چودہ دسمبر 1986 سانحہ قصبہ علیگڑھ – مہاجروں کا بدترین قتل عام
قصبہ علی گڑھ ایک غریب اور نچلے متوسط طبقے کی آبادی ہے.بنیادی طور پر یہ کالونی صحافیوں کے لئے بنائی گئی تھی اور صحافیوں کو پلاٹ دیئے گئے تھےمگر شہر سے دور ہونے کے سبب صحافیوں نے یہ پلاٹ یا تو بیچ دئیے یا اپنے ان رشتے داروں کو دے دئیے جو انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے.اس آبادی میں اردو بولنے والوں کے ساتھہ ساتھہ پشتو بولنے والے اور اس کےعلاوہ افغان مہاجرین بھی رہتےہیں
سانحہ علی گڑھ اور قصبہ کالونی پس پردہ عوامل
افغان جنگ میں پاکستان نے حصّہ لیکر اپنے آپ کو ایک ایسے جہنم میں ڈال دیا ہے جس سے آج تک پاکستان باہر نہیں آسکا.افغان جنگ کے بعد بڑی تعداد میں افغانی پاکستان میں آئے.جو کہ نہ صرف پاکستان کی معیشت پرایک بوجھہ تھے بلکہ ان افغانیوں نے پاکستان میں اسلحہ اور منشیات کو عام کیا.ان افغانیوں کی وجہ سے پاکستان میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا.ان افغانیوں نے تجاوزات کی بھرمار کردی اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا.کراچی میں ان افغانیوں کی ناجائز سرگرمیوں کا مرکز سہراب گوٹھہ ہے.جہاں آج بھی منشیات اور اسلحے کے اڈے موجود ہیں اور ناجائز اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے اور ہیروئن اور دیگر منشیات کھلےعام ملتی ہے.اس وقت سندھ کے گورنر جہانداد خان تھے.انہوں نے وفاقی حکومت کے حکم پر سہراب گوٹھہ میں منشیات فروشوں ، قبضہ مافیا، اسلحہ کے تاجروں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا.آپریشن کی نگرانی کے لئے ایک ٹیم بنائی گی جس میں اس وقت کے ڈی آئی جی کراچی،آئی جی سندھہ ،ڈپٹی کمشنر، کور کمانڈر کراچی شامل تھے.ان کوالآصف اسکوائر سے غیر قانونی قابضین کی منتقلی اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنے کے فرائض دیئے گئے تھے.بدقسمتی سے یہ آپریشن بری طرح ناکام رہا. انگریزی کے روزنامہ ڈان کے مطابق صرف ایک کلاشنکوف اور 65 کلو ہیروئن برآمد ہوئی
.بدقسمتی سے، کراچی میں مقیم کچھہ پشتون گروپس الآصف اسکوائر میں کسی بھی آپریشن کو پشتونوں کے خلاف سمجھتے تھے.لینڈ مافیا ، ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ یہ آپریشن پشتونوں کے خلاف ہورہا ہے جبکھ یہ آپریشن صرف مجرموں کے خلاف تھا.کسی بھی ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لیئے تقریبا ہر علاقے میں فوج اور نیم فوجی فوجیوں کو تعینات کیا گیا تھا.قصبہ علی گڑھ ایک بہت زیادہ کشیدگی والا علاقہ تھا اور کم از کم 2 مکمل طور پر مسلح فوجی یونٹوں کو تعینات کیا گیا تھا.اس کے علاوہ پولیس کو بھی ہائی الرٹ کیا گیا تھا
چودہ دسمبر1986 کو لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا کے مسلح افراد جو زیادہ تر افغانی تھےعلی گڑھ ,قصبہ کالونی اور اورنگی سیکٹر ون ڈی پر حملہ کیا.معصوم لوگوں کو ہلاک کیا اور دکانوں اور گھروں کو جلایا.اس خوفناک سانحے میں صرف دو گھنٹے میں 400 مہاجر ہلاک ھوۓ
وہ ہمارے گھر کے اندر داخل ھوۓ اور ہمارے مردوں کا پوچھا.انہوں نے بندوق اور چاقو سے میرے بھائی اور میرے باپ کو قتل کیا اور الله اکبر کا نعرہ بلند کیا جیسے ہم کافر ہیں” یہ ایک عورت کا کہنا تھا جس کے باپ اور بھائی کو قتل کردیا گیا تھا
یہ بات چونکا دینے والی تھی کہ مساجد کولوگوں کو قتل کرنے اورمتحرک کرنے کے لئے استعمال کیا گیا.پشتو زبان میں مساجد میں اعلانات ہورہے تھے کہ مہاجر کافر ہیں اور جو ان کو قتل کرے گا وہ جنت میںجائے گا
محمد ابراہیم جو خوش قسمتی سے اس سانحہ میں زندہ بچ گیا تھا.اس کا یہ کہنا تھا،”وہ ہمارے گھر داخل ھوۓ اور ہمارے بچوں کو لات ماری ہماری عورتوں سے ریپ کیا اور ہر کسی کو ماردیا جو ان کے سامنے آیا”.تقریبآ ہر گھر کی یہی کہانی تھی
