پاکستانی عوام نے الحاد، اشتراکیت اور سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہوئے دیوبندی تکفیریوں کو مسترد کر دیا
پاکستانی سوشل میڈیا پر آجکل کچھ سابقہ اور موجودہ دیوبندی اور سلفی وہابی حضرات، الحاد، اشتراکیت، مارکسزم، لبرلزم اور سیکولرزم کے لبادے میں تین کاموں میں مشغول ہیں
اول – سنی صوفی اور شیعہ کے لیے یکساں قابل احترام محرم اور عاشورہ کی مذہبی روایات پر نہایت طنزیہ اور غلیظ تنقید
دوم – دیوبندی دہشت گردوں کے ہاتھوں سنی صوفی اور شیعہ کی نسل کشی کو سنی شیعہ فرقہ وارانہ تنازعہ بنا کر پیش کرنا اور جو لوگ دہشت گردوں کی دیوبندی تکفیری شناخت کو سامراجی میڈیا اور سیاست میں چھپائے جانے کو چیلنج کرتے ہیں ان کا مذاق اڑانا
سوم – جو معدودے چند سنی صوفی اور شیعہ رضاکار اپنی جان کو داؤ پر لگا کر دیوبندی تکفیری دہشت گردی کو عریاں کر رہے ہیں ان کے خلاف منظم مہم
بد قسمتی سے اس دیوبندی ملحد، دیوبندی اشراکی، دیوبندی سیکولر گروہ کے ساتھ دو تین برائے نام شیعہ بھی ذاتی دوستی یا کوفی ورثے کی بنیاد پر شامل ہوگئے ہیں – ایسا بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ دیوبندی فرقہ واریت رکھنے والے لوگ شیعہ یا سنی صوفی بریلوی کا نام اختیار کر کے شیعہ اور سنی صوفی عقائد اور کارکنوں پر تنقید کرتے ہیں
فیس بک اور ٹویٹر پر ایسے دیوبندی ملحد اور دیوبندی سرخے گروہ کے سرغنہ فہد رضوان اور فراز قریشی صاحبان ہیں یہ اور دیگرصاحبان مختلف ناموں سے دیوبندی ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہے ہیں جیسا کہ علامہ ایاز نظامی، اویس مسعود، احمد خان (سٹیلمیٹ)، بھینسا، غلام رسول، منیب احمد ساحل، شامان و دیگر – ایک اور صاحب زالان کے قلمی نام سے لکھتے ہیں لیکن ان کے معاملے پر ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں – اس کے علاوہ چند کوفی شیعہ یا شیعہ نما دیوبندی بھی ان دیوبندیوں کے ساتھ مل کر شیعہ کارکنان اور شیعہ و سنی عقائد کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کر رہے ہیں ان میں سے نام نہاد مارکسسٹ فہد رضوان المعروف احمد خان سٹیلمیٹ کی دوست ایک شیعہ نام کی حامل دیوبندی ملحدہ زہرہ نقوی نے حضرت فاطمہ زہرا رضی الله کے مقدس نام کے بارے میں نہایت تکلیف دہ باتیں کی
فیس بک ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کی اکثریت نے الحاد، اشتراکیت اور سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہوئے دیوبندی تکفیریوں کو مسترد کر دیا – ملاحظہ کیجئے چند مثالیں
دیوبندی اور سلفی وہابی حضرات و کوفی و جعلی شیعہ، الحاد، اشتراکیت، مارکسزم، لبرلزم اور سیکولرزم کے لبادے میں
Ale Natiq
October 27 at 10:57am ·
عجیب قسم کے دو نمبر سے سرخے پیدا ہونے لگ گئے ہیں. شیعہ لفظ سنتے ہی یہ ایران کی گردان کرنے لگتے ہیں. یوں لگتا ہے یہ سپاہ صحابہ کے تربیتی پروگرام میں چلا لگا کر ائے ہیں. تمہیں مارکس کا واسطہ کوئی ہوش کے ناخن لو.
UnlikeUnlike · · Share
You, Saqib Pal, Farhat Taj, Mirza Ali and 20 others like this.
Syed Farrukh Abbas
Ye Maulana Ludhiyanvi k Comrades hain..Marx k Nhi
October 27 at 11:00am · Like · 3
Ghulam Nabi Karimi
ہم سرخوں میں بھی بنیاد پرست ہوتے ہیں جو چائنا کی طرح
مذہب کر پابندی چاہتے ہیں
October 27 at 11:01am · Like · 2
محض آس اور قیاس
تحریفات ہر طرف ہیں۔ دین تحریفات کا شکار ہو کر فاسدانہ عقائد سے زیادہ کچھ نہ رہا، یہی کچھ ماکسسزم کے ساتھ ہوا ہے۔ اصل تعلیمات بھلا دیں بس مدرسہ گوگلیہ و فیسبکیہ سے کچھ تحریفات پہ مبنی مواد اُٹھایا اور بن گئے سُرخے۔
October 27 at 11:12am · Like · 2
Ale Natiq
hum asal aur naqal aqaid ki behs main nahin partay. bas itna chahtay hain k sab ko mazhbi aur shakhsi azadi ho. par yeh modern surkhay har shia main iran dekhtay hain jese inko har commodity main amreeka nazar aata hay
October 27 at 11:16am · Like
محض آس اور قیاس
بناسپتی سُرخے
October 27 at 12:05pm · Like · 2
Umair Bilal
پاکستان میں فنی خرابی والے سرخے کثرت سے پآے جاتے ہیں. جیسے جعلی معاشرہ، ویسے ہی جعلی سرخا.
October 27 at 1:06pm · Like · 2
Umair Bilal
دیوبندی سرخے
October 27 at 1:08pm · Like · 2
Ale Natiq
abhi kuch surkhay do char din se shor macha rahay hain maazi ko bhol jao, maazi me kuch nahin rakha ye woh. to yeh bhainchod marx aur engles ka zahoor kya 3035 main hona hay? youn lagta hay sipah sahaba se sabaq le kar aye hain. ajeeb bay dhangi baten kartay hain.
October 27 at 1:08pm · Like · 1
Umair Bilal
ہر کوئی منجن بیچ رہا ہے اپنا. مختلف لفافوں میں.
October 27 at 1:10pm · Like · 2
Ale Natiq
haan par yeh wali rewri ab nahi biknay wali. mazhabi aqaid par shoq se tanqeed karain, yeh apka haq hay hum apka saath denge is haq main. par yeh apko haq nahi k logon kay mazhbi expression kay haq ko salab karain aur 4 karoor logon par thappa laga dain irani agent ka.
October 27 at 1:12pm · Like · 1
Umair Bilal
سرخا بھی مولانا اشرفی کی طرح اسی مسخ شدہ، انتہا پسند معاشرے کی پیداوار ہے. بس ڈینٹنگ پینٹنگ بظاہر تھوڑی سی مختلف ہے لیکن خمیر اسی چکی کا ہی ہے.
October 27 at 1:17pm · Like · 2
Ale Natiq
haan bas faraq yeh hay keh yeh naam nihad secular liberal aur surkhay khud ko progressive kehtay hain, inko yeh sab zaib nahin deta. ashrafi party k to moun par hi phitkaar hay
October 27 at 1:18pm · Like · 1
Umair Bilal
مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ اپنی ہی پارٹی میں یوم مئی منانے اور اس دن کی یاد میں ریلیاں نکالنے کو بدعت نہ قرار دے دیں.
