امام حسین کانفرنس کا احوال اور کچھ معروضات: مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم – از عامر حسینی

shia-genocide2

گذشتہ اتوار جامعہ منهاج الحسین جوہر ٹاون لاہور میں دوسری سالانہ امام حسین کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اس کانفرنس کا عنوان تها “سیاست حسین علیہ السلام

مجهے سید احسن عباس رضوی نے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور جب میں وہاں پہنچا تو وہاں سٹیج پر پی پی پی کے سینٹر فرحت اللہ بابر کو کو تشریف فرما دیکها تو میرا ماتها ٹهنکا کیونکہ سینٹر فرحت اللہ بابر کا “سیاست حسین “سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ دیوبندی مکتبہ فکر کا ایک ماڈریٹ سیاست دان ضرور ہے اور پاور پالٹیکس میں جس طرح سے مطلب نکل سکے اسے نکالنے کا قائل ہے

اس کانفرنس میں پی پی پی کے ندیم افضل چن بهی موجود تهے اور چند ایک اور پی پی پی کے رہنما بهی تهے اور سب کے سب اشاروں کنایوں میں یہ کہہ رہے تهے کہ مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت وقت کی یزیدی سیاست کررہے ہیں اور یزیدی لشکرکے سپاہی ان کے ساته ہیں

ظاہر ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کے چهوٹے بهائی میاں نواز شریف کے دیوبندی دہشت گرد اور تکفیری تنظیم اہل سنت والجماعت و وهابی عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے ساته تعلقات اور رشتوں کی بات کررہے تهے لیکن ایک بات طے تهی کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کا نام لیتے تهے لیکن دیوبندی تکفیری دہشت گرد اہل سنت والجماعت کا نام نہیں لیتے تهے اور نہ ہیان کی زبان پر محمد احمد لدهیانوی ،ملک اسحاق کا نام آیا
میرے لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہ تهی اس لئے کہ پی پی پی کی اکثر وبیشتر سیاسی قیادت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے مسلم لیگ نواز کی دیوبندی دہشت گردوں سے سیاسی معاهدوں اور ان کے باہمی تعلقات پر تنقیدی بیانات اپنے دور حکومت میں جاری کرت رہے لیکن ان کی وفاقی اور سنده میں حکومت نے اہل سنت والجماعت پر پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی ان کے اثاثے منجمد کئے اور نہ ہی کوئی کریک ڈاون کیا

آج بهی سنده میں اہل سنت والجماعت اور جماعت دعوہ آزادی سے کام کررہی ہیں اور وہاں پر اہل سنت والجماعت کے مرکزی رہنما اور تکفیری دہشت گرد اورنگ زیب فاروقی کو پولیس اسکواڈ ملا ہوا ہے اور وہ فورته شیڈول میں ہونے کے باوجود سنده کے اندر اور جنوبی پنجاب میں شیعہ کے خلاف ہونے والے اجتماعات میں شریک ہوتا ہے

اس نے مئی اور جون میں جنوبی پنجاب کے اندر اہل سنت والجماعت کے کل تین سو بڑے جلسوں میں سے نصف میں شرکت کی اور جنوبی پنجاب سے شایع ہونے والے اکثر اخبارات نے اس کے پروگراموں کی کوریج کی اور اس نے نہایت اشتعال انگیز تقریریں کیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سنده حکومت سنده اور کراچی میں شیعہ ،بریلوی،عیسائی ،هندوں اور احمدیوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز اور اشتعال پر مبنی مہم چلانے والی دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت اوراس کے کراچی میں سب سے اہم محرک اورنگ زیب فاروقی کو گرفتار یا اس کی زبان بندی وضلع بندی کیوں نہیں کرتی ؟

پی پی پی سنده حکومت اورنگ زیب فاروقی سے ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کراتی جوکہ فورته شیڈول میں شامل ایک فرد کے لئے لازم ہوا کرتے ہیں ؟ پی پی پی کی سنده حکومت اورنگ زیب فاروقی کو سیکورٹی کیوں دے رہی ہے اور اس سے وی آئی پی سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ہم نے بلاول بهٹو سے کئے اور یہی سوالات آصف علی زرداری ،اور دیگر رہنماوں سے بهی کئے جاتے رہے ہم نے بارہا کہا کہ اگر آپ واقعی مذهبی فاشزم کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنے کو تیار ہیں تو جہان آپ کی حکومت ہے وہاں مذهبی فاشزم کی علمبدار دہشت گرد اور انتہا پسندوں پر پابندی لگائیں اور یہ بسم اللہ اورنگ زیب فاروقی اور اہل سنت والجماعت پر پابندی سے کریں اور سنده میں جن مدرسوں میں دہشت گردون کے جاکر رہنے اور پناہ لینے کے ثبوت آچکے ہیں جیسے جامعہ فاروقیہ کراچی ،جامعیہ اشرف المدارس ،جامعہ بنوریہ العالمیہ ان کے خلاف قانونی اقدام اٹهائیں

