پنجاب حکومت کالعدم دیوبندی دہشت گرد جماعت کی حمایت بند کرے، ہماری لاشوں سے گذر کر ہی عاشورہ اور میلاد کے جلوسوں کا روٹ تبدیل ہوگا – علامہ حامد رضا، سربراہ سنی اتحاد کونسل
پاکستان میں سنی مسلمانوں کے اکثریتی مسلک سنی بریلوی کے سینئر عالم دین اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ علامہ حامد رضا نے کالعدم دیوبندی فرقہ وارانہ دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ (جعلی اہلسنت والجماعت) کی بے جا سرپرستی اور حمایت پر پنجاب حکومت، خاص طور پر وزیر اعلی شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ پر شدید تنقید کی
علامہ حامد رضا نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی الله الہ وآله وسلم اور ان کے نواسے امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ سے محبت ہمارے ایمان کا جزو ہے – انہوں نے کہا کہ کالعدم دہشت گرد جماعت کے دباؤ پر میلاد اور عاشورہ کے جلسوں کا روٹ تبدیل نہیں کیا جاسکتا – پنجاب حکومت کالعدم دیوبندی دہشت گرد جماعت کی حمایت بند کرے، ہماری لاشوں سے گذر کر ہی عاشورہ اور میلاد کے جلوسوں کا روٹ تبدیل ہوگا
علامہ حامد رضا کا بیان ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو دیوبندی دہشت گرد جماعتوں طالبان اور سپاہ صحابہ اور ان کے حمایتی دیوبندی اور وہابی مولویوں کو پر امن سنی مسلک کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں آج پاکستان میں تمام ادیان، مذاھب اور مسالک کے ماننے والے دیوبندی مسلک کے تکفیری خوارج کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور یہی لوگ پاک فوج اور پولیس کا بھی قتل کر رہے ہیں ایسےدہشت گردوں کو سنی کہنا سنی مسلمانوں اور سنی مسلک کی توہین ہے
———-
چئیر مین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ ایک کالعدم تنظیم اہلسنت کا نام استعمال کر رہی ہے انہیں بدنام کر رہی ہے ۔
واضح رہے کہ وہ کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ ہے جو اب کہ “اہلسنت ولجماعت” کے نام سے کام کرہی ہے جس کا سنی مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت وزیراعلی شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر پنجاب بھر خاص طور پر فیصل آباد اور راولپنڈی میں دیوبندی اور وہابی اہلحدیث افسران کی تقرری کر رہے ہیں تاکہ میلاد النبی کے جلوسوں کو روکا جا سکے اور کالعدم دیوبندی جماعت نام نہاد اہلسنت والجماعت کے ایجنڈے پر عملدرآمد ہو
—————
جب تک راناثناءاللہ پنجاب میں موجود ہیں تب امن ناممکن ہے۔ حامد رضا
سنی اتحاد کونسل کے رہنماء حامد رضا کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون رانا ثناءاللہ پنجاب میں موجود ہیں اس وقت تک پاکستان میں امن امان قائم نہیں ہو سکتا۔
Willdon alama hamid raza sahb. Shia sunni bhai bhai
27 فروری 2013 12:53
سپاہ صحابہ کی تاریخ اور پنجاب حکومت کا رویہ
چھاپیے ای میل
سپاہ صحابہ کی تاریخ اور پنجاب حکومت کا رویہ
شفقنا (بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ) – تحریر: ممتاز ملک
محققین کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث عسکری لشکروں کے وجود میں آنے کی زیادہ تر وجہ ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ اور حکومیتں بنیں، بالخصوص جنرل ضیاء الحق دور میں قائم کیے گئے جہادی کیمپ، کلاشنکوف کلچر اور ہیروئین کلچر جیسے تحفے قوم کا مقدر ٹہرے، صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے ہی 6 ستمبر 1985ء میں مولانا حق نواز جھنگوی کے زیر قیادت انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ابتداء تھی پاکستان کے اندر دوسرے مسلمہ اسلامی فرقوں کو کافر کہنے اور قتل کرنے کی، اور جسے آج تک روکا نہ جاسکا، بلکہ بدقسمتی سے عقیدے کی بنیاد پر بےگناہوں کو قتل کرنے کی اس تحریک کو منظم انداز میں پروان چڑھایا جاتا رہا۔
جب 1989ء میں USSR کا شیرازہ بکھرا تو افغانستان کے اندر امریکی ڈالر اور سعودی ریال کی مدد سے پاکستانی خفیہ اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے جہادی کیمپوں کے نام نہاد مجاہدین کو بغیر کسی منطقی انجام تک پہنچائے کھلا چھوڑ دیا گیا، جس کا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں نکلا۔ ان نام نہاد جہادی تنظیموں جن میں تحریک طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور انجمن سپاہ صحابہ کی موجودہ شکل نے جہاں حکومتی اداروں بالخصوص فوج کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا، وہیں اہل تشیع کے ہزاورں افراد عقیدے کی بنیاد پر سپرد خاک ہوگئے۔ 1991ء میں انجمن سپاہ صحابہ کے قائد ضیاالرحمن فاروقی نے اس کا نام تبدیل کرکے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا، اور ملک بھر، بالخصوص پنجاب میں انہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ کار خطرناک حد تک بڑھا دیا۔
یہی وہ دور تھا جب ریاض بسرا نے دھمکی آمیز خط نواز شریف کو لکھا۔ لاہور میں ہی 19 دسمبر 1990ء میں ایران کے کونصلر جنرل آقائی صادق گنجی کو مال روڈ پر قتل کر دیا گیا۔ پھر اسی طرح قتل پر مبنی پنجاب میں کئی کارروائیاں کی گئیں، اور ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیئے گئے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں پر مشتمل افراد نے 1996ء میں SSP کا ایک عسکری ونگ بنایا، جس کا نام لشکر جھنگوی رکھا گیا، جن کا مقصد آل سعود اور حق نواز جھنگوی کی فکر کو طاقت کے بل بوتے پر پھیلانا اور اُس کا تحفظ کرنا تھا۔ اس کے ابتدائی سربراہوں میں اکرم لاہوری، محمد اجمل الیاس، ریاض بسرا، غلام رسول شاہ اور ملک اسحاق شامل تھے۔ مذکورہ افراد نے پنجاب بھر سے نوجوانوں کو باقاعدہ Training کے لئے بھرتی کیا، اور ان سب کو افغانستان کابل کے قریب ساروبی ڈیم کے پاس قاری اسداللہ اور علی پور مظفرگڑھ کے قاری عبدالحئی الیاس کے زیر نگرانی چلنے والے خالد بن ولید کیمپ میں تربیت دی جانے لگی، اور رہی سہی کسر کشمیر کے جہادی کیمپوں نے پوری کردی، جس میں حرکت المجاہدین اور 2000ء میں بنائی جانے والی مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد نے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت فراہم کی۔
لشکر ی جھنگوی نے پنجاب کے دو زون بنائے، ایک زون کی قیادت 300 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ریاض بسرا نے سنبھالی، اس زون میں لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور سرگودھا شامل تھے، جبکہ دوسرے زون کی ذمہ داری 102 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ملک اسحاق کو دی گئی، اور ساتھ ہی 2000ء میں افغانستان کے کیمپ میں موجود کمانڈر قاری عبدالحئی اور اُس کے ساتھیوں نے اپنا مرکز کراچی شہر کو بنایا، جنہوں نے صرف 2 سال کے اندر شیعہ مکتب سے تعلق رکھنے والے 70 ڈاکٹرز، 34 وکلاء، جید علماء کرام، اساتذہ، طالب علم اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سینکڑوں افراد کو بے دردی سے قتل کیا، جو کہ آج تک جاری ہے۔
تو بات ہو رہی ہے پنچاب کی جہاں 15 جنوری 1996ء کو لاہور میں پاکستان کے ہر دل عزیز شاعر محسن نقوی کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ 1996ء میں ہی مومن پورہ کے قبرستان میں قرآن خوانی کرنے والے 25 بچوں اور خواتین کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا، اس کارروائی میں لشکر جھنگوی کے اکرم لاہوری، ریاض بسرا، ہارون منصور، اور عزیز گجر ملوث تھے۔ پھر 1997ء میں ہی مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت کے قریبی عزیز SSP اشرف مارتھ کو گوجرانوالہ میں لشکرجھنگوی کے دہشت گردوں نے قتل کر دیا، کیونکہ اس نے انتہائی جواں مردی کے ساتھ لشکر کے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس کے بعد گیارہ جنوری 1998ء کو کمشنر سرگودھا تجمل عباس کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب کے سابق وزیراعلٰی غلام حیدر وائیں بھی ان دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنے۔
