عمران خان اور طاہر القادری کے خلاف نواز لیگ اور زرداری پیپلز پارٹی کا اتحاد – عمار کاظمی

zardari_12

لگتا ہے اکثر دوستوں اور تجزیہ نگاروں کی دن میں دیکھنے کی صلاحیت جاتی عمرا کی چمک نے سلب کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک نواز اور شہباز شریف دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں اور دھرنوں میں بیٹھی عوام، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان دنیا کے جھوٹے اور ظالم ترین لوگ ہیں۔ گزشتہ انتخابا ت میں پنجاب کے شہری علاقوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوۓ مجھے یہ تشویش تھی کہ انتخابات میں بہت خون خرابہ ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کا جزباتی غصیل نواجوان اور نون لیگ کا غنڈہ عنصر تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ غنڈے موجود ہیں لیکن نواز لیگ کے پاس چھٹے ہوئے بدمعاش ٹکٹ ہولڈرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لہذا گزشتہ انتخابات کا پُرامن انعقاد بجائے خود ایک مشکوک بات تھی۔ تاہم موجودہ بحران میں مفروضوں کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون زیادہ اور کون کم بُرا ہے۔ خان صاحب اور ڈاکٹر قادری کے چل کر آرمی چیف کے پاس جانے سے فوج اور ان دونوں کی عزت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ پہلے نواز لیگ نے فوج سے مدد مانگی تھی لہذا اس میں پہل کرنے پر وہ زیادہ قصوروار ٹھہری۔ آج وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے دوران اس بات کی تردید کی کہ حکومت نے فوج کو کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہا مگر شام کی پریس کانفرنس میں چوہدری نثار اور پھر آئی ایس پی آر کے بیان سے واضح ہو گیا کہ فوج کو دعوت دینے میں پہل میاں صاحب نے ہی کی تھی۔ فوج کا اس میں کوئی کردار تھا یا نہیں مگر فوج بھی اس واقع میں ذلت اور رسوائی سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ کل جب آرمی چیف سے ملاقات کے بعد تمام میڈیا سمجھ رہا تھا کہ معاملہ ختم ہو گیا امیر سراج الحق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوءے کہا کہ سیاسی معاملات میں فوج شامل نہیں کرنا چاہیے تھا تاہم کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ سراج الحق کو کیسے پتہ تھا کہ کھیل ابھی باقی ہے؟ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جماعت اسلامی اس کھیل میں برابر کی شریک ہے اور ہمیشہ کی طرح اپنے غیر جانبدار کردار کے پیچھے ایک جانبدار چہرہ اور خاص مقاصد لیے ہوئے ہے۔ ویسے تو جماعت اسلامی جمہوریت کو سپورٹ کرے اس سے زیادہ مشکوک بات کیا ہو سکتی ہے؟

شاید بہت کم لوگوں کو یاد ہو کہ انیس سو ننانوے کی حکومت کے خاتمے سے پہلے نواز شہباز نے پنجاب میں پولیس کے سپیشل کمانڈوز پر مشتمل شاھین فورس بنائی تھی۔ جب ان کے فوج کے ساتھ حالات بگڑنے شروع ہوئے تو بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ شاید شاھین فورس بنانے کا مقصد فوج کی طرف سے وزیر اعظم کی گرفتاری کی صورت میں مزاحمت کرنا ہو۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ ضیاالدین بٹ رہے ہوں گے جنھیں میاں صاحب نے جنرل مشرف کی غیر حاضری کے دارون برطرفی کے بعد آرمی چیف بنایا تھا۔ میاں صاحب کی سوچ تھی کہ شاید فوج اس اشو پر تقسیم ہو جاءے گی اور ان کے لیے فوج سے لڑاءی نسبتا آسان ہو جاءے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ فوج نے جنرل ضیا الدین بٹ کو متفقہ طور پر آرمی چیف ماننے سے انکار کر دیا۔ باقی شاھین فورس فوج کے مقابلے میں بہت کم تعداد اور وسائل کی حامل تھی۔ لہذا اس کے لیے اکیلے فوج کے خلاف مزاحمت کرنا ممکن نہ تھا۔ مگر موجودہ حالات میں نواز حکموت کا وزیرستان آپریشن کو ہر ممکن حد تک ٹالنا، کالعدم جہادی و تکفیری تنظیموں کی حمایت حاصل کرنا، نواز حکومت کے حق میں دیوبندی مسلک کی تنظیموں (سپاہ صحابہ و جمیعت علما اسلام) کا ریلیاں نکالنا آنے والے بڑے خطرات کی طرف اشارہ اور ایک لمبی پلاننگ کا حصہ ہو سکتا ہے۔ یہ کالعدم تنظیمیں پولیس سے زیادہ اور فوج کی اسپیشل فورسسز سے کے برابر تربیت یافتہ ہیں۔ ان کے غیر سرکاری تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ چناچنہ اس مفروضے اور حوالے کی بنیاد پر کسی بھی باشعور اور غیر جانبدار تجزیہ نگار کے لیے آل سعود سے نواز، طالبان، کالعدم فرقہ پرست انتہا پسند تنظیموں سے لے کر مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق تک کا سلسلہ جوڑنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اور شاید خورشید شاہ اور محمود خان اچکزئی بھی جمہوریت پسندی کے نقاب میں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ خورشید شاہ صاحب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے گرمجوش حامی تھے اور اچکزئی صاحب تخت پنجاب کی حمایت میں لدھیانوی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں – اگر میاں صاحبان جمہوریت کی چھتری اور فرقہ واریت کے نیچے کسی ایڈونچر کی سوچ رکھتے ہیں تو انھیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر قادری اور عمران کے ساتھ لوگ محض ان کے ناموں اور ایجنڈوں کی وجہ سے جمع نہیں ہیں۔ یہاں بجلی کا یونٹ باءیس روپے کا ہوچکا ہے اور پاکستان کے بہتر ہزار شہریوں کے لواحقین بھی کسی نہ کسی وجہ سے فوج یا پھر ان دونوں کی ساءیڈ پر کھڑے ہیں۔ ایسی کسی صورت میں نہ تو پاکستان کی فوج مکمل طور پر عوامی حمایت کے بغیر کھڑی ہوگی اور نہ ڈاکٹر قادری اور عمران۔

