یوم پاکستان کی پریڈ ایوان صدر، آزادی مارچ شاہراہ فیصل پر کیوں؟
کچھ کتابیں ہیں جو میں خصوصی طور پر پڑھ رہا تھا جو ہماری تاریخ کے سرکاری اور درباری بیانیے سے ہٹ کر حقائق اورکڑوے سچ کو بیان کرتی ہیں اور میرا ارادہ کافی دنوں سے بن رہا تھا کہ تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے قاری کو اس سچے اور غیرسرکاری عوامی بیانيے سے واقف کراؤں گا ،لیکن کوئی موقعہ ٹھیک طرح سے میسر نہیں آرہا تھا ،لیکن آج یہ موقعہ دو واقعات کی وجہ سے مجھے میسر آگیا،ایک واقعہ تو چھے سال بعد ایوان صدر میں مسلح افواج کے دستوں کی پریڈ تھی اور سرکاری اعزازات کی تقسیم کی تقریب ہے
اس تقریب کے زریعے سے پاکستان میں بسنے والی اقوام کو پتہ چلا کہ زیادہ تر اغزازات ان سپاہی ،جونئیر کمیشنڈ اور بعض دوسرے اور تیسرے درجے کے شہید فوجیوں کے حصّے میں آئے جو قبائلی ایجنسیوں ،وزیرستان اور خیبر پختون خوا میں دیوبندی تکفیری دھشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اکثر اعزازات شہید فوجیوں کی نوجوان بیواؤں نے وصول کئے اور اس تقریب میں شہید ہونے والے فوجیوں کے جو واقعات بیان کئے گئے اس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ افغان جہاد،کشمیر جہاد،سعودی اینٹی شیعہ،صوفی سنّی ڈرائیو کی خاطر ہم نے جو کھیل کھیلا اس نے عام سپاہیوں کو کس جنگ میں جھونک دیا اور اس سے پہلے بھی ہم نے کارگل میں یہ المیہ رونما ہوتے دیکھا تھا ،اس المیہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خود دیوبندی اور وہابی مولویوں نے سادہ لوح دیوبندی اور وہابی نوجوانوں کو کیسے پیدل سپاہیوں کے طور پر استعمال کیا اور ڈالر و ریال کی خاطر اور سیاسی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے تکفیری خارجی فکر کو پروان چڑھایا
دوسرا واقعہ جس نے غیر سرکاری سچے تاریخی بیانیے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کو مجبور کیا وہ کراچی میں جئے سندھ قومی محاذ کا اپنے شہید لیڈروں کے جنازوں کے ساتھ فریڈم مارچ تھا گویا جب ایوان صدر کی محفوظ چار دیواری میں انتہائی سخت سیکورٹی انتظامات کے ساتھ پاک فوج کے تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کے ہاتھوں شہیدہونے والے فوجیوں کے لیے اعزازات اور پریڈ مارچ ہورہا تھا تو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہزاروں سندھی شاہراہ فیصل پر فریڈم مارچ کرتے ہوئے پاکستان سے آزادی مانگ رہے تھے
اور یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ آوادی مارچ کے مقابلے میں ہماری ریاست کو اگر پاکستان زندہ باد کے نعروں کے لیے کسی جماعت نے تعاون فراہم کرنے کی ہامی بھری وہ جماعت اسلامی پاکستان تھی
کیا خوبصورت اتفاق ہے کہ ادھر کراچی میں سندھیوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی آئی تو ادھر لاہور میں جماعۃ الدعوۃ نے پاور شو کئے اور بلوچستان میں دیوبندی دھشت گرد جماعت اہل سنت والجماعت نے دفاع پاکستان سیمینار کئے اور ملتان میں دو دن قبل وفاق المدارس نے جو تحفظ مدارس دینیہ کانفرنس کی تھی اس میں دیوبندی مدارس کو پاکستان کی سرحدوں کی پہلی دفاعی لائن قرار دیا گیا