October 27 at 1:24pm · Like · 1
Ale Natiq Lol
October 27 at 2:05pm · Like · 1
Ghulam Nabi Karimi
یار پتہ مسلہ در اصل پاکستانیوں کا ہے ۔ پاکستانی چاہے سیکولر ہو، لبرل ، سوشلسٹ ہو یا مذہبی دو نمبر ہی ہوتے ہیں ۔ دوغلے صالے
https://www.facebook.com/alexpressed/posts/924182727609825
Asghar Zaidi
جو لوگ محرم اور عید ملاد النبی کے جلوسوں پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں یہ وہی ہیں جنہیں فلسطین ، کشمیر، چیچنیا اور برما کے مسلمانوں کا درد سونے نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہ کس منہ سے بھارت یا اسرائیل سے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دینے کا مطالبہ کریں گے؟ بھارت ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تمام مدرسوں پر پابندی لگا دے گا کہ یہ دہشت گرد تیار کررہے ہیں ۔۔۔۔ پھر کیا ہوگا؟ اسرائیل ملک میں تمام مسلمانوں پر مسجد جانے اور قبلہ اول کی زیارت پر پابندی لگادے گا۔۔۔ پھر کیسے احتجاج ہوگا؟ مذہبی عقائد یاسیاسی سوچ پر پابندی کا تجربہ دنیا میں ہر جگہ ناکام رہا ہے۔ روس نے 70، 80 سال تک مذہبی اور سیاسی دونوں طرح کی پابندیاں لگائیں لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ کیا وہاں سے اسلام ختم ہوگیاْ؟ شخصی آزادی کے لیے آوازیں اٹھنا بند ہوگئیں ؟
Like · Reply · 6 · 9 hours ago
https://www.facebook.com/RoshniPakistan4/photos/a.654255161332771.1073741828.564400913651530/732741713484115/?type=1
Ammar Kazmi
Yesterday at 3:02pm · Edited ·
یہ دیسی ملحد بھی عجیب ہیں۔ مذہب کی بجاءے عقاءد کا مذاق بناتے ہیں۔ جبکہ عقیدہ ثانوی اور مذہب بنیادی خیال ہے۔ مذہب یا ہے یا نہیں ہے۔ پہلے سے دہشت گردی کے شکار طبقات کا مزاق بنانا درپردہ دہشت گردی کی حمایت ہے۔
عمار کاظمی
بہار عرب – شیعہ سنّی جنگ نہیں ، فرقہ پرست سیکولر ٹولے سے ہوشیار باش – پہلا حصّہ
انقلاب شام اور بہار عرب – فرقہ پرست لیفٹ اور سیکولر اسے پڑھ لیں – پہلا حصّہ
جوزف دھر /ترجمہ و تلخیص عامر حسینی
جوزف دھر جوکہ شام میں انقلابی تحریک کے ایک سرگرم دانشور رہے ہیں انقلاب شام کے بارے میں ابتک گردش کرنے والے سوالات کے جوابات دینے کے لیے انھوں نے اپریل 2014ء میں یہ مضمون لکھا تھا اور یہ چار قسطوں میں مضمون شایع ہوا ، میں اس کے لیے سرتاج خان کامریڈ کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس مضمون کا لنک بھیجا
مڈل ایسٹ پر اس سے پہلے میں پیٹرک کوک برن اور طارق علی کا ایک باہمی مکالمہ درج کرچکا ہوں اور جس میں مجھے طارق علی کا القائدہ ، داعش سمیت وہابی تکفیری دھشت گرد تنظیموں کے بارے میں موقف تضاد سے بھرا ہوا لگا اور اسے انھوں نے وہابی دیوبندی مظہر کی بجائے سنّی سامراج مخالف مزاحمت بناکر پیش کیا جبکہ ان کے ساتھ مکالمہ کرنے والے پیٹرک کوک برن کا تجزیہ خاصا متوازن تھا
مڈل ایسٹ کی صورت حال کو شیعہ – سنّی لڑائی بناکر پیش کرنے والے شارحین کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے ، اب اس میں کچھ ملحدین اور سیکولر کہلانے والے بھی کود پڑے ہیں ، وہ اس معاملے کو مذھبی بلکہ دیوبندی ، وہابی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور اس بنیاد پر ہی پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی کے سوال پر خاصا متعصب اور نفرت انگیز موقف پیش کرنے میں مصروف ہیں ، کچھ مارکسسٹ بھی اس سوال پر فوری طور پر دیوبندی بن جاتے ہیں
شام کے انقلاب کو بہت سے لوگ ابتک جیو پالیٹکل یا فرقہ وارانہ اصطلاح میں تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اس انقلاب کی زمین پر جو سماجی – معاشی حرکیات تھیں اس کو انھوں نے نظر انداز کیا ہے – مغرب کی جانب سے مداخلت کے خطرے نے شام کے معاملے کو دو کیمپوں کی باہمی مخالفت بناڈالا ، یعنی ایک طرف تو مغربی ریاستیں اور عرب بادشاہتیں تو دوسری طرف ایران ، روس ، حزب اللہ ہیں اور انھی دو کیمپوں کے درمیان لڑائی کی روشنی میں شام کے انقلاب کی تشریح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ وہ ان دو کیمپوں میں سے کسی ایک کو بھی چننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اور ہم کمتر برائی کے تصور کو رد کرتے ہیں جوکہ شام کے انقلاب کو مکمل طور پر کھودینے کا سبب بنے گی اور اس انقلاب کا مقصد فوت ہوجائے گا ، جوکہ جمہوریت ، سماجی انصاف اور فرقہ پرستی کو رد کرنا تھا
جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ مغرب اور مڈل ایسٹ کا مین سٹریم میڈیا ، مغربی و علاقائی حکومتیں ہمیں اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہیں کہ شام کا انقلاب ختم ہوچکا ہے اور اب یہ سنّی اکثریت اور مذھبی و نسلی اقلیتی گروہوں کے درمیان جنگ میں بدل چکا ہے – یہ اب سوائے فرقہ وارانہ جنگ کے اور کچھ بھی نہیں ہے – یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اب یہ انقلاب اسد حکومت اور جہادیوں کے درمیان لڑائی میں بدل چکا ہے اور آخرالذکر میں وہ دائیں بازو اور کم معلومات رکھنے والے سامراج مخالف لوگ ہیں جو اسد کو جہادیوں سے کم برائی خیال کرتے ہیں اور جوزف ڈاہر کے خيال میں ہمیں ان دونوں طرح کے خیالات کی تردید کرنی چاہئیے جوکہ اصل میں شام کے اندر آمرانہ نظام کو قائم کرنا چاہتے ہیں
نوٹ : میرے نزدیک طارق فتح ، ایاز نظامی ، حسین حقانی سمیت بہت سارے لوگ مغربی اور عرب بادشاہتوں کے اسی کمیپ کے ہمنواء لگتے ہیں جو شام کو شیعہ – سنّی جنگ میں بانٹ کر دیکھتے ہیں اور بہار عرب کو مردہ قرار دیکر اس کے شیعہ – سنّی جنگ میں بدل جانے کی بات کرتے ہیں
جوزف ڈاہر کے خیال مین صرف دائیں بازو کے اندر ہی شام کے انقلاب کے ہائی جیک ہونے کی وجہ سے مردہ ہوجانے کا خیال رکھنے والے ہی نہیں پائے جاتے بلکہ اس میں لیف کا ایک سیکشن بھی شامل ہے جس نے ابتداء میں اس انقلاب کی حمائت کی تھی
مثال کے طور پر طارق نے یہ اعلان کیا ہے کہ عرب بہار کی تحریک پر اب اخوان المسلمون ، دیگر دائیں بازو کے گروپوں ، قطر اور سعودیہ عرب کا قبضہ ہوچکا ہے اور اسد سے باغی ہونے والوں پر ترکی اور فرانس والے غالب آچکے ہیں ، اس لیے انقلابی ابھار کی نوعیت ابتدائی پہلے 12 ماہ میں بدل چکی ہے – اس کی ںطر ميں کوئی اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے ؟ متحارب فوتوں کے درمیان اس وقت جو رشتے ہیں وہ کسی بھی سیکولر یا ترقی پسند گروپ کے حق میں ںظر نہیں آتے – اس حقیقت سے انکار کرنا طارق علی کی نظر میں یا تو ابہام کی وجہ سے اندھا ہوجانا ہے یا پھر لیفٹ سیاست کے اندر موجود داخلی فرقہ پرستی کا تقاضہ ہے
جوزف کہتا ہے کہ حالات کتنے ہی ناموافق ہوں شام اب واپس اس دور جبر وظلم میں نہیں جائے گا جو اسد کے خلاف بہار شام سے پہلے تھا اور نہ ہی جبر وستم کی دوسری شکلوں پر مبنی کوئی ںظام شام پر مسلط کیا جاسکے گا – حل اور متبادل صرف بہار شام کو جاری و ساری رکھنے میں ہے – اور بہار شام کا یہ نعرہ اب بھی افادیت رکھتا ہے کہ زلّت کی زندگی جینے سے مرجانا اچھا ہے
جوزف ڈاہر نے اپریل 2014ء میں واضح طور اسلامی رجعتیوں ( وہابی دیوبندی دھشت گردوں ) کے بارے میں بہت واضح طور پر کہا تھا کہ
ہمیں اسلامی رجعت پرست گروپوں کے بارے میں بہت واضح ہونا ہوگا کہ یہ گروہ انقلاب کے سخت خطرہ ہیں اور اگر وہ انقلابیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ جس طرح سے بھی ہو ان کو چیلنج کرنا پڑے گا
