جاوید ہاشمی کی بغاوت اور جمہوریت پسندی تاریخ کے آئینے میں – از عامر حسینی

Screen Shot 2014-09-02 at 1.28.01 PM

جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے سامنے ، نیشنل پریس کلب میں اور ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ایک مرتبہ پھر سے اپنی جمہوریت پسند طبعیت اور اپنی آئین و پارلیمنٹ سے بالادستی کا خوب چرچا کیا ہے اور ایسے میں مجھے امید تھی کہ ان کی پریس کانفرنس کو کور کرنے والے صحافی اور ان سے ٹاک شو میں بات کرنے والے جاوید چودھری اتنے اپ ٹو ڈیٹ تو ہوں گے کہ وہ جاوید ہاشمی سے ان کے اپنے ماضی کے بارے میں سوالات ضرور کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا

میں جاوید ہاشمی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ضلع کونسل کی سطح کی سیاست کررہے تھے اور یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور وہ جنرل ضیاء اور ان کے دیگر فوجی رفقاء کی نظروں میں اس لیے فیورٹ نوجوان تھے کہ انھوں نے اسلامی جمعیت طلباء کے پلیٹ فارم سے زوالفقار علی بھٹو کے خلاف زبردست کردار ادا کیا تھا ، وہ گورنر ہاؤس پر دھاوا بولنے والے ہجوم کی قیادت کررہے تھے اور وہ اس دھاوے پر آج بھی فخر کرتے ہیں جبکہ وہ ایک قتل کے مقدمے میں بھی نامزد ہوئے لیکن کچھ نادیدہ ہاتھ ان کو اس مقدمے سے صاف بچا کر لے گئے

جنرل ضیاء الحق نے پنجاب کے اندر خاص طور پر اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے جہاں پر تاجروں ، دکانداروں اور پیٹی بورژوازی طبقے کی کئی ایک پرتوں کو سیاسی کردار دیا اور ایک پینیری اپنے حامیوں کی لگائی وہیں اس نے اینٹی بھٹو پیٹی بورژوازی کے دائیں بازو کی سیاست سے وابستہ خاص طور اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر بھی ہاتھ رکھا اور اس کام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور بعد میں پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے بہت اہم کردار ادا کیا اور یہ جنرل غلام جیلانی تھے جنھوں نے ایک طرف تو نواز شریف کو دریافت کیا تو دوسری طرف ملتان ضلع سے انھوں نے قریشی اور گیلانی خاندان کی سیاست کو بیلنس کرنے کے لیے ایک طرف تو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والی بعض برادریوں کے سرکدرہ افراد کو اپنے کیمپ میں اہم مقام دیا جن میں سعید قریشی ، بابو نفیس انصاری ، شیخ رشید ، حاجی بوٹا وغیرہ اہم تھے تو دوسری طرف جاوید ہاشمی پر دست شفقت رکھا

میرے ایک دوست سید مصدق مہدی جعفری ہیں جو جاوید ہاشمی کے حلقے میں ایک چک کے نمبردار بھی ہیں اور سابق بینکر بھی اور ایف سی کالج سے پڑھے ہوئے ہیں جو جاوید ہاشمی کو زمانہ طالب علمی سے جانتے ہیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ جاوید ہاشمی کو ضیاء کی مجلس شوری کا رکن بنوانے کے لیے اہم کردار بھی ادا کیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ آج کل وہ بھی پاکستان تحریک انصاف میں ہیں اور کچھ ہفتوں پہلے بنی گالہ میں جب عمران خان کے ساتھ ان کی جاوید ہاشمی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے جاوید ہاشمی سے کہا کہ

کیا آپ ان کو جانتے ہیں تو جواب میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ کیوں نہیں آپ نے تو مجھے قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن جتوانے میں مدد کی تھی

سید مصدق مہدی جعفری کا کہنا یہ ہے کہ جن دنوں جاوید ہاشمی نے ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات میں جہانیاں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو انتخابی مہم کے دوران وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے اور اکثر گھر میں یہ اٹھ کر اندر جاتے ، فون اٹینڈ کرکے آتے تو دعوی کرتے کہ جنرل غلام جیلانی کا فون تھا اور کہتے غلام جیلانی نے انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ جاوید ہاشمی کو کسی صورت ہارنے نہ دیا جائے