3 جنوری 1999ء کو رائے ونڈ اور لاہور کے درمیان پل کو لشکر جھنگوی نے دھماکے سے اُڑا دیا، جس میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بال بال بچ گئے، تاہم اس وقت کے وزیر خارجہ صدیق خان کانجو ان دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے، اس کے بعد شریف برداران نے لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا اور پنجاب بھر سے کئی دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اُن کے مقدمات کا فیصلہ سنانے سے عدالتوں کے جج بھی کتراتے نظر آئے، آخر کار خصوصی عدالت کے ایک جج نیر اقبال غوری کو نواز شریف کی طرف سے سکیورٹی کی مکمل یقین دہانی پر اس نے لشکر جھنگوی کے افراد کے خلاف خانہ فراہنگ ایران ملتان کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس بیہمانہ واقعہ میں آقای علی رحیمی اپنے چار پاکستانی ساتھیوں سمیت قتل کر دیئے گئے اور یوں ہمسائے ملک ایران کے ان افراد کا قتل پاکستان کے چہرے پر بدنما داغ بن گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کیس کا فیصلہ سنانے والے جج نیئر اقبال غوری فوراً ہی جان کی امان پانے کیلئے امریکہ روانہ ہوگئے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس نواز عباسی نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔ تاہم کمزور استغاثہ، شہادتوں کی کمی اور گواہوں کی عدم دستیابی کا بہانہ تراش کر سپریم کورٹ نے اس کیس میں ملوث تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ گواہ ہائیکورٹ تک تو آتے رہے، تاہم مسلسل دھمکیوں نے انہیں بھی زندگی چھن جانے کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران لشکر جھنگوی کے کئی افراد پولیس مقابلے میں مار دئیے گئے۔ جس کا ماورائے عدالت قتل کا مقدمہ سبزہ زار کالونی کے نام سے شہباز شریف پر بھی چلایا گیا۔ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں نے لاہور میں علامہ غلام حسین نجفی، ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ذوالفقار حسین نقوی ایڈوکیٹ کو اپنی سفاکانہ کارروئیوں کی بھینٹ چڑھایا۔
ملتان میں ہی پاکستان کے انٹرنیشنل پہلوان زاوار حسین ملتانی کو قتل کیا گیا۔ مظفر گڑھ چوک قریشی مسجد میں فائرنگ، کوٹ ادو مجلس عزاء میں فائرنگ، شہر سلطان مسجد میں فائرنگ، خان گڑھ مونڈکا میں رات کو گھر میں سوئے ہوئے افراد پر فائرنگ، خیرپور ٹامے والی بازار میں شیعہ افراد پر فائرنگ، بہاولپور مسجد میں دھماکہ، دوکوٹہ میلسی اور کبیروالا میں فائرنگ، ممبر قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ کے والد شاہ نواز پیرزادہ کا قتل، خانپور رحیم یار خان جلوس میں دھماکہ، 2004میں سیالکوٹ مسجد میں دھماکہ، پھالیہ میں سید اعجاز حسین کا قتل، علی پور میں سید ثقلین عباس نقوی کا قتل، چینوٹ اور جھنگ میں ہر روز قتل عام، روالپنڈی میں ہی یادگار حسین مسجد میں دھماکہ، PTV کے Director سید عون رضوی کا قتل، ایرانی پائلٹس کا قتل، چکوال امام بارہ میں دھماکہ، پنڈی میں ڈھوک سیداں امام بارگاہ میں خودکش دھماکہ، ملہووالی اٹک میں فائرنگ اور اس طرح کی درجنوں واردتوں میں ہزاروں بے گناہ شیعہ افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، لیکن حکومتیں ہر دور میں خاموش تماشائی بنی رہیں۔
لشکر جھنگوی نے ابتداء میں جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ اور بھکر کو اپنے اسلحہ اور ایمونیشن کے ڈپو کے طور پر استعمال کیا، جہاں سے دوسرے علاقوں کو فراہمی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مرید کے، شیخوپورہ میں ایک اور کبیروالا میں دو ٹرینگ کیمپ باقاعدگی سے چلتے رہے۔ ان دہشت گردوں نے بعض کارروائیاں پنجاب پولیس کی وردیاں پہن کر بھی کیں، رہزنی اور بنک ڈکتیوں میں بھی ملوث رہے، اور کافی سارے علاقوں میں ان دہشت گردوں نے اپنے ہی مسلک کے لوگوں اور ساتھیوں کو مار کر اپنے اوپر بنائے گے قتل کے مقدمات کو کاؤنڑ کرنے کی کوشش میں بے گناہ پرامن شیعہ افراد کو ان مقدمات میں پھنسایا۔
جس طرح آج کے وزیر داخلہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کھل کر حقیقت پر مبنی بیانات دے رہے ہیں، 1996ء میں بھی سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر اور DG ISI جاوید اشرف قاضی نے بھی سپاہ صحابہ اور لشکری جھنگوی کے خلاف واشگاف بیانات سے ان کے کرتوتوں کو آشکار کیا اور انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں کالعدم جماعتیں اپنی عسکری کیڈر میں بھرتی کے لئے جنوبی پنجاب کے زیادہ تر علاقوں کو استعمال کر رہی ہے۔ ان علاقوں میں رحیم یار خاں کے رکن پور، دین پور شریف، ظاہر پیر، سردار گڑھ کے مدراس، بہالپور گھلواں جھنگڑا، جن پور، ٹھل حمزہ، علی پور ضلع مظفر گڑھ میں یاکی والا، تھیم والا، مڑھی کے علاقے شامل ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جامعہ حسینیہ ہیڈپنچند روڈ کے پرنسپل کا بیٹا خودکش حملے میں ہلاک ہوچکا ہے، کوٹ ادو میں تو تین دہشت گردوں کی Dead Bodies بھی آچکی ہیں، جو وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے کی زد میں آکر مارے گئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے مدارس میں ہر روز صج ایک گھنٹے کی کلاس میں طلباء کو کافر کافر شیعہ کافر کا ورد کرایا جاتا ہے اور ان طلباء کے اذہان کو اس غلیظ زہر سے بھرا جاتا ہے کہ شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے اور جن کا قتل جنت کے درجوں اور حوروں کی فراہمی کا باعث بنتا ہے، ساتھ ہی اُن کے غریب والدین کو معاشی فوائد کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے۔
مذکورہ تمام واقعات اور حقائق کے باوجود پنجاب حکومت کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کیخلاف اقدام نہیں کرتی تو واضح ہو جاتا ہے کہ ن لیگ کا ان لشکروں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، جس کی ابتک ن لیگ کی طرف سے تردید کی جا رہی ہے۔ لیکن مولانا احمد لودھیانوں کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ دونوں جماعتوں میں انتخابات میں ملکر الیکشن لڑنے اور سیٹ ایڈجسمنٹ کیلئے معاہدہ ہوچکا ہے۔ قوم سمجھتی ہے کہ پنچاب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں، کیا اُس وقت حقیقت کو تسلیم کیا جائے گا جب کوئٹہ کی طرح پنجاب میں بھی سینکڑوں بےگناہ افراد کا قتل عام ہوگا۔
گذشتہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ لاہور کے واقعات ان دہشت گردوں پر پوری سختی کے ساتھ ہاتھ ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہیں، جن میں پروفیسر سید شبیہ الحسن ہاشمی، ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے کمسن صاحبزادے کو موت کی نید سلا دیا گیا، اس کے علاوہ سید شاکر حسین رضوی ایڈووکیٹ کا قتل بھی پنجاب حکومت کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ آج بھی پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد نام تبدیل کرکے اہل سنت والجماعت کے پلیٹ فارم سے اُسی سابقہ منشور و پرچم کے ساتھ اپنے تنظیمی سرگرمیاں تیزی سے چلا رہے ہیں، ہر شہر کے چوکوں پر پرچم لہرا رہے ہیں، Sign Board، وال چاکنگ اور بینرز آویزاں کیے گئے ہیں، کیا یہ سرگرمیاں پنجاب حکومت کو نظر نہیں آتیں؟ اور کیا آج بھی درجنوں سزائے موت کے لشکر جھنگوی کے قیدی پنجاب کی جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ نہیں رہ رہے۔
حتی کہ اکتوبر 2009ء جی ایچ کیوپر حملہ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، میریٹ ہوٹل اور کوئٹہ سے تفتان جانے والی زائرین کی بسوں پر کیے گئے کئی حملے اور کوئٹہ کے حالیہ واقعات جن میں اختر آباد، مستونگ اور سیراب روڈ کے ان واقعات کی ذمہ داری لشکری جھنگوی نے کھلے عام قبول کی ہے اور ان واقعات میں ملوث اکثر دہشت گردوں کا تعلق رحیم یار خان، لاہور اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے ثابت ہوچکا ہے۔ لہذا شریف برادران کو Cosmatic کارروائیوں سے قطع نظر حقیقی معنوں میں آپریشن کرنا ہوگا اور ان کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ 1997ء کے الیکشن میں ن لیگ شیعوں کے ووٹوں سے بھاری مینڈیٹ لیکر کامیاب ہوئی تھی نہ کہ ان مٹھی بھر سفاک دہشت گردوں کی حمایت سے۔
“The day we see the truth and cease to speak is the day we begain to die”
(Martin Lother King)
شفقنا اردو
Sarah khan You are bias and not telling the truth Sipah Sahaba was created to stop the Iranian so called ISLAMIC REVOLUTION by IMAM KHOMENI. His books were printed in different languages and distributed all over the world.
