اسلام آباد ڈسٹرکٹ کچہری میں لال مسجد بریگیڈ نے جج رفاقت اعوان کو کیوں نشانہ بنایا؟
اسلام آباد- ڈسٹرکٹ کچہری میں تین مارچ کو صبح آٹھ بجے کلاشنکوفوں ،دستی بموں سے لیس پانچ سے تکفیری دیوبندی دھشت گردوں نے حملہ کردیا اور خود کش بم دھماکوں کے زریعے دو دھشت گردوں نے خود کو اڑایا جبکہ باقی حملوں آوروں کی فائرنگ سے ایک نوجوان خاتون وکیل سمیت تیرہ افراد جاں بحق ہوگئے،
وقوعے کے عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور دھشت گردوں نے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کی عدالت پر ہلہ بولا اوراندھا دھند فائڑنگ شروع کردی جس کی زد میں درجنوں لوگ آئے اور اس کے بعد ایک حملہ آور نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان کی عدالت کے سامنے خود کو اڈا دیا جس کی وجہ سے رفاقت اعوان بھی ہلاک ہوگئے
یاد رہے کہ ایڈشنل سیشن جج رفاقت اعوان کی عدالت میں لال مسجد کے دیوبندی تکفیری دھشت گرد غازی عبدالرشید کے بیٹے اور مولوی عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون رشید نے جنرل پرویزمشرف کے خلاف ایک ایف آئی آر کے اندراج کا آرڈر لینے کے لیے درخواست دائر کی تھی جسے انھوں نے رد کردیا تھا اور اپنے حکم میں یہ لکھا تھا کہ
“یہ سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے”
ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کو اس کے بعد سے دھمکیاں موصول ہورہی تھیں،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غازی ہارون رشید ،مولوی عبدالعزیز کے تحریک طالبان پنجاب جنودالحفصہ اور سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت جیسی دیوبندی دھشت گردوں سے بہت قریبی تعلقات ہیں
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ایڈشنل سیشن جج رفاقت اعوان کا قتل بھی مشرف کے خلاف غازی ہارون رشید کی ررخواست ضمانت رد کرنے اور اس کو سستی شہرت کی خواہش لکھنے کا نتیجہ ہوسکتا ہے
یاد رہے کے کچھ دن پہلے لال مسجد دہشت گرد بریگیڈ کے سربراہ مولوی عبد العزیز دیوبندی نے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کو دھمکی دی تھی کہ طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری خارجی ایجنڈے پر نہ چلنے کی صورت میں پانچ سو زائد خود کش بمبار حملہ کر دیں گے – مولوی عبدالعزیز دیوبندی کے اسلام آباد میں تاجی کھوکھر، ملک ریاض اور احمد لدھیانوی سے قریبی تعلقات ہیں
Comments
Tags: Lal Masjid (Red Mosque), Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) & Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) & Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ), Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij, Taliban & TTP
Latest Comments
Judge Rafaqat Awan, who rejected petition of Abdur Rashid Ghazi’s son Haroon Rashid Deobandi for an FIR against Musharraf, killed today by ASWJ-TTP terrorists in Islamabad District Court.
Haroon Rashid Deobandi is a nehphew of Molvi Abdul Aziz Deobandi, TTP’s representive for talks with Nawaz Sharif government.
At least 11 people, including a senior judge, were killed and over 30 others injured after suicide bombing and terrorist firing at Islamabad court today.
