فلسطینی بچوں کی شہادت پر اسرائیلی عوام کا جشن و اظہار مسرت – از خرم زکی
غزہ پر اسرائیلی حملہ اور وہاں ہونے والی تباہی اور بربادی کے مناظراب پوری دنیا کے سامنے آ چکے. دو ہزار کے قریب فلسطینی اس ننگی جارحیت کے نتیجے میں شہید اور دس ہزار کے قریب زخمی اور مفلوج ہو چکے ہیں. اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے جنگی اور انسانیت کے خلاف کیۓ گئے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے جو تیار کی جا سکتی ہے مگر اس اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ اس جنگ (جس کو دہشتگردی کہنا زیادہ مناسب ہے) کے دوران جس طرح عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا اس نے اسرائیلی شقاوت و بے رحمی کو ہر با ضمیر انسان پر عیاں کر دیا. پچھلے چار ہفتوں سے جاری اس جارحیت میں ٤٢٥ سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں جن میں ١٢ سے کم عمر بچوں کی تعداد ٣٠٠ سے زائد ہے جن کے جسد خاکی کی تصاویر عالم انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور ان بے غیرت عرب حکمرانوں سے سوال کناں ہیں، جو اس ننگی صیہونی جارحیت میں اسرائیل کے حامی و مددگار ہیں، کہ “ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا”. اس دوران اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایسے اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا جہاں سینکڑوں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے . ایسے ہی ایک آخری حملے میں، جس کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مجرمانہ اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، رفاہ کے ایک اسکول پر حملے میں ١٠ فلسطینی شہید ہو گئے. قابض صیہونی افواج اب تک ١٣٦ اسکولوں، ٢٤ اسپتالوں اور ٢٥ سے زائد ایمبولینسوں کو نشانہ بنا چکی، تباہ کر چکی ہے
دوسری طرف اسرائیلی شہریوں اور صیہونی افراد کا اس قتل عام پر رد عمل بھی قابل دید ہے. لوگ ایک ڈینش اخبار کے مشرق وسطیٰ کے لیۓ نمائندے ایلن سورینسن کی ان تصاویر کو فراموش بھی نہ کر پاۓ تھے کہ جن میں سدیروت کے ایک پہاڑی ٹیلے پر ، جو غزہ سے محض ٢ کلو میٹر کی مسافت پر ہے، صیہونی باشندوں کو غزہ پر حملے کے بعد تالیاں پیٹتے دکھایا گیا تھا، ادھر مزید ایک ویڈیو منظر عام پر آئ ہے جس میں تل ابیب کے اسرائیلی شہری غزہ میں فلسطینی بچوں کی شہادت پر جشن منا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہی
“کل سکول کی چھٹی ہے کہ کیوں کہ غزہ کا کوئی بچہ زندہ نہیں بچا”
“غزہ ایک قبرستان کا نام ہے”
“ہم تمام عربوں سے نفرت کرتے ہیں”
صیہونی افراد کی غیر یہودیوں سے نفرت اور بغض کی یہ کوئی اکیلی مثال نہیں. ٢٠٠٨ میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی ایسی ہی خبریں آ چکیں جن کے مطابق اسرائیلی عوام نے غزہ پر اسرئیلی جارحیت کے بعد خوشی و مسرت کا اظہار کیا تھا. سابق صیہونی وزیر اعظم ایریل شیرون کے بیٹے گیلاد شیرون کا یہ مضمون بھی اسرائیلی اخبار کی زینت بن چکا جس میں اس درندے نے کھلم کھلا غزہ کو قبرستان بنانے کی بات کرتے ہوۓ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مشورہ دیا تھا. اسی طرح ایک اسرائیلی اخبار میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کی حمایت میں مضمون لکھا گیا. ادھر امریکہ میں موجود ایک یہودی عالم کا یہ بیان بھی خبروں کی زینت بنا جس میں غزہ میں نہتے فلسطینی عوام و شہریوں کو محض اس وجہ سے واجب القتل ٹہرایا گیا ہے کیوں کہ فلسطینیوں نے انتخابات میں حماس کو ووٹ دینے کا جرم کیا ہے. ایک اسرائیلی پروفیسر تو اس حد تک گیا کہ کہنے لگا کہ اسرائیلی افواج کو مظلوم فلسطینی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر اور ان کی عصمت دری کرنی چاہیۓ. یہ تصاویر و خبریں راۓ عامہ کواسرائیلی مظالم، نسل پرستی پر مبنی صیہونی افکار اور اسرائیلی بربریت کے خلاف منظم کرنے کا سبب بن رہی ہیں
hello I live post
hi I live post
hi I live post