Among these books one book is known as KASHfa ASRAr, and ALHAKUMATUL ISLAMIA, in these books he insulted the companions and the wives of our beloved prophet SALALLUALIHWASLUM.
پنجاب کا سب سے خطرناک ڈویژن فیصل آباد ہے،انکشافاتی رپورٹ
پنجاب کی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے معروف ایک اور اہم ڈویژن فیصل آباد کو قرار دیا جاتا ہے۔ فیصل آباد نے ہزاروں کی تعداد میں جہادی اور خطرناک فرقہ پرست پیدا کیے۔ فیصل آباد میں جہادیوں اور فرقہ پرستوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس شہر سے القاعدہ کے علامی شہرت یافتہ دہشت گرد ابو زبیدہ کو گرفتار کیا گیا۔ لشکر جھنگوی’ سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ فیصل آباد کی ”پہچان” ہیں۔ فیصل آباد میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے جنگجوئوں کے پاس درجنوں مدارس اور مراکز ہیں جہاں نہ صرف وہ پناہ گزین ہیں بلکہ باوثوق ذرائع کے مطابق انہوںنے یہاں پر افغانستان’ کشمیر اور پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں کیلئے بھرتی کیمپ کھول رکھے ہیں۔
فیصل آباد ڈویژن میں سب سے خطرناک ضلع جھنگ کو قرار دیا جاتا ہے جہاں پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کا کی موودہ مہلک روایت نے جنم لیا ہے۔ جھنگ جس کو اہل تشیع جاگیرداروں اور ڈویروں کا ضلع قرار دیا جاتا ہے، اس کی بے زمین اور کمزور سنی العقیدہ برادریوں نے شیعہ جاگیرداروں کے تسلط کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر چیلنج کیا۔ ایک نہایت غریب اور معمولی پڑھے لکھے خطیب مولانا حق نواز جھنگوی نے فرقہ وارانہ بنیادوں کے تحت لکھی ہوئی کتب کو ہدف تنقید بنایا اور عرب کے قبائلی لحاظ سے منقسم اور باہم متصاد مسلم قبائل کو اہم مقدس شخصیات کیب ارے میں ایرانی مذہبی خیالات اور تصورات کو مقامی عقیدت میں گندھے ہوئے لوگوں میں نفرت بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ بعد میں حق نواز جھنگوی کے شعلہ بیان جانشینوں نے اس روایت کو ”خوبصورتی” کے ساتھ آگے بڑھایا اور پورے جھنگ میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا۔
جھنگ کو اگر پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور قتل و غارت گری کا مرکزی مقام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آج بھی پورے پاکستان میں فرقہ وارانہ قاتلوں اور انتہا پسندوں کے لیے جھنگ کی حیثیت مرجیع خلائق کی سی ہے اور لشکر جھنگوی سے لے کر سپاہ صحابہ تک متشدد کرکنان ”اپنی کاروائیوں” کے لیے جھنگ میں موجود فرقہ پرست رہنمائوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اگرچہ فرقہ وارانہ شناخت کی حامل مذکورہ تنظیموں نے پاکستان میں پابندی کے بعد کئی دوسرے ناموں سے اپنا کام جاری رکھا لیکن ”اصل” نام اور رہنما آج بھی پوری طاقت کے ساتھ جھنگ میں موجود ہیں۔ محمد احمد لدھیانوی کو آج بھی جھنگ میں طاقت ور شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ پچھلے دنوں فوجی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ آوروں نے کئی اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا تو حملہ آوروں سے بات چیت کے لیے فوجی کمانڈروں نے کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی سے جھنگ میں ہی رابطہ کیا اور ”مدد” حاصل کی۔
دوسری طرف فیصل آباد میںقائم اہل تشیع مدریہ ”جامعہ آل محمد” فرقہ وارانہ کردار ادا کرتا ہے۔ مذکورہ مدرسے کے بانی علامہ محمد اسماعیل دیو بندی پاکستان میں فرقہ واریت کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مولانا محمد اسماعیل دیو بندی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شیعہ مذہب اختیار کرنے سے پہلے دیو بندی مسلک سے منسلک تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان دیوبندی مناظر اور خطیب تھے جو اپنے خطبات کے ذریعے ”آگ” لگانے میں مہارت رکھتے تھے۔ جب انہوں نے دیوبندی مسلک کو ترک کر کے مسلک اختیار کیا تو انہوں نے اپنی شعلہ بیانی کا رخ سنی عقائد کی طرف موڑ دیا۔ عقیدہ تبدیل کرنے کے بعد انہیں اہل تشیع حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ ہر مجلس میں اپنی تقریر کا آغاز اسجملے سے کرتے کہ ”میں بالآخر مذہب حق کی طرف لوٹ آیا ہوں اور آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ میں نے اپنے ”ایام جہالت” میں آپ لوگوں کی بہت دل آزاری کی اور دین اسلام کی اصل شخصیات کو پہچان نہ سکا”
مولانا اسماعیل دیو بندی کے مدرسہ جامع آل محمد کو فیصل آباد میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا ذمہ دار قرا دیا جاتاہے۔ اسمعیل دیوبندی کے بعد ان کے داماد علامہ فاضل موسوی کو بھی سسر کی طرح مجمع میں ”آگ” لگانے کا ملکہ حاصل تھا۔ موصوب مخالف مسالک کے عقائد اور مقدس شخصیات پر مقدور بھر طعن و تشنیع کرتے اور سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کو اہل تشیع کے قتل کا جواز فراہم کرتے رہے۔ بالآخر علامہ فاضل موسوی بھی اپنی شعلہ بیانی کی نذر ہوئے اور انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مولانا کو قتل کرنے والوں نے بعد میں ان کی لاش کو جلا دیا۔
نومبر 2005ء میں فیصل آُاد کے نوحی قصبے سانگلہ ہل میں یوسف مسیح نامی شخص نے دو مسلمانوں سے جوئے کی بھاری رقم جیت لی۔ اگلے روز ایک ہارا جواری قرآن پاک کا خستہ حال نسخہ لے کر مقامی جلد ساز کے پاس گیا اور کہا کہ یوسف مسیح نے اس کی بے حرمتی کی ہے اور۔ فوری طور پر مقامی مسجد سے اعلان ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد نے ایک درجن گھر، 5گرجے، 3سکول، ایک کا نوونٹ سکول اور ڈسپنسری تباہ کر دی۔ تین ماہ بعد انسداد دہشتگردی کی عدلات سے یوسف مسیح الزام ثابت نہ ہونے پر بری ہو گیا جب کہ عیسائی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار افراد بھی ناکافی ثبوت کی بناء پر رہا کر دئیے گئے۔
پاکستان میں مقدس شخصیات اور کتب کی توہین پر سزائے موت کا قانون نافذ اب تک ایک ہزار سے زائد افراد اس قانون کی زد میں آچکے ہیں جن میں سے 90فیصد مسیحی ہیں۔ان الزامات کے پس پردہ زیادہ تر عزت، ذاتی و سیاسی رنجش، جائیداد یا مذہبی نفرت کا عنصر کار فرما ہوتا ہے مگر یہ معاملہ اس قدر حساس ہے کہ صرف الزام عائد کردینا کافی ہے اور پھر مشتعل ہجوم خود ہی انصاف کرنے کیلئے گھروں سے نکل پڑتا ہے۔ پولیس ھبی ایسے واقعات سے جان چھڑاتی ہے اور تاہی و بربادی ہو جانے کے بعد جب مجمع جذبات کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں تو موقع پر پہنچتی ہے۔ اگرچہ ایسے واقعتا میں سے اب تک بہت کم الزامات ثابت ہو سکے ہیں۔ لیکن جھوٹا الزام عائد کرنیوالے کسی مدعی کو بھی سزا نہیں دی جاسکی، بلکہ اس کے برعکس عموماً بیگناہی ثابت ہونے پر بھی ملزم کو ہی علاقہ یا ملک چھوڑنا پڑا۔ جبکہ بہت سے ملزم احاطہ عدالت، جیل یا پولیس کی موجودگی میں ہ قتل بھی کر دئیے گئے۔ اقلیتوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کے بعد لوٹ مار اور قتل و غارت کی تمام وارداتوں میں فرقہ پرست جماعتیں شامل رہیں اور نہ صرف ان متشدد جماعتوں نے جھوٹے الزامات کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کیا بلکہ ان کے گھروں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ آج تک ایسے سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں دی جاسکی کیونکہ اب بے بس لوگوں کو اپنے مقدمات ثابت کرنے کے لئے گواہ دسیاب نہیں ہوتے جس کی بڑی وجہ متشدد مذہبی جماعتوں اور گروہوں کا خوف ہے۔
