مئے عشق میں مست توحید پرستوں کی دنیا – از عامر حسینی
صوفی،سادهو اور فقیروں کے ہاں سفر کو تلاش حقیقت اور تہذیب نفس کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے یہ صوفی،سادهو،سنت فقیر ہمیں ساری دنیا گهومتے پهرتے نظر آئے اور یہ سفر خارج سے ہوتے ہوئے داخل کی اقلیم کو مسخر کرتا نظر آیا اور ہمیں اسی لئے ہر صوفی وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا شاہد اور اور تنوع کو لازم کرتا نظر آیا یہی وجہ ہے کہ صوفی جہاں بهی گیا اس نے محبت کی آنکه سے لوگوں کو دیکها اور تالیف کا کام کیا
اس نے پہلے اپنے رزائل کو دور کیا اور اپنے آئینہ قلب کا میل کچیل صاف کیا اور پهر اس شفاف آئینے سے لوگوں کو اپنے اندر منعکس کرکے دیکها اسے اسی لئے پوری کائنات +انسان+خدا سب ایک ہی مساوات میں جڑے نظر آئے جس کو تنزیہی جہت سے دیکها تو احدیت خالص و مجرد کا نظارا دیکهنے کو ملا اور هویت کا اثبات ہوا باقی کچه نہیں تها اور نہ ہے اور پهراسے اسفل جہت اور تنزل کے پیمانے سے دیکها تو کثرت کا ایک جہاں آباد نظر آیا اور اسے نیک،بد،خیر شر سب اضافتیں ہی لگنے لگیں
شاید عراق میں یہ سری سقطی تهے جنهوں نے قینچی کی بجائے سوئی مانگی اور کاٹنے کی بجائے جوڑنے کی بات کی مطلب تکثریت اور اس سے بنی وحدت کو جوڑنے سے تشبیہ دی اور توحید کے تکثیری پہلو اور زہن اللهی میں عیان ثابت کی صورت میں کثرت کے موجود ہونے اور پهر تنزل و کثرت میں اس کے ظہور کرنے کی بات جامع طور پر شیخ جنید بغدادی کے ہاں ملتی ہے
یہ مست والست مئے جب روئی دهننے والے منصور حلاج کو جنید کے مئے خانے سے ملتی ہے تو وہ اس مئے کو عام کرنے نکل پڑهتے ہیں صوفی جنید بغدادی کے زمانے تک توحید کی مئے جو ایک اور طرح کی خواصیت کو پیداکرنے کا سبب بن گئے تهے بس چند لوگوں کو پلانے کے قائل تهے اور اپنےمئے خانے کے دروازے سب پر کهولا نہیں کرتے تهے
لیکن منصور نے جنید کے مئے خانے سے وافر مقدار میں عوام پسند شراب توحید لی اور عراق و ایران کے گردونواح میں عوامی مئے خانہ ہائے معرفت کهولنے شروع کرڈالے اور اس زمانے میں غلام ،دستکار،کسان ،ایرانی ،خراسانی سبهی ان مئے خانوں میں آکر صف رنداں میں زوق و شوق سے داخل ہونے لگے
گویا یدخلون فی دین اللہ افواجا کا منظر دیکهنے کو ملا اور توحید کے نام پر معاشرے کو یک نوعی بنانے والے ملاوں اور بغداد کے تخت پر بیٹهے کالے اور سبز جهنڈوں کے پیچهے اپنے ظلم وستم کو چهپانے والے عباسیوں کا اقتدار لرزنے لگا تو تکفیر و زندیقیت کے فتووں کی فیکڑی لگالی گئی اور حلاج کو علامت کے طور پر سولی چڑها کر عوامیت کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کہتے ہیں کہ چهٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی
