شہید بھٹو کی پھانسی سے پہلے بھی عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں تھی تاہم اس قتل کے فیصلے کے بعد سے یہ تاریخ اور بھی شرمناک ہوگئی۔بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد پہلی با ر پاکستان میں
سپریم کورٹ عوامی اعتماد اور حمایت کھو بیٹھی تھی۔لوگوں میں سپریم کورٹ اور ججوں کے خلاف اسقدر نفرت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔جسٹس مولوی مشتاق کو گلی گلی میں گالیاں پڑیں اورگالیوں اور بد اعتمادی کا وہ سلسلہ آج بھی بہت حد تک جاری ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی پاکستان میں انصاف کے معیار پر ہمیشہ معترض رہی۔بے نظیر شہید نے عدالتوں کو کانگرو کورٹس کہا۔مولوی مشتاق کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ کا کردار بھی مسلم لیگ نواز کے حوالے سے متنازع رہا لیکن نواز لیگ نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے تمام حساب برابر کر دیا۔ حملہ آوروں پر توہین عدالت کا مقدمہ چلا تاہم تمام ملزمان کے معافی مانگنے کے بعد سب کو معافی دے کر مقدمہ ختم کر دیا گیا۔(یہ الگ بات کہ بابر اعوان کی معافی کے باوجودموجودہ سپریم کورٹ نے ایک طویل مدت تک ان کا لائسنس معطل رکھا اور آج بھی لایسنس بحال کرنے کے باوجودد توہین عدالت کی کاروائی جاری ہے)
نوے کی دھائی میں بھی اعلیٰ عدلیہ کا جانبدار انصاف دیکھا گیا۔ ایک ہی جیسے مقدمات میں میاںنواز شریف کی اسمبلیاں بحال کر دی گئیں لیکن بے نظیر بھٹو کی اسمبلیاں بحال نہیں کی گئیں۔پھر افتخار چوہدری کی عدلیہ نے مشرف کو تحفظ دیااور اس کے پی سی او پر حلف لیا۔پس پردہ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں مگرجج صاحبان نے دوسرے پی سی او پردستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی جج صاحبان صدارتی ریفرنس کے بعدمعذول کر دیے گئے۔ اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی بہت سی بڑی سیاسی جماعتوں نے پہلے خود عبدالحمید ڈوگرکو چیف جسٹس ماننے سے انکار کر دیااور اس وقت کی سپریم کورٹ کو ڈوگر کورٹس کا نام دیا اور افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے جدو جہد کی۔
سیاسی جماعتوں نے وکلاء اور صحافی برادری کے ساتھ مل کر ڈوگر صاحب، ان کے ساتھی جج صاحبان کو سڑکوں پر سر عام گالیاں دیں۔ججوں کی معزولی پر بے نظیر بھٹو نے اپنے آخری ایام میں ان کے بحال کیے جانے اور ان کے گھروں پر جھنڈے لہرانے کی بات کی تاہم اس سے کچھ عرصہ بعدہی انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں معزول ججوں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کر دیا۔وقت بدلاحکومت بدلی پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اقتدار میں آئی ۔یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعداپنے پہلے خطاب میںمعذول ججوں کی نظر بندی ختم کر دی تاہم انھیں بحال کرنے میں کافی تاخیرکی۔پیپلز پارٹی اپنے ظاہری مووئوقف کے طور پر یہ کہتی رہی کہ جب تک عبدالحمید ڈوگر اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر لیتے اس وقت تک حکومت افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال نہیں کر سکتی۔
تاہم حقیقت یہی تھی کہ آصف زرداری افتخار چوہدری کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے۔آصف زرداری کے انکار کو سیاسی غلطی تو کہا جا سکتا ہے مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کی بصیرت غلط نہیں تھی۔اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں
’’مائنس ون‘‘