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مشرقی پاکستان کے اندر حسین شہید سہروردی سمیت مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے والے اور تحریک پاکستان کامیاب بنانے والے آزادی کا نعرہ لگانے پر مجبور کیوں ہوئے اور وہاں پاکستانی فوج اور حکمرانوں کو آزادی کی تحریک کے مقابلے میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے حمائت مخالفین پاکستان اور دیوبندی تکفیری عناصر سے کیوں لینا پڑی اور عوام میں غیر مقبول کیوں ہوئے؟
اور آج بھی ریاست پاکستان کی فیڈریشن اور پاکستانی ریاست کی سالمیت کے لیے ان عناصر پر تکیہ کرنے پر کیوں مجبور ہے جو اس کی سالمیت اور وجود کے لیے خطرہ بنے ہیں اور جن کی وجہ سے حالات اس نہج کو پہنچ گئے ہیں
ریاست لوگوں کی مذھبی شناخت ،نسلی و نسانی پہچان اور ان کے قومیتی،سیاسی،معاشی اور آئینی حقوق کی مانگ کو پولیس،فوج،رینجرر ز،خفیہ ایجنسیوں اور دیوبندی-سلفی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورکس کے جبر اور ظلم کے زریعے دبانے کی کوشش کررہی ہے اور منہائی ،خارج کرنے والے نام نہاد پاکستانی نیشنل ازم کو مسلط کرنا چاہتی ہے جوکہ ایک ایسا بیانیہ ہے جس سے سندھی،بلوچ،پختون،سرائیکی،گلگتی بلتی،کشمیری،سرائیکی اتفاق نہیں کرتے اور اس منہائی اور خارج کردینے والے نام نہاد پاکستانی نیشنل ازم میں شیعہ،سنّی بریلوی،ہندؤ،عیسائی ،احمدی،اسماعیلی کی بھی جگہ نہیں بنتی ہے اس کی اسی منہائی اور خارج کردینے والی نوعیت نے اس کو جماعت اسلامی،وہابی جماعۃ الدعوہ ،دیوبندی اہل سنت والجماعت جیسی جماعتوں میں مقبول بنا رکھا ہے اور پاکستان کے اکثر مذھبی اور قومیتی گروہ اس سے لاتعلق ہوچکے ہیں
شیخ مجیب الرحمان بانی بنگلہ دیش نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قرارداد لاہور 23 مارچ 1940ء میں برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے زکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہندؤں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے ،اس قرارداد میں اسی دلیل سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بھی مساوی حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا
شیخ مجیب نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے قراردادلاہور کا ایک متن بھی دیا ہے اور اس متن میں جو دوسری شق ہے قرارداد کی اس میں مسلم اکثریت والی ریاستوں کو ایک گروپ کے اندر خود اختیار ریاستوں کے طور پر رکھے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا
شیخ مجیب نے بتایا ہے کہ 7 تا 9 اپریل دلّی میں مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں ایک ترمیم کرتے ہوئے قرارداد لاہور کی شق نمبر دو کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ پنجاب،بنگال،شمال مغربی سرحدی صوبہ،بلوچستان،آسام کو ایک خود مختار ریاست کی شکل دی جائے اور ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو کے مساوی حقوق کے لیے وہی ضابطے بنائے جائیں جن کو 23 مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے اجلاس میں ورکنگ کمیٹی کی قرارداد میں بیان کیا گیا تھا
شیخ مجیب اپنی یادوں میں بہت تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد کیسے مغربی پاکستان اور مشرقی پنجاب،یوپی ،سی پی سے ہجرت کرکے آنے والی جاگیردار سیاسی اشرافیہ نے اںڈین سول سروس اور انڈین رائل آرمی سے بالترتیب پاکستان سول سروس اور پاکستان آرمی بننے والے اداروں میں بیٹھے طالع آزماؤں کے ساتھ ملکر مشرقی بنگال کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا اور مشرقی بنگال کے سب سے اہل ترین لیڈر حسین شہید سہرودی کا کس طرح سے لیاقت علی خان اور پنجاب کے جاگیردار سیاست دانوں نے راستہ روکا