فیصل آباد کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں سپہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں نے ایک بار پھر اقلیتی آبادیوں کو نشانہ بنایا اورمسیحی افراد کو نہ صرف زندہ جلا دیا بلکہ ان کی املاک بھی لوٹ لیں۔ 2اگست 2009ء گوجرہ کے اس متاثرہ گائوں میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف نکالے جانے والے جلوس پر فائرنگ کی اطلاعات کے بعد مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کی بستی پر دھاوا بول دیا تھا اور دو درجن سے زائد گھر نذرِ آتش کر دیے۔ ان پر تشدد واقعات میں ابتدائی طور پر تین عورتوں سمیت آٹھ افراد کو زندہ جلا دیا اور ان کے گھروں کو لوٹ لیا۔
بعد میں تحقیقات میں معلوم ہاکہ مجموعی طور پر 35گھروں کو جلایا گیا جب کہ پولیس سامنے کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔ مسلم لیگ نواز گوجرہ کا صدر قدیر اعوان اس واقعے کا اصل ذمہ دار تھا۔ واضح رہے کہ قدیراعوان کالعدم فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ کا اہم رہنما تھ اور اس نے انتخابی رنجش کی بنا پر گوجرہ کے مسیحیوں کو نشانہ بنایا اور اس واردات کیلئے مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام عائد کیا گیا۔
حقوق انسانی سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے فیصل آباد ڈویژن کے علاقے گوجرہ میں عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو زندہ جلانے کے واقعہ کو مقامی انتظامیہ کی نا اہلی قرار دیا اور کہا کہ اس واقعہ کی پاداش میں معطل کئے جانے والے پولیس اور ضلعی انتظمیہ کے افسران کو شامل تفتیش کیا جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس واقعہ کی تحقیقات ڈی آئی جی رینک کا ایک افسر کرے گا اور اس ضمن میں کی جانے والیتفتیش سے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں یجنٹ پولیس افسر فیصل آُاد احمد رضا نے اس واقعہ کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ کمیٹی میں پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس واقعہ میں کالعدم تنظیموں جن میں سپاہ صحابہ بھی شامل ہے ۔
اس موقع پر پنجاب کے اقلیتی امور کیوزیر کامران مائیکل نے کہا کہ مقامی گائوں کوریاں کا رہائشی طالب مسیح جو ردی اکٹھی کرنے کا کام کرتا ہے پچیس جولائی کو اس کے بیٹے کی شادی مختار مسیح کی بیٹی سے ہونا تھی جس کے لیے مہندی کی رسم ادا کی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بچوںنے طالب مسیح کے گھر پر پڑی ہوئی ردی کو نوٹوں کی شکل میں کاٹا اور مہندی کے وقت اسے پھینکتے رہے۔ اس واقعہ کا علم اس وقت ہوا جب اگلے روز کچھ کاغذات گلیوں میں پڑے ہوئے تھے جن پر قرآنی آیات درج تھیں۔ آر پی او کا کہنا تھا کہ تیس جولائی کو نہ صرف مساجد میں اعلان کیے گئے بلکہ طالب مسیح کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر کچھ شر پسندوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر طالب مسیح سمیت دیگر عیسائیوں کے گھروں کو آگ لگا دی جس سے بارہ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ اٹارہ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ یکم اگست کو ملکاں والہ چوک میں جلسہ ہوا اور جلسہ ختم ہونے کے بعد کالعدم تنظیموں کے ایک سو سے زائد افراد ڈنڈے اٹھائے وہئے وہاں آگئے اور انہوں نے عیسائیوں پر پتھرائو کرنے کے علاوہ انہیں مارنا بھی شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے شر پسندوں نے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے عیسائیوں اور پھر کچھ مسلمانوں پر فائرنگ کر دی جس سے حمید مسیح ہلاک ہوگیا۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اور مقامی انتظامیہ وہاں پر رہنے والے عیسائی بربادی کے ارکان کو نکال کر چرچ میں لے گئی۔ جبکہ حمید مسیح کے روثا نے جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ شر پسندوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر حمید مسیح کے گھر کو آگ لگا دی جس سے گھر میں موجود سات افراد زندہ جل گئے۔ اقلیتی امور کے بارے میں پنجاب کے صوبائی وزیر کامران مائیکل نے کمیٹی کو بتایا کہ شر پسندوں کی طرف سے عیسائیوں کے گھروں پر مٹی کا سیل نہیں بلکہ کوئی کمیکل پھینکا گیا تھا جس کی وجہ سے گھروں میں موجود لوہے کی تمام اشیا پگھل گئیں۔
فیصل آباد کو دہشت گردوں اور انتہائی مطلوب افراد کی پناہ گاہ بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران لاتعداد دہشت گردوں کو یہاں سے گرفتار کیا گیا۔ 26مارچ 2002ء کو جب امریکی حکام نے پاکستان انٹیلی جنس خکام کو القاعدہ کے ایک اہم لیڈر کی فیصل آباد میں موجودگی کی اطلع دی تو اس وقت پاکستانی حکام کو شای یہ اندازہ نہیں تھا کہ القاعدہ کی کتنی بڑی شخصیت وہاں چھپی ہوئی ہے لیکن پاکستان میں موجود ایف بی آئی اور سی آئی اے کے لوگ یہ جانتے تھے کہ فیصل آباد میں کون چھپا ہوا ہے؟
سی آئی اے’ ایف بی آئی اور آئی ایس آئی کی مشترکہ ٹیم جب فیصل آباد میں اس مکان پر چھاپہ مارنے کی منصوبہ بندی کر رہیتھی جہاں الاقعدہ کا وہ لیڈر چھپا ہوا تھا تو انہیں نے دوسری طرف سے مزاحمت کی توقع تھی۔ تب ہی ایسے انتظامات کیے گئے تھے کہ مقابے کی صورت میں کسی بھی طرح القاعدہ کے جنگجو وہاں سے فرار نہ ہوسکیں۔
27مارچ 2002ء کو جب تینوں انٹلی جنس ایجنسیوں کی چھاپہ مار ٹیمیں فیصل آباد پہنچیں تو سوائے چند ایک شخصیات کے کسی کوبھی پتہ نہیں تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں یہاں کیا ہونے والا ہے۔ شام کے وقت اس مکان کوگھیرے میں لیا جاچکا تھا جہاں القاعدہ کے جنگجو موجود تھے لیکن وہاں ہونیوالی نقل و حرکت یا انائونسمنٹ سے انہیں بھی پتہ چل گیا کہ ان کے ٹھکانے کی نشاندہی ہوگئی ہے۔