جاوید ہاشمی جنرل ضیآء کے گڈ بوائے تھے اور وہ اس قدر لاڈلے تھے غلام جیلانی کے کہ جیلانی نے ان کو ان کے علاقے کی تھانہ کیچری اور ریونیو کا کنٹرول دیا ہوا تھا اور اس بات کا گلہ وہاں قریشی خاندان کو ہمیشہ رہا

میری یاداشت میں اس زمانے میں جاوید ہاشمی کا کوئی ایک بیان یا اقدام ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ جاوید ہاشمی جنرل ضیاء کی ڈرٹی پالیٹکس اور خوفناک جمہوریت مخالف سیاسی ڈسکورس کی مخالفت کرتے پائے گئے ہوں اور جب ضیاءالحق ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ جمہوری کیمپ کی بجائے جنرل ضیاء کی باقیات اور ملٹری -عدالتی -سول اسٹبلشمنٹ کے اتحاد کےسیاسی چہرے اسلامی جمہوری اتحاد میں آئی ایس آئی کے سب سے زیادہ چہیتے نواز کیمپ کے جانباز سپاہی بنے رہے

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے گروپ کی تشکیل میں جاوید ہاشمی اصل میں ضیاء الحق کے مخبر کا رول ادا کررہے تھے اور وہ نواز شریف مخالف لابی کے ضیاءالحقی ساتھیوں پر نظر رکھنے کے مشن پر مامور تھے اور انھوں نے خود اپنی کتاب :ہاں میں باغی ہوں ” میں نواز شریف کے ساتھ اپنی نیاز مندی کا زکر اس زمانے سے کیا ہے اور وہ 85ء میں نواز شریف کو ایک بابصیرت سیاست دان ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے 

جاوید ہاشمی نے یونس حبیب سے چار کروڑ روپے لیے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اسحاق اینڈ کمپنی کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنے اس عمل پر انھوں نے کبھی کوئی معافی نہیں مانگی بلکہ یہ فسانہ گڑھا کہ یونس حبیب کے ساتھ وہ کاروبار کررہے تھے جس کا منافع چار کروڑ روپے ان کو ملا تھا اور آج تک ایسے کسی کاروبار کا وہ ثبوت نہیں دے سکے

جہانیاں میں مخدوم رشید کی درگاہ پر ان کا قبضہ صرف نواز شریف کی عنائت سے ہوا تھا اور اس سے ملحقہ زرعی زمین بھی اوقاف کی تھی جس کو انھوں نے قبضے میں لے رکھا تھا جب وہ نواز شریف سے الگ ہوئے تو یہ اوقاف کو بھی یاد آگیا کہ وہ ناجائز طور پر اس زمین پر قابض ہیں

جاوید ہاشمی ریڈ زون میں عمران خان اور طاہر القادری کے داخلے اور ان کے لوگوں کے پی ٹی وی اور دیگر اداروں میں گھس جانے پر کافی مذمتی بیانات دے رہے ہیں اور عمران خان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو مارشل لاء کی طرف دھکیل رہے ہیں

میں جب تاریخ کے جھرکوں میں جھانکتا ہوں تو مجھے یار آتا ہے کہ جن کرداروں نے بھٹو کے خلاف فوجی مارشل لاء کے لیے سازگار حالات پیدا کئے تھے ان میں ایک کردار جاوید ہاشمی کا بھی تھا اور اس کردار پر وہ آج تک نادم نہیں ہیں جبکہ جس قدر پاکستان کی قومی یک جہتی ، اس کی قومی سیاسی شیرازہ بندی کو نقصان جنرل ضیاءالحق نے پہنچایا اتنا شاید کسی اور مارشل لاء نے نہیں پہنچایا تھا

یہ جاوید ہاشمی اس وقت بھی نواز شریف کا بازو بنے رہے تھے جب نواز شریف کے لوگوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کیا تھا اور جب نواز شریف چودھویں ترمیم لایا اور پندرھویں ترمیم کے زریعے امیر المومنین بننے جارہا تھا تو بھی جاوید ہاشمی کے لب نہیں کھلے تھے

