ASWJ (Sipah Sahaba)’s Facebook Page argues for Jihad against Pakistan Army
A Facebook page being operated by ASWJ (Ahle Sunnat Wal Jamaat, formerly Sipah Sahaba) headed by Ahmed Ludhanvi has published a detailed note which argues for Jihad against Pakistan Army. The note published makes references to various verses of the Quran and traditions/ahadith of Prophet Muhammad to justify waging a war against the armed forces of Pakistan. It also blames the people of Pakistan for not supporting the “Islamic opposition” i.e. the terrorists attacking Pakistan Army.
This is not the first time that the ASWJ activists have acknowledged their support for a war against the state of Pakistan, its institutions including Pakistan Army and the people of Pakistan using the “Islam argument”. However, this is a wakeup call for the civil society, secular liberal activists and specially the media of Pakistan which for some reason has found a new representative of millions of Sunni Muslims of Pakistan in Ahmed Ludhianvi, the head of ASWJ or banned Sipah Sahaba.
This should also be alarming for the secular liberal activists who have refused to speak against the Sipah Sahaba ASWJ by name, believing this is sectarian politics. Sipah Sahaba ASWJ is no representative of any religious community in Pakistan and is a terrorist organisation working in coordination with Taliban, Al-Qaeda and other foreign Islamist terrorists fighting in Pakistan for the sole reason of taking over the state. They have not only attacked Pakistan’s Shia community but have been involved in attacks on shrines and Sunni mosques as well as attacks on Ahmadi Muslims and Christians, Lahore’s Joseph Colony being the latest incident – details on this can be read here.
Sipah Sahaba ASWJ involved in Christian Persecution in Pakistan
Screenshot of ASWJ’s page main title
The Facebook page which published this note can be accessed here while the direct link to the full note is this. For ease of the readers and to archive the note, the full text of the note is being provided below along with the image they have embedded in the note.
The full body of the note on the Facebook page has also been archived in form of a screen capture (for evidence purposes) which can be accessed here.
پاکستانی فوج سے جہاد کیوں ؟؟؟
5 December 2013 at 00:50
پاکستانی فوج سے جہاد کیوں ؟؟؟
ہمارے کچھ بھائی مجاہدین پر اعتراض کرتے ہیں کے امریکا کے خلاف تو جہاد سمجھ میں آتا ہے لیکن افوج پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کیوں ہے ؟؟؟؟؟؟
پاکستانی فوج کے خلاف قتال کی متعدد وجوہات ہیں جن میں اس فوج کا شریعت کے نفاز کے خلاف بندوق اٹھانا،پاکستان میں کفری انگریزی قوانین کا نفاذ گولی اور بندوق کے ذریعے کرنا وغیرہ شامل ہیں—– پاکستانی فوج اور پولیس انگریزی کفری قوانین کو نافذ کرنے والے ادارے ہیں اور طاغوت حکمرانوں کے محافظ اور لشکر ہیں —-
لہذا طاغوت کے لشکروں کا بھی وہی شرعی حکم ہے، جو خود طاغوت کا شرعی حکم ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ
واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے۔ (القصص: ۸)
جبکہ اس فوج کے خلاف جہاد کا اہم سبب اس ناپاک فوج کا صلیبی جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہونا بھی ہے- جس کا اظہار فوجی افسران خود بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ
” ہم امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں “
جب امریکہ نے امارت اسلامی افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستانی حکومت ، فوج اور اس کی ذیلی ایجنسیوں نے بش کے اعلان کردہ صلیبی جنگ کے فرنٹ لائن اتحاد کو پسند کیا اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی لشکر کا حصہ بنے ۔ امریکہ کو ہر قسم کی امداد فراہم کی – مجاہدین کو گرفتار کر کہ امریکہ کے حوالے کیا – شمسی ائیربیس ، جیکب آباد ائیربیس امریکہ کے حوالے کیں جہاں سے ڈرون اڑ کر مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں – اس ناپاک فوج نے نہ صرف امارت اسلامیہ کو گرانے میں امریکا کا ساتھ دیا بلکہ اس وقت سے لیکر آج تک یہ فوج افغانستان میں قیامِ امارت کی جدوجہد میں کوشش کو ناکام بنانے کے لئے مستقل کوشاں رہی ہے۔ آج بھی پاکستان فوج کی جیلوں میں امارتِ اسلامیہ کے کئی قائد قید ہیں۔ مثلْا امیر المومنین ملا محمد عمر کے نائب ملا برادر،ملا برادر کے نائب ملا عبید،امارتِ اسلامیہ کے سابق مسئولِ تعلیم و تربیت استا یاسر رحمہ اللہ ( ان کو پاکستانی جیل میں ہی شہید کر دیا گیا )،امیر المومنین کے معاون ملا جہانگیر وال زابل،شیخ یونس خالص رحمہ اللہ کے بیٹے ملا انورالحق مجاھد،جلال آباد کے والی ملا میر احمد گل،قندوز کے والی ملا عبدالسلام،بغلان کے والی ملا محمد،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر ملا ترابی،ملا داداللہ کے بھائی ملا منصور داد اللہ
اللہ پاک ان تمام قائدین کو آئی ایس آئی کی خفیہ جیلوں سے رہائی نصیب فرمائے۔ آمین
مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے والی اس فوج کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟؟
آیت نمبر 1:
[ یاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ ] {المائدة:51}
” اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا “
تفسیر :
امام ابنِ ابی حاتم رازی اِس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی سند کے ساتھ محمدبن سیرین تابعی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عتبہ نے فرمایا:
(لِیَتَّقِ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّکُونَ یَھُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا وَّھُوَ لَایَشْعُرُ)
’’ تم میں سے ہر ایک کو اِس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ لاشعوری طور پر یہودی یا عیسائی نہ ہو جائے۔‘‘
ہمارے خیال میں ان کا اشارہ اِسی آیت کریمہ کی طرف تھا-
[ تفسیر ابنِ ابی حاتم:1156/4، وسندہ صحیح ،طبع مکتبة نزارِ مصطفی الباز ]
امام المفسرین ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب ہے جو اہل ایمان کو چھوڑکر یہود و نصاریٰ سے دوستی کرے گا تو اس کا شمار انھی میں سے ہو گا۔ پھر فرمایا:جس نے ان سے دوستی کی اور اہل ایمان کے خلاف ان کی مدد کی تو وہ انھی (یہود و نصاریٰ)کے دین و ملت پر ہے، کیونکہ کوئی شخص کسی سے اسی وقت دوستی کرتا ہے جب وہ اس سے، اس کے دین سے اور جس نظریے اور مشن پر وہ ہے، اس سے راضی ہوتا ہے اور جب وہ اپنے دوست اور اس کے دین سے راضی ہو گیا تو گویا اس نے اپنے دوست کے مخالفین (مسلمانوں)سے دشمنی کی اور ان سے ناراض ہو گیا ، چنانچہ جو حکم اس کے دوست کا ہو گا ، وہی حکم اس(بزعم خویش مسلمان)کا ہو گا۔‘‘
[ تفسیر الطبری:330/6،نسخہ محمود شاکر ]
امام قرطبی فرماتے ہیں :
’’اللہ کے فرمان ﴿وَمَن یَتَوَلَّھُم مِّنکُمْ﴾کا مطلب ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں کو طاقت اور مدد فراہم کرتاہے تو اس کا شمار بھی انھی میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے فرمایا ہے کہ اس کا حکم اور ان کافروں کا حکم ایک جیسا ہے ۔وہ شخص کسی مسلمان کے مال میں وراثت کا حقدار بھی نہیں ٹھہرے گا ، نہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مال مسلمان وارثوں میں تقسیم ہوگا،اس لیے کہ وہ مرتد ہو چکا ہے ۔اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :اس میں شرط اور جواب شرط ہے ، یعنی جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی مخالفت کی ، اسی طرح اس نام نہاد مسلمان نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے،چنانچہ جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ دشمنی رکھنا واجب ہے ، اسی طرح اس نام نہاد مسلمان سے بھی دشمنی رکھنا واجب ہے اورجس طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر جہنم واجب ہے،اسی طرح اس نام نہاد مسلمان پر بھی جہنم واجب ہے۔الغرض اب وہ انھی یہودیوں اور عیسائیوں ہی کا ایک فرد بن چکا ہے۔‘‘
[ تفسیر القرطبي:204/6 ]