مکان کے اندر موجود القاعدہ کے جنگجوئوں نے بھی پوزیشنیں سنبھال لیں اور پھر فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ 27مارچ 2002ء کو اسی شام فیصل آباد سے ہزاروں کلو مٹیر دور سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر لینگلے (امریکہ) میں کچھ اور ہی منظر تھا۔ سی آئے کے سربراہ جارج ٹینٹ اور ابو زبیدہ ٹاسک فورس کے ممبران گرائونڈ فلور پر بنے کانفرنس روم میں موجود تھے۔ جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے ان کا رابطہ سی آئی اے’ ایف بی آئی اور پاکستانی انٹیلی جنس کے ان افسران سے تھا جو اس مکان پرچھاپہ مارنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ جب سی آئی اے کے ایجنٹ نے یہ اطلاع دی کہ مقابلے کے بعد زخمی حالت میں القاعدہ کے آپریشنل چیف ابو زبیدہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو کانفرنس روم میں بیٹھے ٹاسک فورس کے تمام مربان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ابو زبیدہ کی گرفتاری جہاں امریکہ اور پاکستان کیلئے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ایک بہت بڑی کامیابی تھی وہاں القادہ کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی کیونکہ القاعدہ کے آپریشنل چیف کی گرفتاری کا مطلب یہ تھا کہ القاعدہ یک آدھی کمر ٹوٹ گئی۔ اس روز پوری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ ابو زبیدہ کو پاکستان کے صنعتی و تجارتی شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ابو زبیدہ جیسا مشکل ٹارگٹ جس نے نائن الیون کے حملوں میں کیلید کردار ادا کیا ہو اور وہ القاعدہ کے متام آپریشنل معاملات اور دہشت گردی کی کاروائیوں کا نگران بھی رہاہو، اس کا اتنی آسانی سے پکڑے جانا ایک اچنبھے سے کمن ہیں تھا۔
نائن الیون کے واقعات کے فوراً بعد کائونٹر ٹیررازم سنٹر نے سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر لینگلے میں سپیشل ابو زبیدہ فورس قائم کی تھی۔ اس ٹاسک فورس کا کام صرف ابو زبیدہ کی تلاش تھا۔ ٹاسک فورس میں 100افراد کو شامل کیا گیا جن میں سی آئی اے کے سپیشل ایجنٹ، تجزیہ نگار، ٹیکنیشن اور آئی ٹی ایکسپرٹ شامل تھے۔ اس ٹاسک ٹورس نے دنیا بھر سے سی آئی اے کے سپیشل اور آئی ٹی ایکسپرٹ شامل تھے۔ اس ٹاسک فورس نے دنیا بھر سے سی آئی اے کے سپیشل ایجنٹوں کی ہزاروں رپورٹوں سیٹالائٹ سے اتاری جاسوسی تصویروں اور ٹیپ کی گئی ٹیلی فون گفتگو کے بعد بالآخر پتہ چلایا کہ ابو زبیدہ اس وقت فیصل آباد کے ایک مکان میں ہے۔ ٹاسک فورسک کی طرف سے واشنگٹن میں بیٹھ کر ابو زبیدہ کا پتہ چلالینے کے بعد اسے گرفتار کرنے میں صرف 12گھنٹے لگے۔
ابو زبیدہ کوئی آسان ٹارگٹ نہیں تھا۔ اسے محمد عاطف کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کا آپریشنل چیف بنایا گیا تھا۔ محمد عاطف کی افغانستان پر امریکی حملے کے دوران ہلاکت بھی القاعدہ کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی لیکن ابو زبیدہ نے بہت جلد القاعدہ میں اس کمی کو کسی نہ کسی حد تک پورا کر لیا تھا۔ ابو زبیدہ 1973ء میں سعودی عرب میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین فلسطینی تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے اس کے فلسطین اور لبنان کے جہادی گروپوں میں اوائل عمری میں ہی قریبی تعلقات قائم ہو گئے۔ ابو زبیدہ صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اسلامک جہاد کا رکن بن گیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران وہ پاکستان آگیا اور یہاں اس نے افغان جہاد میں حصہ لیا۔ اس کی ملاقات اسامہ بن لادن سے بھی ہوئی جنہوں نے اس وقت پشاور کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا۔ ابو زبیدہ کے اسامہ سے یہ تعلقات 26مارچ 2002ء کو اس کی گرفتاری تک قائم رہے۔
ابو زبیدہ کے مختلف نام تھے اور وہ مختلف حلقوں میں اپنے مختلف ناموں کی بدولت پہنچانا جاتا تھا۔ کوئی اسے زیان البدین کے نام سے جانتا تھا اور کوئی اسے محمد حسین کہہ کر پکارتا تھا۔ابو الہلائی الوہاب بھی در اصل ابو زبیدہ کا ہی نام تھا۔ اسامہ بن لادن نے جب اپنے قریبی حلقوں میں امریکہ کیخلاف اعلان جنگ کیا تو وہ ابوزبیدہ ہی تھا جس نے امریکہ کیخلاف کاروائی کیلئے مختلف سیلز تیار کیے تھے۔ ابو زبیدہ کے بارے میں تفتیشی حکام کا کہنا تھاکہ وہ پاکستان میں القاعدہ کیلئے رضا کارانہ طورپر جہادی جذبے کے ساتھ کام کرنیوالے لوگوں کو بھرتی کر کے انکی تربیت کا انتظام کرتا تھا۔ ان تفتیش کاروں کے مطابق ابو زبیدہ افغانستان میں خالدین ٹریننگ کمیپ کا انچارج تھا۔ جہاں القاعدہ کے بہت سے یورپین نژاد عرب جنگجوئوں کو تربیت دی جاتی تھی۔
امریکی حکام کے مطابق 1998ء میں جنوبی افریقہ میں امریکی سفارت خانے پر بم حملوں پر بھی ابو زبیدہ نے ہی عملدرآمد کرایا تھا۔ گرفتاری کے بعد ایف بی آئی اور سی آئی اے کے انتہائی ماہر افسران پر مشمتل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ابو زبیدہ سے 40تفتیشی سیشن کیے۔ ابو زبیدہ نے تفتیش کاروں کو القاعدہ کے بہت سے اران کے بارے میں بتایا لیکن ان کی اکثریت یا تو گرفتار ہو چکی تھی یا ماری جا چکی تھی۔ ابو زبیدہ کے مطابق امریکہ کے تجارتی مراکز پر بھی حملوںکا منصوبہ بنایا گیا تھا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
ابو زبیدہ کو 1999ء میں نیو میلینیم کے موقع پر لبنان کی فوجی عدالت نے سیاحتی مقامات پر دھماکوں کے الزام میں سزائے موت سنائی۔ تفتیش کاروں کے مطابق ابو زبیدہ نے دسمبر 1999ء میں لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر بھی حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ الجزائر کا احمد وسیم جو اس منصوبے میں ابو زبیدہ کا ساتھی تھا’ نے دوران تفتیش فوجی عدالت کو بتایا کہ ابو بیدہ نے اس مقصد کیلئے افغانستان کے ٹریننگ کیمپ میں ہدایایت دیں اور القاعدہ کیلئے جنگجوئوں کو بھرتی کیا۔ احمدوسیم بھی اس کیمپ میں ٹریننگ لے رہا تھا جس میں ایو زبیدہ نے یہ ہدایات جاری کی تھیں۔ احمد وسیم کے مطابق ابو زبیدہ نے انہیں کینیڈین پاسپورٹ حاصل کرنے کو کہا تاکہ امریکہ پر حملے کیے جاسکیں۔
ابو زبیدہ کی گرفتاری کے وقت اس مکان سے جو دستاویزات ملیں اس میں اسامہ بن لادن کا لکھا ہوا ایک خط بھی شامل تھا جس پر اسامہ کے دستخط تھے اور اس میں یہ اطلاع تھی کہ وہ زندہ اورص حیح سلامت ہیں۔ مکان سسے ملنے والے شواہد اور ہاتھ سے لکھے ہوئے پیپرز سے اندازہ ہوتا تھا کہ ابو زبیدہ اس وقت امریکی تیل کے ٹینکرا اور سمندر میں موجود امریکی بحری جہازوں پر حملوں کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
ابو زبیدہ سے ہونے والی تفتیش کے مطابق اس کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے جہاز ٹکرانے والے بیسویں ہائی جیکر ذریا موساوی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ اور کہا جاتا ہے کہ فرانس سے تعلق رکھنے والا ذکریا موساوی در اصل خالدین کیمپ کا ہی تربیت یافتہ تھا۔ ابو زبیدہ نے تفتیشی حکام کو یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن کی ہدایایت پر القاعدہ نے ڈرٹی بموں اور ریڈیو لاجیکل بموں کی تیاری بھی شروع کر دی تھی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونیوالے تھے۔ ابو زبیدہ کے مطابق القاعدہ وہ تمام چور راستے جانتی ہے کہ اس طرح کے ہتھیاروں کو امریکہ میں کس طرح سمگل کر کے لایا جاسکتا ہے؟ تفتیش کاروں نے ابو زبیدہ کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس ضمن میں ابو زبیدہ نے جو مزید تفصیلات بتائیں وہ اس کے پہلے بیان کی نفی کرتی تھیں۔