انیس سو اٹھاسی سے لیکر 1999ء تک نواز شریف نے جس طرح سے ججز ، سیاست دانوں ، صحافیوں ، سول افسران کی بولیاں لگائیں تھیں اور ان سب کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا اور جس طرح سے انتخابات کو مینج کرکے پنجاب میں اپنا اقتدار باقی رکھا اس سارے عمل پر جاوید ہاشمی نے کبھی بھی زبان اس دور میں کھولی نہ اس دور میں کھولی اور کبھی بھی اپنی جمہوریت دشمنی اور آمریت پسندی کے سیاہ اور کالے دور پر معافی نہیں مانگی اور نہ ہی کبھی اظہار ندامت کیا

اکتوبر 1999ء کو جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو وہ نواز شریف کے حامی کے طور پر اس سارے قبضے کے خلاف ہوئے اور یہی وجہ ہے جب نواز شریف واپس آئے اور پنجاب میں حکومت بنی تو وہ نواز شریف سے صلہ مانگتے تھے

مجھے ایک اعلی پولیس آفیسر نے بتایا کہ جب جاوید ہاشمی کو برین ہیمرج ہوا اور ان کو ہیلی کاپٹر سے ملتان سے لاہور لایا گیا تو ہیلی پیڈ پر ان کی ڈیوٹی تھی اور انھوں نے دیکھا کہ جاوید ہاشمی کے سٹریچر کو چیف منسٹر شہباز شریف نے اٹھایا اور ان کو وہیل چئیر پر بھی خود ہی بھٹایا اور اسے گھسیٹ کر کمرے تک چود چیف منسٹر شہباز شریف لیکر گئے اور نواز شریف بیرونی دورہ مختصر کرکے سیدھے لاہور ہسپتال پہنچے اور سب سے قابل ڈاکٹر کو ان کے علاج و معالجے کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کا لیڈر بنایا اور نواز شریف دو گھنٹے وہاں موجود رہے اور بہت زیادہ پریشانی کا اظہار کرتے رہے

اور سب سے بڑا انکشاف اس پولیس افسر نے مجھ پر یہ کیا کہ جب جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار کے اختلافات ہوئے تو کلثوم نواز نے جاوید ہاشمی کا ساتھ دیا اور جاوید ہاشمی کی خاطر کلثوم نواز نے اپنے تعلقات چوہدری نثار کی فیملی سے ختم کرڈالے اور آج تک وہ چوہردی نثار سے بات تک نہیں کرتیں اور یہ کلثوم نواز تھیں جو جاوید ہاشمی کو منانےگئیں تھیں اور اس پولیس افسر کا کہنا تھا کہ کلثوم نواز نے جاوید ہاشمی کے پیر نہیں پکڑے باقی سب کچھ کیا ان کم منانے کے لیے

میں نے جب ان سے پوچھا کہ جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ نواز کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا نواز شریف کے ون مین شو کی وجہ سے تھا تو وہ پولیس افسر بے اختیار ہنس پڑے کہنے لگے کہ

شریف برادران نے کبھی بھی اجتماعی ڈیموکریسی کے اصولوں پر پارٹی چلائی نہیں تھی اور ان کے اس رول سے جاوید ہاشمی کو کبھی کوئی شکائت نہ ہوئی ،بلکہ ان کی شکائت کا سبب یہ بنا کہ چوہدری نثار قائد حزب اختلاف بنائے گئے اور پنجاب میں شہباز شریف نے ان کو وہ کچھ نہ دیا جس کی وہ توقع کررہے تھے تو شکایات زاتی تھیں جمہوری اصول وغیرہ وہاں کہیں نہیں تھے

جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف میں ایک تو شاہ محمود قریشی کے بڑھتے ہوئے اثر سے پریشان تھے تو دوسری طرف جہانگیر ترین کے غلبے سے پریشان تھے اور ان کو پی ٹی آئی میں اپنی صدارت اب محض نمائشی سی لگنے لگی تھی اور وہ دوسری طرف اس شاہانہ پن سے بھی محروم ہوگئے تھے جو نواز لیگ میں ان کے پاس ہوا کرتا تھا

