ڈاکٹر پال بھٹی کی سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں سے پینگیں: شرم تم کو مگر نہیں آتی
بدھ 26 مارچ 2014ء کو روزنامہ ڈان لاہور نے صفحہ چار پر ایک خبر شایع کی جس کے مطابق اسلام آباد میں کل پاکستان اقلیتیں اتحاد(اے پی ایم اے) نامی ایک تنظیم کی جانب سے “اسلام اور اقلیتی حقوق ” کے نام سے ایک سیمینار منظم کیا گیا اور اس میں کئی ملکوں کے سفرا، ایم این ایز اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی
اے پی ایم اے کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پی پی پی کی گذشتہ حکومت میں وزیر برائے مذھبی ہم آہنگی شہباز بھٹی نے قائم کی تھی اور ان کے زمانے میں یہ تنظیم قدرے ترقی پسند اور ریڈیکل موقف کی حامل تھی
لیکن جب سے اس تنظیم کے سربراہ شہباز بھٹی کے بھائی پال بھٹی بنے ہیں یہ تنظیم ایک طرف تو مسلم لیگ نواز کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ رکھ رہی ہے دوسرا یہ تکفیری دیوبندی دھشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت کے ساتھ بھی بہت پینگیں بڑھارہی ہے
جس سیمینار کا ہم زکر کررہے ہیں اس سمینار میں ایک طرف نواز شریف حکومت میں اس وقت دیوبندی تکفیریوں اور رجعت پسندوں کے سب سے بڑھے حامی وفاقی وزیر محمد یوسف کو بلایا گیا دوسری طرف اس سیمینار میں بدنام زمانہ دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت کے مرکزی صدر محمد احمد لدھیانوی کو مہمانان اغزاز کے طور پر بلایا گیا اور سٹیج پر وہ پال بھٹی کے ساتھ نمایاں طور پر بٹھائے گئے
گویا میر تقی میر کے بقول
میر بھی کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یہ جو دیوبندی تکفیریوں کے حامی دیوبندی وفاقی وزیر مذھبی امور محمد یوسف صاحب ہیں یہ پارلیمنٹ کے اندر اپنی انتہائی رجعت پسندانہ زہنیت کے ساتھ اسوقت سامنے آئے جب مسلم لیگ نواز کی ایم این اے ماروی میمن نے کم عمر بچیوں کی شادی کی ممانعت کے قانون میں ایک ترمیم کا بل پیش کیا تو اسلامی نظریاتی کونسل کے دیوبندی چئیرمین مولوی محمد خان شیرانی نے اس کو قران و سنت کے منافی قرار دیا اور کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی قانون سازی کا بل پیش ہو تو اسے پہنے اسلامی نظریاتی کونسل کو پیش کرنا چاہئیے اور محمد یوسف نے اس کی تائید کی جبکہ یہی موصوف عورتوں سے زیادتی کے حوالے سے واقعاتی شہادتوں اور میڈیکل معائنہ اور ڈی این اے ٹسٹ پر مبنی شہادتوں کو زنا بالجبر میں ناکافی ثبوت قرار دینے کی سفارشات کی تائید بھی کرچکے ہیں جبکہ ویمن پروٹیکشن ایکٹ پر بھی ان کی رائے دیوبندی تکفیری مولویوں کے انتہائی قریب ہے
سب کو معلوم ہے مرحوم شہباز بھٹی کی حدود آرڈیننس ،قانون شہادت،زنا بالجبر اور توھین رسالت ایکٹ کے بارے میں کیا خیالات تھے اور وہ ان میں ریفارمز کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کرتے تھے ان کی وجہ سے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں نے ان کو قتل کیا تھا اورشہباز بھٹی نے اپنی زندگی میں بنیاد پرستوں،انتہا پسندوں اور تکفیری دیوبندیوں کے ساتھ کبھی ہاتھ نہیں ملایا تھا
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے اقلیتی سیٹ پر ڈاکٹر پال بھٹی کو ایڈجسٹ بھی کیا گیا تھا اور بھی مراعات و نوازشات ان پر کی گئیں لیکن وہ ان سب کو نظر انداز کرکے مسلم لیگ نواز اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں اور منافقت سے کام لے رہے ہیں
ان کی منافقت اور دوھرا پن اس وقت بھی سامنے آیا جب خود مسلم لیگ نواز کے اقلیتی نشست پر ممبر ڈاکٹر رمیش کمار کہ پاکستان ہندؤ کونسل کے صدر بھی ہیں نے یہ سوال اٹھایا کہ
اسلام جب ہر مردوعورت کو اپنی مرضی کے مطابق مذھبی زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے تو بہت سے لوگ مذھبی کے نام پر مارے کیوں جارہے ہیں اور ان کو زبردستی مذھب بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے
تو اس پر اے پی ایم اے کے صدر منافق ڈاکٹر پال بھٹی صاحب گھبراگئے اور اور انہوں نے ڈاکٹر رمیش کمار کو چپ کرانے کی کوشش کی اور کہنے لگے کہ ہم یہاں مذھبی ہم آہنگی کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر رمیش کمار کو یہ باتیں قومی اسمبلی میں کرنی چاہئيیں
دیوبندی وزیر مذھبی امور بھی ڈاکٹر رمیش کمار کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کرنے لگے
لیکن ڈاکٹر رمیش کمار نے چپ ہونے سے انکار کیا اور مزید کہا کہ
نئی دھلی میں 8 اپریل ،1950ء کو پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اور ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور یہ معاہدہ لیاقت-نہرو پیکٹ کہلاتا ہے اور اس معاہدے میں ایک شق یہ تھی
متروکہ املاک بورڑ میں ایک ہندؤ کو بورڈ کا سربراہ بنایا جائے گا کیونکہ زیادا متروکہ املاک ہندؤں کی ہے
لیکن آج تک اس شق پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ،ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ اقلیتیوں کا پاکستان میں اپنا املاک ہونا چاہئیے
ان کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں اگر ایک شخص نے یہ فرض کرلیا جائے توھین اسلام کا ارتکاب کیا بھی تھا تو اس کی سزا پوری کمیونٹی کو کیوں دی گئی،اس وقت کسی کو یہ یاد کیوں نہ آیا کہ مذاہب امن و آشتی کی تعلیم دیتے ہیں
ڈاکٹر رمیش کمار صدر پاکستان ہندؤ کونسل و ممبر قومی اسمبلی نے نہرو –لیاقت پیکٹ کا جو حوالہ دیا تو اس میں پاکستان کے اندر ہندؤں،سکھوں کی متروکہ املاک اور مقدس مقامات کی حفاظت کرنے کے لیے جو اقدامات تجویز کئے تھے وہ اس لیے پورے نہیں کئے گئے کہ ان میں سے اکثر متروکہ املاک پر تو خود قبضہ کرلیا گیا اور کئی ایک مندر،گوردوارے گراکر وہاں مسجد اور مدرسے تعمیر کرلیے گئے،راولپنڈی کا دیوبندی تکفیری مدرسہ جامعہ تعلیم القران اس کی واضح مثال ہے ،اگر متروکہ املاک بورڑ کا چئیرمین ہندؤ ہوتا تو ضیاءالحق کے دور میں مندر کی زمین پر مدرسہ نہیں بن سکتا تھا اور آج اس متروکہ املاک پر پنجاب حکومت کی گرانٹ سے مدرسے کی نئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی تھی
http://www.dawn.com/news/1095653