عامر رانا کے جواب میں: سنّی بریلوی سیاست نہیں ، دیوبندی نواز اتحاد مشکوک راستے پر رواں ہے – از محمد بن ابی بکر

نوٹ: یہ مضمون میں تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے ایڈیٹر کی حثیت سے نہیں لکھ رہا ہوں ،بلکہ یہ مضمون میں اپنی ذاتی حثیت سے لکھ رہا ہوں اور اس مضمون میں بہت سی باتوں کا عینی شاہد ہوں ،کیونکہ میرے والد 1977ء میں ضلع ملتان کی ایک تحصیل میں جمعیت العلمائے پاکستان کے صدر تھے اور پھر میرے تایا ، کئی ایک چچا اور دیگر بہت سے رشتہ دار جمعیت العلمائے پاکستان کے خادم اور مجلس شوری کے رکن تھے اور ہیں اور میں بذات خود بھی جس ضلع سے تعلق رکھتا ہوں اس ضلع میں تحریک منھاج القرآن کی بنیادیں رکھنے والا اور میرے پاس پاکستان عوامی تحریک کے طلباء ونگ ایم ایس ایم کے ضلعی اورپھر ایک دو صوبائی عہدے بھی رہے اور میں ڈاکٹر طاہر القادری کے بہت سے قریبی شاگردوں بشمول علی اکبر ازھری ،طاہر حمید تنولی ، نور المصطفی ہمدمی وغیرہ کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق رہے
علامہ شاہ احمد نورانی میرے تایا اور چچا کے ہاں باقاعدگی سے تشریف لاتے تھے اور میں ان کے ںظریات کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں
روزنامہ ڈان کی اتوار 24 اگست 2014ء کی اشاعت میں عامر رانا کا ایک آرٹیکل “ڈالیما آف بریلوی پالیٹکس ” کے عنوان سے شایع ہوا ہے اور اس پورے مضمون میں عامر رانا نے بریلوی سیاست کے بارے میں کافی متنازعہ باتیں کی ہیں اور کئی ایک غلط نظریات اخذ کئے ہیں
سب سے پہلے مجھے بریلوی سیاست کو ” ڈالیما ” سے تعبیر کرنے پر سخت اعتراض ہے کیونکہ اںگریزی میں ڈالیما سے مراد کسی کا دو ناممکن راستوں ميں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا ہوتا ہے اور دونوں راستے ہی اصل میں بند گلی کی صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں تو گویا ان کے مطابق بریلوی سیاست بند گلی کی سیاست ہے
دوسری غلط فہمی عامر رانا نے بریلوی سیاست اور اس کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ پھیلائی کہ یہ جماعتیں بھی پاکستان کی ریاست اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے شروع کئے جانے والے نام نہاد “جہادی پروجیکٹ” کا حضّہ بننا چاہتے تھے اور خاص طور پر “جہاد کشمیر “کو اپنی ملکیت بنانے کے قائل تھے اور اسی سے منسلک یہ گمراہ کن تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ بریلوی سیاسی تنظیمیں بھی ديوبندی اور وہابی عسکریت پسندی اور تکفیری دھشت گرد ڈسکورس کے مقابلے میں بریلوی دھشت گرد ڈسکورس بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ ڈسکورس اگر ابتک نہیں بن پایا تو اس کی وجہ عامر رانا یہ بتاتے ہیں کہ ایک تو کوئی عرب ریاست ان کو فنڈ کرنے کو تیار نہیں ہے اور دوسرا پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی بریلویوں کے نام نہاد جہادی عسکریت پسند ڈسکورس کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی
اصل میں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ عامر رانا ان لبرلز کی بات کو اپنی بات بناکر پیش کررہا ہے جو ایک تو یہ نہیں مانتے کہ دیوبندی اور وہابی مسالک کے اندر تاریخی طور پر تکفیری، دھشت گردانہ نظریاتی لہروں کے موجود ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور دوسرا وہ دیوبندی مکتبہ فکر سے دھشت گردی کے ایک منظم نیٹ ورک کی بنیاد کے سامنے آنے کو صرف اور صرف جیو سٹریٹجک تزویراتی پالیسی کا نتیجہ بتلاتے ہیں اور دیوبندی سیاسی قیادت اور اس کی مذھبی قیادت کو اس سے بری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بریلوی چاہتے ہیں ملٹری اسٹبلشمنٹ ان کی بھی عسکری صلاحیت کو بہتر بنائے اور ایسا ہوا تو بریلوی مکتبہ فکر میں بھی دھشت گردی ایک نارم بن جائے گی
عامر رانا نے بریلوی سیاست کو اپنے خاص تعصبات کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سنّی بریلوی علماء اور اس کی نمائندہ تمام سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ریاست سے ہٹ کر کسی بھی قسم کے نجی مسلح لشکر بنانے کو غیر شرعی قرار دیا اور اس حوالے سے جہاد کی شرط بھی یہ رکھی کہ جہاد کا اعلان ریاست کرے گی نہ کہ کوئی نجی طور پر ایسا کرے