اگر آج کل میں حالات ٹھیک اور معاملات حل کی طرف نہیں جاتے تو حالات بہت سنگین اور خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ الطاف حسین کا لوگوں کو گھروں میں رہنے کا مشورہ اور با اثر فیملیز کی خواتین کا یہ تاثر دینا کہ گھروں میں زیادہ سے زیادہ راشن جمع کر لیں حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں بھی شاید انھی اندیشوں کی نشاندھی کرتی ہیں۔ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کھیل ختم ہوا ہے یا شروع۔ مگر یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ دونوں طرف سے خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

پتا نہیں میاں صاحب کے دل اور دماغ میں اس وقت کیا چل رہا ہے۔ مگر خورشید شاہ اور آصف زرادری کی طرف سے جمہوریت کے پردے میں نواز حکومت کی یکطرفہ حمایت ممکنہ طور پر اس بات کا عندیہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اتحادی کے طور پرالیکشن لڑیں گی۔ بہر حال معاملہ فہمی کا تقاضا یہی ہے کہ نواز شریف قوم اور جمہوریت کی خاطر اپنے اقتدار کی قربانی دیں۔ اسمبلیاں اور الیکشن کمیشن تحلیل کریں۔ اتفاق رائے سے قومی حکومت اور الیکشن کمیشن بنائیں۔ اور ٹیکنو کریٹس کی گندگی سے بچنے کے لیے اگلے نوے دن میں انتخابات انعقاد کو یقینی بنائیں۔ ورنہ موجودہ صورتحال میں ان کا وزیر اعظم رہنا ریاست کو کسی بھی بڑے حادثے کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ویسے بھی موجودہ بحران کے بعد وہ ایک انتہاءی کمزور وزیر اعظم بن چکے ہیں جو جمہوریت کے لیے کسی طور بھی بہتر نہیں ہے۔

موجود تنازع مین پیپلز پارٹی کا کردار بھی انتہائی شرمناک رہا ہے۔ اگر وہ اس ساری صورتحال میں منہاج القرآن کے مقتولین یا دیگر بہتر ہزار شہریوں کے قاتلوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو غیر جانبدار بھی رکھ لیتے تو کوئی حرج نہ ہوتا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اس حقیقت کو فراموش کر رہی ہے کہ ان بہتر ہزار شہریوں کے مقتولین میں وہ ان کے اپنے شہداء بھی شامل ہیں۔ جناب آصف زرداری کے ذہین دماغ نے شاید یہ سب جُوا اس مفرضے کی بنیاد پر کھیلا ہے کہ اگر مقتدرہ قوتوں نے موجودہ بحران کی وجہ سے نواز خاندان کو سیاست سے باہر کر دیا تو ان کے پاس پیپلز پارٹی کی قیادت کو سپورٹ کرنے کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہے گا۔ اور اس طرح بغیر کسی عوامی سیاست، منشور اور کارکردگی کے پیپلز پارٹی نواز لیگ کے ساتھ مل کر دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی۔ زرداری صاحب کا یہ کارڈ کامیاب بھی ہو سکتا ہے اور یہ انھیں ناقابل تلافی نقصان بھی دے سکتا ہے۔ تاہم اگر وہ اس میں کسی طریقے سے کامیاب ہو بھی گءے تو اس کے بعد پیپلز پارٹی کا پنجاب میں بچا کھچا ووٹر بھی کسی کو نظر نہیں آئے گا۔

anti-estab haha urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. راجہ غلام قنبر
    -
  2. mahmood
    -