سنده اسمبلی مین پنجاب میں لشکر جهنگوی کے ٹهکانوں پر آپریشن کرنے کی قرارداد کے ساته کراچی اور سنده میں ٹهکانوں پر آپریشن کی قراداد کیوں نہیں آئی ؟مجهے پی پی پی کی ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ اس کی اور اس کے شوہر کے گهر والوں کو جو کراچی میں مقیم ہیں اورنگ زیب فاروقی کی جانب سے سخت خطرات کا سامنا ہے اور اسے کہا جارہا ہے کہ اگر اس نے اور اس کے شوہر نے دیوبندی تنظیموں کے خلاف لکهنا بند نہ کیا تو ان کے گهر والوں پر حیات تنگ کردی جائے گی

خود بلاول بهٹو زرداری کو لشکر جهنگوی اور طالبان نے نشانہ بنانے کی دهمکی دے رکهی ہےاس ساری حقیقت کے پیش نظر ہم پی پی پی کی قیادت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ سنده میں جس مصلحت پسندی پر عمل پیرا ہے اور وہ سہاہ صحابہ پاکستان کو اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اس سے وہ دیوبندی تکفیری دہشت گرد ٹولے سے نہ خود بچ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے حامی شیعہ ،بریلوی،هندو ،عیسائی اور دیگر سیکولر لبرل حلقے اور نہ ہی گول مول موقف سے ان کو دیوبندی دہشت گرد ٹولے کا تعاون مل سکتا ہے

یہ وہ تنقید ہے جو امام حسین کانفرنس میں تقریر کرنے والے پی پی پی کے نمائندوں پر لاگو ہوتی ہے اور ان کا شمار ان کوفیوں میں ہوتا ہے جو اہل بیت اور حسین سے اپنی محبت کے تمام دعووں کے باوجود حسین کے ساته کهڑے نہ ہوسکے اور حسین مظلومیت کے ساته کربلا میں شهید کردئے گئے اور خود کوفیوں کو بهی یزیدی حکمرانوں کے هاتهوں زبردست نقصان اٹهانا پڑا

اس کانفرنس میں جو کانفرنس کے منتظم تهےعلامہ محمد حسین اکبر ان کی تقریر نفس مضمون کے اعتبار سے جو تهی اس کو دیکه کر کہا جاسکتا کہ – مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم -علامہ محمد حسین اکبر کی تقریر سن کر مجهے یقین ہوگیا کہ علامہ محمد حسین اکبر پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے وہ رہنما ہیں جو ڈاکٹرعلی شریعتی کے بقول سیاہ شیعت کے علم بردار ہوتے ہیں اور سرخ شیعت سے کوسوں دور ہوتے ہیں علامہ محمد حسین اکبر سعودی عرب کے سرکاری دورے پر سینٹ کے اراکین اور چند دوسرے مولویوں کے ساته تشریف لے گئے تهے اور اس موقعہ پر انہوں نے یہ دیکها کہ سعودی پارلمنٹ ،سعودی حکام کے اندر کوئی تعصب کارفرما نہیں ہے سعودی پارلیمان میں آٹه شیعہ رکن ہیں ،شاہ عبداللہ تکفیری اور متشدد مولویوں کے خلاف ہے

یہ نتیجہ علامہ محمد حسین اکبر نے دورہ سعودیہ عرب سے اخذ کیا اور اپنے خطاب میں انہوں نے ایک مرتبہ بهی پاکستان میں سعودیہ عرب کی مخالفت اور یہاں زبردستی سلفی اسلام کے نفاز کی کوششوں اور دیوبندی دہشت گردی کا زکر نہیں کیا
ان کی گفتگوسے پتہ چلا کہ سعودی عرب کا یہ دورہ پاکستانی حکومت نے تشکیل دیا تها اور میری نظر میں یہ سعودیہ عرب کی ایک معتدل ملک ہونے کے امیج کو مصنوعی طور پر تعمیر کرنے کا ایک منصوبہ ہے