کا فارمولا بھی گردش کرتا رہا۔مگر کوئی نہیں مانا۔لہٰذا وکلاء تحریک باقی سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کے تعاون سے جاری رہی۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے اعتزاز احسن پارٹی لائن سے ہٹ کر بدستور وکلاء تحریک کا حصہ بنے رہے۔وقت کے ساتھ احتجاج میں شدت آتی رہی اور اب ڈوگر کورٹس کے ساتھ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے خلاف بھی نعرے بازی ہونے لگی۔بعض صحافی حضرات تو دشمنی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر کے جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی تک کواس تنازعہ میں لے آئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدارتی ریفنرس میں کچھ اسی طرح کے الزامات ارسلان افتخار پر بھی لگائے گئے تھے جن کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔جسٹس ڈوگر کی تقرری آیئنی تھی یا غیر آئینی لیکن چیف جسٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی توہین صبح شام کھلے عام ہوتی تھی تاہم نہ کسی وکیل کا لائسنس کینسل ہوا اور نا ہی کسی کو توہین عدالت کی سزا دی گئی ہاں وکلاء اور سیاسی کارکنان پربے انتہا تشدد ضرور ہوا جو بہر حال سپریم کورٹ نہیں کرتی تھی۔پیپلز پارٹی کی طرف سے غیر اعلانیہ علیحدگی کے بعد وکلاء تحریک کسی حد تک کمزور ہو چکی تھی تاہم وکلاء صحافی برادری اور دیگر سیاسی جماعتوں کا جوش و لولہ اسی طرح قائم تھا۔پھر میاں صاحبان افتخار چوہدری اوروکلاء تحریک سے کچھ ناراض نظر آئے اور خود کو اس سے کچھ فاصلے پر کرنا شروع کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے الگ ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کی غیر موجودگی میں وکلاء تحریک کمزور نظر آنے لگی۔ اعتزاز احسن اور افتخار چوہدری رائے ونڈ میں میاں صاحبان سے ملے۔
ویسے تو وکلاء تحریک اپنی بنیاد سے ہی ایک ٹیڑھی اینٹ پر کھڑی تھی کیونکہ جنرل مشرف کے صدارتی ریفرنس کا کوئی ایک الزام بھی آج تک غلط ثابت نہیں ہو سکا۔ بہر حال یہی وہ اہم موڑ تھا کہ جہاں وکلاء تحریک کا سودا ہوا اور وہ ہائی جیک ہو کر اپنے اصلی موئوقف اور اغراض و مقاصد کھو بیٹھی ۔ملاقات میں میاں صاحب کے گلے شکوے دور کرنے اور ان کی تسلی کے بعد ان کی مکمل حمایت کے ساتھ لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔عوامی دبائو بڑھتا گیا۔ لانگ مارچ شروع ہوا ، ابھی لانگ مارچ گجرانوالہ تک ہی پہنچا تھا کہ اعتزاز احسن کوججز کی بحالی کا فون آ گیا۔
وکلاء تحریک کامیاب ہوئی اور افتخار چوہدری بلند و بانگ دعووں اور امیدوں کے ساتھ ایک بار پھرچیف جسٹس کے عہدے پربحال کر دیے گئے۔وقت کے ساتھ اصلیت عیاں ہونے لگی۔ افتخار چوہدری کی بحالی کے پہلے سال بلکہ پہلے چند ماہ میں ہی ان کا ہراول دستہ ایک ایک کر کے ان کاساتھ چھوڑ گیا جس میں اعتزاز احسن ،علی احمد کرد، عاصمہ جہانگیر اور اطہر من اللہ کے نام نمایاں تھے ۔آصف زرداری کے بہت سے ناقدین اور افتخار چوہدری کے بہت سے حمایتیوں کی آنکھیں ارسلان افتخار اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد مزید روشن ہوگئیں اور بہت سے لوگ افتخار چوہدری کے خلاف ہوگئے۔افتخار چوہدری ماتحت عدلیہ کی روایتی کرپشن میں کوئی بدلائو نہ لا سکے اور نہ ہی عام آدمی اور عام وکلاء کی اعلیٰ عدلیہ اور سستے انصاف تک رسائی ممکن ہوسکی۔