اس دن قصبہ علی گڑھ میں چار سو سے زائد مہاجر مردوں اور عورتوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا.کسی کو چاقو سے ذبح کردیا گیا یا کسی کو زندہ جلا دیا گیا یا بندوق سے گولی ماردی گئی اور کچھہ نہیں ہوا.کسی نے ان کو نہیں روکا. صبح گیارہ سے ساڑھے تین بجے تک قتل اور غارت گری جاری رہی.پوری بستی لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے رحم اور کرم پر تھی.ان کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار اور کلاشنکوفیں تھیں جس سے وہ مہاجر آبادی پر اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے.حملہ آوروں نے گھروں کو اس طرح آگ لگائی تھی کہ ہر طرف آگ کے شعلے نظر آرہے تھے.قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ہر سڑک پر لاشیں اور زخمی نظر آرہے تھے.عورتوں اور بچوں کی دلخراش چیخیں سنائی دے رہی تھیں.سیکڑوں دکانوں کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا.ہائی الرٹ کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے غائب رہے.آرمی کے وہ دو یونٹ جو قصبہ علی گڑھ کے علاقے میں تعینات کیئے گئے تھے اس سانحےسے صرف دو گھنٹے پہلے مکمل طور غائب ہوچکے تھے نہ تو آرمی کے یونٹ نظر آئے اور نہ پولیس جب کہ تھانہ صرف ایک کلو میٹر دور تھا. ظالم اپنا ظلم کرتے رہے. انسانیت سسکتی رہی اور درندے اپنی سفاکیت دکھاتے رہے. کوئی ان کو روکنے والا نہیں تھا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرمی کے دو یونٹ اچانک کیوں غائب ہوگئےتھے؟ دہشت گرد کئی گھنٹوں تک مہاجروں کا قتل عام کرتے رہے گھروں اور دکانوں کو آگ لگاتے رہے مہاجر عورتوں کی عزتیں لوٹتے رہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح غائب رہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب
جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے,”یہ بد ترین قسم کا قتل عام ہے جو میں نے کبھی نہیں دیکھا.مہاجر کمیونٹی کے مردوں، خواتین اور بچوں کو کس بیدردی سےغیر قانونی تارکین وطن نے ذبح کیا.کور کمانڈر سے پوچھنا چاہیے کہ کیوں انہوں نے اس سانحہ سے پہلے 2 گھنٹے فوج کووہاں سے بلالیا تھا.یہ تو واضح طور پر ایک فاؤل پلے لگتا ہے
اس سانحے کی مزید تفصیلات اس ویڈیو میں مل جائے گی
ویڈیو دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں
Qasba Aligarh 1986 Forgoten Truth by f100000713276688
سب سے زیادہ صدمے کی بات اس سانحے پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی ہے.صرف ایم کیوایم کے علاوہ کسی پارٹی نے اس پر احتجاج نہیں کیا.جب کہ ایم کیو ایم نے متاثرین کے لئے چار کروڑ کی امداد کو منظور کروایا
اس وقت جہاں لینڈ مافیا اور دیگر جرائم میں ملوث پنجا بی پختون اتحاد کے سربراہ غلام سرور اعوان اور اس کے قماش ایک نام نہاد پختون قوم پرست پارٹی نفرت کی اس آگ کو بھڑکانے کے ذمہ دار تھے.وہیں اس وقت کے وزیر اعلی غوث علی شاہ کا کردار بھی اس سانحے میں مشکوک ہے
.بارہ مئی پر رونے والوں کو میں نے کبھی اس سانحے کے لئے بولتے نہیں دیکھا.کہاں ہیں نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار کیوں اس سانحے کے لئے آواز نہیں اٹھاتے کہاں ہے وہ نام نہاد سول سوسائٹی کیوں وہ خاموش ہیں؟سانحہ قصبہ علی گڑھ آج بھی ہماری قوم کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے.ہے کسی میں ہمت کہ اس کا جواب دے؟
Comments
Latest Comments
Justice Sajjad Ali Shah the former Chief Justice of Supreme Court is the man who wrote the inquiry report or the fact finding report which was send to Islamabad where he criticized, “army, administrative and governor’s role in the event and clearly wrote in the report, “that it is the worst kind of massacre I had ever witnessed, where women, children and men from Mohajir community were slaughtered by people from illegal immigrants and Core Commander Karachi should have questioned as to why Army was asked to retreat approximately 2 hours before the incident took take. There clearly seems to be a foul-play”. Obviously like any report and fact finding mission this was ignored by the federal government because the people who were killed were not “Pisser-e-Zameen” (Sons of the Soil).