ہمیں ان انقلاب کے دشمنوں اور ردانقلابی رجعت پسند گروپوں کی مخالفت کرنا ہوگی اور ایک تیسرا انقلابی محاذ بنانا ہوگا جوکہ انقلاب کے مقاصد کے لیے جدوجہد کرے – یعنی وہ جمہوریت ، سماجی انصاف کے قیام اور فرقہ پرستی کو مسترد کرنے کے لیے کام کرے
انقلابی کا کام ان مقبول عوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنا ہے جوکہ آزادی ، وقار اور جس حد تک ممکن ہوسکے ترقی پسند مقاصد کے لیے تحریک کو متحرک کرنے کے لیے کام کررہی ہوں جبکہ وہ موقعہ پرستوں ، رجعتی طاقتوں کے خلاف برسرپیکر ہوں جوکہ عوامی مقبول طبقاتی مفادات کی مخالفت کررہی ہیں
جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ اس کی ںظر میں کسی بھی طرح کا حل اس وقت تک شام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ جمہوری اور سماجی دونوں مسائل کو اکٹھے حل کرنے پر یقین رکھتا ہو – سماج مطالبات کو جمہوری مطالبوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان جمہوری مطالبات کے تابع رکھا جاسکتا ہے بلکہ وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں
فرانسیسی مارکسی دانشور نے ایک مرتبہ لکھا تھا
آئیں ہم یہ دیکھیں کہ عظیم ترین مارکسی نظریہ سازوں نے بورژوا رجیم / سرمایہ دارانہ حکومت کی سیاسی ساخت کی تشریح اس موقف سے جانچنے کی کوشش سے نہیں کی جوکہ وہ بوژوا رجیم خارجہ پالیسی کے میدان میں رکھتا ہے بلکہ انھوں نے تو اس کی سیاسی ساخت کی تشریخ اس موقف کی روشنی میں کی جو کہ یہ اس قوم کی طبقاتی ترکیب میں اپنے رشتے کی مناسبت سے رکھتا ہے
جوزف ڈاہر کے خیال میں شامی انقلاب کے پروسس کی جڑیں جمہوریت کا نا ہونا اور نیو لبرل پالیسیوں کی وجہ سے سماجی بے انصافی میں اضافے کے اندر پیوست ہیں اور خاص طور یہ پالسیاں بشار الاسد کے 2010ء میں اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تیزی سے نافذ کی گئیں
حافظ الاسد جب اقتدار میں آیا تو شام کے اندر ایک نئے دور کا آغاز ہوا جہاں پر مقبول عوامی تنظیمیں بشمول ٹریڈ یونین سے لیکر پروفیشنل ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں تک زبردست جبر کے بعد حکومت کے کنٹرول میں آگئیں ، ڈاکٹرز ، وکلاء ، انجنئیرز اور فارما سیوٹکیلز کی تنظیموں کو 1980ء میں تحلیل کردیا گيا تھا اور یہ وہ مرکزی تنظیمیں تھیں جوکہ جمہوری آزادیوں کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں اور ایمرجنسی اٹھانے کے لیے کوشاں تھیں -ان کی دوبارہ تشکیل نو کی گئی اور ان کے مقبول لیڈروں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی لیڈر لائے گئے
حافظ الاسد نے سکول سسٹم میں بنیادی طور پر ان اساتذہ کو نشانہ بنایا جوکہ 1970ء کی دھائی میں لیفٹ کے مختلف رجحانات سے تعلق رکھتے تھے اور تیزی سے مذھبی بنیاد پرستوں کو ترقی پانے دیا گیا – آزاد دانشور جیسے ماغيکل کائلو ، واحدی اسکندر ، یونیورسٹی استاذہ بشمول رفعت سیوفی ،آصف شاہیں حکومت کے ناقدوں کو بھی نشانہ بنایا کيا
جامعات کے کیمپسز کو بھی معاف نہیں کیا گیا ، نہ تو اساتذہ کو بخشا گیا اور نہ ہی طلباء کو – سیکورٹی ایجنسیاں تو طلباء کو لیکچر ہال کے اندر سے یا کیمپس کے اندر سے پکڑ لیتی تھیں اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتی تھیں
بالکل اسی طریقے سے حکومت نے ٹریڈ یونین ورکر کی نوکر شاہی پر اپنا قبضہ کیا اور اسی وجہ سے محنت کشوں کی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں روکاوٹ پیدا ہوئی جن کا آغاز آمر حکومت نے 2000 سے کیا تھا اور ان پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کے رہن سہن کا معیار گرگیا اور سیاسی جبر میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوگیا
یہ ہ بنیادی اسباب تھے جن کی وجہ سے احتجاج کی لہریں اٹھیں اور ان سالوں میں احتجاج جس شئے کے گرد گھومتے رہے وہ معشیت تھی – مثال کے طور مئی 2006ء میں دمشق میں ایک تعمیراتی کمپنی کے خلاف سینکڑوں مزدوروں نے اس کے دفتر کے سامنے احتجاج منظم کیا اور اس کا تصادم سیکورٹی فورسز سے ہوگیا اور یہ وہی وقت تھا جب الیپو میں ٹیکسی ڈرائيور نے بھی ہڑتال کردی تھی
حال ہی میں شام عوام پر ہونے والے جبر کے دوران ٹریڈ یونینز خاموش رہیں ، یہاں تک کہ اگر محنت کشوں پرربھی جبر ہوا اور خود ٹریڈ یونین نشانہ بنی تو بھی یہ غیرفعال اور خاموش ہی رہیں -دسمبر 2011ء میں شام کے اندر کامیاب عام ہڑتاليں اور سول نافرمانی کی تحریکوں نے پورا ملک مفلوج کردیا تھا اس سے محنت کش طبقے کی طرف سے احتجاجی سرگرمیوں کا لیول پتہ چلتا ہے جوکہ اصل میں شامی انقلاب کی جان ہیں
جبر کا سامنا ان تمام سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا پڑا تھا جنھوں نے حافظ الاسد کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا اور جس نے نیشنل پروگریسو فرنٹ کی چھتری تلے آنے سے انکار کیا اسے کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی کرنے کی اجازت نہ ملی ، ان سیاسی جماعتوں کو حکومت کی جانب سے اتنے ہی سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا جتنا ان پر اخوان المسلمون نے کیا تھا – حکومتی جبر کا 70ء سے نشانہ سیکولر سیاسی جماعتیں بنتی آرہی تھیں جن میں فروری 23 تحریک بعث پارٹی کا ریڈیکل گروپ جوکہ صالح الجدید کے قریب تھا ، لیگ اف کمیونسٹ ایکشن جس کے اکثر ممبران علوی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے اور زرا کم پیمانے پر جبر کا نشانہ بننے والی ریاض ترک کی کمیونسٹ پارٹی پولیٹکل بیورو شامل تھیں – نیشنل اسمبلی جس میں کئی لیفٹسٹ پارٹیاں شامل تھیں 80ء کے آغاز میں زبردست جبر کا نشانہ بنی تھیں
سن 2000ء میں بشار الاسد کے اقتدار سنبھالنے تک دانشوروں ، آرٹسٹوں ، لکھاریوں ، سکالرز اور یہاں تک کہ سیاست دانوں کی حزب مخالف کی تحریک جوکہ 2000ء سے 2006ء تک اصلاحات اور جمہوری آزادیوں کا مطالبہ کررہی تھی کو سیکورٹی اداروں نے بری طرح سے دبایا – حزب مخالف کی اس تحریک کے ساتھ ساتھ بہت سے مبحاثاتی فورم بھی کھل گئے تھے ، 2004ء سے 2006ء کے درمیان متعدد دھرنے بھی سامنے آئے جوکہ شام میں ایک نیا سیاسی عمل متعارف ہوا تھا – دھرنوں کی کال سیاسی جماعتوں اور شہری تنظیموں کی جانب سے ایک ہی وقت میں سامنے آئی – بشار الاسد کی حکومت نے ان دھنروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ، فورم بند کردئے گئے ، دھرنوں کو سختی سے کچلا گیا اور جن دانشوروں نے سول سوسائٹی اور جمہوریت سازی کی کال دی تھی کو جیلوں میں بند کردیا گیا – اور اسی دوران کردوں کی انتفاضہ کو بھی 2004ء میں سختی سے کچل دیا گيا
شام کے سماج کو بشار الاسد کی حکومت کے مختلف کل پرزوں نے تیزی سے اپنے کنٹرول میں لینا شروع کردیا اور یہ صرف بعث پارٹی تھی جس کو سیاست کرنے ، جلسے جلوس کرنے اور سیاسی تقریبات کرنے کی آزادی تھی ، لیکچرز اور مظاہرے یونورسٹی کے کیمپس اور ملٹری بیرکوں میں کرنا صرف بعث پارٹی کا حق تھا اور اخبارات کو شایع کرنا اور تقسیم کرنا بھی بعث پارٹی کا حق تھا- یہاں تک کہ نیشنل پروگریسو فرنٹ مں شامل دیگر سیاسی جماعتیں اپنا پروگرام آزادانہ طور پر منعقد نہیں کرسکتیں تھیں بعث پارٹی نے بعض کارپوریٹ سیکٹرز پر بھی اجارہ قائم کرکھا تھا – اور بہت سے سوشل سیکٹرز بھی ان کے قبضے میں تھے جہاں عورتوں ، نوجوانوں اور کسانوں کو اکٹھا کرکے اپنی حکومت کی عوامی بنیادیں ظاہر کرنے کا ڈرامہ ہوتا تھا