پاکستان میں جدید جہادی ،فرقہ پرست دھشت گرد سیاست کا آغاز 80ء کی دھائی میں ہوا اور اس سیاست کی علمبردار تمام تنظیموں کا تعلق دیوبندی اور وہابی تنظیموں سے تھا اور اس زمانے میں بریلوی سیاست کی ترجمان جماعت جمعیت العلمائے پاکستان تین بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی
ایک دھڑے کی قیادت جو کہ مرکزی دھڑا تھا مولانا شاہ احمد نورانی کررہے تھے اور مولانا شاہ احمد نورانی کی 80ء کی دھائی سے لیکر اپنی عمر کے آخری سانس تک ساست اینٹی ضیاء الحق و اینٹی نواز شریف تھی اور دوسرا دھڑا مولانا عبدالستار خان نیازی کی قیادت ميں تھا جس ميں صاحبزادہ فضل کریم ،مولانا غلام علی اوکاڑوی ،مفتی غلام سرور قادری وغیرہ شامل تھے اور تیسرا دھڑا پیر حمید الدین سیالوی کی قیادت میں منظم تھا
یہ تینوں دھڑے اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اینٹی عسکریت پسند،جہادی ازم کی سیاست کے خلاف تھے اور نجی لشکروں کی سخت مخالفت کررہے تھے
پنجاب میں بریلوی سیاست کی نمائندہ سیاسی لیڈر شپ میں مولانا عبدالستار خان نیازی کی قیادت میں جو رہنماء اکٹھے تھے وہ سب کے سب نواز شریف کے قریب تھے اور یہ جو 80ء ،90ء کی دھائی تھی اس میں بریلوی کی جو قیادت نواز و شہباز کے قریب تھی ان کے خیال میں نواز شریف و شہباز شریف صوفی سنّی خیالات کے حامل تھے اور اس زمانے میں نواز و شہباز شریف کے بارے میں کسی ایک سنّی بریلوی سیاست دان کا یہ خیال نہیں تھا کہ نواز و شہباز شریف دیوبندی و وہابی دھشت گرد، انتہا پسند فکر کا سیاسی چہرہ ہیں
بلکہ یہ بات قابل غور ہے کہ جب احسان اللہی ظہیر نے البریلویہ نامی نفرت انگیز کتاب لکھی تو یہ شہباز شریف تھے جنھوں نے جامعہ نعیمیہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ جو کوئی اس کا جواب دے گا وہ اس کو انعام دیں گے اور اس کا جواب عبدالحکیم شرف قادری نے تحریر کیا تھا
اور 80ء و 90ء کی دھائیوں میں مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت نے سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کی دھشت گرد دھڑے لشکر جھنگوی سے ایک فاصلہ رکھا اور 99ء میں نواز شریف پر لشکر جھنگوی نے حملے کی کوشش کی اور اس وجہ سے اس زمانے میں نہ نواز شریف کے حامیوں نے اور نہ ہی مخالف بریلوی سیاسی قیادت نے نواز و شہباز شریف پر دیوبندی دھشت گردی کا سیاسی چہرہ قرار نہیں دیا تھا
لیکن اس زمانے میں بریلوی سیاست چاہے وہ پرو نواز تھی یا اینٹی نواز تھی سب کی سب نام نہاد جہادی-تکفیری دھشت گرد سیاست کے خلاف تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے 80ء کی دھائی میں ہمت اور جرآت سے کام لیکر اہل تشیع کے ساتھ برادرانہ تعلقات پیدا کئے اور انھوں نے تکفیری و خارجی سیاست کے خلاف نظری ،فکری اور سیاسی سطح پر جدوجہد کی جبکہ بریلوی جو دیگر سیاسی تنظیمیں تھیں انھوں نے شیعہ سے برادرانہ تعلقات تںظیمی سطح پر پیدا نہ کئے لیکن سپاہ صحابہ پاکستان ،جیش محمد ،طالبان ،لشکر طیبہ جیسی جہادی و تکفیری سیاست کے خلاف اپنے نظریات کبھی بھی نہیں چھپائے لیکن یہ جب 90ء کی دھائی میں ٹارگٹ کلنگ اور مساجد و امام بارگاہوں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا تو مولانا شاہ احمد نورانی کی صدارت میں ملی یک جہتی کونسل بنی جس میں سپاہ صحابہ پاکستان کو مولوی فضل الرحمان کی ضمانت پر اور سپاہ محمد کو ساجد نقوی کی ضمانت پر شامل کیا گیا اور دونوں جماعتوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو دھشت گردوں سے الگ کریں گی اور تکفیری مہم بند کردے گی اور یہ آن دی ریکارڑ ہے کہ سپاہ محمد تو ختم ہوگئی لیکن سپاہ صحابہ پاکستان نے دھشت گردی اور انتہا پسند ہونے کی بنیاد پر ملی یک جہتی کونسل سے الگ ہوگئی اور علامہ شاہ احمد نورانی کی وجہ سے سپاہ صحابہ پاکستان جوکہ ملت اسلامیہ ہوچکی تھی کو ایم ایم اے میں شامل نہیں کیا گیا تھا