سستے اور فوری انصاف کا خواب خواب ہی رہا۔وکلاء کی ایک بڑی تعد ان کے خلاف ہوگئی اور اس کے ثبوت کے طور پر افتخار چوہدری کے حمایت یافتہ وکلاء گروپ کو سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں مسلسل ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا۔ہیئت مقتدرہ کی طرف سے میمو گیٹ اسکینڈل لایا گیا اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے بلخصوص جنگ گروپ نے اس کی خوب تشہیر کی اور میڈیا ٹرائل کیا۔میاں صاحب کالا کوٹ پہن میمو گیٹ کے مدعی بن کرسپریم کورٹ میں ایسے داخل ہوئے جس کی مثال پہلے کہیں موجود نہ تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کیمرے کی آنکھ نے سپریم کورٹ کی جانبداری ریکارڈ کی۔ہیت مقتدرہ، سپریم کورٹ اور میاں صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود میمو گیٹ رائی کا پہاڑ نکلا اور صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کے خلاف کچھ نہ مل سکا۔تاہم ججز کی بحالی میں تاخیر کا بدلہ پیپلز پارٹی سے مسلسل لیا جاتا رہا۔پیپلز پارٹی کی خامیاں اور غلطیاں اپنی جگہ لیکن عدلیہ نے ایک دن بھی اسے نواز لیگ کی طرح کھل کر کام نہیں کرنے دیا۔پیپلز پارٹی کی قیادت عدالتوں کے احترام میں حاضر ہوتی رہی اور جانبدار انصاف کا نشانہ بنتی رہی۔یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف ،بابر اعوان،اصغر خان کیس،حدیبیہ پیپر ملزالغرض اکثریتی مقدمات کے فیصلوں میں غیر جانداری اور انصاف کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ جج بولتے رہے اور فیصلے خاموش رہے۔معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے یا دیہاتی تھانے کا ایس ایچ او فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔بات بات پر توہین عدالت کے نوٹسسز۔وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گیا۔تاہم اس کے باوجود تحریک انصاف ،پی ایم ایل این ،جماعت اسلامی وغیرہ کا افتخار چوہدری پر اعتماد اور ان سے غیر جانبدار انصاف کے حصول کی توقعات بدستور قائم رہیں۔عمران خان سب کچھ دیکھتے ہوئے جان بوجھ کر انجان بنے رہے ،تماشہ دیکھتے رہے اورخاموش رہے۔ان کی اس دانستہ خاموشی کو حوس اقتدار کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔جبکہ افتخار چوہدری سے رانا ثناء اللہ کی رشتہ داری اور نواز لیگ کے خاص محبت کے قصے زبان ذد عام ہو چکے تھے۔نواز لیگ نے جب بھی سپریم کورٹ کو آواز دی سپریم کورٹ نے بغیر کسی تاخیر کے لبیک کہا مگر ان کے خلاف درخواستیں یا تو ہمیشہ التوا کا شکار رہیں یا پھر انھیں ناقابل سماعت قرار دیا جاتا رہا۔افتخار چوہدری کے ہی دور میں لوگوں کی اکثریت پر یہ بات پہلی دفعہ بھرپور طریقے سے عیاں ہوئی کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا عہدہ بھی انصاف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ فقیر حسین صاحب سپریم کورٹ کے متنازعہ ترین رجسٹرار ثابت ہوئے۔بہر حال شایدعمر ان خان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو انتقامی رویہ روا رکھا گیا ہے وہ اس جانبدار انصاف کی ذد میں کبھی نہیں آئیں گے کیونکہ انھوں نے لانگ مارچ میں آخری وقت تک عدلیہ کا ساتھ دیا تھا۔مگر یہ سوچ ان کی کمزور بصیرت کا نتیجہ تھی۔وہ دوہزار تیرا کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن کے معاملات میں سپریم کورٹ کی بے جا مداخلت ، ماتحت عدلیہ کی اتنخابات میں بطور پریزادئڈنگ آفیسر تعیناتی پر بھی خاموش رہے۔اور پھر دوہزار تیرہ کی انتخابی بے ضابطگیوں پر سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی خاموشی اور انتخابی تنائج نے ان کی آنکھیں کھول دیں ۔
