پیپلز پارٹی کو نوکروں کی نہیں نظریاتی کارکنوں کی ضرورت ہے – از عمار کاظمی
ایک عرصہ سے دل میں خواہش لیے بیٹھا ہوں کہ کب کسی ٹی وی ٹاک شو میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حالیہ کارکردگی اور حکمت عملی پر کوءی پروگرام دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا کوءی رکن بیٹھے اور دوسری طرف میرے جیسا۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان کا میڈیا اسقدر پست ذہنیت کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں پاتا۔
نتیجے کے طور پر پیپلز پارٹی کی حالیہ کارکردگی پر پروگرام تو ہو جاتے ہیں مگر دعوت ان بوڑھے اور تھکے ہوءے لوگوں کو دی جاتی ہے کہ جن کے منہ میں اب دانت بھی باقی نہیں رہے۔ کچھ کو بولنا نہیں آتا اور کچھ کے بولنے کی سمجھ نہیں آتی۔ اسی سوچ میں کءی بار سوچا کہ کسی چھوٹے موٹے ٹی وی چینل پر کوءی ٹاک شو کرنے لگوں۔ مگر وہاں بھی دو طرح کے مسلے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر جگہ اشتہار دینے والوں کے لوگ بیٹھے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ بغیر رابطے اور ریفرنس کے آپ کسی مجاز شخصیت کو مل ہی نہیں پاتے۔
چھوٹے سے چھوٹے چینل کی مجاز اتھارٹی سے ملنے کے لیے بھی آپ کو سکیورٹی یا پھر استقبا لیہ تک سے گزرنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔ غلام قوم کی پست ذہنیت کی حالت یہ ہے کہ سکیورٹی والے سے لے کر استقبالیہ تک اور استقبالیہ سے چیف ایڈیٹر تک سب چھوٹے بڑے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ ایک بار کسی دوست نے کہا کہ ناجی صاحب کو ملو۔ وہ کافی ہم خیال ہیں۔ مگر یہ سوچ کر چُپ ہو گیا کہ ناجی صاحب تو دور کی بات دنیا نیوز میں تو ان سے دس نمبر نیچے کے شخص کو ملنا بھی صدر پاکستان سے ملاقات کے مترادف ہے۔ بہر حال اپنی عزت نفس کا خیال اور سوچ بچار کرنے کے بعد ہمیشہ اخبار کے کالم اور سوشل میڈیا کی پوسٹنگز پر ہی اکتفا کر لیتا ہوں۔ خِر تو بات ہو رہی تھی پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگیکٹو کمیٹی کی۔
سمجھ نہیں آتی پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں انسان بیٹھتے ہیں یا روبوٹ؟ یہ جمہوریت کے دعویدار سوفیصد معاملات میں جناب آصف زرداری کو تمام فیصلوں کا اختیار سونپ دیتے ہیں۔ کبھی کوءی اُٹھ کر یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ ہمیں آپ سے اختلاف ہے۔ آپ پارٹی کا ستیاناس کر رہے ہیں۔ نہ ان لوگوں میں کوءی غیرت ہے اور نہ حریت۔ سب گماشتے مل جل کر شہیدوں کی قربانیوں کو قاتلوں کی جھولی میں ڈالنے کی نوکری میں لگے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کو آج نوکروں کی نہیں اس کے سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے۔
زرداری صاحب نوابزادہ نصراللہ خان کی طرز کی سیاست کر رہے ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی بھی مقبول قیادت نہیں بن سکے۔ ہم سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب کی عبرتناک شکست سے کچھ سبق سیکھا ہوگا۔ مگر لگتا ہے کہ یہ بے ضمیر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی قیادت کو ایسا کچھ محسوس کرنے ہی نہیں دے گی۔ یہ لوگ ایک دن نواز پر غراتے ہیں اور دوسرے دن جب زرداری صاحب نون لیگ کی حمایت میں کچھ کہتے دیتے ہیں تو دُم ہلانے لگتے ہیں۔ یہ کونسی جمہوریت ہے جہاں سو فیصد معاملات میں زرداری صاحب کو ہر معاملے میں ہر طرح کے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار مل جاتا ہے؟ یہ تو وہی رویہ ہے جو آمریتوں میں پاکستان کی سپریم کورٹ اپناتی رہی ہے۔ مشرف کو مکمل اختیار دے دیا کہ جاو ماءی باپ جو مرضی سیاہ سفید کرو، دستور کا جیسا مرضی حلیہ بگاڑو تمھارے باپ دادا کا ملک ہے جو مرضی کرو۔
سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے لوگو کچھ شرم کرو۔ تم خود کو شہید بے نظیر اور شہید زوالفقار علی بھٹو کا ساتھی کہتے ہو تمہاری حریت اور غیرت کہاں مر گءی؟ انھوں نے تو محض اپنی حریت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ تم نے ان سے کیا سیکھا؟ کیا یہ جیالا پن ہے؟ نہیں صاحب یہ آپ کی غلام ذہنیت ہے جو بھٹو بے نظیر کے پیغام حریت اور تربیعت کے باوجود غلام ہی رہی۔ سچ پوچھو تو کسی اور نے نہیں تم جیسے غلاموں نے ہی شہید بھٹو اور شہید بے نظیر کی قربانیوں کو بیکار کر دیا ہے۔ تم بھلے ہی خود کو ان عظیم شہیدوں کا نوکر ثابت کر لو مگر حقیقت یہ ہے کہ تم شہیدوں کی تعلیمات اور نظریے کو ناکام ثابت کر رہے ہو۔ تم ان کے نظریات سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہو۔
اور بلاول بھٹو زرداری تم ہمیں جان سے عزیز تھے، ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ مگر یہ بات ذہن میں رکھو کہ جاءیداد کا وارث نظریات کا وارث تب تک نہیں بن سکتا جب تک وہ ان نظریات کی پیروی نہ کرے جو اسے وراثت میں ملے تھے۔ تمہھارا نانا اور ماں ہم میں بیٹھتے تھے۔ اپنی سناتے تھے اور ہماری سنتے تھے۔ اگر تمھیں ٹوٹر پر بیٹھ کر اپنی سنانی ہے اور ہماری نہیں سننی تو یہ پاکستانی قوم اور اس کی آءیندہ نسل تمھاری غلام نہیں ہے کہ تم کہو کہ کارکن جزباتی نہ ہوں اور قیادت کے فیصلوں انتظار کریں۔ تمھاری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی روبوٹ ہو سکتی ہے مگر کارکن یا پاکستان کی نوجوان نسل نہیں۔ یہ سب سوچنے سمجھنے والے انسان ہیں۔
انھیں انسان سمجھو۔ بی بی کی جاءیدا کی وراثت تمھاری ہے مگر ان کی نظریاتی اساس کی وراثت ان کے ان نظریاتی کارکنوں کی اساس ہے جو اپنے اندر شہید بے نظیر اور زوالفقار علی بھٹو کا جزبہ ء حریت رکھتے ہیں۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ تمہاری ماں اور نانا جب لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں کا دورہ کرتے تو ان کے حزب اختلاف میں ہونے اور تمام تر ریاستی جبر کے باوجود کتنے لوگ ان کے استقبال کو آتے تھے؟ اور کل جب تم اپنے والد کے ساتھ بحریہ ٹاون آءے تو کتنے لوگ تھے؟ آج تم کہتے ہو کہ ہم تمہارے والد اور اس کی کٹھ پُتلی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے کہنے پر ریاستی جبر قبول کر لیں۔ ہم جذباتی نہ ہوں اور قیادت کے فیصلوں کا انتظار کریں؟
کیا فیصلہ کیا ہے قیادت نے؟ پہلے قیادت کو اپنی ماں اور نانا کی طرح کا احل تو ثابت کر دو پھر ہم سے اس کی اطاعت کی اُمید بھی رکھ لینا۔ تمھاری ماں اور نانا نے پاکستان کے غریب عوام کو جبر، ظلم اور نا انصافی کے خلاف بولنا سکھایا۔ کیا تم ان سے ان کی زبان چھیننا چاہتے ہو؟ کیا تم ان سے وہ حریت واپس لینا چاہتے ہو جو تمھاری ماں اور نانا نے ان کو دی تھی؟ یاد رکھنا سیاسی اور نظریاتی اساس کوءی زمین جاءیداد نہیں کہ تم جس کی واپسی کا دعوہ کر سکو۔
اگر تم لوگوں سے پیپلز پارٹی چلتی ہے تو چلاو ورنہ اس کی اصل اساس کے ورثا میں ایسے لاکھوں کارکن شامل ہیں جنھوں نے مشکلیں جھیلیں اپنوں کی زندگیاں قربان کیں۔ ہم کسی بھی حریت پسند روشن خیال کارکن کو اپنا لیڈر مان لیں گے۔ اگر اسی ذہن کے ساتھ ٹوٹر پر بیٹھ کر ہمارے مساءل کو دیکھنا ہے تو سیاست چھوڑ دو۔ جمہوریت کی وراثت میں بادشاہت کا کوءی تصور نہیں۔ ورنہ عوامی جذبات کا احترام کرنا سیکھو۔