اس مضمون میں عامر رانا نے ان لبرل کے نکتہ نظر کو بہت زور وشور سے سیکنڈ کیا ہے جن کا خیال یہ ہے کہ بریلوی مکتبہ فکر کی مذهبی لیڈر شپ بهی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساته اینٹی انڈیا پراکسی اور افغان وار کی پارٹنر بننا چاہتی تهی اور اب بهی وہ چاہتی ہے اور یہ نکتہ نظر ہمارے اس بنیادی خیال کے خلاف ہے کہ پاکستان کے صوفی سنیوں کے ہاں تشدد اور دہشت گردی ایک وایلنس نارم کی شکل میں موجود نہیں ہے
دسسرا عامر رانا نے الزام لگایا کہ بریلوی ماب وائیلنس یعنی بلوائی تشدد و دہشت گردی کو عسکریت پسندی کے متبادل کے طور پر اسے استعمال کررہے ہیں جبکہ لاڑکانہ سمیت کئی ایک جگہ اس بات کے ٹهوس ثبوت میسر آئے ہیں کہ وہاں بلوائی حملے منظم انداز میں سپاہ صحابہ نے کروائے تهے
یہ مضمون ایک اور طرح بهی بہت ہی خطرناک ہے کہ اس میں طاہر القادری کی موجودہ سیاسی ڈرائیو کو سیکٹرین بناکر دکهانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ
ڈاکٹر طاہر القادری ،چوہدری پرویز اللہی ، ناصر عباس اور حامد رضا نے ملکر جو ڈیمانڈز حکومت کے سامنے رکهی ہیں ان میں کالعدم دیوبندی دہشت گردوں کی سرپرستی ترک کرنے کا مطالبہ فرقہ ورانہ ہرگز نہیں ہے اور یہ تو فرقہ واریت ،تنگ نظری تعصب تو دیوبندی تنظیموں اور مولویوں کی جانب سے برتا جارہا ہے جنهوں نے جمہوریت کے نام پر عدالتوں ، نوکر شاہی اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو یرغمال بنارکها ہے