عمران خان اور بہت سے دوسرے لوگوں کا غیر جانبدار انصاف کا خواب دھرا کا دھرا رہ گیا۔افتخار چوہدری کی قیادت میں ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کا خواب دراصل دیوانے کا نہیں بلکہ پاگلوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کا خواب تھا۔دھاندلی زدہ انتخابات کے فوراً بعد چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کے خودمختار ادارے میںبے جا مداخلت کو بنیاد بنا کر مستعفی ہوگئے۔تاہم ان کے اس عمل کی تاریخ میں کوئی اہمیت کوئی قدرنہ ہوگی کیونکہ وہ تمام تر غیر ضروری مداخلت اور بے ضابتگیاں دیکھتے ہوئے بھی انتخابی عمل مکمل ہونے تک اپنے عہدے سے چپکے رہے۔فخرو بھائی کے بعد صدرآصف زرداری اپنی معیاد پوری کر کے گھر چلے گئے۔ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنی معیاد پوری کر کے ریٹائر ہوگئے۔ریٹائر منٹ کے آخری دن تک افتخار چوہدری مسلم لیگ نون کے لیے سیاسی اور سرکاری ہرطرح سے غیر اہم ہوچکے تھے ۔عہدے سے ہٹ جانے کے بعد بہت سی ایسی زبانیں بھی سابقہ چیف جسٹس پر برس پڑیں جو کبھی ان کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی تھیں۔چیف ترے جان نثار کے نعرے لگانے والے لاکھوں جاں نثار چند سالوں میں ہی ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔آج ان جان نثاروں کے بارے میں سوچ کر لگتا ہے کہ وہ کوئی مہر گڑھ یا ہڑپہ باسی تھے جوکھنڈرات سے نکل کر نعرے لگاتے رہے اور پھر واپس دھرتی کا سینہ چاک کر کے اس میںغائب ہو گئے۔افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعدنواز لیگ اپنا دفاع تو کرتی نظر آئی مگر ان کے دفاع میں کبھی کوئی کچھ نہیںبولا۔
بحر حال ہمارے عدالتی انصاف میں ان کے جانے کے بعد بھی کچھ زیادہ بدلائو نہیں آیا۔
ابھی چند روز پہلے اسلام ٓباد ہائیکورٹ نے نجم سیٹھی کے خلاف فیصلہ دیا اور محترم سپریم کورٹ نے اگلے ہی دن انھیں انصاف مہیا کر دیا۔انصاف کی یہ رفتار پاکستان کی تاریخ میں ن لیگ کے سوا کسی کے لیے نہیں دیکھی جا سکی۔ادھر نا تجربہ کار تحریک انصاف کی گزشتہ انتخابات میںدھاندلی کے خلاف بے چینی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نا تو ان کی سنوائی الیکشن ٹربیونلز میں ہو پا رہی ہے اور نا ہی سپریم کورٹ ان پر توجہ دے رہی ہے۔چند روز قبل جسٹس جواد ایس خواجہ سے میر شکیل الرحمن کی رشتہ داری کی وجہ سے سپریم کورٹ کے سامنے بینرز لگائے گئے۔جج صاحبان نے اس حرکت کا نوٹس لے لیا ۔انھوں نے آئی بی اور پولیس کو بینرلگانے اور لگوانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور بینرز لکھنے اور لگانے والے گرفتار کر لیے گئے۔لگوانے والوں کا شایدتاحال علم نہیں ہو سکا۔خیال کیا جا رہا ہے کہ بینرز نادیدہ قوتوں نے لگوائے۔ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن کیا پاکستان کی اکثریت انصاف کے معیار اور سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے کردار سے مطمعین ہے؟ملک میں کتنے فیصد شہری پاکستان کی عدالتوں کے انصاف پر یقین رکھتے ہیں؟کچھ جمہوریت پسند محض اس بنیاد پر خود سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ انھیں جمہوریت کے تسلسل کی فکر لاحق ہے۔یہ لوگ یا تو عمران خان کے مخالف ہیں یا پھرمیاں صاحب سے ضرورت سے زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔لیکن اگر جسٹس جواد ایس خواجہ جیو کے کیس سے علیحدہ ہو جائیں گے تو کیا فرق پڑ جائے گا؟اگر ان کی میر شکیل سے رشتہ داری ہے تو وہ مقدمہ سننے پراصرار کیوں کر رہے ہیں؟کیا ان کے علاوہ سپریم کورٹ میں کوئی ایسا جج نہیں جو جنگ گروپ کی سزا و جزا کا فیصلہ کر سکے؟