پولیس کے مطابق ایڈشنل سیشن جج رفاقت اعوان کو ٹارگٹ کرکے مارا گیا ہے کیونکہ حملہ آور ان کے چیمبر میں داخل ہوئے اور اُن کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔ رفاقت حسین کی عدالت کے ساتھ دو سول جج کی عدالتیں بھی تھیں اور وہ جج صاحبان اپنی عدالتوں میں موجود تھے تاہم خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔
ایک 25 سالہ نوجوان جو کہ پتلون شرٹ میں ملبوس تھا اور وہ کچھ بات پشتو میں اور کچھ اردو میں کر رہا تھا اور دیگر ساتھیوں کو ہدایت دے رہا تھا کہ فلاں جگہ کون جائے گا اور کس کس کو ہدف بنانا ہے۔
عینی شاہد محمد نذیر کے مطابق حملہ آوروں نے لمبے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور اُن کے چھوٹی داڑھیاں تھیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140303_islamabad_courts_attack_scene_rh.shtml
’پہلے کسی نے توجہ نہیں دی اور پھر انہوں نے چادریں اتاریں‘
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: پير 3 مارچ 2014 , 09:44 GMT 14:44 PST
Facebook
Twitter
Google+
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
عینی شاہد زمرد شاہ ایڈووکیٹ کا کہناہے کہ جب حملہ آور باتیں کر رہے تھے تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین بڑی گاڑیاں وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز کی مارکیٹ میں واقع کچہری میں اُس طرف سے داخل ہوئیں جس طرف بخشی خانہ ہے اور ان گاڑیوں میں آٹھ افراد سوار تھے۔
اسی بارے میں
اسلام آباد میں فائرنگ، خودکش دھماکوں میں سیشن جج سمیت 11 ہلاک
اسلام آباد کچہری میں فائرنگ، خودکش دھماکے
متعلقہ عنوانات
پاکستان
پولیس کے مطابق بیس سے پچیس سال کی عمروں کے یہ مسلح افراد اُس سمت سے کچہری ضلعی عدالتوں میں داخل ہوئے جہاں پر بظاہر پولیس کی نفری تو موجود ہوتی ہے کیونکہ وہاں پر بخشی خانہ ہے جہاں پر مختلف عدالتوں میں پیش کیے جانے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے لیکن وہاں سے کچہری کے اندرآنے جانے والے کو چیک نہیں کیا جاتا۔
ایک 25 سالہ نوجوان جو کہ پتلون شرٹ میں ملبوس تھا اور وہ کچھ بات پشتو میں اور کچھ اردو میں کر رہا تھا اور دیگر ساتھیوں کو ہدایت دے رہا تھا کہ فلاں جگہ کون جائے گا اور کس کس کو ہدف بنانا ہے۔
عینی شاہد محمد نذیر کے مطابق حملہ آوروں نے لمبے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور اُن کے چھوٹی داڑھیاں تھیں۔
عینی شاہد زمرد شاہ ایڈووکیٹ کا کہناہے کہ جب حملہ آور باتیں کر رہے تھے تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔
’جونہی اُنھوں نے چادریں ہٹا کر یہ نعرہ لگایا کہ ’کوئی بچ کے نہ جائے‘ اور اُس کے بعد کلاشنکوف سے فائرنگ کرنا شروع کی تو پھر پوری کچہری میں بھگدڑ مچ گئی۔‘
اُنھوں نے کہا کہ جہاں ججز اپنے چیمبر میں گھس رہے تھے وہیں وکلاء برادری اور سائلین کے ساتھ اپنی جان بچانے میں مصروف تھے۔
’بھاگنے والوں میں سب سے آگے پولیس اہلکار تھے۔ اس کارروائی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے اس علاقے کی ریکی کی جس کے بعد حملے کی منصوبہ بندی کی۔‘
“حملہ آوروں کے پاس کلاشکوفیں تھیں جبکہ پولیس اُن پر پستولوں سے فائرنگ کر رہی تھی۔ ملزمان کے دیگر ساتھی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ قریبی علاقوں میں ہی چھپے ہوئے ہیں۔”
ذرائع
پولیس کے مطابق ایڈشنل سیشن جج رفاقت اعوان کو ٹارگٹ کرکے مارا گیا ہے کیونکہ حملہ آور ان کے چیمبر میں داخل ہوئے اور اُن کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔ رفاقت حسین کی عدالت کے ساتھ دو سول جج کی عدالتیں بھی تھیں اور وہ جج صاحبان اپنی عدالتوں میں موجود تھے تاہم خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔
ذرائع کے مطابق ان حملہ آوروں کے پاس کلاشکوفیں تھیں جبکہ پولیس اُن پر پستولوں سے فائرنگ کر رہی تھی۔ ملزمان کے دیگر ساتھی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ قریبی علاقوں میں ہی چھپے ہوئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق عمومی طور پر دو سو سے زائد پولیس اہلکار ہر وقت ضلع کچہری میں موجود ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن پیر کے روز ہونے والے واقعہ کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہاں پر پولیس اہلکار کبھی تعینات ہی نہیں تھے۔
متعقلہ تھانے کے انچارج خالد محمود کا کہنا ہے کہ وکیل ہارون الرشید کے چیمبر کے قریب پولیس کی فائرنگ سے ایک حملہ آور نیچے گرا جس کے فوری بعد اُس نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔
ذرائع کے مطابق چند روز قبل خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اسلام آباد کے حکام کو رپورٹ دی تھی کہ ضلع کچہری میں لگائے گئے سکینرز کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے شدت پسندی کا خطرہ ہے۔ اس بارے میں مقامی پولیس کا موقف ہے کہ اس طرح کی رپورٹیں معمول کی کارروائی ہے۔
