بلیک ستمبر، صابرہ شتیلہ اور غزہ

الله کا شکر ہے میں منافق نھیں ہوں۔میں فلسطینیوں کے قتل عام کی اتنی ہی شدت سے مذمت کرتا ہوں جتنا اپنے وطن میں قتل ہونے والےسنیوں, شیعوں،احمدیوں،عیسائیوں اور دیگر  اقلیتوں کے قتل کی کرتا ہوں۔میں اپنے وطن میں طالبان،لشکر جھنگوی کی دہشت گردی کی اتنی ہی مذمت کرتا ہوں جتنا اسرائیل کی  دہشت گردی کی کرتا ہوں

میں وہ منافق نہیں ہوں جواپنے وطن میں مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے انسانوں کے قتل پر خاموش رہوں اور صرف اسرائیل کے ظلم کی مذمت کروں

میں وہ منافق نہیں ہوں جواپنےوطن میں ایک دن میں ہزارہ برادری کی سو لاشیں گرتا دیکھ کر خاموش رہوں مگر فلسطٰین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر شورمچاؤں.مجھے ایک ہزارہ بچے کی لاش دیکھ کر اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنا غزہ کے ایک بچے کی لاش دیکھ کر ہوتا ہے۔

میں وہ منافق نہیں ہوں جو فلسطینوں کے قتل عام کے خلاف تو خوب بولوں مگر پچاس ہزار ہم وطنوں کے قتل پر خاموش رہوں اور قاتلوں سے مذاکرات کی بات کروں ان کو اپنا بھائی کہوں اور جب ان کےخلاف آپریشن کیا جائے تو مخالفت کروں۔

 اب بات کروں گا ہمارے ملک میں نام نہاد مذہبی جماعتوں کی منافقت کا جو برما ،فلسطین،کشمیر اور دیگر ممالک میں تو قتل ہونے والے مسلمانوں کے لیئے تو احتجاج کرتی ہیں اور وہاں ہونے والے ظلم و بربریت کو خوب اجاگر کرتی ہیں اوران کی مظلومیت کا خوب پرچار کرتی ہیں مگر جب پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بیگناہ انسان قتل ہوجائیں تو کوئی مظاہرہ نہیں کرتی، نہ ہی اسےظلم تصور کرتی ہیں بلکہ الٹا اسے ڈرون حملوں کا رد عمل کہہ کرڈھکے چھپے الفاظ میں ان دہشت گردوں  کی حمایت کرتی ہیں بلکہ جماعت اسلامی جیسی جماعتیں نہ صرف کھل کر ان دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہیں بلکہ ان دہشت گردوں کو اپنے گھر پناہ بھی دیتی ہے۔کیا منافقت کی اس سے بڑھ کر کوئی مثال ہو سکتی ہے؟

پہلی جنگ عظیم اور  عربوں کی غداری

اب بات کرتے ہیں اسرائیل کے قیام اور ان کے مظالم کی.اسرائیل کے قیام میں جتنا کردار برطانیہ کا ہے اتنا کردار عربوں کا بھی ہے۔

 

پہلی جنگ عظیم کے موقع پر عربوں نے ترکوں سے غداری کرکے سلطنت عثمانیہ کو کمزور کردیا ۔جس کی وجہ سے ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی اور فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔

عرب حکمرانوں نے اسلام دشمن طاقتوں سے اتحاد کرکے امت کے مفادات پر بارہا کاری ضرب لگائی ہے۔گذشتہ صدی کے آغاز میں مغرب کے ذریعہ مشرقِ وسطیٰ کی قومی ریاستوں میں تقسیم اور پھر عرب قبائلی سرداروں کو ان ریاستوں کی حکمرانی عطا کیے جانے کے عوض ان حکمرانوں نے امت کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں  چھوڑی۔ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر عرب ریاستیں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھیں.اس جنگ میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا.اس نازک صورتحال میں لارنس آف عربیا نے ترکوں کے خلاف عرب قومیت کا پراپیگینڈہ کیا۔جس سے عام عرب آبادی بھی ترکوں کے خلاف ہوگئی۔جنگ عظیم میں سعودیوں کی پے درپا بغاوت اور شریف حسین کی غداری سے ترکوں کا بہت نقصان ہوا۔جنگ عظیم کے خاتمے پر سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور ترکی میں کمال اتاترک کی حکومت قائم ہوئی اور فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا


عربوں پر حملوں کے دوران بھی انگریزوں کو شریف حسین، اس کے بیٹوں اور چند دوسرے غداروں سے بھرپور حمایت اور مدد حاصل رہی۔عثمانی حکومت کے خاتمہ اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے میں اس خطہ کے عربوں کا کردار اتنا اہم تھا کہ عرب علاقہ میں برطانوی افواج کے سربراہ جنرل ”آلن بی ” نے جولائی  ١٩١٨ء  میں برطانیہ کی وزارت جنگ کو جو رپورٹ پیش کی اس میں وہ بڑی صراحت سے کہتا ہے کہ ” اس جنگ سے حاصل ہونے والے آخری نتائج میں عرب افواج کا بڑا حصہ ہے اور انہوں نے اس راہ میں مکمل تعاون کیا ہے۔

آل سعود کی سامراج نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے-جب برطانیہ سامراج فلسطین کو صہیونیوں کے حوالے کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی تو آل سعود سے بادشاہ بنے کنگ عبدالعزیز نے ایک فرمان برطانیہ حکومت کے نام لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو صہیونیوں کو دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے-اس فرمان کا عکس ایک 

سعودی مجلے میں شایع ہوا تھا جس کو ہم بھی شایع کررہے ہیں- 

عربوں نے اپنی پوری طاقت عثمانی حکومت کو کمزور کرنے میں صرف کردی اور وہ اس بات سے غافل رہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے اتحادیوں نے درپردہ ان کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ 

     اسرائیل کا قیام

پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے دنیا بھر سے یہودی لاکر فلسطین میں بسانا شروع کردیئے نتیجہ یہ نکلا کہ 1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 38 ہزار کے قریب ہو گئی۔ 1922ء سے 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صیہونی ا یجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنھوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ 

Source:-http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_Israel

اب ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا “قومی وطن” کی بجائے “قومی ریاست” کا درجہ حاصل ہو جائے۔ 1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31  ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ تقسیم کی تجویز کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔موجودہ دور کے صیہونی رہنما یہودیوں پر ہٹلر کے ذریعہ ہونے والے مظالم کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنی سفاکی پر پردہ ڈا ل سکیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہودی خود فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک بدر کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں نیز انکے ساتھ وہی قتل و غارتگری کا معاملہ کرتے ہیں جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا  


توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میںعرب اسرائیل جنگ میں کامیابی کے بعد تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر 

مجبور ہوگئے

 Source:- http://www.irannovin.info/?_action=articleInfo&article=1038

بلیک ستمبر.اردن اور ضیاء الحق کا کردار

اردن نے 1970 میں اسرائیل مخالف فلسطینی فدائیان کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا. اس مقصد کے لئے پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق  کی خدمات حاصل کی گئیں.جو اس وقت بریگیڈیئر تھا.آمر جنرل ضیاء الحق نے مشن ٹرینینگ اور فلسطینیوں کے خلاف جنگی پلان مرتب کیا اور فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اردن کے سپاہیوں کی قیادت کی.اس آپریشن کو ‘ بلیک ستمبر’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس میں 25000 کے قریب معصوم فلسطینی اردن کی افواج اورضیاء الحق کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ستمبر 1970 ء کو عربوں کی تاریخ میں بلیک ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. اس کو “افسوسناک واقعات کا دور” بھی کہا جاتا ہے.15 ستمبر کو اردن کے بادشاہ نے مارشل لاء لگادیا اگلے دن پاکستانی اور اردن کی آرمی نے ضیاء الحق کی قیادت میں عمان میں موجود فلسطینیوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا.آرمی نے فلسطینیوں کے کیمپس اربد، السلط، صويلح، البقعة، الوحدات والزرقاء پر حلمہ کیا.اس دوران ضیاء الحق نے سیکنڈ ڈویژن کی قیادت کرتے ہوۓ ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا.اس وقت  کے  اسرائیل کے وزیر اعظم  نے کہا تھا کہ” اتنے فلسطینی ہم نے بیس سال میں نہیں مارے جتنے ضیاء الحق نے گیارہ دن میں مار  ڈالے.مزید تفصیلات کے لئے میرا یہ آرٹیکل پڑھیں

https://lubpak.com/archives/281617

حیرت کی بات ہے یہ اردن کے کیسے حکمران تھے جو اپنے مظلوم بھائیوں کو جو یہاں پناہ لینے پر مجبور تھے ان کی مدد کے بجائے ان کا قتل عام کر رہے تھے.عربوں کے فلسطینیوں سے اس رویہ اورسلوک نے اسرائیل کو اور طاقتور کیا