چار سیٹوں کی دھاندلی کا مطالبہ’’ ہنی سنگھ‘‘ کی چار بوتل وڈکا کیوں بنایا جا رہا ہے؟اس میں غلط کیا ہے؟ ڈر کس بات کا ہے؟فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنا ہو تو اسے روک کون سکتا ہے؟انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ننانوے تک کئی جمہوری حکومتوں کے تختے الٹے گئے ان میں سے کونسی حکومت دھاندلی کے الزامات میں گھر بھیجی گئی؟اگر دھاندلی ثابت ہو جاتی ہے تو ان سیٹوں پر انتخابات کروانے میں کیا حرج ہے؟اور اگر یہ ڈر ہے کہ چار سیٹوں کے بعد باقی سیٹوں پر بھی نادرا کی تصدیق مانگی جا سکتی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟اور اگر دھاندلی ثابت ہوتے ہوتے مسلم لیگ نواز کی اکثریت ختم ہو جاتی ہے توہم ایسے مینڈیٹ کو جمہوریت کیسے کہہ سکتے ہیں، پھر مڈ ٹرم انتخابات کے مطالبے میں کیا برائی ہے؟پاکستان میں جمہوری تاریخ کو سمجھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوج کو اقتدار میں آنے کے لیے جمہور سے پوچھنے کی ضرورت کبھی محسوس نہین ہوتی۔بھٹو صاحب اور پی این اے کی قیادت میں دھاندلی والی سیٹوںپردوبارہ انتخابات اور دیگر تنازعات حل ہو چکے تھے مگر ان کی حکومت کا تختہ پھر بھی الٹ دیا گیا۔عمران خان جلسے کر رہا ہے یا ریلیاں اس کے دھاندلی کے مطالبات میں کچھ بھی ایسا نہیں جسے غلط کہا جا سکے۔اس کے مطالبات درست ہیں۔جمہوریت پسند اورجیالے اپنا ایک اصول رکھیں یہ انہی مسائل میں سے کچھ مسائل ہیں جو افتخار چوہدری چھوڑ گئے تھے۔آپ اپنی پسند کے خلاف ہر سچے مطالبے کو ایجنسیوں کی سازش کا نام نہیں دے سکتے۔عدالتوں کا کام کسی سرمایہ دار یا اس کے رشتہ دار کو تحفظ فراہم کرنانہیں ہوتا۔لیبر کورٹس میں پڑے کیس اپنی باری کے انتظار میں گل سڑ جاتے ہیں اور نواز لیگ کے حمایت یافتہ نجم سیٹھی کا فیصلہ ایک ہی دن میں ہو جاتا ہے۔جب انصاف کا معیار اتنا دوھرا ہوگا تو سپریم کورٹ کے احاطے میں احتجاجی بینرز ایجنسیوں کے بغیر بھی لگ سکتے ہیں۔اگر ہمیں واقعی جمہوریت کا تسلسل درکار ہے تو حکومت،سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو عمران خان کے مطالبات تسلیم کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔موجودہ حالات میں نا صرف عمران خان کے مطالبات درست ہیں ۔تاہم اس سب کے ساتھ یہ کہنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے کچھ ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو کے درست نہیں ہے۔انھیں تھوڑا محتاط رویہ اپنانا ہوگا ورنہ اس طرح کے عمل کے ردعمل میں کل مسلم لیگ نواز اور دوسری سیاسی جماعتیں انھیں بھی حکومت نہیں کرنے دیں گی اورجمہوریت ایک بار پھر نوے کی دھائی میں واپس لوٹ جائے گی۔ ہمیں نا صرف بڑی انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اپنے عدالتی نظام میںبھی بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بڑے وکیلوں کی تقسیم ختم کر کے سپریم کورٹ کے لائسنس کا چکر بھی ختم ہونا چاہیے۔ہر وکیل اور ہر شہری کی اعلیٰ عدلیہ تک مفت اور ایک جیسی رسائی ہونی چاہیے۔ دوھرا معیار اور جانبدار انصاف ریاست کو برباد کر رہا ہے۔اس ضمن میں ایک باسٹھ تریسٹھ کی شق کو چھوڑ کر طاہر القادری کے بھی تمام مطالبات درست ہیں۔ باسٹھ تریسٹھ کا ذکر ایک تو اس لیے بہت ضروری ہے کہ یہ آمریت کی نشانی ہے(ایسی تمام شقیں جو آمریت کی نشانی ہیں انھیں ختم کر کے ان پر نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت ہے)اور دوسرا یہ کہ ڈاکٹر طاہرالقادری شاید خود بھی ان پر پورے نہیں اترسکیں گے۔
Comments
comments