ایم ایم اے کا افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں واضح موقف تھا کہ یہ ایک آزاد ملک پر جارحیت ہے اور شاہ احمد نورانی کا بھی یہی خيال تھا لیکن مولانا شاہ احمد نورانی القائدہ سمیت عالمی گلوبل وہابی جہادی ازم کے سخت خلاف تھے اور وہ اسے امریکی سازش ہی خیال کرتے تھے اور علامہ شاہ احمد نورانی جب تک باحیات رہے تو ان کی قیادت کے جھنڈے تلے موجود دیوبندی ،اہلحدیث اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو القائدہ ، اسامہ بن لادن اور فرقہ پرست دیوبندی دھشت گرد تںظیموں کی کھلی حمائت کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور ہم اس زمانے میں فضل الرحمان ،قاضی حسین احمد اور ساجد میر کے بیانات کا جائزہ ثابت کرے گا کہ کیسی خوبصورتی کے ساتھ تکفیری دھشت گرد نام نہاد جہادی سیاست سے خود کو دور رکھنے کی کوشش ہوئی ،لیکن علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد یہ جماعتیں کھل کر طالبان کے ساتھ ہوگئیں اور سپاہ صحابہ پاکستان جوکہ اہل سنت والجماعت بن گئی تھی اور لشکر طیبہ جو کہ جماعۃ دعوۃ ہوگئی تھی کے ساتھ شیر وشکر ہوگئیں
اور یہ ہی وہ دور ہے جب نواز شریف سعودی عرب تھے اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات کا نیا باب وا ہورہا تھا تو جب وہ 2008ء میں پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو اس مرتبہ نواز شریف نے پنجاب میں کالعدم دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت اور جہادی تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ گہرے تعلقات استوار ہونا شروع ہوئے اور بریلوی سیاست دان جوکہ نواز شریف کے قریب تھے ان میں یہ احساس جنم لینے لگا کہ شہباز و نواز ان کی قیمت پر یہ تعلقات استوار کررہے ہیں اور 2008ء سے 2013ء تک ایسے واقعات پنجاب میں رونماء ہوئے کہ صاحبزادہ فضل کریم کی قیادت میں سنّی تںظیمیں نواز شریف و شہباز سے الگ ہوگئے اور ان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ نواز و شہباز دیوبندی دھشت گردی کا سیاسی چہرہ ہیں اور یہ جو سنّی اتحاد کونسل جو تشکیل پائی جس کے صاحبزادہ فضل کریم چئیرمین بنے تھے اور انھوں نے بجا طور اس اتحاد کا مقصد دھشت گردی کے خاتمے اور اس دھشت گردی کے حامیوں کی سیاست کو رد کرنا تھا اور یہ بجا طور پر اینٹی سیکٹرین ،مذھبی انتہا پسند دھشت گرد تکفیری ڈسکورس تھا نہ کہ یہ دیوبندی-وہابی دھشت گرد ڈسکورس کے مقابل بریلوی دھشت گرد تکفیری ڈسکورس کو لانا تھا اور یہ وہ گمراہ کن پروپیگنڈا ہے جو سنّی اتحاد کونسل ، پاکستان عوامی تحریک اور دیگر سنّی بریلوی سیاست کے بارے میں پھیلایا جارہا ہے
سنّی بریلوی سیاست کسی ڈالیما کا شکار نہیں ہے اور اس کا ڈسکورس بہت واضح ہے اور بریلوی سیاسی ڈسکورس یہ ہے دیوبندی تکفیری دھشت گردی کے ہاتھوں متاثر ہونے والوں اور اس کے خلاف حلقوں کے درمیان اشتراک ہو اور پاکستان سے نجی دھشت گرد لشکروں اور تکفیری آئیڈیالوجی کے خلاف سیاست کا آغاز ہے اور یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست کا کامیاب پہلو ہے کہ ان کی کوششوں سے نہ صرف بریلوی اور شیعہ سیاست قریب ہوئی ہے بلکہ مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم سے بھی اس ایشو پر ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے اور اس ایشو پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی کسی حد تک ہم آہنگی نظر آتی ہے اور پی پی پی کے ساتھ بھی جنوبی پنجاب اور کراچی میں بریلوی سیاست کے اہم نام حامد سعید کاظمی ،حاجی حنیف طیب جیسے اہم نام موجود ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ جلد پاکستان سنّی تحریک بھی حالت تذبذب سے نکل آئے گی