فیصل آباد ڈویژن کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ سے ایک سڑک چک نمبر 682/27گ ب کی طرف جاتی ہے۔ کچے مکان’ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر’ کھلے پانی کے جوہڑ اور دھول اڑاتی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے اس علاقے کی غربت اور پسماندگی چھلکتی ہے۔ اس گائوں کے باسیوں کے لیے یہ سب کچھ معمول کا حصہ ہے۔ اس گائوں میں ایک گھر منظور احمد کا ہے جس کی عمر اس وقت 70سال کے قریب ہے گھر کے دیگر افراد میں سربراہ منظور اس کی بیوی’ تین بیٹے جاوید اقبال، عامر فاروقی اور فدا فاروقی ہیں۔ جاوید اقبال شدہ ہے۔ منظور احمد کا چوتھا بیٹا امجد فاروقی تھا۔ اس خاندان نے یہ نہیں سوچا تھا کہ بنیادی سہولتوں سے محروم ایک پسماندہ علاقہ میں پل کر جوان ہونے والے امجد کو دنیا بھر میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل اور صدر جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کرنے کے حوالے سے جانا جائے گا۔ امجد فاروقی اس راستے پر کیسے چل نکلا۔ یہ ایک طویل داستان ہے لیکن جب امجد فاروقی کے سر کی قیمت حکومت نے مقرر کی اس وقت اس پر مندرجہ ذیل سنگین جرائم کے الزامات تھے
٭ جنوری 2002ء میں امریکی قونصلیٹ (کراچی) پر حملہ
٭ فروری 2002ء میں جیکب آباد ایئر پورٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش
٭ 17مارچ 2002ء کو اسلام آباد چرچ پر حملہ
٭ مئی 2002ء میں بہاولپور میں چرچ پر حملہ
٭ 2002ء میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا قتل
٭ دسمبر 2003ء میں صدر جنرل پرویز مشریف پر دو قاتلانہ حملے
فرقہ وارانہ نوعیت کی سنگین وارداتوں میں ملوث نعیم بخاری’ آصف رمزی’ اکرم لاہوری اور ریاض بسرا کے اس قریبی ساتھی امجد فاروقی کے القاعدہ کے کئی اہم رہنمائوں سے بھی قریبی روابط تھے اور انہی کے کہنے پر سنگین نوعیت کی وارداتیں کرتا رہا۔ امجد فاروقی کا خاندان قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور سے ہجرت کر کے کمالیہ کے گائوں 687/27گ ب میں آبسا۔ امجد فاروقی کو اس کے چچا محمد شریف نے پالا جو بعد میں اس کا سسر بھی بنا۔ کالج میں تعلیم کے دوران اس کی ملاقاتیں ایسے لوگوں سے ہوئیں جنہوں نے اس کی زندگی کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ امجد کی سوچ اور خیالات میں تبیدلی اسی دوران پیدا ہوئی۔ امجد فارروقی اس دوران غائب ہوگیا۔ اس نے کالج چھوڑ دیا اس کے گھر والوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں غاب ہوگیا۔ کافی عرصہ غائب رہنے کے بعد جب وہ واپس آیا تو بالکل ہی بدلا ہوا تھا۔ گائوں کے لوگوں سے ڈرنے والا اب جہاد کی باتیں کرتا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں سے بھی کہتا کہ آپ لوگ بھی جہاد کے لیے میرے ساتھ چلیں۔ ایک بار اس کے والد نے اسے تبلیغی جماعت کے منشور سے آگاہ کرتے ہوئے نصیحت کی کہ ہم دنیا میںاللہ تعالی اور محمد عربیۖ کے نظام گو پیار و محبت اور اخلاق سے پھیلا سکتے ہیں تاہم امجد نے اپنے باپ کی بات نہ مانی اور اپنا الگ راستہ منتخب کرلیا۔ اس نے اس دوران جہادی جماعت حرکت الانصار میںشمولیت اختیار کرلی اور اپنی ”مجاہدانہ” زندگی کا آغاز کیا۔
1980ء کے عشرے میں امجد فاروقی ٹوبہ ٹیک سنگھ’ فیصل آباد’ سمندری’ کمالیہ اور ملتان کے علاقوں کا دورہ کر کے چندہ اکٹھا کرتا اور حرکت الانصار کے خزانے میں جمع کرا دیتا۔ 1986ء میں وہ افغانستان جہاد کیلئے چلا گیا۔ بعد ازاں با خبر ذرائع کے مطابق اپنی جہادی جماعت کی طرف سے اس نے مقبوضہ کشمیر کے بھی متعدد دورے کیے۔ افغانستان میں اس نے مختلف تربیتی کیمپوں میں ٹریننگ حاصل کی اور بالآخر ایک دن وہ خود بھی کمانڈر بن گیا۔ اسے یہ موقع ایک جہادی کمانڈر کی ہلاکت کے بعد ملا۔ امجد فاروقی نے ملتان میں زرعی ادویات بنانے والی ایک کمپنی میں ملازمت کرلی لیکن یہاں اس کا دل نہ لگا اور وہ بہت جلد ملازمت کو خیر باد کہہ کر دوبارہ افغانستان چلا گیا۔ امجد فاروقی کے بھائی کے مطابق جانے سے پہلے ایک دن اس نے اپنی بیوی کے زیورات لے لیے اور یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ وہ انہیں جہاد کے راستے میں خرچ کرے گا۔
امجد فاروقی کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیاں دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ وہ ”حرکت الانصار” کے ساتھ ساتھ ”لشکر جھنگوی” سے وابستہ رہا۔ اس پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے لشکر جھنگوی کے کمانڈر شکیل احمد عرف مصطفیٰ کے حکم سے جنوبی پنجاب کے متعدد چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں فرقہ وارانہ حملے کیے۔ لشکر جھنگوی کا کمانڈر شکیل احمد عرف مصطفیٰ فورٹ عباس ضلع بہاولنگر کا رہائشی تھا۔ اس نے مبینہ طورپر اپنے مخالف فرقے کے اتنے افراد قتل کیے کہ حکومت نے اس کے سر کی قیمت 13لاکھ روپے مقرر کی۔ کہا جاتا ہے کہ شکیل احمد عرف مصطفیٰ کی ایک پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد امجد فاروقی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ یہیں سے اس کے دبدبے میں اضافہ ہوا اور وہ کھل کر وارداتیں کرنے لگا۔ امجد فاروقی کا نام پہلی بار امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے سلسلے میں سامنے آیا۔ اس سنگین واردات میں ملوث کئی لوگ پہلے سے گرفتار تھے لیکن امجد فاروقی طویل عرصے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے بچتا رہا۔ پولیس نے روایتی حربوں کے طور پر اس کے خاندان کے متعلق افراد کو گرفتار کر لیا اور ایک ماہ تک تفتیش کرتے رہے۔ ڈیڑھ سال بعد پھر امجد کے سسرالی گائوں چک نمبر 478گ ب سمندری سے محمد اخلاق’ محمد حنیف’ مظہر’ اخلاق احمد’ عطار معظم اور چند خواتین کو گرفتار کیا گیا لیکن امجد کا سراغ نہ مل سکا۔ خواتین کو چند روز بعد اور مردوں کو ایک ماہ کی تفتیش کے بعد رہا کیا گیا۔ امجد فاروقی کے روشتہ دار اور سسرالی خاندان روز بروز کی ان گرفتاریوں سے تنگ آگئے۔
جنرل مشیرف پرح ملوں کے بعد اس کا نام بار پھر سامنے آنے سے اس خاندان پر مشکلات کا ایک اور دور شروع ہوا جب اس کی گرفتاری کیلئے وسیع پیمانے پر کاروائیاں شروع ہوئیں۔ امجد فاروقی کو اس خاندان والوں نے آ،خری بار جنرل مشرف پر حملوں سے قبل جنوری 2002ء میں دیکھا تھا جب وہ گھر آیا تھا۔ ڈینیئل پرل کے قتل سے لیکر جنرل مشرف پر حملوں تک کے تمام واقعات کا علم اس خاندان کو اخبار اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہوا۔ اس دوران امجد فاروقی کو پتہ چل چکا تھا کہ خفیہ ادارے اور ایف بی آئی اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے گائوں میں آنا ترک کر دیا۔ بعد ازاں ڈینیئل پرل کے قتل اور جنرل مشرف پر حملوں کے سلسلے میں اس کا نام بار بار لیا جانے لگا تو وہ مکمل طور پر رو پوش ہوگیا۔
