوم بچیوں کے لیے بھی شمعیں فروزاں کریں اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ان تکفیری دیوبندی وہابی فسطائیوں کی مذمت کریں جن کے ظلم کا یہ شکار ہوگئیں

میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمارے سماج میں ایسے فراڈیے پیدا ہوگئے ہیں جو اصل میں انسانیت سے پیار نہیں کرتے انسانی حقوق کی ان کو پرواہ نہیں ہے ، عورتوں کی آزادی سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے ، نہ ہی وہ کوئی تحریک چلاتے ہیں ، وہ تو بس نفع بخش پروجیکٹ چلاتے ہیں اور مال بناتے ہیں – کچھ ایسے ہیں کہ جن کے لاشعور سے ان کا دیوبندی و سلفی فرقہ پرست ماضی تاحال نہیں نکل سکا اور وہ انسانیت نواز ہونے کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ شیعہ فوبیا اور صوفی فوبیا سے باہرنہیں نکل سکے بلکہ جہاں کہیں ان کو مخصوص نام اور اظہار کے حامل افراد لہو میں لپٹے نظر آئیں ، ان کے حقوق کی پامالی کا سوال اٹھے تو یہ صم بکم عمی فھم لایرجعون کی تصویر بن جاتے ہیں اور ان کے قلوب پر ان کے فرقہ پرست ماضی کی گٹھا ٹوپ چھا جاتی ہے جسے عربی میں غشاوۃ علی قلوبھم کہتے ہیں اور ایسے بھولے بن جاتے ہیں جیسے ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بتول زھرا ، سحر بتول ، محضر زھراء جیسی کلیاں بھی لہو ، لہو ہوئی ہیں ، ان کی جان بھی لی گئی ہے اور ان کے گلے پر بھی چھری پھری ہے اور یہ جان لینے والے ، چھری پھیرنے والے اور ان کو لہو ، لہو کرنے والے کون ہیں ؟ یہ سوال سامنے آیا نہیں ، اور بتّی گل ہوئی نہیں

حسن عسکری نے تقسیم ہند کے موقع پر فسادات کے زمانے میں لکھے جانے والے اکثر افسانہ نگاروں کی جانب سے ہندؤ اور مسلمانوں کی بربریت بارے کہانی بیان کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے افسانے میں اکڑ دس مسلمان ہندؤ کے ہاتھ مرتے دکھاتے تو دس ہندؤ بھی مسلمان کے ہاتھوں مرتے دکھاتے اور حساب کی برابری ضرور دکھاتے لیکن سعارت حسن منٹو نے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ جو ہورہا تھا اسے دکھایا اور اسی لیے شاید اشرف علی تھانوی کے مرید عبدالماجد دریا آبادی نے منٹو کو نہ تو ان کی زندگی میں ان کو بخشا اور نہ ہی ان کے مرنے پر ان کو بخشا

آج کیا ہورہا ہے کہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی کا جو بازار گرم ہے اس کے زمہ داروں کی واضح اور غیر مشروط مذمت کرنے اور ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی بجائے کئی ایک نام نہاد سیکولر فرقہ پرست حساب برابر کرکے دکھانے کی فکر زیادہ کررہے ہیں اور جب پاکستان سے کوئی شیعہ نہ ملے تو ایران ، عراق ، لبنان ، شام سے اٹھا کر لے آتے ہیں کہ کسی طرح حساب برابر ہو اور یہ کہا جاسکے کہ یہ شیعہ نسل کشی نہیں بلکہ فرقہ وارانہ دو طرفہ جنگ ہے جس میں لوگ دونوں اطراف سے مارے جارہے ہیں اور پاکستان میں کسی قسم کی دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی موجود نہیں ہے جس کا ہدف شیعہ نسل کشی ہے

اس طرح کے سیکولر فرقہ پرستوں کی ایک مثال کینیڈا میں مقیم طارق فتح ہے جو شیعہ کو زبح کرنے کی زمہ داری شیعہ پر ہی ڈالتا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی مثالیں لیکر آتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ شیعہ ہیں جو دیوبندی وہابیوں کو اپنے ہی قتل پر اکساتے ہیں ، مشتعل کرتے ہیں اور وہ ان کو زبح کردیتے ہیں – جب ایسے لوگوں کو ٹوکا جائے اور ان کو بے نقاب کیا جائے تو پھر کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار پر حملہ ہوگیا ، سیکولر ازم کی توھین ہوگئی اور سوشلزم کا ستون گرانے کی کوشش شروع کردی گئی

