مخالفت یہود و مخالفت صہیونیت میں فرق کیا ہے ؟ – از عامر حسینی
ایک صاحب ہیں ایلن ہارٹ جوکہ کبهی انڈی پینڈنٹ ٹیلی ویژن نیٹ ورک برطانیہ اور بی بی سی سے وابستہ رہے اور مڈل ایسٹ پر ان کو خاصی مہارت حاصل ہے اور اسرائیلی و فلسطینی قیادتوں کو بہت قریب سے دیکها اور پهر انہوں نے ایک معروف کتاب “صہیونیت ،یہودیوں کی اصل دشمن “جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اور وہ ایک بلاگ ایلن ہارٹ.ورڈپریس.کوم کے نام سے بهی لکهتے ہیں ،ابهی حال ہی میں انہوں نے اپنے تازہ مضمون میں لکها ہے کہ کس طرح سے صہیونیت نے صہیونیت مخالفت کا مطلب مسخ کرتے ہوئے سامیت مخالفت یا یہودی مخالفت رکه دیا ہے
ایلن ہارٹ اپنے ایک دوست ڈاکٹر ہاجو مائر جوکہ یہودی ہیں اور هالو کاسٹ سے بچ نکلے تهے کا ایک قول اس حوالے سے اپنے آرٹیکل میں درج کیا ہے
An anti-Semite used to be a person who disliked
Jews. Now it is a person who Jews dislike
ایلن هارٹ نے دو واقعات اس حوالے سے درج کئے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کے فلسطینیوں پر مظالم اور جبر کے خلاف یورپی یونین بینک کے صدر کی بیوی نے اپنے گهر پر فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے فلسطینی جهنڈا اپنے گهر کے اوپر چهت پر لہرادیا تو اس کے پڑوس میں رہنے والے ایک صہیونی یہودی نے اس کوسامیت مخالف قرار دیا بلکہ ورلڈ جیوش کانگریس سے رابطہ کیا کہ وہ امریکی حکومت کو کہے کہ وہ یورپی یونین سنٹرل بینک کے صدر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے
اسی طرح جب برٹش لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اسرائیلی صہیونی حکومت کے بارے میں سچ بولا تو ان کو بهی کہہ دیا گیا اور اسی طرح سے جب لندن سنڈے ٹائمز کے کارٹونسٹ گیرلڈ سکاف نے نیتن یاہو کا کارٹون بناکر شایع کیا تو اسے بهی سامیت مخالف ہونے کا الزام سننے کو ملا
یوروپ اور امریکہ میں سامیت مخالف ہونا سماجی ،اخلاقی اور قانونی طور پر بہت ہی برا اور قابل نفرت و مذمت و دست اندازی پولیس جرم اور فعل ہے لیکن یہ صہیونی لابی کے ہاتهوں میں ایک هتیار کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ جو بهی صہیونیت اور صہیونیوں کے بارے میں بولے اس کو فوری طور پر سامی مخالف قرار دے دیا جاتا ہے
ایلن ہارٹ لکهتا ہے کہ صہیونی نہ صرف غیر یہودی اپنے مخالفوں کو خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ یہودی جو اسرائیل اور صہیونیت پر تنقید کرتے ہیں ان کو بهی خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے
ایک مرتبہ مرحوم ایڈورڈ سعید نے ڈیوڈ براسمین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تها کہ
What they want is my Silence and they (Zions) call every resistance is terrorism
تو صہیونیت کی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے جهوٹ ،دغا بازی ،مظالم اور جبر پر تنقید کرنے والے ہر ناقد کو سامیت مخالف قرار دے ڈالیں اور فلسطینیوں کی ہر قسم کی مزاحمت کو دہشت گردی کا لقب دے کر چپ کرادیں
ایلن ہارٹ لکهتا ہے کہ
anti-Semitism as defined by supporters of Israel right or wrong is anything written or said by anybody who challenges and contradicts Zionism’s version of events.
