منٹو- لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

IMG_55341

منٹو کا گھر بک گیا ، اور اب یہاں نئی تعمیرات ہونگی، وہ جگہ جو کسی اور قوم کے لئے ایک اثاثہ ہوتی ناپید ہو جائے گی. خیر یہ تو ہونا ہی تھا، ہمارا معاشرہ تخلیق ، فن اوراظہار کا دشمن ہے ایسے میں کسے فکر ہو اور کیوں ہو ؟ سڑے بسے دماغوں کی پنھنچ اعلیٰ  افکار تک ہے ہی نہیں، ہم کو آسان راستے چاہیئں جہاں زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہ ہو، لالچ اور ہوس  میں گھرے ہمارے ارباب اقتدار بھی اگر کسی سے خوف  کھاتے ہیں تو وہ بھی سوچ اور فکر ہے کہ ایسا معاشرہ  جہاں سوچ و فکر کی حوصلہ افزائی ہو وہاں باغی جنم لیتے ہیں.

ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں جو سوچتے اور سوال کرتے ہوں، نہ ان کی نشانیوں کی.  ہمیں ضرورت ہے تو صرف اندھی بھیڑوں کی جن کے لئے پلازے کھڑے ہوں، دکانیں بنیں، اور پلازے کھڑے ہوں اور دکانیں بنیں، زمین کو پلاٹ میں بدلو، پلاٹ کو ضرورت میں ، ضرورت کو پورا کرو اور مزید ضرورتیں پیدا  کرو. کھڑی عمارتیں گراؤ ، ایسے گھر جو پچھلے زمانے کے تھے جس کی ضرورتیں الگ تھیں، ان کی اب ضرورت نہیں، اب لوگ چھوٹے چھوٹے دڑبوں میں رہ لیتے ہیں، کیا کریں سر پر سایہ چاہیے اور مقابلہ سخت ہے،

بنیادی ضرورتوں کے حصول میں ہی اتنا سخت مقابلہ اور مسابقہ ہے کہ سرمایہ دار کے پو بارہ ہیں اور احساس ندرت و جمال کب کا کھڈے لین لگ چکا، ایسے میں لکشمی مینشن جیسی عمارتیں ضروری نہیں رہیں، ہان اگر اس کو اٹھا کر ڈیفنس یا ماڈل ٹاؤن لے جایا جا سکتا اور وہاں کسی صاحب حیثیت کے پلاٹ میں جا گاڑا جاتا تو یہ بچ سکتی تھی کہ اب تہذیب، آرٹ اور کلچر صرف امیروں کے ڈرائنگ روم میں پایا اور ڈسکس کیا جاتا ہے . اپنی اصل جگہ پر تو یہ کروڑوں کے منافع کی راہ میں آ کھڑی ہوئی ہے ، ایسی بدبخت عمارتوں کا  گرنا ہی بہتر جن سے بینک بلینس کی پرواز میں کوتاہی آتی ہو.

اور رہا ماضی تو اس کی پرواہ کسے ہے، ویسے بھی ایسا  ماضی ہمارے لئے باعث شرم ہے جہاں بھگت سنگھ جیسے کافر اور منٹو جیسے باغی سر تانے کھڑے ہوں، ہمیں تو ضرورت ہے صرف محمود غزنویوں کی جو کافروں کے کشتوں کے پشتے لگاتے یہاں سے وہاں گھوڑے دوڑاتے رہیں، اور ہمارے بیوقوف عوام کوبتایا جا سکے کہ دیکھو تمہارے اجداد کتنے عظیم تھے اور تم بھی اتنے ہی عظیم ہو، بس عظیم بنے رہو اور دڑبوں میں پڑے رہو، ہر قسم کی ہوس اور لالچ کی دکانیں چلنے دوچنداں فکر نہ کرو کہ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے، تمہارا کام تو کافروں کے کشتوں کے پشتے لگانا ہے، اگر کم پڑ رہے ہوں تو ایک دوسرے ہی کو کافر ٹھہرا لو اور لگے رہو قتل و غارت میں کہ یہی ذریعہ عظمت ہے، باقی سب تو محض نظر  کا دھوکہ اور فریب ہے.

منٹو کی اولادوں اور اس کے پرستاروں  کا خیال تھا کہ حکومت و ارباب اختیار اس کی نشانی کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے، کتنے سادہ لوح لوگ ہیں،بھلا ارباب اقتدار و اختیار کو منٹو کیوں اچھا لگنے لگا . ان کو منٹو  کی کیا ضرورت؟  وہ بیچارہ تو شاعر بھی نہیں تھا    کہ جس کی نظم جو چاہے جہاں چاہے گنگنا لے اور اپنا کام نکال لے ‘میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا’ بیچارہ جالب.  منٹوتو نثر نگار تھا اور نثر بھی ایسی کہ کسی کام کی ہی نہیں ، افسانے بھلا تقریروں میں جوڑے جا سکتے ہیں؟ آپ ہی کہیں اس قسم کی نثر  کہاں کھپائی جا سکتی ہے:


ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی “ وہ مری ہوئی تھی۔ لاش تھی۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔“۔