صابرہ اور شتیلہ کا قتل عام

صابرہ بیروت کے ایک غریب علاقے کا نام تھا.اس کے نزدیک ہی شتیلہ نام کا ایک مہاجرکیمپ تھا.جس میں فلسطینی آباد تھے۔کچھ عرصہ کے بعد یہ دونوں آبادیاں آپس میں اس قدر مدغم ہوگئیں کہ اس علاقے کو صابرہ اور شتیلہ کہا جانے لگا۔جب لبنان اندرونی خانہ جنگی میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کا میدانِ جنگ بنا تو اسرائیلی افواج ، لبنان میں در آئیں۔ جنوبی لبنان پر قبضے کے بعد 1982ء میں وزیر دفاع ایریل شیرون کی قیادت میں اسرائیلی افواج نے بیروت کا محاصرہ کیا اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن، جس کی قیادت یاسر عرفات کرتے تھے ، کو مجبور کیا کہ اپنے مرکز کو بیروت سے ختم کر کے چلے جائیں۔ یکم ستمبر 1982ء کو یاسر عرفات کے تمام ساتھیوں کو بیروت سے بے دخل کر دیا گیا۔ جب پی ایل او کی اعلیٰ قیادت بیروت سے جبری طور پر نکال دی گئی تو فلانجی عیسائیوں کی تنظیم کے رہنما ایلی ھوبیکا کو ایریل شیرون نے یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ صابرہ و شتیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں گھس کر نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کی قیادت کرے۔ عورتوں، بچوں، مردوں اور بوڑھوں کو 16ستمبر کی شام سے 18ستمبر کی صبح تک مسلسل گھروں سے نکال نکال کر قتل کرنے کے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ اس اجتماعی قتل عام کے منصوبے میں تین ہزار کے قریب نہتے فلسطینی شہید ہوئے۔ اس دوران ایریل شیرون، صابرہ و شتیلہ سے چند قدم دُورکویت کے سفارت خانے کے قریب ایک زیر تعمیر عمارت کی تیسری منزل پر دُور بین سے قتل عام کی نگرانی کرتا رہا۔

Source:- http://en.wikipedia.org/wiki/Sabra_and_Shatila_massacre

 برطانیہ کے معروف ترقی دانشور رابرٹ فسک وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے اس درد ناک قتل عام کو موقع پر رپورٹ کیا

 ایریل شیرون نے صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں مقیم فلسطینیوں پر انتہائی گھناﺅنے مظالم کیئے۔ اس سفاکیت کی مذمت اور انسداد کرنے کی بجائے صیہونی اسے بڑے فخر کے ساتھ ”یہودیوں کا قصاب“ قرار دیتے رہے۔

اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد سے معصوم فلسطینوں پر مظالم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ آج تک جاری ہے اور عرب لیگ، اقوام متحدہ اور مغربی دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے سورہے ہیں.مسلم دنیا کی خاموشی اور عرب ممالک کا مصلحت آمیز رویہ اسرائیل کو مزید حوصلہ بخش رہا ہے

بدقسمتی سے بعض عرب ممالک غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے بجائے وہ شام اور عراق میں باغیوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں کاش یہ عرب ممالک آپس میں لڑنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا. 

اگر یہ نام نہادجہادی شام جا کر بشارلااسد کے خلاف لڑسکتے ہیں تو کیا اسرائیلی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے میں انہیں موت آتی ہے؟

اسرائیل نے جس طرح جنگل کے قانون کو نافذالعمل قرار دیتے ہوئے غزہ پر درندگی، وحشت، اور ظلم و ستم کی انتہا کی ہے۔ اس نےایک بار پھر چنگیزیت کی یاد تازہ کر دی ہے.گذشتہ کئی دنوں سے جاری بمباری میں سیکڑوں معصوم بچے شہید ہوچکے ہیں۔ کوئی اسرائیلی درندوں سے پوچھنے والا ہے کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے؟ اسرائیلی درندے جب چاہتے ہیں ان پر یلغار کردیتے ہیں اور سینکڑوں معصوموں کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور ان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں۔اسرائیل جب کبھی غزہ میں بے گناہوں کے خلاف حملے کرتا ہے تو اس میں بے گناہ بچےمارے جاتے ہیں.حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ اپنی آنکھوں سے معصوم بچوں کا قتل عام دیکھنے کے باوجود ساری دنیا آخر کیوں خاموش ہے۔ انھیں اور کس بات کا انتظار ہے۔ کیا عالمی ضمیر تب بیدار ہوگا جب پورا غزہ قبرستان بن جائے گا۔

 

Embedded image permalink

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rafique Farooqi
    -
  2. Tariq Aftab
    -
  3. مدثر ظفر
    -
  4. مدثر ظفر
    -