غیر محفوظ ترین شہروں میں سے ایک
چند روز قبل نیشنل کرائسز مینجمینٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد پاکستان کے غیر محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد میں فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
اس واقعے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے اسلام آباد کی عدالتوں میں لے کر آنے والے قیدیوں کو راستے میں ہی روک دیا گیا۔ بعدازاں اُنھیں دوبارہ اڈیالہ جیل منتقل کردیا۔
اسلام آباد کی ضلعی عدالتیں دکانوں میں لگی ہوئی ہیں اور کچھ عرصے قبل تک پولیس افسران کے دفاتر بھی انھی دکانوں میں موجود تھے اور اُن کی موجودگی میں پولیس اہلکار سینکٹروں کی تعداد میں تعینات ہوتے تھے۔ لیکن اُن کے دفاتر دوسری جگہ پر منقتل ہونے کے بعد ضلع کچہری میں سکیورٹی کے انتظامات کم کر دیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل نیشنل کرائسز مینجمینٹ کی طرف سے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد پاکستان کے غیر محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد میں فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140303_islamabad_courts_attack_scene_rh.shtml
’اللہ اکبر کے نعروں کی آواز آئی تو میں چیمبر سے نکل آیا‘
عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: پير 3 مارچ 2014 , 10:17 GMT 15:17 PST
Facebook
Twitter
Google+
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
’شور و غل تھا اور سب لوگ اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے جن میں وکلا اور موکل دونوں شامل تھے‘
اسلام آباد کچہری میں فائرنگ اور خودکش دھماکوں کے نتیجے میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت احمد اعوان سمیت 11 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔
اس حملے کے بارے میں عینی شاہدین نے بی بی سی سے بات کی۔
طارق عزیز ایڈووکیٹ
’لوگ ایک ایک کر کے نکل رہے تھے اور ان پر فائرنگ بھی ہو رہی تھی‘
اسی بارے میں
’پہلے کسی نے توجہ نہیں دی اور پھر انہوں نے چادریں اتاریں‘
اسلام آباد میں فائرنگ، خودکش دھماکوں میں سیشن جج سمیت 11 ہلاک
اسلام آباد کچہری میں فائرنگ، خودکش دھماکے
متعلقہ عنوانات
پاکستان
آٹھ سے دس لینڈ کروزریں تھیں، اور گیارہ سے بارہ لوگ تھے۔ ان سب کے پاس اسلحہ تھا۔ انہوں نے مختلف اطراف سے حملے کیے۔ پھر وہ کینٹین کے اندر آ گئے اور وہاں موجود لوگوں کو ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا۔ آخر میں انہوں نے دستی بم پھینک دیا۔ پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا مگر پولیس ان کو کنٹرول نہیں کر پائی۔
شور و غل تھا اور سب لوگ اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے جن میں وکلا اور موکل دونوں شامل تھے۔ جب دھماکے ہوئے تو کینٹین کے شیشے ٹوٹ گئے اور جب حملہ آور نکل گئے تو لوگ مزید شیشے توڑ کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ وہاں چاروں طرف گیٹ ہیں، اس لیے چاروں طرف لوگ باہر نکل رہے تھے۔ لیکن فرار ہونے والے لوگوں کا جھمگٹا ہو گیا توگیٹ بند ہو گیا۔ لوگ ایک ایک کر کے نکل رہے تھے اور ان پر فائرنگ بھی ہو رہی تھی۔
کورٹ کے ریڈر
ایک کورٹ کے ریڈر کے ساتھ میری بات ہوئی جو ہلاک ہونے والے ایڈیشنل جج رفاقت علی صاحب کے چیمبر کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو میں انہیں کے چیبمر سے نکلا کیونکہ اللہ اکبر کے نعروں کی آواز آئی تھی۔ ان کے بیان کے مطابق اس نعرے کے بعد ان کو بچانے کے بعد صرف تین منٹ تھے۔ جب ایک حملہ آور کے پاس گولیاں ختم ہوئیں تو اس نے خود کش حملہ کیا اور تین عدالتیں تو بالکل ملبہ بن گئیں۔
چودھری خاور حنیف ایڈووکیٹ
’حملہ آوروں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ کس پر فائرنگ کر رہے ہیں، چاہے وہ وکیل ہو، بیرا ہو، یا موکل ہو‘
راجہ بشارت صاحب ہمارے ایک ساتھی تھے۔ جب دو حملہ آور داخل ہوئے تو وہ اس وقت کینٹین میں ناشتہ کر رہے تھے۔ حملہ آوروں نے بلاترتیب فائرنگ کی، کسی کو کندھے پر لگی اور کسی کی ٹانگ پر۔ راجہ بشارت کو گولی لگی اور سینے سے نکل گئی۔ وہ ایک دکان میں گھس گئے اور اس کے شٹر بند کر دیے۔ وہاں وہ چالیس سے پچاس منٹ وہاں پڑے رہے اور ان کا خون مسلسل بہتا رہا۔
یہاں پر زیادہ تر وکلا تو غیر مسلح ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کتابیں ہوتی ہیں اور فائلیں۔
کینٹین میں زیادہ تر وہ وکلا تھے جو شہر کے باہر سے آتے ہیں اور وہ صبح آٹھ بجے عدالت میں پیشیوں کے لیے آئے تھے۔ کوئی ناشتہ کر رہا تھا، کوئی کچہری جا رہا تھا اور آمدورفت کافی تھی، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ حملہ آوروں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ کس پر فائرنگ کر رہے ہیں، چاہے وہ وکیل ہو، بیرا ہو، یا موکل ہو۔