حسین شہید سہروردی اور بنگال کے ان سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جن کی جڑیں عوام میں موجود تھیں بھارت نواز اور متحدہ بنگال کے نام پر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کا زمہ دار قرار دے دیا تھا
شیخ مجیب الرحمان اپنی یادوں میں لکھتے ہیں کہ کیسے مشرقی بنگال کی ہندؤ برادری کے سرکردہ لوگوں کو غدار قرار دیکر جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ہندؤں کے خلاف منظم فساد کی کوشش بنگال کے پرانے زمیندار اشرافیہ نے پولیس اور فوج کی مدد سے کی جسے شیخ مجیب کے بقول سہرودری اور ان کے ساتھیوں نے ناکام بنایا
شیخ مجیب پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کے پھوٹ پڑنے کا زکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے ان میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے اور یہ فسادات احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں نے برپا کئے تھے شیخ مجیب کا کہنا ہے کہ ان فسادات پر جند مسلمان دانشوروں نے مسلمانوں کو اکسایا تھا ان کا اشارہ بجا طور پر دیوبندی مولوی عطااللہ شاہ بخاری،دیوبندی صحافی شورش کشمیری اور دیگر لوگوں کی طرف تھا اور شیخ مجیب کہتے ہیں کہ یہ رہنماء بس اس بات پر مصر تھے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں
شیخ مجیب کا کہنا تھا
میں خود اس معاملے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کسی انسان کو محض اختلاف رائے کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جاسکتا،قادیانی تو ایک طرف اسلام تو کافروں پر بھی ظلم و ستم کی ممانعت کرتا ہ ،اسلام ہرگز اس کی تعلیم نہیں دیتا اور ایسے افعال تمام مذاہب میں قابل مذمت ہیں ،لاہور میں ان بنیاد پرستوں نے شوہروں ،بیویوں یہاں تک کہ بچوںتک کو زندہ جلا ڈالا ،ان دہشت انگیز کاروائیوں کے پیچھے جن کا ہاتھ تھا وہ آج بھی پاکستان کی سیاست کا اہم حصّہ ہیں
پاکستان کو ایک جمہوری ملک ہونا چاہئیے تھا ،یہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کو،نسل اور مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق ملنے چاہئیے تھے ،یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جن لوگوں نے تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی وہ آج پاکستان کو ایک مذھبی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور مذہب کے نام پر اپنے مفادات کے لیے ملکی سیاست میں زہر گھول رہے ہیں
معاشی و سماجی اصلاحات کے منصوبے بنانے کی بجائے مسلم لیگ کے رہنماء ہم آواز ہوکر ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں “اسلام”ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں عوام کی معاشی ترقی کی کوئی پرواہ نہیں ہے جبکہ قیام پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا جس کے لیے متوسط طبقے ،کسانوں اور مزدوروں نے تحریک پاکستان کے دوران بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں ایسا لگتا تھا کہ مسلم لیگ اور اس کے حامی ظالم جاگیرداروں اور ظالموں کا ساتھ دینے میں زیادہ دلچرکھتے تھے کیونکہ حکومت کی لگامیں انھی لوگوں کے ہاتھوں میں تھیں