عامر رانا نے جے یو پی کے سابق صدر مولانا شاہ احمد نورانی کے بارے میں یہ جو کہا کہ وہ آخر میں اس بات پر سہمت ہوگئے تهے کہ بریلوی سیاست کو مین سٹریم مذهبی سیاسی دهارے سے الائنس میں ہی بچایا جاسکتا ہے تو اس تجزیہ کو سیاق و سباق سے ہٹا ہوا تجزیہ قرار دیا جاسکتا ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی مذهبی جماعتوں کے جس اتحاد کے صدر بنے تهے وہ ملی یک جہتی کونسل سے شروع ہوا تها اور یہ کونسل غیر تکفیری و خارجی تمام مسالک کے اعتدال پسندوں نے ملکر بنائی تهی اور اس زمانے میں دیوبندی مکتبہ فکر پر تکفیری و خارجی سوچ پوری طرح سے غالب نہیں آئی تهی ،اس زمانے میں علامہ شاہ احمد نورانی کو مولوی فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد نے یقین دلایا تها کہ دیوبندی سیاسی جماعتیں تکفیری دہشت گردوں کا ساته نہیں دیں گی اور یہ مولانا شاہ احمد نورانی تهے جو قاضی حسین احمد کے ساته ملکر ایل ایف او کے خلاف تهے اور ان کی وجہ سے فضل الرحمان کو جرات نہ ہوئی کہ وہ مشرف سے هاته ملاتا ،اس زمانے میں بهی مولانا شاہ احمد نورانی کے ساته فضل الرحمان نے دهوکہ کیا اور ان کو سینٹ کا ممبر خیبر پختون خوا سے بننے نہ دیا ،یہ پیپلزپارٹی تهی جس کی حمائت سے علامہ شاہ احمد نورانی سینٹ کے ممبر سنده سے منتخب ہوئے تهے ،علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد دیوبندی اور جماعتئے کهل کر کهیلے اور تکفیریوں کا مکمل ساته دینا شروع کردیا
جو حالات 2010ء سے آہریشن ضرب عضب اور ابتک بنے ان حالات میں اگر علامہ شاہ احمد نورانی زندہ ہوتے تو وہ بهی آج دهرنا پارٹیوں کے ساته کهڑے ہوتے ،ان کی پارٹی زبردست انتشار کا شکار ہوئی اور اس وقت ان کی وفات کے بعد ان لی پارٹہ مزید کئی حصوں میں بٹ گئی ،اس وقت اگر جے یو پی کا کوئی سیاسی متبادل ہے تو وہ سنی اتحاد کونسل اور زرا ڈهیلے ڈهالے انداز میں پاکستان عوامی تحریک ہے
عامر رانا نے بریلوی مکتبہ فکر کی سیاست اور رجحانات کے بارے میں عام فکری مغالطوں کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور بریلوی مکتبہ فکر کے ٹهیک ٹهیک پوٹینشل کا اندازہ لگانے میں غلطی کی ہے

سنّی بریلوی سیاست کا یہ ڈسکورس نواز شریف اور اس کے دیوبندی تکفیری دھشت گرد اتحادی اور نام نہاد اعتدال پسند مولوی فضل الرحمان کی جماعت کو ایکسپوز کرتا ہے اور اسے دوھرائے پر لاکرکھڑا کرتا ہے اس نے دیوبندی دھشت گردی اور اس کے سیاسی چہرے بے نقاب کئے ہیں
اس لیے بریلوی سیاست میں ڈالیما تلاش کرنے کی بجائے یہ ڈالیما دیوبندی اور نواز شریف کی اتحادی سیاست میں تلاش کرنا چاہئیے
جہاں تک صوفی سنّی عوام کا تعلق ہے تو ان کی اکثریت کل بھی اعتدال پسند رجحان کی حامل تھی اور آج بھی اسی رجحان کی حامل ہے اور اس اکثریت کو خوامخواہ خیالی ،فرضی ،من گھڑت بریلوی تکفیری ڈسکورس سے منسوب نہیں کرنا چاہيے

http://www.dawn.com/news/1127288/dilemma-of-barelvi-politics … 

Comments

comments

Latest Comments
  1. ahmed deobandi
    -
    • Shia
      -
  2. ahmed muawiya deobandi
    -
  3. Taraq Khan
    -