اتنی بے شرمی ہے کہ ایسی ہر کوشش کی جارہی ہے کہ جو بھی شیعہ نسل کشی اور سنی صوفی نسل کشی پر آواز اٹھائے اور اس کے زمہ داروں کو بے نقاب کرے فوری طور پر اسے سیکولر صف سے خارج کیا جائے ، اس کو رجعت پسند قرار دیا جائے ، اگر وہ خود کو لیفٹسٹ کہتا ہو تو اس کے اس دعوے کو رد کیا جائے کیونکہ وہ دیوبندی تکفیری دھشت گردی اور آئیڈیالوجی کی مذمت کررہا ہے

میں نے شیعہ نسل کشی کے عروج پر پہنچ جانے پر فیس بک اکاؤنٹ پر کور فوٹو تبدیل کرکے امام عالی مقام علیہ السلام کی مدح اور ان کے روضے کی تصویر لگائی تھی اور پروفائل پکچر کو میں نے امام سجاد کے وال پیپر سے بدل ڈالا تھا اور یہ بجا طور پر مظلوم شیعہ سے اظہار یک جہتی کی علامت تھا ، شاید میں کچھ عرصہ بعد کئی اور اہم ایشوز کے حوالے سے اپنی پروفائل پکچر اور کور فوٹو تبدیل کرتا ، جیسے میں نے بلوچوں سے اظہار یک جہتی کے لیے ” میں بلوچ ہوں ، دھشت گرد نہیں ” کا وال پوسٹر اپنی وال پر کور فوٹو کے طور پر لگایا تھا لیکن اس دوران میں نے یہ دیکھ لیا کہ سیکولر فرقہ پرستوں نے میری شیعہ نسل کشی کی مذمت اور اس کے زمہ داروں کو بے نقاب کی جانے والی ہر تحریر کو دیکھ فوری طور پر مجھے ایرانیوں کے ساتھ جوڑا اور لامحالہ مجھے کٹّر کلامی شیعت ساتھ بھی جوڑا گیا اور کسی نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ میں کہہ کیا رہا ہوں اور اس طرح سے بہت سے فرقہ پرست سیکولرز کے سیکولر ازم ، لبرل ازم ، روشن خیالی ، عقلیت پسندی ، فلسیفیانہ تفکر پسندی کا پول بھی کھل گیا اور اسی لیے میں نے اپنی وال کا کور اور پروفائل فوٹو تبدیل نہیں کیا

اگرچہ بعض اوقات ایرانی تھیوکریسی اور ایرانی رجیم بارے میرے خیالات جان کر ان لوگوں کو صدمہ پہنچتا جو میری پروفائل فوٹو اور کور فوٹو دیکھ کر میری وال پر آتے اور وہ تھیوکریسی و مہاجنی شیعت کے دلدادہ ہوتے اور پھر زرا مجھ پر غصّہ بھی اتارتے لیکن سچی بات ہے کہ ان کے غصّے میں کینہ بغض ہرگز نہیں ہوتا تھا، وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں رعائت دیتے لیکن فرقہ پرست سیکولر ان کا ردعمل تو یہی ہوتا کہ بس کسی طرح سے بھی ان بس چلے تو لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انٹر کی کمانڈ سے مجھے اڑادیں

سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی خاصی مشکل محسوس ہوتی ہے جب مجھے انسانی حقوق کی پاسداری میں کسی ” ایسے” کا قصور نظر آئے جس نے کاسٹیوم مارکس ، اینگلس، چی گیویرا ، پہن رکھا ہو تو جیسے ہی اس کو آئینہ دکھایا جائے تو وہ تلملانے لگتا ہے اور کچھ تو ایسے نمرود ، یزید ، بلعم باعور ، قارون و فرعون ہیں جنھوں نے اپنی ضد کو لباس بنارکھا ہے اور جب اس لباس معکوس کو اتارا جاتا ہے تو ان کی کیفیت بھی دیدنی ہوجاتی ہے

لیکن لباس معکوس پہننے والوں اور دور بہت دور کسی کی موت پر آنسو بہانے کی اڑ میں اپنے کسی مبغوض کو رگیدنے والوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نہ تو لباس معکوس زیادہ دیر جسم پر برقرار رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی محبت کا ڈرامہ رچاکر اپنے بغض کو چھپایا جاسکتا ہے

ان بچیوں کی تصویریں دیکھ لیں اور پھر سوچیں ان باتوں کو جو میں نے اوپر لکھیں ہیں ، مقصد آپ کا جذباتی استحصال ہرگز نہیں ہے

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/11/blog-post.html

b

a

c

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sajjad Akbar
    -