امجد فاروقی کو انٹیلی جنس کے حلقوں میں انتہائی ذہین اور چالاک تصور کیا جاتا تھا اس کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے قریبی ساتھی بھی اس کے اصلی نام سے ناآشنا تھے۔ جو لوگ صدر جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں کے الزام میں گرفتار ہوئے وہ سب امجد فاروقی کو ”ڈاکٹر” کے نام سے یاد کرتے تھے۔ جن لوگوں کو ڈینیئل پرل کیس میں گرفستار کیا گیا وہ سب اسے امتیاز فاروقی کے نام سے جانتے ہیں۔ 1999ء میں بھارتی ایئر لائنز کا مسافر بردار طیارہ اغوا کرنے والے اسے منصور حسین کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جو یہ ہیں۔ ابوذرغفاری’ حیدر علی’ منصور ثانی’ حسین الکریم وغیرہ۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں نے امجد فاروقی کی گرفتاری کیلئے صرف گیارہ جنوری 2004ء تک پچاس سے زائد مقامات پر چھاپے مارے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ و انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کس طرح مات دیتا رہا۔ ذرائع کا اس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کی اہم شخصیات کو کئی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ کراچی کے کور کمانڈر احسن سلیم حیات پر قاتلانہ حملے بھی فاروقی کی کوشش تھی۔ 26ستمبر 2004ء کو مخبر کی اطلاع پر سندھ کے شہر نواب شاہ کی غلام حیدر کالونی میں کالعدم جیش ممحمد کے علاقائی کمانڈر کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو محاصرہ کرنے والوں کے پاس یہ اطلاعات تھیں کہ یہاں امجد فاروقی موجود ہے۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق امجد فاروقی نے اپنے بازو فضا میں بلند کیے اور کہا کہ ”میں نے اپنے اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا’ میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہوں۔ اس کے بعد امجد فاروقی کو ایک برسٹ لگا اور وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔
امجد فاروقی کی موت کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اس کے زندہ ہوتے ہوئے مزید اہم شخصیات پر حملوں کا خطرہ تھا۔ انٹیلی جنس اور جہادی حلقوں کے ذرائع کا کہنا تھا کہ امجد فاروقی پہلے ہی گرفتار تھا اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تاکہ جنرل پرویز مشرف پر ہونیوالے قاتلانہ حملوں کی تفتیش کو بند کیا جاسکے اور فوجی افسران سے اس کے روابط ظاہر نہ ہوسکیں۔ ذرائع کے مطابق امجد فاروقی کو 2004ء کے وسط میں گرفتارکر لیا گیا تھا۔ امجد فاروقی کو آخری بار کراچی کے علاقے قائد آباد کے طارق ہوٹل پر دیکھا گیا۔ واصح رہے کہ اس روز معروف عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی کو کراچی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ امجد فاروقی کی موت کعے ساتھ ہی اعلیٰ فوجف افسرو’ سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور جہادی تنظیموں کیساتھ روابط کے انکشافات کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اگر اس سے اس کی زندگی میں تفتیش کی جاتی تو یہ معلوم کیا جاسکتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف پر حملے کی سازش میں فوج کے اندرونی حلقوں میں اس کے ساتھ کون تھا؟
آج فیصل آُاد فرقہ وارانہ کشیدگی اور اپنے جہادی کلچر کی بدولت اہم ”مقام” رکھتا ہے۔ لشکر طیبہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے زیادہ تر شہیدوں کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ فیصل آباد کے بعض دیہات اور قصبوں میں لشکر طیبہ کے شہداء کے مخصوص قبرستان بھی موجود ہیں جبکہ فیصل آباد کو لشکر طیبہ کا دوسرا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ فیصل آباد جیش محمد کیلئے بھی پرکشش حیثیت رکھتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق فیصل آباد میں 3ہزار سے زائد جنگجو جیش محمد کے ساتھ منسلک ہیں۔ فیصل آباد کی تیسری سب سے بڑی خصوصیت اس کے بے تحاشہ دولت مند صنعت کار اور تاجر ہیں جو جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کو جھولیاں بھر بھرکر عطیات دیتے ہیں۔ لشکر طیبہ’ سپاہ صحابہ’ لشکر جھنگوی’ سپاہ محمد اور جیش محمد جیسی تنظیموں کو سب سیز یادہ مالی معاونت فیصل آباد سے حاصل ہوتی ہے۔
آج فیصل آباد کو بریلوی دیو بندی اور دیو بندی شیعہ جھگڑے کا مرکز قرار یدا جاتا ہے کیونکہ اس شہر نے تیزی کے ساتھ ایسے گروہوں کو پروان چڑھایا ہے جو نہ صرف مسلکی جنگ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے میں مصروف ہیں بلکہ فیصل آباد کو یہ ”امتیاز” بھی حصال ہے کہ آج پاکستان میں لڑی جانے والی دیو بندی بریلوی جنگ کا مرکز بھی یہاں قائم ہو چکا ہے۔ بریلوی مکاتب فکر کی ترجمانی صاحبزادہ فضل کریم کرتے ہیں جو مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ دیو بندی گروہوں کے ساتھ رانا ئنا اللہ کے گہرے مراسم ہیں جو مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت میں وزیر قانون ہیں اور مسلم لیگ کے مرکزی قیادت کے ساتھ گہرے اعتماد کا رشتہ رکھتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ جو کبھی پیپلز پارٹی میں تھے فیصل آُاد کی روایتی راجپوت کشمکش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مشرف کی طرف نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کے بعد رانا ثنا لالہ نواز لیگ کے احتجاجی جلسوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتے رہے اور انہیں مشرف حکومت کے دوران خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا لیکن رانا ثنا اللہ کی سیاسی ہمدردیوں کو تبدیل نہ کیا جاسکا۔ یوں مسلم لیگ نواز کے ساتھ رانا ثنا اللہ کی وابستگی انہیں 2008ء کے انتخابات میں نواز لیگ کی قیادت کے مزید قریب لے آئی اور وہ فیصل آباد کے علاوہ دیگر میں بھی مسلم لیگ نواز کی تنظیم نو میں اہم کردار ادا کرنے لگے۔
مشرف حکومت کے بعض اقدامات کی وجہ سے پنجچاب کی فرقہ پرس تنظیمیں اور گروہ مسلم لیگ نوواز سے قربت بڑھا رہے تھے۔ کیونکہ فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں پر پابندیوں کیب عد ان تنظیموں اور ان کے لاتعداد کارکنوں کو مقامی طور پر ”کام” جاری رکھنے میں دشواریوں کا سامنا تھا اور اپنی مخصوص ہیئت ترکیبی کے باعث یہ تنظیمیں اور گروہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد یا تعلق کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے اس لیے ان کے لیے روایتی ”حلیف” کا کردار صرف مسلم لیگ نواز ادا کرسکتی تھی۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کو فیصل آباد سے رانا ثنا اللہ اور ڈیرہ غازی خان سے ذوالفقار کھوسہ جیسے مذہبی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کی طرف رجحان رکھنے والے لوگوں کی رہنمائی حاصل کی تھی، لہذا شروع میں مشرف مخالفت اور بعد میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے مذکورہ دونوں مرکزی رہنمائوں اور ان کے ساتھیوں نیدیو بندی فرقہ پرست تنظیموں اور جہادی گروہوں کو خوش آمدید کہا اوریوں پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع سے کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور ان جیسی کئی تنظیموں اور گروہوں کے ہزاروں افراد مسلم لیگ نواز کے کیڈر میں شامل ہو گئے۔