ہاں تقریر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے مگر ہمارے ہاں انداز تقریر  و زور بیاں ابھی اس نہج پر نہیں پہنچا، یہ جملہ بھی صرف خلوتوں میں کام آ سکتا ہے، اور خلوت میں تو جانے کیا کیا ہوتا ہوگا.   پھر آپ ہی بتائیں کہ منٹو ارباب اقتدار کے کس کام کا؟

منٹو ہمارے ارباب دانش کے کام بھی نہیں آتا، نہ تو وہ کوئی صوفی نما خاموش طبع نیک نفس پرہیزگار عاجز انسان  ہے جو غلام محمد اور اسکندر مرزا کے لئے ایسے روتا کہ جیسے ہمارے عظیم دانشور آگے جا کر ایوب خان کی صحت کے لئے روئے، نہ وہ یہودیوں کی سازشوں کو سامنے لاتا اور ہندوؤں کی مکاری سے پردے اٹھاتا ہے بلکہ ٹوبہ ٹیک  سنگھ لکھ دیتا ہے کہ جس میں ہوا کو پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان  بغیر ویزا کے آتے جاتےبتایا گیا ہے، گناہ عظیم ہے ایسا کہنا بھی . کبھی وہ گنگا رام نامی کافر کو عظیم اور انسان دوست بتاتا ہے، آپ ہی کہیں کوئی ہندو بھی کبھی انسان دوست ہوا ہے ؟

ایسا ہوتا تو ہم اتنا قربانیاں کیوں دیتے، وہ لڑکی جس کا ذکر منٹو نے کیا ہے کہ جو اپنوں کی ہوس  کا نشانہ بنتی رہی اور اس کا باپ اسے کیمپوں میں ڈھونڈتا رہا، یہ محض ایک گمراہ انسان کی بدخواہی ہے، اسلم راہی  اور نسیم حجازی  نے تو ایسا کچھ بھی نہیں لکھا . ‘کھول دو’ کے تمام مطبوعہ نسخوں کو جمع کر کے آگ لگا دینی چاہیے. وہ  جو کہتا تھا کہ وہ لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں ہےاس کے لکھے تمام حروف کو مٹا دینا ہی بہتر ہے کہ وہ ہماری مروجہ دانشوری کے کسی کام نہیں آتے.   اور تو اور وہ اپنی تحریروں کا  باقائدہ  تجارتی انتظام بھی نہیں کر کے گیا کہ یہ  دن نہ دیکھنا پڑتا کہ یار لوگ منٹو  کو باپ کا مال سمجھ کر چھاپ  رہے ہیں اور اس کے بچے باپ کواس کا حق دلانے کے لئے کوشاں ہیں.

منٹو عام آدمی کے بھی کسی کام کا نہیں، اگر اس نے بیکار افسانوں کے بجائے  اسباب ثواب طاعت و زہد پر لکھا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی . گنجے فرشتے لکھنے  کے بجاۓ استنجہ کے چھبیس طریقے لکھی ہوتی تو ذریعہ فیض عام و خاص ہوتی، شکاری عورتوں کے بجائے مسائل زوجیت  لکھتا تو کم از کم قاری کو  وظیفہ زوجیت کے مسائل و روائج و فرائض سے کما حقہ آگہی مل پاتی.     مثلآ اگر عورت مرد ساتھ لیٹے ہوں اور کچھ ہو جائے اور یہ پتا نہ ہو کہ یہ کچھ کس کا ہے تو دونوں کو غسل کرنا چاہیے .

آپ ہی کہیں اس سے فلاح انسانیت کی راہ نکلتی ہے  کہ کالی شلوار سے   جو محض شہوت و سفلی جذبات سے بھرپور کہانی ہے اور کوئی مقصد ہی نہیں اس کا. اگر یہاں وہاں شراب کے لئے بھٹکنے کے بجائے منٹو چلے پر جا پاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا، پھر کسی لاش کو ازاربند کھول کر شلوار نیچے کرتے بتانے کے بجائے ہمیں آپ کو یہ بتاتا کہ حور سے ہم بستری ستر ہزار سال تک ہوگی اور ایسا بھی ہوگا کہ چالیس سال تو آپ اس کو دیکھتے ہی رہیں گے پھر وہ  ٹوکے گی  اور کہے گی کہ بھائی کیا چاہتے ہو؟

اگر وہ شہوت  و نفس پرست نہ ہوتا تو اٹک اٹک جانے اور پھسل پھسل جانے کے بجاۓ ہمیں بتاتا کہ حور کے جسم پر ستر لباس ہوں تو بھی اس کے جسم کی چمک نہ دب سکے گی . اگر وہ معاشرے کی دھجیاں بکھیر  کر اس کو اس کی ننگی تصویر دکھانے کے بجائے اسے منافقت  کے  پردے  میں ملفوف کرتا , اگر وہ للچاتی  منافقت ، اندھی اطاعت اور پھسلاتی خوشامد کا ماہر ہوتا  , منٹو  ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا، لکشمی مینشن آج دربار عام و خاص ہوتا اور اس کی آل اولاد بھی معاش کی فکر سے آزاد رہتی .

Comments

comments