And what’s more shocking is the total silence on this issue to this day? Except of MQM who was the only political party which actually protested heavily and got a compensation of Rs.4 carore approved for the victims.
And the hypocrisy of those who cry foul just to take political mileage from the 12th May incident, where were they when Qasba Aligarh Massacre took place? Imran Khan would be playing cricket during the time and probably would have laughed with sip of scotch as they were “Hindustoras”, a term he often used against the wheatish looking mustached, Mohajirs. Where was the so-called self-proclaimed, “Civil Society” as if the rest who didn’t agree with them were uncivil? Or the so called National and Religious Political Parties?
قصبہ علیگڑھ قتل عام اور مری ہوئی ہتھنی کی لاش
===============================
14 دسمبر 1986 کو اتوار کا دن تھا اور لوگ اپنے دفاتر اور کاروبار میں مصروف تھے ۔ زیادہ تر مرد گھروں میں نہیں تھے ۔ یاد رہے کہ اس وقت ہفتہ وار تعطیل جمعے کو ہوتی تھی ۔ کراچی کی مہاجر آبادی قصبہ کالونی اور علیگڑھ سوسایئٹی میں زندگی حسب معمول رواں دواں تھی ۔ دن کے تقریبا دس بجے تھے جب اچانک شور کی آوازیں آیئں اور ساتھ ہی فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی ۔پر رونق بازاروں میں بھگدڑ مچ گئی۔ آبادی کے ارد گرد پھیلی ہوئی پہاڑیوں سے اتر کر آنے والے وحشیوں کی مزاحمت کئے بغیر ہی تقریبا ڈیڑھ درجن سے زائد افراد موت کی آغوش میں جا چکے تھے ۔ یلغاریوں نے جو کلاشنکوف، رائفلوں اور خنجروں سے مسلح تھے گھروں میں گھس کر عورتوں، بچوں اور مردوں کو قتل کرنا، لوٹ مار کرنا اور معصوم بچیوں اور عورتوں کو بے آبرو کرنا شروع کردیا ۔ صبح دس بجے دنیا کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک میں شروع کیا جانے والا آگ و خون اور موت کا یہ کھیل سہہ پہر تین بجے تک جاری رہا اور پھر یہ وحشی آہستہ آہستہ یہ سمجھ کر کہ اب شائد کوئی نہیں بچا ہوگا اپنی کمیں گاہوں کی طرف واپس ہونے لگے ۔ صبح دس بجے جب یہ بھیانک کھیل شروع ہوا تو علاقہ پولیس پہلے ہی سے غائب تھی ۔ کچھ لوگوں نے شہری انتطامیہ کو اور یہاں سے جواب نہ پاکر شہر میں موجود فوج کی کور کو اطلاع دی اور مدد مانگی لیکن جواب یہاں بھی ندارد تھا۔ ساڑھے پانچ سے چھ گھنٹے جاری رہنے والے اس موت کے کھیل میں نہ شہری انتظامیہ نے اور نہ ہی فوج نے دخل اندازی کو مناسب جانا ۔
حتی کہ کراچی کے عوام کے پیسوں پر پلنے والا سرکاری ٹیلے ویژن بھی پورے دن دم سادھے بیٹھا رہا اور اپنے معمول کے پروگرام جاری رکھے ۔ شام ہوتے ہوتے کراچی بھر میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ قصبہ اور علیگڑھ میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین قتل عام ہوا ہے۔ عوام تفصیلات جاننے کیلئے بیتاب و بیقرار تھے مگر نہ ریڈیو پر اور نہ ہی ٹیلے ویژن پر پانچ بجے کے شہری بلیٹن میں اور نہ ہی 8 بجے کی مختصر خبروں میں کوئی اطلاع دی گئی۔ رات نو بجے امیرالمؤمنین کے زیر نگرانی چلنے والے سرکاری ٹیلے ویژن پر خبر نامے کے انتظار میں لوگ بیٹھے رہے لیکن خبر نامہ معمول کی خبریں دیتا رہا۔ اختتام سے پہلے اسی روز لاہور کے چڑیا گھر میں مرجانے والی ہتھنی کے سوگ میں تقریبا پانچ منٹ طویل خبر دی گئی اور ہتھنی کے مرنے پر عوام کے تعزیتی پیغامات سنائے گئے ۔ آخر کار قصبہ اور علیگڑھ کی مہاجر آبادیوں میں بے دردی سے مار دیئے جانے والے معمولی کیڑے مکوڑوں کی باری بھی آہی گئی اور ڈیڑھ سطر کی ایک خبر میں کراچی میں کرفیو لگنے کی نوید بھی سنا دی گئی ۔
مہاجرو! یہ ہے تمہاری اوقات اس ملک میں! تین سو افراد کی جانیں اور تمہاری خواتین کی عزت و آبرو کی قیمت ایک مری ہوئی ہتھنی کی لاش سے بھی کم ہے