مسلم لیگ نواز جو اس سے پہلے فرقہ پرست جماعتوں اور جہادیوں کے لیے بہت زیادہ پسندیدہ جماعت نہ تھی مشرف مخالفت اور مشرف دور میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی وجہ سے متشدد اور انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی۔ مسلم لیگ کی قیادت نے پنجاب میں کھوئی ہوئی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے مسلح اور جتھہ بند فرقہ پرستوں اور جہادیوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی ابتدا فیصل آباد سے کی گئی جہاں رانا ثنا اللہ پہلے ہی اس راستے پر چل رہے تھے اور شہر میں اپنے مخالفین پر دبائو ڈالنے کے لیے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے جنگجوئوں کو اپنے ساتھ ملا چکے تھے۔ فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کو سپاہ صحابہ کے ایک سابق سر پرست مولانا ضیا القاسمی مرحمو کے بیٹے مولانا زاہد قاسمی کیساتھ تعلقات استوار کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا کیوں کہ مولانا زاہد قاسمی فیصل آباد کی مسلکی جنگ میں معروف بریلوی رہنما صاحبزادہ فضل کریم کے ساتھ الجھے ہوئے تھے جب کہ صاحبزادہ فضل کریم بھی مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر شہر میں رانا ثنا اللہ کی سیاسی برتری کو چیلنج کر رہے تھے۔ رانا ثنا اللہ کے لیے سپاہ صحابہ کے لیڈر مولانا زاہد قاسمی دوہرے فائدے کا موجب تھے جو نہ صرف پنجاب میں سپاہ صحابہ کی لیڈر شپ اور ہزاروں کارکنوں کو مسلم لیگ کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے بلکہ فیصل آُاد شہر میں موجود صاحبزادہ فضل کریم کی سیاسی برتری کو بھی لگا دے سکتے تھے۔ رواں سال عید میلاد النبی کے موقع پر فیصل آباد میں فسادات پھوٹ پڑے اور عید میلاد النبی کے جلوس پر فائرنگ کا الزام مولانا زاہد قاسمی کے ساتھیوں پر لگایا گیا۔ شہر میں صورت حال کشیدہ ہو گئی اور ایک دوسرے کے مرکاز پر حملے شروع ہو گئے۔ صاحبزادہ فضل کریم نے صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ پر الزام لگایا کہ وہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے مسلح افراد کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب رانا ثنا اللہ پر بہت زیادہ دبائو بڑھ گیا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی ہی جماعت کے رکن قومی اسمبلی پر الزامات لگائے اور اعتراف کیا کہ انہوں نے صاحبزادہ فضل کریم کا منہ بند کرنے کے لیے انہیں 35روڑ روپے کا سرکاری پلاٹ الاٹ کیا لیکن وہ پھر بھی خوش نہیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ کے اس خوفناک اعتراف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فیصل آباد میں سرگرم مسلکی جنگجو کس قدر وسائل کے مالک ہیں اور سیاسی پارٹیاں انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کس قدر سرکاری وسائل صرف کرتی ہیں۔
فیصل آباد میں دیوب ندی بریلوی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اورامکان یہی ہے کہ کسی بھی وقت دونوں مسلح مسالک آپس میں الجھ پڑیں گے اور پھر یہ جنگ پورے پنجاب میں پھیل جائے گی جس کو روکنا مشکل ہوگا۔ لاہور میں داتا دربار پر خودکش حملے کے بعد فیصل آباد اور دوسرے اضلاع میںنوبت تصادم تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن وفاقی حکومت کی مداخلت کے بعد حالات کسی قدر بہتر ہوئے۔ پنجاب کے بریلوی تنظیمی رہنمائوں کو یقین ہے کہ صوبے میں صوفیا کے مزادروں پر ہونے والے حملوں میں دیو بندی فرقہ پرست تنظیمیں شامل ہیں، جنہیں صوبائی حکومت کیب عض ارکان کی حمات حاصل ہے۔ داتا دربار پر حملوں کے بعد بریلوی مسالک کی جماعتوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو برطرف کریں کیونکہ وہ پنجاب میں دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
رانا ثنا اللہ ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن ابھی تک اس طرح کی کوئی تردید جاری نہیں کرسکے کہ پنجاب کی فرقہ پرست اور کالعدم جہادی تنظیموں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ وہ کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ایسی تنظیموں کے ساتھ ان کے تعلقات سیاسی نوعیت کے ہیں اور یہ جمہوریت پسند تنظیمیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ کے ایسے تعلقات کے بارے میں سب پہلے تفصیلات اس وقت منظر عام پر آئیں جب وہ جھنگ میں ایک ضمنی انتخاب کے دوران سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما مولانا جالندھری کو ساتھ لے کر انتخابی مہم پر نکلے اس موقع پر ان کے ساتھ درجنوں افراد تھے جن میں زیادہ تر پنجاب پولیس کو مطلوب تھے۔ بعد میں مولانا جالندھری نے ٹی وی پر آکر ایسے ارکان اسمبلی کی فہرست پیش کردی جو 2008ء کے انتخابات میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی مسلح مدد سے منتخب ہوئے تھے اور حیران کن امر یہ ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی نے مولانا جالندھری کی پیش کردہ فہرست کو غلط قرار نہیں دیا اور یوں یہ تسلیم کر لیا کہ ان کی انتخابی فتح فرقہ پرست اور متشدد مذہبی تنظیموں اور گروہوں کی مرہون منت تھی۔
http://paknews.es/paknews/international-news/16907-inkashaffatti-repo.html
سرا سر بکواس اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ لکھتے ہوئے لکھاری کو سوچنا چاہیے کہ کہیں مجھ سے کوئی غلط بات تو نہیں لکھی جار ہی ۔ سپا ہ صحابہ وہ جماعت ہے جس نے شیعوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ شیعہ وہ قوم جس نے حضرت عمر اور حضرت عائشہ کے پتلے بنائے۔ شرم سے ڈوب مرنا چاہے ان لوگوں کو جوکہلواتے سنی ہیں اور کام سارے رافضیوں والے ہیں۔ سنی تحریک کے سارے لوگ لعنتی اور خمینی کی ناجائز اولاد ہیں۔ انشا اللہ وہ وقت قریب ہے جب نام نہاد سنی تحریک اور رافضیوں کو واصل جہنم کیا جائے گا۔
عبداللہ مامقانی شیعہ نے ۷۹ پر لکھا ہے:
’’ابو القاسم کو فی کا ’’الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ‘‘ میں یہ قول کہ زینب اور رقیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ تھیں۔ قولِ بلا دلیل ہے۔ یہ ابو القاسم کی اپنے رائے محض ہے۔ جس کی حیثیت نصوص کے مقابلہ میں مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں ۔ کتب فریقین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں پر نصوص موجود ہیں اور شیعوں کے پاس اپنے ائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔‘‘