سماجی انصاف شام کی مقبول عوامی تحریک کا سب سے زیادہ بنیادی مطالبہ بن چکا ہے – اس میں حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ شامی انقلابی تحریک کا سب سے بڑا سیکشن معاشی طور پر پسے ہوئے دیہی اور شہری محنت کشوں اور مڈل کیلاس کی ان پرتوں پر مشتمل ہے جوکہ بشار الاسد کی تیزی کے ساتھ نافذ کی ہوئی نیولبرل پالیسیوں کے نفاز کا تجربہ اس کے اقتدار میں آنے کے وقت سے کررہے ہیں
یہ پالیساں ایک چھوٹی سے اشرافیہ اور ان کے کلائنٹس کو فائدہ پہنچارہی ہیں – رامی مخلوف بشار الاسد کا کزن بشار الاسد حکومت کے اس مافیا سٹائل نجکاری پروسس کو چلارہا ہے
نجکاری کے اس پروسس نے نئی اجارہ داریاں پیدا کی ہیں جن کے مالک بشارالاسد کے رشتہ دار ہیں جبکہ اشیاء کے معیار اور سروسز کی فراہمی کا معیار گرچکا ہے – ان اقتصادی اصلاحات نے معشیت کو صرف و صرف امیروں اور طاقت وروں کی خدمت پر مامور کردیا ہے – سرکاری اداروں کی نجکاری کا پروسس ایسے طریقے سے چلایا گیا کہ اس کا فائدہ حکومت کے قریب لوگوں نے اٹھایا – اور اسی دوران فنانشل سیکٹر نے نجی بینکوں ، انشورنس کمپنیوں ، دمشق سٹاک ایکسچینج کمپنیوں اور منی ایکسچینج بیورو کی اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنے بندے داخل کئے
حکومت کی جانب سے نافذ کردہ نیولبرل پالسیوں کی وجہ سے بالائی طبقہ اور غیر ملکی سرمایہ کار خاص طور پر عرب ملکوں کے سرمایہ کار مطمئن ہوگئے اور شامی معشیت کی لبرلائزیشن کا انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا جبکہ شامی عوام کی اکثریت کو افراط زر اور مہنگے طرز زندگی کا بوجھ اٹھانا پڑا
اس کے علاوہ شام میں زراعت اور پبلک سیکٹر کے سکڑنے کی وجہ سے اور ان کو مستحکم نہ کرنے کی کوئی مضبوط پالیسی نہ ہونے کے سبب ملک کا پہلے سے کمزور ریاستی ، سماجی تحفظ فراہم کرنے والا ڈھانچہ اور شکست و ریخت کا شکار ہوا اور خوراک اور نان فوڈ بنیادی ضرورت کی اشیاء میں اضاقے کا خمیازہ بھی غریب عوام کو بھگتنا پڑا
معشیت کی لبرلائزیشن کے پروسس نے شام کے اندر عدم مساوات کو بڑھادیا – غریبوں کو نئی طرز کی معشیت میں جینا مشکل تھا تو متوسط طبقہ تیزی سے ئربت کی لیکر کی طرف بڑھ رہا تھتا ، کیونکہ ان کی آمدنی اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی تھی جس رفتار سے افراط زر بڑھ رہا تھا جوکہ 2008ء میں 17 فیصد تک جاپہنچا تھا
اب وہاں شام میں 20-25 فیصد بے روزگاری ہے ، جبکہ شام کی کل آبادی میں 25 سال کی عمر کے نوجوان 55 فیصد اور 30 تک کے نوجوان 65 فیصد ہیں -2010 ء تک شام میں غربت کی شرح 33 فیصد ہوچکی تھی اور یہ 70 لاکھ کی تعداد بنتی ہے
لاکھوں کسانوں کی شمال مشرق میں اپنی زمینوں سے محرومی جوکہ قحط سے ہوئی کو قدرتی آفات نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ايگرو بزنس کی جانب سے زمین کا بہت زیادہ استعمال بشمول مقامی انۃطامیہ کی جانب سے غیر قانونی پانی کے کنویں ڈرل کرنے نے بھی زراعت کے بحران کو بڑھایا ہے
بڑے کمرشل زمینداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر زمینوں کی کاشت ، چراگآہوں کے لیے مختص زمینوں پر فصلوں کی کاشت اور بڑے پیمانے پر پانی چوری کرنے کے لیے غیرقانونی پائپ نے زرعی زمینوں کی خشک سالی کو بڑھایا اور 2010 میں اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ لوگ شمال مشرقی شامی علاقے سے جبری طور پر شہری مراکز کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے
شام میں جب بہار عرب کا آغاز ہوا تو اس میں عدلیب ، دیرا اور دمشق کے و الیپو کے دیہاتی علاقون سے بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور یہ علاقے بعث پارٹی کے قلعے تصور ہوا کرتے تھے اور 1980ء میں جب بڑے پیمانے پر تحریک کھڑی ہوئی تھی تو اس وقت ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگ کھڑے نہیں ہوئے تھے ، اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ شام کی حکومت کی نیولبرل پالسیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر بشار الاسد کی حکومت کو ان علاقوں میں بھی غیر مقبول کیا جہاں پر اس کے حامی کثرت میں تھے اور اس علاقے کے لوگوں کی اکثریت نے آزاد شامی فوج میں بھی شرکت کی تھی
عاشور ، اجتماعی شعور ، دیومالائیت اور سلفی وہابی دیوبندی پیورٹن
اجتماعی شعور میں دیومالائیت کا کردار
by Aamir Hussaini
ابھی کل کی بات ہے کہ میں محرم کی مناسبت سے اپنی کچھ یادوں کو ترتیب دے کر ایک رپورتاژ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ مجھے علامہ ایاز نظامی کا ایک ٹوئٹ پڑھنے کو ملا ، جس میں انھوں نے عزاداری کو ایک وحشیانہ اور تہذیب سے عاری فعل قرار دے ڈالا اور ایک بہت ہی معلوماتی گروپ ہے فری تھنکررز جہاں پر تاریخ میں مذھبی روایات ، الہامی کتب اور دیگر مقدس کتابوں کے متن پر بحث کی جاتی ہے اور اکثر اوقات مذھب سے ٹریٹمنٹ خاصی معاندانہ بھی ہوجاتی ہے اور ایسے لگنے لگتا ہے جیسے ایک جنگ مذھب کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے ، اس گروپ میں زیادہ تر لوگ اسلام کو ترک کرکے الحاد کی جانب آئے ہیں تو اسلام اور اس کے مختلف مکاتب فکر ہی زیادہ تر اس معاندانہ مہم کی زد میں آتے ہیں
علامہ ایاز نظامی دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک مدرسے میں بقول ان کے پڑھتے رہے اور وہیں سے وہ آخرکار ملحد ہوگئے ، ان کی تحریریں جب میں نے پڑھنا شروع کیں تو مجھے ایسے لگا جیسے میں علامہ تمنا عمادی ، مولانا اسد ، غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر داؤد اور محمود عباسی اور ان کے شاگردوں کی مجلس میں آگیا ہوں اور مجھے فری تھنکر گروپ اس فکر کی لہر کو ازسر نو زندگی بخشنے والا لگا جوکہ ہمارے ہاں کبھی کالج ، یونیورسٹی کے اندر عقلیت پسندوں کی شکل میں سامنے آیا تھا اور یہ رجحان مصر سے چلا تھا جہاں پر طہ حسین ، ڈاکٹر امین مصری سمیت ایک بہت بڑا مکتبہ فکر ایسا سامنے آیا تھا جس نے پہلے تو حدیث ، تاریخ اور مسلم تاریخ کے اکثر کرداروں اور واقعات کو غیر مستند ، فرضی ، قصّے کہانیاں کہہ کر رد کردیا تھا اور پھر ان میں سے کچھ اس سے بھی آگے گئے اور انھوں نے خود قرآن کے متن کو بھی دیگر کتابوں سے ماخوذ قرار دے ڈالا تھا
مسلم متداول تاریخ اور کتب حدیث کی صحت بارے مستشرقین نے بھی خاصے تشکیک بھرے مواد کو پھیلایا اور ان کا بھی اثر اس عقلیت پسند گروپ پر پڑا ،پاکستان کے اندر اس مہم سے سب سے زیادہ دیوبندی اور وہابی پس منظر رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے اور انھوں نے اس فکر کو باقاعدہ منضبط کرنا شروع کیا – دیوبند میں مولوی عبداللہ چکڑالوی ، مولوی حسین بھچرواں ، مولوی غلام اللہ خان بانی جامعہ تعلیمات قرآن راولپنڈی ، تمنّا عمادی ، محمود عباسی سمیت بہت سارے لوگ اسی فکری لہر سے وابستہ تھے ، ایک اور بات جو اس نام نہاد عقلیت پسند گروپ میں مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے جہاں تصوف سے جڑے کلچر کو اور اس سے پیدا ہونے والے تنوع کو عجمی قرار دیکر مسترد کیا ، وہیں ان کی جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، اور دیگر آئمہ اہل بیت کی جانب بھی سخت معاندت دیکھنے کو ملی اور ان کے ہاں بنو امیہ کو ترجیح دینے کا رجحان بھی طاقتور نظر آیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں معرکہ کربلاء کو جھٹلانے ، یزید کی حمائت کرنے ، اس کے لیے جواز تلاش کرنے کا رجحان بھی بہت طاقتور نظر آیا