جہاں جہاں اس مئے نے سفر کیا تها اور جس جس نے رندی اختیار کی تهی وہ بے اختیار ہوکر انا الحق کا نعرہ مستانہ بلند کرتا گیا اور خشک مزهبیت ،جامد رسم پرستی کے لباس کو اتار کر پهینکتا گیا یہ مئے جب شیخ اکبر ابن عربی تک پہنچی تو دیکهنے والوں نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ ،شجرت الکون میں اس کی جادوگری ملاحظہ کی اور سرور و مستی کے نئے مناظر دیکهے
یہ مئے جب جام شمس تبریز میں انڈیلی گئی تو کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کے نئے رنگ اور نئے جلوے دیکهنے کو ملے اور وہاں سے رومی کے جام میں یہ خم معرفت آئی تو مولوی روم مولائے روم ہوگئے اور عاشقوں کے امام ٹهہرے اور جب یہ خم ہند کے پیمانوں میں خواجہ چشت ،نظام الدین،بابا فرید ،قطب دین بختیار کاکی ،گیسو دراز،تاج الدین ناگ پوری اور شمس سبزواری ،سچل سرمست،شاہ حسین،میاں میر ،بلهے شاہ،سلطان باہو ،شہباز قلندر ،محمد بخش ،عبداللہ شاہ غازی جیسے ساقیوں کے ہاته آئی اور اس کا میلاپ سادهو،سنت ،رشیوں کے اپنشد رمزیت سے ہوا اور اس تالیف سے گرونانک کی گرنته اور بهگت کبیر کی کبیر بانی کا ظہور ہوا تو پهر اس کثرت کے احدیتی رنگ کو اور رنگ لگ گئے
اس کثرت میں وحدت کے رنگوں کو عرب میں نہ تو ظاہر پرستوں کا امام ابن حزم مٹا سکا نہ ہی ابن تیمیہ کی پیروی میں متشدد حنبلی ہرا سکے نہ ہی نجد کے صحرا سے بنی تمیم کا محمد بن عبدالوہاب مٹا سکا اور نہ ہی یہ کثرت پسند وحدت دہلی کا شاہ اسماعیل دہلوی تقویت الایمان لکهکراور ہاته میں تلوار سونت کر مٹا پایا اگر سمجه دار ہوتا تو اورنگ زیب کے سو مولویوں کے جامع الفتاوی کی مردنی و نسیا منسیا ہوتے دیکه کر سمجه جاتا اور ملامتیوں کے عروج سے اپنی بدویت نو سے رجوع کرلیتا اور سرمد کی سرمدیت و ابدیت سے وحدت کو یک نوع کرنے اور سب کو ایک سانچے میں ڈهالنے کی جبری کوشش ترک کردیتا
خیر لوگوں میں وحدت الوجود کے فلسفے کی مئے آج بهی بٹتی ہے اور یہ کسی سپاہ ،کسی طالبان ولشکر کی یک نوعی غیر کشید کردہ زہریلی سلفی مئےتوحید کے مقابلے میں ڈهیر ہونے والی نہیں ہے بس وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کےجلوے دکهانے والی اس وحدت الوجودی مئے کو اشراف کے پیمانوں میں انڈیلے جانے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے یہ عوامی مئے ہے اس کے پیمانوں کا عوامی ہونا بهی ضروری ہے اگر پیمانہ اشرافی ہو تو اس پیمانے کی تنگنائی میں اس مئے کا سمونا مشکل ہوتا ہے جس سے یہ باہر چهلکنے لگتی ہے اور جو بچ جائے وہ سڑنے لگتی ہے اور جب اصل غائب ہو تو نقل اصل کے مقابلے میں بکنے لگتی ہے آج کل یہ جو مئے محمد احمد لدهیانوی،اورنگ زیب فاروقی ،خالد خراسانی ،ملا عمر،ایمن ،ابوالبصیر آف شام اور ملا فضل ڈسٹلڈ یعنی کشید کرکے سنی مئے کے نام سے لوگوں کو پلا رہے ہیں یہ زهریلی اور دو نمبر مئے ہے جو یہ خالی امپٹی کی بوتلوں میں سنی مئے کا لیبل لگاکر بیچتے پهرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی ڈسٹلڈ کی سہولت کاری کا سرچشمہ ریاض میں آل سعود ہے
لیکن اس جعلی سنی مئے کے پینے والوں کو سوائ