لیکن اس کا یہ مطلب بهی نہیں ہے کہ سامیت مخالفت کا وجود ہی نہیں ہے
یہ جو سامیت مخالفت ہے یہ ایک ٹهوس حقیقت کے طور پر موجود ہے اور اس مراد ایلن ہارٹ کے مطابق یہ ہے
Anti-Semitism properly and honestly defined in its Jewish context is prejudice against and loathing, even hatred, of Jews, all Jews everywhere, just because they are Jews. (I say “anti-Semitism in its Jewish context” because there is another context. Arabs are also Semitic peoples. A real and true anti-Semite is therefore one who is prejudiced against and loathes, even hates, both Jews and Arabs).
جیوش تناظر میں اگر Anti-Semitism کو دیکها جائے تو ہمں جیوش کے ساته ان کے جیوش ہونے کی وجہ سے نفرت ،ان کے ساته تعصب اور ان کے سیٹریو ٹائپس اور پروٹو ٹائیپس بنانے کا عمل ملتا ہے اور جو مذهبی بنیاد پرست ،تکفیری و خارجی صفت ہیں ان کے ہاں تو یہ بہت واضع طور پر موجود ہے
میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ گلوبل وهابی دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی بهی صیہونیت کی طرح اپنے سے اتفاق نہ رکهنے والوں کو مشرک ،کافر ،واجب القتل ،غدار کہتی ہے اور اس کے ہاں تکفیر اور خارجیت ایک طرح سے اینٹی سمٹزم کے مترادف ہوگئی ہے کیا ماہر حمود لبننانی سنی عالم جب یہ کہتا ہے کہ عربوں کو اسرائیل کے خلاف لڑوانے کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ اسرائیل کو شیعہ قرار دے دیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب میں عالمی سلفی دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے ہاں یہودی سے کہیں زیادہ قا بل نفرت کسی کا شیعہ ہونا ہے جس طرح سے مذهبی بنیاد پرستوں اور انتہاپسندوں نے یہودی ہونے کے بار میں نفرت اور بغض پهیلایا ہے اسی طرح سے انہوں شیعہ یا صوفی سنی ہونے کو بہت بڑا جرم بنا ڈالا ہے
فلسطینیوں کے مقدمے کو حماس نے خاصا خراب کیا ہے کیونکہ حماس کے اندر ایک بہت بڑی تعداد اب سلفی وهابی تکفیریوں کی موجود ہے جو کہ ایک طرف تو یہودی مخالف ہے ہے تو دوسری طرف وہ اینٹی شیعہ ،اینٹی صوفی سنی اور قوم پرست سیکولر آئیڈیالوجی کی مخالف بهی ہے
حماس نے نہ صرف شام میں بلکہ عراق میں بهی شیعہ ،صوفی سنیوں کے خلاف خودکش بمبار بهجوائے اور عراقی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق حماس نے ترکی اور قطر کی اشیرباد سے ترکی کی سرحد سے شام کے اندر آئی ایس ،اسلامک جہاد اور دیگر کئی تنظیموں کو خودکش فلسطینی بمبار فراہم کئے اور اسی طرح عراق میں ان فلسطینی خودکش بمباروں نے شیعہ ،صوفی سنی ،کرسچن اور کرد آبادی اور ان کی مذهبی عمارتوں کو نشانہ بنایا
یہاں پر ضمنی طور پر یہ بهی دیکهنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینی انتفادہ میں مقاومہ یعنی تحریک مزاحمت میں وہ کون سے عناصر تهے جنهوں نے اسرائیل کی معصوم شہری آبادی ،پبلک مقامات ،ہسپتال ،تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور یہاں تک کہ اپنی حفاظت کے لیے ہیومن شیلڈ بنائی تو واضح طور پر اس میں حماس کا نام لیا جاسکتا ہے اور یہ حماس تهی جس نے فلسطینی قوم پرست سیکولر آزادی پسند گروپوں کے خلاف بهی نام نہاد جہاد شروع کیا ،حماس کے اندر تکفیر و خارجیت بہت اندر تک جڑ پکڑ چکی ہے