میں ایسے مارکسسٹوں سے بھی ملا جوکہ قرون وسطی کی مسلم تاریخ میں علی اور معاویہ کی لڑائی کو قبائلی جمہوریت بمقابلہ ملوکیت کے تناظر میں دیکھتے اور یہ ثابت کرتے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے قـبائلی جمہوری نظام مسلم دنیا میں چل نہیں سکتا تھا اور اس کی جگہ ملوکیت نے لی جو اس سے زیادہ ترقی پسند تھا اور وہ بنو امیہ والوں کو زیادہ ترقی پسند قرار دیتے اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ایک رجعتی اور ازکار رفتہ نظام کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا قرار دیتے اور آپ کی سیاست کو ناکام سیاست بھی کہتے تھے
اس لیے مجھے اس وقت بھی حیرانی نہ ہوئی جب ایک مرتبہ پھر محمود عباسی کی کربلا کے قصّے کو جھوٹ قرار دینے والی تحقیق کو پھر سے زندہ کیا گیا ، یہ کتاب جنرل ضیاء الحق کے دور میں شایع ہوئی اور پھر جب اس پر شدید احتجاج ہو تو اس پر پابندی لگ گئی ،محمود عباسی جو کہ کٹر دیوبندی اور مماتی دیوبندی گروپ کہلاتے تھے جوکہ برزخی حیات کے قآئل نہ تھے نے واقعہ کربلا کو سرے سے جھوٹ قرار دیا ، انھوں نے تین دن بھوکے ، پیاسے رہنے کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ بھی کہا کہ حسین اصل میں عراق آئے ہی نہیں تھے اور محمود عباسی سے جتنے بھی لوگ ملے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ محمود عباسی کو نہ صرف حسین سے چڑ تھی بلکہ پوری آل ابی طالب سے اسے کوئي اللہ واسطے کا بیر تھا اگر اس کے بیر اور دشمنی کی کہانی کا احوال پڑھنا ہو تو مولانا صائم چشتی کی کتاب ” ایمان ابی طالب ” کی دو جلدیں پڑھنا کافی ہوں گی
اسی کی دھائی میں محمود عباسی ، تمنّا عمادی اور مولوی طاہر کی تحریروں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت المعروف بریلویوں کو بھی میدان میں اترنا پڑا اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا ، وہ وہابی و دیوبندی جو تاریخ اسلام کے ہر اس واقعے اور قصّہ کو رد کئے جانے پر بہت خوش تھے جس سے بنو امیہ پر زد آتی تھی جب معاملہ صحاح ستّہ اور نفس حدیث تک جاپہنچا تو پھر ان کو ہوش آنے لگا اور ان سے اظہار برآت بھی کرنے کی فکر پڑی ، یہ معاملہ یہاں میرا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس زمانے کے اندر اس موضوع پر بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں اور دوبارہ غائب ہوگئیں
آج پھر ایسی کوششیں ہورہی ہیں اور الحاد کے نام پر ایسی کوششیں کرنے والوں کی جانب سے بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں کسی مذھب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، نہ ہی وہ کسی فرقے کے اثبات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ کہتے بھی ٹھیک ہیں لیکن مسئلہ ان کے لاشعور میں جاگزیں اس نفرت اور اس نفی کی شدت کا ہے جو وہ کبھی عقلیت پسندی اور اصول درائت کے نام پر شیعت ، تصوف اور تاریخ اسلام سے ابھرنے والے کلچر کو ایرانی ، مجوسی اور نہ جانے کیا کیا بنیاد دیکر روا رکھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کہوہ ملحد ہوگئے اور مذھب کی اساس کے انکاری ہیں لیکن وہ مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا میں کلچر ، تہذیب کے سوال کو سیکولر انداز سے لینے اور ہمارے ہاں محرم ، عید میلاد النبی ، شب برآت ، عرس ، میلے ٹھیلے اور ان سے جڑی رسموں ، رواجوں اور کلچرل رنگا رنگی کو اس طرح سے لینے کو تیار نظر نہیں آتے جیسے وہ دیوالی کو لیتے ہیں ، کرسمس کو لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیوبندی تکفیری عزاداری کو فرقہ پرستانہ بنیادوں پر بند کرانا چاہتا ہے اور وہ عاشور کے جلوس کو چاردیواری میں قید کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو ایاز نظامی اور ان کے جیسے اور بہت سارے لوگ جو ملحد ، سیکولر ، لبرل ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان چیزوں کو وحشیانہ ، تہذیب سے عاری ، معاشی ترقی میں روکاوٹ قرار دیکر ان کو چاردیواری میں قید کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مجھے ان کی یہ تنقید بربنائے عقلیت پرستی ، الحادیت کی بجائے ان کے لاشعور میں بیٹھی نفرت پر مبنی لگتی ہے جو انھوں نے شعیت ، بریلویت اور صوفی اسلام وغیرہ کو اسلام میں ایک اجنبی ، ایرانی ، عجمی سازش قرار دینے والے دنوں میں گزارا اور اس کا آظہار ایسے ہی وہ اب الحادیت ، سیکولر ازم اور روشن خیالی کے نام پر کرتے ہیں
پاک و ہند کے عظیم اور بڑے روشن خیال اشتراکی ، لبرل ، ترقی پسندوں کا یہ وتیرہ کبھی نہیں رہا ہے – سب کو معلوم ہے کہ فیض احمد فیض ، صفدر میر ، دادا فیروز الدین منصور ، کامریڈ احسان اللہی قربان یہ لاہور میں ایام محرم میں حویلی نثار لاہور آیا کرتے تھے اور جبکہ نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں میں شریک بھی ہوتے تھے ، ان سے جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اسے کلچرل معاملہ قرار دیتے تھے اور یہی حال سجاد ظہیر ، سبط حسن ، مظفر علی ، احمد علی ، آپا رشید جہاں ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، دادا امیر حیدر ، کامریڈ ڈانگے وغیرہ کا تھا اور آج بھی سی پی آئی مارکسسٹ اور سی پی آئی ، سماج واد پارٹی وغیرہ کے کامریڈ عید ، عاشور ، شب برآت ، دیوالی اور دیگر تہواروں ، عرس خواجہ اجیمر جشتی ، خاجہ نظام الدین اولیاء وغیرہ میں شرکت کرتے ہیں اور اسے ہندوستانی کلچر کی سیکولر بنیادوں کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں اور انھوں نے کبھی کوئی سیکولر وہابیانہ ، پیورٹن تحریک ان سب کے خاتمے کے لیے نہیں چلائی اور نہ ہی کبھی عقلی ، سائنسی اور مذھبی بنیادوں سے ان کلچرل ریتوں اور معاشرے میں پائی جانے والی مائتھولوجی کو رفیوٹ یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کلچر کی طرف ایس طرح سے اپروچ کرنا ایک اور طرح کی بنیاد پرستی ہے اور اس کا فری تھنکنگ ، آزاد خیالی سے رشتہ کم اور اپنے لاشعور میں بیٹھی نفرت کا اظہار زیادہ ہے
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جیسے مغرب میں وہابی – دیوبندی فاشزم کے ردعمل میں اسلامو فوبیا سامنے آیا ہے ، ایسے ہی ہمارے ہاں بھی شیعہ فوبیا بہت پایا جاتا ہے اور شیعہ فوب صرف مذھب پرستوں میں ہی نہیں پائے جاتے یہ ملحدوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی مائتھولوجیکل عقلیت پسندی کے راستے سے اپنے شیعہ فوبیا کا اظہار کرتے ہیں
مجھے کلچرل لہروں کے سفر میں محرم کی وہ راتیں یاد ہیں جب حویلی نثار میں اہل تشیع کم اور اہل سنت کے نوجوان مرد و عورتیں زیادہ نظر آتی تھیں اور کراچی میں بھی یہی معاملہ تھا اور آج بھی اگرچہ پہلے سے زرا کم یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک مائتھولوجیکل لہر اپنے کلچر میں رواں دواں نظر آتی تھی جس کا اثر اب پاکستان میں مسلسل پھیلنے والے شیعہ و تصوف فوبیا کی وجہ سے کم ہوتا نظر آتا ہے
میں اس حوالے سے خاصا پریشان تھا اور اس دوران یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس حوالے سے جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش ہو تو ایسے بہت سے لوگ آن لائن موجود ہیں جو فوری طور پر آپ کو فرقہ پرست ، رجعتی اور نہ جانے کیا کچھ کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں
پاکستان میں شیعہ نسل کشی ، شیعہ فوبیا ، صوفی سنّیوں اور تصوف سے ابھرنے والے کلچرل مقامات پر حملے ایک حقیقت ہیں لیکن ایسے ٹھگ موجود ہیں جو ایک طرف تو اسے دو فرقوں کی باہمی جنگ بناکر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان حملوں کے زمہ دار دیوبندی وہابی تنظیموں کے لیے جواز ڈھونڈتے ہوئے فرضی طور پر شیعہ اور صوفی سنّی ملیشیاؤں کا وجود پاکستان میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ردعمل میں شیعہ کے اندر یا صوفی سنیوں میں انفرادی طور پر غیر منظم تشدد اور دھشت کے اظہار اور مظاہرے کا انکار پاکستان میں نہیں کرتا لیکن اس انفرادی اور انتہائی شاز و نادر و انتہائی غیر منظم اطءار دھشت و انتہا پسندی کو اگر وہابی – دیوبندی تکفیری فسطائی منظم دھشت گردی اور نسل کشی کرنے کے فعل کے برابر ٹھہرایا جائے تو یہ سوائے شیعہ فوبیا کے شکار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
خیر یہ سب تو چلتا ہی رہے گا ، واقعہ کربلا اور شہادت حسین یہ سب ایک مائتھولوجی کے طور پر جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ کے معاشروں اور سماج کا حصّہ بن گئے ہیں اور یہ جو محرم ، عاشور کے بارے میں ہمارے معاشرے کی اکثریت دیومالائی انداز میں سوچتی اور عمل کرتی ہے تو یہ دیومالائی طرز فکر مائتھولوجیکل تھنکنگ صرف ہم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایرانیوں اور عربوں دونوں کے بارے میں سچ ہے
میں اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے میرے ایک لبنان سے تعلق رکھنے والے دوست راحیل دنداش نے اپنا ایک مضمون بھیجا جوکہ عراق کے معروف ماہر تاریخ و آثار قدیمہ خزعل الماجدی کے عرب دیومالائیت کے بارے میں تھا اور یہ میل مجھے اس وقت ملی جب میں محرم ، عاشور ، واقعہ کربلا اور خانوادہ اہل بیت کے بارے میں مسلمانوں ، ہندؤں ، عیسائیوں اور یہاں تک کہ کسی مذھب کے نہ ماننے والوں کے اندر پائی جانے والی دیومالائی رومانویت اور عقیدت بارے سوچ رہا تھا
مجھے خیال آیا کہ مین جب طالب علم تھا اور مارکسی اسٹڈی اسکول لیا کرتا تھا تو ہمارے چند سنئیر کامریڈ کہتے تھے کہ
شیعہ خدا کا انکاری ہوجائے ، مذھب ترک بھی کردے اور کمیونسٹ ہوجائے لیکن وہ علی و خانوادہ اہل بیت کا انکاری نہیں ہوتا ، اس اعتبار سے رہتا شیعہ ہی ہے
یہ بات ظاہر ہے ازراہ مذاق کہی جاتی تھی اور جب میں نے اس بات کی گہرائی میں جاکر سوچا اور میرے سامنے فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر ، کیفی اعظمی ، سبط حسن سمیت کئی ایک ترقی پسندوں کے معمولات سامنے آئے اور عاشور و محرم کی رسومات ، مجالس سے ان کا شغف دیکھا اور میرے سامنے اپنے گھر میں کئی ایک پکّے کمیونسٹوں کی مثالیں تھیں جو سرخ سویرا طلوع ہوتے دیکھنے کے خواہش مند تھے ، شیعہ ملّاؤں سے اور ایرانی آیت اللہ سے اتنے ہی بیزار تھے جتنے وہ دوسرے مذھبی ملّاؤں ، پادریوں ، پنڈتوں سے بے زار تھے لیکن عاشور ان کی زندگی میں ایک اہم کلچرل ، ثقافتی ، تہذیبی سرگرمی کا درجہ رکھتا تھا اور علی ، ابو زر ، عمار یاسر ، سلمان فارسی ، حسن ، حسین وغیرہ ان کے ہاں مزاحمت ، بغاوت ، سچائی ، صداقت ، انقلاب کے استعارے تھے اور ظالموں کے خلاف قیام و مقاومت کا روشن چہرہ تھے اور ان کے ہاں یہ کسی فرقے اور کسی مذھب کو سچا اور حقیقی ثابت کرنے کا معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی منصوص من اللہ کی ولایت کو ثابت کرنے کا معاملہ تھا بلکہ اس کی دو جہتیں تھیں کہ ایک جہت ثقافتی و تہذیبی دیومالائی اور دوسری اس کی استعاراتی ، تشبہاتی حثیت تھی اور پہلی حثیت میں ان کو یہ کٹھ ملائیت اور پیورٹن ازم جسے ہم وہابیت کہہ سکتے ہیں اور اسے ہم مذھبی پیشوائیت یعنی تھیوکریسی بھی کہہ سکتے ہیں کے خلاف ایک مضبوط میڈیم لگتی تھی جوکہ یہ ہے بھی اور دوسری حثیت میں یہ ان کو استحصال ، ظلم ، جبر ، کے نوآبادیاتی ، سرمایہ دارانہ ، سامراجی ضابطوں کے خلاف مدد دینے والے استعارے اور تشبیات لگتی تھیں اور انھوں نے اس سے کام بھی لیا
راحیل دنداش کی میل نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کی عاشور ، محرم ، علی ، حسین کے ساتھ ٹریمنٹ اور برتاؤ یاد کرایا اور ان لیکچر ” علی ایک دیومالائی سچ ” میرے سامنے آگیا اور مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے میں تہران یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ان دو لاکھ ایرانی طلباء و ظالبات کے ساتھ موجود ہوں جن کے سامنے عاشور کے ایام میں شریعتی نے یہ لیکچر دیا تھا اور پھر یہی لیکچر شہادت علی کے موقعہ پر شریعتی نے جامعہ حسینیہ ارشاد میں دیا تھا اور دونوں جگہوں پر مجھے ایرانی کمیونسٹ پارٹی یعنی تودے پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد بھی نظر آرہی ہے اور ان دنوں تودے پارٹی کا طلباء ونگ تہران یونیورسٹی کے کمیپس پر چھایا ہوا تھا اور ان کا عاشور کے بارے میں برتاؤ ، شعور ، رویہ یقینا وہ نہیں تھا جو آیت اللہ خمینی ، مرتضی مطہری ، بہشتی کے ماننے والوں کا تھا لیکن دونوں عاشور کو ایک رجعت پرست ، تہذیب سے عاری اور وحشیانہ شئے خیال ہرگز نہیں کرتے تھے
خزعل ماجدی کے حوالے سے لکھے آرٹیکل میں راحیل نداش نے بات یہاں سے شروع کی ہے کہ عرب سماج میں دیومالائی طرز پر سوچنا ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے
اور اس کے خیال میں یہ بات صرف عرب سماج کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کے سماجوں کے بارے مین درست ہے – بلکہ وہ کہتا ہے کہ پوری دنیا مین لوگوں کی اکثریت کا شعور اور بیداری کا انحصار مائتھولوجی پر ہے اور اس کی وجہ و سبب کو کئی طریقوں سے واضح کیا جاسکتا ہے -اور وہ اس حوالے سے خزعل الماجدی عراقی ماہر تاریخ کے خیالات پیش کرتا ہے ، جس نے بہت تحقیق اور عالمانہ انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ دیومالائیت کا عربوں کے اجتماعی شعور میں بہت ہی اہم کردار ہے
خزعل ماجدی کہتا ہے کہ دیوملائیت کلچر اور تہذیب کے دھاروں کی جان ہوتی ہے اور دیومالائی کہانیاں ، ان سے ابھرنے والی رسومات اور خیالات کسی بھی سماج کی ثقافتی بنت کاری میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کے خيال میں جب کسی مذھب کے نام پر کوئی پیورٹن تحریک جس میں وہ وہابیت ، سلفیت کی مثال دیتا ہے جب اس دیومالائی کہانیوں اور اس سے جنم لینے والی رسومات اور طور تحریکوں کو اس مذھب سے اور اسی بنیاد پر اس سماج کے کلچر ، تہذیب سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر تباہی ، بربادی سامنے آتی ہے اور اس طرح سے کسی طرح کی سچائی سامنے آنے کی بجائے ایک اور طرح کی دیومالائیت ، مائتھولوجیکل وے آف تھنکنگ سامنے آجااتا ہے اور وہ طرز فکر خزعل الماجدی کی ںظر میں آج عرب معاشروں کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے
خزعل الماجدی کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے سلفی وہابی تحریک کی شکل میں آج بھی قرون وسطی کے ایک نئی دیومالائیت کے ساتھ رہنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سماجوں کی جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بن چکی ہے اور یہ ترقی نہ کرنے اور سائنسی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہونے کا اظہار بھی ہے