ایف ایٹ کی اس کمپلیکس کو کسی منصوبے کے تحت تو بنایا نہیں گیا اور اس کے کئی داخلی دروازیں ہیں۔ نہ تو کوئی سکینر کام کر رہے تھے اور نہ ہی پولیس اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ تاہم پولیس کی نااہلی تو نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں پر تو کوئی سکیورٹی نہیں ہے۔ شدت پسندوں کے لیے یہاں حملہ کرنا بہت آسان کام تھا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140303_islamabad_courts_eye_witnesses_rh.shtml
اہ بھڑوا چوتیا ایڈمن تجھے تیرے متعہ زادے باپ ایران نے بتایا کے وہ دیوبند تھے ۔حرامی کرتے بھی خود ہو اور بھوکتے بھی ہو ۔کتنا ڈرتے ہو تم متعہ زادے عرب اور دیوبند سے ،،مرو گے کتے کی موت کیوں کے جو ڈر گیا سمجھو مر گیا ۔لعنت ہو تیرے جائز باپ خمینی کتے پر بے شمار لعنت
Harami ‘jihad ul nikkah’ ki pedawar, tumhari maa behno ko jo saudi shehzaday yaha aa kar shikaar kartay hain to tum jaisay walad uz zinna deobandi, takfiri kuttay peda hotay hain. Akora Khatak se jo fuzla bahar aata he wo hi ye jahil taliban hain, laanat ho tum haram ki pedawar wahabio par beshumaar.
طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے پر یقین نہ کرنے والے اور ذمہ داری نہ قبول کرنے پہ فوری یقین کرنے والے منافقین طالبان سے بھی بڑے مجرم ہیں
via facebook
Lal Masjid brigade may be linked to F-8 attack
Azaz Syed
Wednesday, March 05, 2014
From Print Edition
208 19 181 2
ISLAMABAD: Police sleuths working to track down the perpetrators of the brutal attack at Islamabad’s district courts on Monday believe a terror outfit, Ghazi Force, may be behind it, it is learnt.
Ghazi Force was named after the cleric of the Lal Masjid who was killed during the military operation in 2007. The force which emerged soon after 2007 was mainly formed by former students of the Lal Mosque.
Investigators claim that the force is currently using Miranshah as its main base to carry out its activities in the settled areas of the country.“Though we have no concrete evidence against this organisation but we have observed the modus operandi of the attacks which is similar to the Ghazi Force,” said a key official involved in the ongoing investigations.
The source added that lately Ghazi Force had appointed a commander named Hilal to look after the operations in Islamabad and Rawalpindi. Police and the intelligence agencies had conducted number of operations for his arrest in the past but each time he evaded them.
Police and the law enforcement agencies have also found some unrecognized parts of the faces of two suicide bombers who blew themselves up in the premises of the district courts. Thus they are facing difficulties in identifying them through a special system installed in the National Database Registration Authority (Nadra).
Investigators have already found the limbs of the terrorists from the crime scene. The sources within the investigation team claim that they are clear about the two attackers but are still confused if there were more people or not.
Investigators have concluded that the terrorists entered in the F-8 Courts using the Capital Development Authority (CDA)’s ground adjacent to the courts. The ground was recently occupied illegally by lawyers for constructing their chambers.
More than 20 under-construction chambers have been abandoned. “We cannot rule out the possibility that the terrorists could have used this under-construction structure as their hideout for a night stay before the attack,” a key officer involved in the investigation admitted to this correspondent while requesting anonymity.
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-236319-Lal-Masjid-brigade-may-be-linked-to-F-8-attack
Hazrat Abu Bakar ore Hazrat Umar ne bhi mutta kia tha…….
Abdullah ibne Zubair Mutta ke nateeje me peda hue they. Hazrat Zubair bin Awam ne Hazrat Abu Bakar ki betee se nikah e mutta kia tha.
Yeh jo tum takfiri Syria ja kar arab larkio se ‘jehad ul nikka’ ke naam par zinna kartey ho ye haraam he kio ke aik waqt me 100 takfiri arab larki se jehad ul nikkah kartey hain. Nateeje me tum takfirio jesey harami peda hotey hain jo naqaab pehen kar apna kala moo chupatey phirtey hain ya kuttey molvi abdul aziz ki tarha burqa pehen kar bhaag jatey hein, lanati!