شیخ مجیب الرحمان مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ کے راتوں رات کروڑ پتی بن جانے ،پرمٹ اور لائسنس بنواکر صنعت کار اور سرمایہ دار بن جانے کا زکر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیسے یہ گروہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی معشیت کا آقا و مولی بن گیا اور اس کو نوازنے والے مسلم لیگی جاگیردار حاکم اور سول و فوجی نوکر شاہی کیسے بنگالیوں کو اپنی رعایا اور غلام سمجھنے کی روش پر عمل پیرا تھی
یہ جو سرمایہ دار گروہ تھا یہ مغربی پاکستان کے پنجابی جاگیرداروں،پنجابی بولنے والی اکثریت پر مشتمل فوج اور سول نوکر شاہی اور ان کی اتحادی یو پی سی پی کی پرتیں ملکر سندھ،بلوچستان،خیبر پختون خوا اور خود سرائيکی خطّہ کے لوگوں کا استحصال کرنے میں مصروف ہوگئیں
شیخ مجیب نے اپنی یادوں میں بتایا ہے کہ کس طرح ان پرتوں نے بنگال کے خواجہ ناظم الدین،فضل الرحمان اور نورالامین جیسے لوگوں کو خود بنگال کے لوگوں کے حقوق غصب کرنے اور سرمایہ دار ٹولے کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا،یہ پریکٹس ہم نے خیبر پختون خوا میں بھی دیکھی جہاں اس غیر جمہوری موقعہ پرست ٹولے نے خان قیوم خان کو استعمال کیا اور اس نے نہ صرف خدائی خدمت گاروں کے خلاف آپریشن کیا بلکہ اس نے پیر آف مانکی شریف سمیت جمہوریت کی بات کرنے والے سچے مسلم لیگی لیڈروں کے خلاف بھی کاروائیاں کیں
سندھ میں جی ایم سید ،ہدائیت اللہ اور دیگر سندھی مسلم لیگی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے رسائل پر کنٹرول پنجابی اور مہاجر اشراف کے ہاتھوں میں چلے جانے پر بولے اور انہوں نے اپنی شناخت اور زبان کے حوالے سے مزاحمت کی اسلام اور نظریہ پاکستان کے نام پر انے ثقافتی وجود اور معاشی حقوق کو قربان کرنے سے انکار کیا تو وہ بھی غدار ٹھہرا دئے گئے اور پنجاب میں میاں افتخار الدین سمیت چند ایک بڑے قد کاٹھ کے سیاست دانوں نے لیاقت علی خان کی قیادت میں جمع ہونے والے مغربی پاکستان کے جاگیردار ٹولے،پرمٹی سرمایہ دار اور جعلی کلیموں سے ظہور میں آنے والی زمیندار اشرافیہ کو چیلنچ کرنے کی کوشش کی اور ان کے مقابلے میں جب عوامی لیگ اور پھر نیپ بنی تو اس جمہوری اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی پولیس،فوج ،خفیہ ایجنسیاں تو تھی ہی ساتھ ساتھ ملاّؤں کو بھی ہائر کیا گیآ،جماعت اسلامی ،مجلس احرار،جمعیت العلمائے اسلام جیسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو خرید لیا گیا اور اس جمہوری حزب اختلاف کو ملک دشمن قرار دیا گیا
شیخ مجیب،مولانا بھاشانی،تفضل مانک،عبداللہ ملک،مولوی فرید احمد اور منیر کمیشن رپورٹ کے مولف جسٹس منیر کی گواہی موجود ہے کہ پاکستان کو آزاد،خوش حال،جمہوری،روادار اور امن پسند ملک بنانے کی جدوجہد جو حزب آختلاف نے شروع کی تھی اسے سب سے پہلے احمدیوں کے خلاف پرتشدد تحریک چلاکر ناکام بنانے کی کوشش کی گئی
اور لوگوں کے سیاسی اور معاشی آزادی اور خود مختاری کے مطالبے کو اسلام اور پاکستان سے غداری قرار دے دیا گیا اور یہ مسلم لیگ کے جاگیردار،ان کی اشیرباد سے ابھرے سرمایہ دار اور طاقت کے سراب میں گرفتار ہوجانے والی وردی بے وردی نوکر شاہی تھی جس نے پاکستان میں تکفیری مہم کی شروعات کیں اور اس کا پہلا نشانہ احمدی بنے