دیکهنے کی ضرورت یہ بهی ہے کہ اسرائیل کے خلاف جو مقاومہ ایرانی بلاک اور پهر قطری ،کویتی ،سعودی ،ترکی بلاک نے قائم کیا اس نے فلسطینی کیس کو کس حد تک مسخ کیا ہے اور اس کی وجہ سے عام عرب یہودیوں ،عیسائیوں سے عرب مسلمانوں کے تعلقات کس نہج پر جا پہنچے ہیں
یہ تکفیری خارجی آئیڈیالوجی ہے جس نے صہیونیت کے خلاف عربوں کی متحدہ مزاحمت کا مستقبل تاریک کرڈالا ہے اور اس نے سامراجیت کو بهی طاقتور کیا ہواہے
تکفیری خارجی آئیڈیالوجسٹ کیا سوچ رکهتے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جب ابوبکر البغدادی سے پوچها گیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کیوں جہاد نہیں کرتے تو بغدادی کا کہنا تها کہ وہ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی سنت پر عمل پیرا ہیں کہ انهوں نے پہلے جہاد رافضہ سے کیا اور جب صلاح الدین سے کسی نے پوچها کہ وہ یہودیوں سے کیون نہیں لڑتا تو اس نے کہا کہ وہ اگر رافضہ سے لڑے بغیر اسرائیل کی طرف گیا تو رافضہ اس کی پیٹه میں چهرا گهونپ دیں گے
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صلاح الدین نے قرامطہ کے خلاف جنگ کی تهی جوکہ تکفیر اور دہشت گردی میں خارجیوں سے کم شدت پسند نہ تهے جو کعبہ سے حجر اسود اکهاڑ کرلےجائیں اور حج بند کرنے کا اعلان کرسکتے تهے ان کو شیعہ امامیہ سے ملانا بالکل غلط ہے
ایران کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف جو مقاومہ تحریک ہے اس کے اندر بهی اینٹی سمٹزم کے جراثیم موجود ہیں اور حماس کی غیر مشروط حمایت نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے ابهی کچه دن گزرے جب تعمیر پاکستان کے سابق ایڈیٹر انچیف عبدل نشا پوری نے حماس کے اندر داعش کی رجحان کی نشاندهی کی تهی اور اس تنظیم کے شام اور عراق میں فرقہ پرست کردار پر روشنی ڈالی تهی تو پولیٹیکل شیعہ نامی ایک فیس بک پر بنے آفیشل پیج نے عبدل نیشاپوری اور تعمیر پاکستان کو ایک اسرائیل و امریکہ نواز ایجنتس قرار دینے کی کوشس کی گویا شیعہ کمیونٹی کے اندر بهی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایران کی خارجہ اور علاقائی پالیسیوں کو حرف آخر خیال کرتی ہیں اور جو اس کو فالو نہ کرے وہ امریکی و اسرائیلی ایجنٹ ٹهہر جاتا ہے
ایسا رویہ تو کبهی روس نواز و چائنا نواز مارکسی گرپوں کا ہوا کرتا تها
اسرائیل کے اندر اور اسرائیل کے باہر بہت سے یہودی صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ پر بمباری کی شدید مزمت اور احتجاج کررہے ہیںکئی اسرائیلی فوجیوں نے ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ہے،اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی نے شدید احتجاج کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
اسرائیل کی صہیونی جارحیت کے خلاف خود اسرائیل کے اندر انصاف پسند یہودی بھی احتجاج ،مزاحمت کا راستہ اپنائے ہوئے اور اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کو مٹانے کے نعرے اور یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتيں سوآئے اینٹی سمٹزم کے اور کچھ بھی نہیں ہیں