ماجدی کہتا ہے کہ اس طرح کی سلفیت کی سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ قرون وسطی سے ایسے مائتھ اور لیجنڈ ماضی کے اندھیری غاروں سے نکال کر لاتی ہے اور ان کو اجتماعی شعور کا حصّہ بناتی ہے کہ وہ سب کے سب استعاراتی شکل میں ایسے نعروں اور تمثیلوں میں دھل جاتے ہیں جن سے دھشت گردی کو ایندھن ملتا ہے ، تصادم ظہور پذیر ہوتا ہے ، خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر یہ استعاراتی عمل خدا کے نام پر اور مقدس علامتوں کے زریعے کیا جاتا ہے
خزعل الماجدی کہتا ہے کہ سلفیت عرب معاشروں کی ثقافتی روح میں رواں دواں مائیتھولوجی اور اس سے ابھرنے والی رسوم اور طریقوں کو شرک ، بدعت قرار دیکر ان کی جگہ جو مقدس علامتیں مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے ان علامتوں نے پھر کار بم ، مذھبی وہابی دیوبندی دھشت گرد گروپوں ، اکثر چئیرٹی ، خیراتی اداروں ، نعروں ، علامتوں ، بینرز اور شہادت فی سبیل اللہ کے نعرے ہی ان نئی دیومالائیت کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور خزعل یہ بھی کہتا ہے کہ مائتھولوجی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانےکا رجحان توحیدی مذاہب میں پایا جاتا ہے اور پیورٹن جیسے ہمارے سلفی ہیں وہ اس کو بالکل ہی ختم کرنے کے درپے ہیں ہوتے ہیں اور مدنیت یعنی شہری زندگی کی چکاچوند کو وہ واپس بدویانہ دور میں لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کے بطن سے انارکی جنم لیتی ہے
کلچر کو خشک ملائیت اور اس کی انتہائی شکل وہابیت- دیوبندیت اور اس سے جنم لینے والی تکفیریت سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان کی بدترین شکلیں مڈل ایسٹ کے اندر نظر آرہی ہیں
خالد احمد اور ان کی کتاب ” فرقہ وارانہ جنگ ” – خالد احمد کہاں غلط ہیں ؟
by Aamir Hussaini
خالد احمد جوکہ پاکستان کے ایک نمایاں انگریزی میں لکھنے والے سیکولر ، لبرل کالمسٹ شمار ہوتے ہیں ، انھوں نے ایک کتاب ” فرقہ وارانہ جنگ – پاکستان کی شیعہ – سنّی لڑائی اور اس کے مڈل ایسٹ سے رشتے ” لکھی ہے
یہ کتاب خالد احمد نے ووڈرو ولسن سنٹر جوکہ واشنگٹن میں کامیاب ایک امریکی تھنک ٹینک ہے میں اپنے قیام کے دوران لکھی اور ان کا یہ قیام 2006ء میں تھا اس وقت اس سنٹر کے ڈائریکٹر لی ایچ ہملٹن تھے جنھون نے 2006ء میں ” عراق اسٹڈی گروپ رپورٹ ” مرتب کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی کی تھی جبکہ لی ایچ ہملٹن آج کل ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزی کونسل آف امریکہ کا رکن ہے ، اس سے پہلے وہ امریکی ایوان نمائیندگان کا رکن بھی رہا اور اسی طرح اس کے پاس امریکی سینٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی اور فارن ریلیشن کمیٹی کی سربراہی بھی رہی اور وہ نائن الیون کے حوالے سے بننے والے امریکی تحقیقاتی کمیشن کا رکن بھی تھا ، سیاسی طور پر وہ امریکی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اوبامہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے
جبکہ لی ایچ ہملٹن کے خیالات جو ان کی تحریروں سے مترشح ہوتے ہیں وہ ایران کے حوالے سے خاصے متعصب ہیں اور لی ایچ ہملٹن مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھشت گردی کا بنیادی سبب انیس سو اناسی میں ایران میں آنے والے انقلاب اور آیت اللہ خمینی کے برسراقتدار آنے کو ٹھہراتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہی خیالات خالد احمد کی کتاب کے مسودے پر نظرثانی کرنے والی سابق امریکی سفیر اور اس وقت ووڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ ایچ میتھوے کے بھی ہیں
خالد احمد بھی اپنی کتاب کا جب آغاز کرتے ہیں تو وہ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص فرقہ وارانہ تناؤ اور دھشت گردی کے ظہور کا سب سے بنیادی سبب ایرانی انقلاب کو قرار دیتے ہیں
مجھے اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ کتاب ایک غیر جانبدارانہ ، معروضی بنیادوں سے زیادہ اور ایک پاکستانی کے تناظر سے کہیں زیادہ امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر کے تناظر میں اور امریکہ کے مڈل ایسٹ پر بنے ہوئے خارجہ و سیکورٹی پالیسی بیانات کی روشنی میں لکھی گئی ہے
خالد احمد نے اپنی اس کتاب میں پاکستان اور مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ تنازعہ کو نظری اور سماجی -معاشی ، سماجی – سیاسی دونوں طرح سے دیکھنے کی جو کوشش کی ہے وہ مجھے امریکہ کے اندر اس لابی کے زیادہ زیر اثر لگتا ہے جو اس سارے معاملے کو ایران – سعودیہ جیو پالیٹکل سیاسی مفادات کے ٹکراؤ اور نظری طور پر اسے شعیہ – سنّی جنگ کی عمومی اصطلاح میں بیان کرکے دیکھنے پر زیادہ زور دیتی ہے
اگرچہ خالد احمد پاکستان میں شیعہ – سنّی تنازعہ پر بات کرتے ہوئے اسے دیوبندی – شیعہ لڑائی کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں لیکن وہ اس ایشو کو اپنے آخری نتیجے میں سعودی عرب – ایران لڑائی کے تناظر میں زیادہ دیکھتے ہیں
لی ایچ ہملٹن کا ایک تازہ مضمون امریکی جریدہ فارن پالیسی میں میری نظر سے گزرا ہے جس میں حیران کن طور پر انھوں نے عراق میں حالیہ داعش کے ظہور ، شیعہ – وہابی دیوبندی تکفیری تصادم اور دھشت گردی میں سعودیہ عرب ، وہابی دیوبندی تکفیری نظریات ، عرب وہابی بادشاہتوں کی مداخلت اور ترکی وغیرہ کے کردار کو بالکل ڈسکس نہیں کیا ، انھوں نے مالکی کی متعصبانہ پالیسی اور کاروائی کو تو بحث کا موضوع بنایا لیکن سعودیہ عرب کے کردار کا تذکرہ تک کرنا پسند نہیں کیا اور بلکہ وہ تو مڈل ایسٹ میں عراق والے معاملے پر ڈپلومیسی کی اصطلاح کے ساتھ داعش کو بس کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے نظر آئے نہ کہ اس کے مکمل خاتمے کے حامی نظر آئے
ووڈرو ولسن سنٹر کے مڈل ایسٹ پر میں پالیسی بریف پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ لی ایچ ہملٹن کی ڈائریکٹر شپ اور صدارت کے زمانے میں جوکہ 2010ء تک رہی ووڈرو ولسن ایرانیوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں تھا جبکہ وہ عرب میں وہابی سلفی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جوکہ مصر ، تنزانیہ ، لیبیا میں غالب آتے دکھائی دے رہی تھیں بات چیت اور تعلقات بڑھانے کا حامی دکھائی دیتا تھا اور وہ ان کے لیے وہابی سلفی جماعتوں کی بجائے پولیٹکل اسلامسٹ پارٹیوں کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور عرب ملکوں میں سنّی اسلام میں وہابی اسلام کو سنّی عربوں کی اکثریتی حمائت کا حامل قرار دیتا ہے
خالد احمد کی کتاب میں عرب دنیا میں سنّی حلقوں میں بھی اکثریتی حمائت وہابی پویٹکل اسلام کے ساتھ دکھائی گئی ہے اور سعودیہ عرب کو سنّی اسلام کا علمبردار بتایا گیا ہے
خالد احمد نے 2006ء میں جب یہ کتاب لکھی تھی تو اس زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ امریکہ شاید ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور امریکی سیاسی ، صحافتی حلقون میں ایران کے حوالے سے سخت خیالات بہت زیادہ دیکھے جارہے تھے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے فضاء اس قدر معاندانہ نہیں تھی اور اس خاص فضا کا اثر اس کتاب میں بیان کئے گئے خیالات پر بھی ںظر آتا ہے
مجھے ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف دیکھنے والے بہت سے پاکستانی لبرل ، سیکولر ڈیموکریٹ دانشور ، صحافی اور سول سوسائٹی کے لوگ ابھی تک اسی فضاء میں سانس لے رہے ہیں جبکہ امریکی حکومت اور اس کے تھنک ٹینکس میں مڈل ایسٹ میں ایران اور شیعہ کمیونٹی کے کردار بارے پالیسی خیالات میں آہستہ ، آہستہ تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے اب صورت حال وہ نہیں ہے جو 2006ء میں تھی
پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ، کرسچن ، احمدی ، ہزارہ شیعہ اور ہندؤں کے خلاف دھشت گردی ، انتہا پسندی ، امتیاز اور تعصب جیسے معاملات کی فکری بنیادوں اور ان کی سماجی مادی بنیادوں پر امریکی ، روسی ، سعودی ، ایرانی ، فرانسیسی اور خود پاکستانی ریاست کی آفیشل خارجہ و سیکورٹی پالیسی نظریات سے آزاد اور زیادہ معروضی ، زیادہ غیرجانبدارانہ ریسرچ اور تحقیق پر مبنی کام کی انتہائی کمی ہے اور پاکستان کے اندر جو لبرل ، سیکولر ، جمہوری ہونے کے دعوے دار دانشور ، صحافی ہیں وہ بدقسمتی سے ان اثرات سے خود کو آزاد نہیں کراپارہے
وہابی -دیوبندی فاشسٹ آئیڈیا لوجی جوکہ اس وقت کے سیاسی اسلام اور جہادی اسلام کی بنیاد ہے اس کے تاریخی سماجی اظہار اور مشہود ہونے کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ان اثرات کے غالب ہونے کی وجہ سے اوجھل ہوجاتی ہے اور اس میں شیعہ تو متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن خود سنّی اسلام کا سب سے بڑا صوفی اظہار بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے اور اسے سیاسی ، صحافتی اظہار کے مرکزی دھارے میں بہت کم جگہ ملتی ہے
خالد احمد نے شیعہ کی تکفیر کی تاریخی جڑوں کی تلاش کرتے ہوئے برصغیر میں مغل دور کے اندر خاص طور پر دو شخصیات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور ان میں ایک شیخ احمد سرہندی ہیں اور دوسرے شاہ ولی اللہ ہیں
شیخ احمد سرہندی کو ڈسکس کرتے ہوئے ،خالد احمد دھلی کے ہی ایک اور سنّی عالم جن کو مغل طور میں شیخ احمد سرہندی سے کہیں زیادہ مغل دربار میں اور دھلی اور اس کے گردونواح میں سنّی مسلمانوں کے اندر عزت و احترام اور بلند رتبہ مقام حاصل تھا نظر انداز کرگئے یا ان کو اس کے بارے میں پوری معلومات نہیں تھی
شیخ احمد سرہندی سے تنازعہ صرف شیعہ کا نہیں تھا بلکہ ان کا تنازعہ اس وقت کے چاروں سنّی سلاسل طریقت اور سنّی علماء کی اکثریت کے ساتھ تھا اور شیخ احمد سرہندی کے مقابلے میں اس شخصیت کا دھلی پر اثر زیادہ تھا
یہ شخصیت شیخ عبدالحق محدث دھلوی کی تھی اور انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے نظریات سے اختلاف کیا اور اس وقت کے سنّی صوفی علماء کی اکثریت نے شیخ احمد سرہندی کے خیالات کو مسترد کردیا تھا اور انھوں نے لفظ شیعہ پر کفر کا اطلاق کرنے سے بھی انکار کیا تھا
اس لیے یہ کہنا کہ شیخ احمد سرہندی کے نظریات کو مغلوں کے دور میں مکمل غلبہ سنّی کمیونٹی میں ہوگیا تھا درست نہیں ہے اور اورنگ زیب کے دور میں سنی علما کے اندر تصوف کے خلاف وہابی رجحان اور شیعہ مخالف رجحان کے غالب آنے کے تصور کو خود ہندوستانی مورخین جن میں پروفیسر حبیب ، عرفان حبیب ، ستیش آنندی وغیرہ نے چیلنج بھی کیا ہے اور نظری اعتبار سے سلاطین دھلی کے نظریات اور روش کیا تھی اس پر خلیق انجم نے ضغیم کتاب لکھی جس میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ مغلیہ دور سے قبل کے سلاطین دھلی کے نظریات بھی سیکولر تھے
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پکچر اتنی سادہ نہیں ہے جتنی بناکر دیکھنے کی کوشش خالد احمد نے اس کتاب میں کی ہے اور اس کی وجہ مجھے ان کی رسائی ہندوستان کی تاریخ کے فارسی اور عربی اور جدید ہندوستانی مورخوں کی تحریروں سے دوری بھی نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ خود ووڈرو ولسن سنٹر کی جانب سے تحقیق کا پالیسی پیٹرن بھی نظر آتا ہے
ان ماخذ سے دوری کی وجہ سے خالد احمد نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، شاہ اسماعیل دھلوی اور سیداحمد بریلوی کے نظریات سے متاثر ہونے والے دیوبندی ، وہابی اور جماعت اسلامی کے حامی دانشوروں کی تحقیقات کو ہی ٹھیک مان لیا ہے ، جنھوں نے شاہ ولی اللہ کو شیخ احمد سرہندی کی طرح برصغیر میں شیعہ کی تکفیر پر مبنی نظریہ سازی کا امام قرار دینے کی کوشش کی اور اس باب میں انھوں نے شاہ ولی اللہ کے نام سے کچھ کتابیں تک گھڑ لیں
شاہ ولی اللہ کے بارے میں خالد احمد نے فیوض الحرمین میں ان کے ایک مکاشفہ سے جس میں انھوں نے روح محمدی کے ان کے خواب میں آنے اور ابوبکر و عمر پر علی کو افضلیت نہ دینے کا فرمان جاری کرنے کا واقعہ بیان ہوا ہے کو اس بات کی دلیل بنایا کہ شاہ ولی اللہ شیعہ کی تکفیر کے قائل تھے اور پھر انھوں نے قرۃ العنین نامی کتاب کو ان کی طرف نسبت کو ٹھیک بغیر کسی دلیل سے دے ڈالا جبکہ ان سے شیعہ کی تکفیر تو خود تکفیر کرنے والے دیوبندیوں نے منسوب نہیں کی تھی
شاہ عبدالعزیز نے جب اپنی کتاب ” تحفۃ الشعیہ ” لکھی تھی تو اس میں انھوں نے بہت سی ایسی رسومات اور طریقوں کو بھی شیعی رسوم و طریق لکھا تھا جو کہ خود اہل سنت کے اندر صدیوں سے رائج تھے ، جس پر اس وقت کے علمائے دھلی ، رامپور ، بدایوں اور فرنگی محل لکھنؤ نے بھی اعتراضات کئے اور قاضی فیض اللہ بدایونی نے تو اس پر ایک پوری کتاب لکھی
شاہ ولی اللہ شیعہ اور سنّی تنازعے کو کم کرنا اور دونوں کے درمیان اتحاد کی بنا تلاش کرنے کی جانب زیادہ راغب تھے اور انھوں نے تصوف میں بھی خود کو وحدت الوجودی صوفی کے طور پر متعارف کروایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عبیداللہ سندھی نے جب شاہ ولی اللہ کی فکر کو ایک باقاعدہ مکتبہ فکر کی شکل دی تو انھوں نے اسے وہابی ،پیورٹن مکتبہ فکر نہیں بنایا تھا اور نہ ہی ان کے ہاں شاہ ولی اللہ شیعہ مخالف کوئی لیڈر یا نظریہ ساز بنکر ابھرے تھے
خالد احمد اس حوالے سے شاہ ولی اللہ کو شیعہ کے خلاف تکفیری عمارت کا معمار ہونے والے نکتہ نظر کی جو تائید کرتے ہیں ، اس کا ثبوت شاہ ولی اللہ کی کتب اور سوانح عمری سے نہیں ملتا ، جو انھوں نے خود لکھی اور ایک ان کے کزن عاشق اللھی نے لکھی
یہ درست ہے کہ دیوبندی اور اہلحدیث کے حلقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ اور تصوف کے ساتھ معاندانہ رویہ تکفیر میں بدلتا چلا گیا اور اسی کی دھائی میں یہ ایک پوری تحریک کی شکل میں شیعہ کے خلاف زیادہ اعلانیہ اور صوفی سنّیوں کے بارے زرا کم شدت کے ساتھ سامنے آیا اور 90ء سے تادم تحریر دونوں کے خلاف فکری اور عملی سظح پر پرتشدد ، عسکریت پسند اور ہنگامہ خیز صورت میں سامنے آگیا
Shame on these fake Marxists, fake atheists and fake secular persons.
Historically, UK and US have played a key role in creation and nurturing of Wahhabi and Deobandi ideologies and militancy. By hiding the imperialist background of Deobanad and Wahhabi terrorism, these fake Marxists prove that Marxism in Pakistan is as fake as is the Islam of Deobandis and Wahhabis.
Хайр Ул Аммал
يہ ملحد بظاہر تو ملحد بن گئے ليکن ابھی تک ان کے اندر سے ان کا ناصبی پن نہيں گيا ان کے دلوں ميں ابھی تک يزيد ملعون کی محبت موجود ہے
کل ہی ايک ملحد اشعر نجمی نے اپنے گروپ ميں پوسٹ کر کے يزيد ملعون کو جنت ميں داخل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی
والسلام
40 mins · Like
Хайр Ул Аммал
لوگوں کو کربلاء کيوں بری لگتی ہے کيوں کٹھکتی ہے
کيونکہ جب کبھی کربلا کا زکر ہوتا ہے ہر ظالم کا تزکرہ ہوتا ہے اس پر لعنت ہوتی ہے
يہ مجالس عزا يہ جلوس ظلم کے خلاف احتجاج ہے
ہم رہتی دنيا تک جلوس نکال نکال کر بتاتے رہيں گئے کہ حسين ابن علی(ع) مظلوم تھے
يزيد پليد ظالم تھا
والسلام
34 mins · Like