کتنی عجیب بات یہ ہے کہ جن مولویوں سے احمدیوں کے خلاف فسادات اور خون ریزی کرائی گئی وہ وہی مولوی تھے جو کانگریس کے حامی ہندؤ سرمایہ داروں سے رقم لیکر مسلم لیگ کے قائد اعظم محمد علی جناح ،لیاقت علی خان،راجہ آف محمود آباد سمیت صف اول کے درجن بھر لیڈروں کے شیعہ پس منظر اور احمدی پس منظر کے خلاف تحریک چلاتے رہے زرا مدح صحابہ اور اینٹی قادیانی تحریک کے روح رواں دیوبندی احراریوں کا کردار ہی دیکھ لیں اور مسلم لیگی قائد محمد علی جناح کو کافر اعظم کہتے رہے
اور یہ سلفی دیوبندی تکفیری مولوی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اہل سنت بریلوی اور شیعہ کے خلاف مہم چلانے لگے اور مقصد ضیاءالحق کا یہ تھا کہ اس سے جمہوری تحریک ایم آر ڈی کو دبانا اور دوسری طرف افغانستان میں جہادی پروجیکٹ چلانا اور اس زریعے سے سعودی عرب و امریکہ سے ڈالر بٹورنا اور پھر ایران و شیعہ کی توسیع پسندی کے جھوٹے قصّے پھیلانا
یہ ایک طرح سے چھوٹی سٹار وار پروپیگنڈا تھاجو سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتیں پھیلا رہی تھیں
جنرل ضیاء الحق نے ایک مرتبہ پھر جناح کی وفات کے بعد وجود میں آنے والی مسلم لیگ کو زندہ کیا اور ان کا دیوبندی،وہابی مولویت سے نکاح کرایا اور حقیقت میں جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے پاکستان کو ایک جہنم میں بدلنے کا پروسس شروع کیا
جنرل ضیاء الحق ڈالر اور پیٹرو ریال کا اس قدر رسیا تھا کہ جب وہ فوج میں بریگیڈئر ہوا کرتے تھے تو شاہ اردن سے پیسے لیکر فلسطینی مہاجروں پر ٹوٹ پڑے تھے اور 80ء کی دھائی ميں انہوں نے ڈالر ملنے کے عوض دیوبندی اور وہابی مولویوں کو خریدا جنہوں نے وہابی اور دیوبندی نوجوانوں کو افغانستان کی آگ ہی نہیں دھکیلا بلکہ ان کو پاکستان کا وجود شیعہ،بریلوی،ہندؤ ،عیسائی ،احمدی اور سیکولر سے پاک کرنے کا مشن سونپ دیا اور دیوبندی کلنگ مشین کے جنم کی راہ ہموار کی اور تو اور افغان علاقے سے جنگ ہوتی ہوئی پاکستان آن پہنچی
آج جب سعودی جہاد شام کی کہانی سامنے آئی ہے تو ایک مرتبہ پھر اتحادی اور فنانسر ایک میز پر اکٹھے ہیں
شیخ محیب نے اپنی یادوں میں کہا تھا کہ لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ کیا یہی پاکستان ہے جہاں چند اربن مالدار اشراف،جرنیل ،نواز جیسے ایجنٹ سیاست دان ،وردی بے وردی نوکر شاہی اور دیوبندی-سلفی تکفیری نیٹ ورکس عیش کررہے تھے اور تفضل مانک سوال اٹھاتے ہیں کہ منٹگمری میدان میں 23 مارچ 1947ء اور پھر 7 تا 9 اپریل 1946 کو جو قراردادیں پاس کیں تھیں ان کا کیا ہوا؟
اس وقت بھی پنجاب کی عوام زبردست پروپیگنڈے اور اعلانیہ کنٹرولڈ پریس کی ٹیبل نیوز سٹوریز کا شکار تھے اور آج غیر اعلانیہ پریس کنٹرول اور زبردست پروپیگنڈے کا شکار ہیں تبھی تو اہل سنت بریلوی،شیعہ،ہندؤ،احمدی اور عیسائی،سیکولر بلوچ،پشتون،سندھی کا جو اغواء،قتل کردئے جانے پر جو آواز اٹھائی جاتی ہے اسے حافظ سعید،محمد احمد لدھیانوی ،منور حسن جیسے دیوبندی اور وہابی اپنے نام نہاد نظریہ پاکستان اور تحفظ پاکستان کے شور تلے دبا دیتے ہیں
اصل معاملہ یہ ہے ضیاءالحق کے چیلوں کے پاس وہی تجربہ اور سوچ ہے جو جنرل ضیاء نے ڈالر پلس ریال لیکر حاصل کیا اور اب نواز شریف بھی پیسے کے لیے اور مظلوم اقوام و مذھبی برادری کی جدوجہد کو چھپانے کے لیے نئی مہم شروع کی ہے