علامہ محمد حسین اکبر نے اس کانفرنس میں سفیر عراق،عمار عبدالحکیم ،آیت اللہ یعقوبی سمیت کافی لوگوں کو بلایا تها اب عراق کے یہ وہ شیعہ سیاسی و سماجی راہ میں مراجع تقلید ہیں اور یہ عراق ،شام کی صورت حال کا بنیادی الزام سعودی عرب اور پیٹرو ڈالر کے عراق حکومت کو گرانے کی کوششوں پر دهرتے ہیں لیکن علامہ محمد حسین اکبرنے ایک مرتبہ بهی اپنے منه پر دیوبندی وهابی دہشت گردوں کا نام نہیں لیا اور علامہ محمد حسین اکبر جس سعودیہ عرب کا ایک ماڈریٹ امیج پیش کرنے کی کوشش کی وہی پورے عالم اسلام میں شیعہ -سنی منافرت پهیلانے اور شیعہ -سنی کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتا آرہا ہے لیکن علامہ محمد حسین اکبر کے ذهن پر تو سعودیہ عرب کے سرکاری دورے کا خمار چڑها ہوا تها تو وہ کیسے سچ بات سعودی حکمرانوں کےگوش گزار کرتے

اس کانفرنس کے اندر “سیاست امام حسین “پر بہت مسجع اور مقفع باتیں بهی ہوئیں اور علامہ ہاشم گردیزی کی جانب سے حسینی انسائیکلوپیڈیا پروجیکٹ کا زکر بهی کیا گیا ،علامہ آیت اللہ صادق کرباسی نے امام حسین سے وابستہ ہر ایک علامت اورقول کو 900 جلدوں میں جمع کیا جوکہ بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس کا اردو ترجمہ کرکے اس پاکستانی عوام تک پہنچانابهی تحسین کا حقدار ہے

اس کانفرنس میں ڈاکٹر شمائل زیدی کی تقریر بہت متاثر کن تهی جسے فرحت اللہ بابر نے بهی سراہا اور عامر حسن کی لفاظی بهی خوب تهی ،ندیم افضل چن پنجاب میں حسینی سیاست کی بات کرتے رہے لیکن یہ حسینی سیاست پنجاب سے آگے سنده میں کیوں یزیدیوں کے آگے سرنگوں کرجاتی ہے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے

اس کانفرنس کے دوران عمار کاظمی سے بهی ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے صاف صاف یہ بات کی کہ شیعہ کمیونٹی جب یزیدی سیاست کے علمبرداروں کی جانب سے شیعہ نسل کشی میں ملوث ہرکاروں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بولتے ہیں تو ان کو ان مہاجنی شیعہ کلاس کے خلاف بهی آواز بلند کرنی چاہئیے جو اپنے طبقاتی مفاد کی خاطر عوام کا شدید استحصال اور ان سے لوٹ کهسوٹ کرتے ہیں یہ بهی سیاہ شیعت کے نمائندے اور سرخ شیعت کے قاتل ہیں عصر حاضر میں یزید ایسے بهی ہیں جوحسین کا کاستیوم پہن کر قبیلہ حسین کو دهوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اوراپنی یزیدی سیاست کو حسینیت سے تعبیر کرتے ہیں

علی شریعتی نے کہا تها کہ تاریخ میں بارہا یہ ہوا کہ نمرود نے ابراهیم کا ،فرعون نے موسی کا کاسٹیوم پہنا اور ابولہب نے ہاتهوں میں اپنے چراغ کو چراغ محمدی کا نام دیا پهر وقت کے یزید نے اپنے آپ کو لباس حسین میں بدل ڈالا گویا کام ایک اور نام بدل دئے گئے

میں برملا کہتا ہوں کہ پاکستان میں اپنی ہی طرز کے کئی رضا شاہ پہلوی موجود ہیں جو اپنی ایجاد کردہ صفوی شیعت کو حسینی شیعت کا نام دئے ہوئے ہیں اور یہ کوفیوں اور اہل عراق کی طرح مصلحت اور کہولت کا شکار ہیں
یہ انتظار کرتے ہیں جنگ کا اپنے دروازوں تک پہنچ جانے کا جبکہ وہ ان کے دروازوں تک پہنچ جاتی ہے تو زلت و خون ریزی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور کوئی ابن زیاد کوئی بسرات ان کی گردنیں اتار دیتا ہے اور ان سب کا ماٹو یہ ہوتا ہے کہ
مجهے بهی اپنے مدینے میں زنده رہنا ہےمجهے بهی رکهنی پڑے گی منافقوں کے ساته

لیکن منافقوں کے ساته رکهنے کے باوجود اہل مدینہ کا جو حشر ولید بن عبدالمالک کے دور میں ہوا اور پهر اہل عراق کی مصلحتوں کے باوجود بنو امیہ کے سو سالہ حکمرانی کے دور میں ہوا تو اس سے معلوم ہوا کہ منافقوں کے ساته راہ و رسم کی خاطر حق بولنے سے گریزاں ہونے سے جان نہیں بچا کرتی

Comments

comments

Latest Comments
  1. nazeer ahmad khan
    -
  2. malik
    -