پھر جاوید ہاشمی کے پیچھے ان کے جانشینوں میں ایک میمونہ ہاشمی تھیں جن کی سیاست خاص طور پر جاوید ہاشمی کے پی ٹی آئی میں جانے سے ایک طرح سے ختم ہوگئی اور وہ سیاست سے بالکل آؤٹ ہیں اور جاوید ہاشمی کے پیچھے بس اندھیرا ہی نظر آتا ہے

جنرل ضیاء الحق کی نرسری میں پرورش پانے والے اور ایک زمانے میں ضیاءالحق کی باقیات پر مشتمل عسکری ،عدالتی و صحافتی اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے زریعے پاکستانی سیاست کے چمکتے ستارے بننے والے سیاست دانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کی جمہوریت پسندی اصل میں بہت ہی کھوکھلی اور آخری تجزئے میں اشراف کی بالادستی اور جمہور کی آزادی میں روڑے اٹکانے والی ہی رہتی ہے

جاوید ہاشمی اگر پاکستان کے سیاسی ، عدالتی ، سول و ملٹری نوکر شاہی کے ںظام کی بوسیدگی کے واقعتا قائل ہوتے اور اس نظام کو اصلاح پسندی کے ہی معنی میں سہی بدلنے کے قائل ہوتے تو وہ اس ںظام کے خلاف پورا سچ بولنے کو ترجیح دیتے اور اپنے سیاہ کارناموں پر توبہ کرتے اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگتے لیکن وہ کفارہ ادا کئے بغیر باغی بننے چل نکلے اور آج بھی ان کی بغاوت نظام اور شخصیتوں کی آمریت کے خلاف ہونے کی بجائے زاتی خواہشات کے پورا نہ ہونے سے جنم لینے والے غصے کی عکاس زیادہ ہے اور اس بغاوت کا فائدہ انجمن نواز شریف بچاؤ تحریک کے لوگوں کو ہوا ہے  

Hashmi Tanveer

 

Hashmi questionsMULTAN: Javed Hashmi, the Paistan Tehreek-i-Insaf President, on Friday extended his support to Jamaatud Dawa chief Hafiz Saeed on whom the US recently placed $10 millionbounty for his alleged role in the 2008 Mumbai attacks.

Calling him a preacher of peace in the world, Hashmi said, that if something should happen to Hafiz Saeed, then the entire nation will be responsible.

He was addressing a public demonstration organised by the Difa-e-Pakistan Council in Ghanta Ghar  Square in Multan on Friday. The gathering was also addressed by leaders of Jamaat-e-Islami, Lawyers community, Jamat-e-ahl-e-hadees, Ahle-SunnatWal-Jamaat, Jamiat ulema-e-Pakistan, and members of the Pakistan Muslim League-Nawaz.

Leading the ceremony, Hashmi said that he had spent his entire life with Prof Hafiz Saeed and Hafiz Abdur Rehman Makki at university as both were union leaders. They were one of the most pious students in the university, he vouched.

He further said that the services of the ‘most wanted’ men were for the welfare of the country and can never be forgotten. He said that a social worker can never be a terrorist but all those declaring him terrorist are the real threat to the peace of the world.

“I salute the workers of Jamaatud Dawa and their unity, their passion to fight for the honour of their leader who deserves respect and honour by all the Muslims of the world.”

The PTI president revealed that name of Difa-e-Pakistan council had been suggested by Hashmi and Prof. Hafiz Saeed had honoured me by declaring this as the final name of the council.

Hashmi added that in his experience, he found Prof Hafiz Saeed and Hafiz Abdur Rehman Makki always loyal, and dedicated to Islam, Muslim Ummah and Pakistan.

He concluded that every citizen of Pakistan will fight for Prof Hafiz Saeed and will become a Hafiz saeed if something happened to the JuD chief.

Hashmi further added that he had resigned from the parliament only because it had become the slaves of US, which like India, worked against the interests and people of Pakistan.

The participants in the gathering raised slogans against Obama, Hilary Clinton and United States and vowed their complete support to Hafiz Saeed and Jamaatud Dawa.

http://tribune.com.pk/story/360825/javed-hashmi-backs-most-wanted-hafiz-saeed-hafiz-abdur-rehman-makki/

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Muhammad Bin Abi Bakar
    -
  2. ChutiaLUBP
    -
  3. Sarah Khan
    -