مشہور مجتہد اور امام حافظ ابن حزم مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان﴿وَمَن یَتَوَلَّھُم مِّنکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُم﴾کو اس کے ظاہر پر رکھنا ہی صحیح ہے کہ اس کا شمار بھی انھی تمام کافروں میں سے ہوگا۔یہ ایک ایساحق ہے کہ کوئی بھی دو مسلمان اِس کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتے۔‘‘
[ المحلٰی :138/11 ، تحت المسئلة 2174 ]
امام ابوبکر جصاص حنفی اس آیت مبارکہ کے ذیل میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
’’اس آیت مبارکہ کے دو میں سے کوئی ایک معنی ہیں:اگر تو یہاں کفارِ عرب سے خطاب ہے تو پھر یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عرب کے بت پرست اگر یہودی یا نصرانی ہو جائیں تو ان پربھی یہود ونصاریٰ والے شرعی احکام لاگو ہوں گے………اور اگر یہاں مسلمانوں کو مخاطب کیا جا رہا ہے تو پھر یہ آیت ہمیں بتلاتی ہے کہ جو مسلمان کفار کا ساتھ دے ، وہ انھی کی طرح کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
اس سے چند سطور قبل بھی آپ اسی بحث کے ذیل میں صراحتاً لکھتے ہیں :
(………لَوْ أَرَادَ الْمُسْلِمِینَ لَکَانُوا اذَا تَوَلَّوُا الْکُفَّارَ صَارُوا مُرْتَدِّینَ)
’’………اگر یہ آیت مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے تو مسلمان تو کفار کا ساتھ دینے کے سبب مرتد ہو جاتے ہیں۔‘‘
[ احکام القرآن:555/2، طبع دارالکتب العلمیة ]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتے ہیں :
“کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لاتتخذواالیھودوالنصا¬ری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم
ترجمہ: تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا
ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے”۔
[ مجموع الفتاوی 18/7 ]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن قیم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم اور فیصلہ سنا دیا ہے ، اور اللہ کے حکم اور فیصلے سے بڑھ کر کسی کا حکم اورفیصلہ اچھا نہیں ہو سکتا ،کہ جس نے بھی یہود ونصاری سے دوستی اور ان کی مدد کی تو اس کا شمار بھی انھی میں سے ہو گا………جب قرآن کی نص کے مطابق یہودونصاری کے دوست انھی میں سے ہیں تو ان کا حکم بھی ان یہودیوں اور عیسائیوں جیسا ہے۔‘‘
[ احکام اھل الذمة:67/1 ]
امام شوکانی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
“اس آیت کا مطلب ہے کہ جو شخص ان یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی اور ان کی مدد کرے گا تو اس کا شمار بھی انھی کے گروہ میں ہوگا۔ یہ بہت سخت وعید ہے، اس لیے کہ ایسی نافرمانی جس سے کفر لازم آتا ہے وہ ایسی انتہا کوپہنچی ہوتی ہے ،کہ اس کہ پیچھے اور کوئی انتہاء نہیں ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:آیت کا یہ جملہ ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾پہلے جملے کی علت ہے ، یعنی ان کے کفر میں پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسےہدایت سے محروم کر دیتا ہے جو اپنی جان پر ایسے گناہ کے ذریعے ظلم کرے جو کفر کو لازم کردیتا ہے،جیسے کوئی کافروں سے دوستی کرے-”
[تفسیرفتح القدیر:71/2،بتحقیق الدکتور عبدالرحمن عمیرہ]
آیت نمبر 2:
[ لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ] { آلِ عمران:۸۲ }
“مومن مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہیں بناتا یا مومن مومنوں کے مقابلے میں کافروں کو اپنا دوست نہیں بناتااور جو کوئی بھی ایسا کرےتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں”
تفسیر:
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوے امام طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” یعني بذلک فقد بريئ مِنَ اللَّهِ وبرئ اللہ منہ بارتدادہ عن دینہ ودخولہ في الکفر”
“اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے کہ (جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا) وہ اللہ سے بری ہو گیا اور اللہ اس سے بری ہوگیا کیونکہ یہ (اس فعل کی وجہ سے) دین سے مرتد ہو گیا اور کفر میں داخل ہو گیا -“
دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے-
مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد اورمعاونت اوران سے دوستی کرنے والے کے مرتد ہونے سے متعلق ائمہ دین کے اقوال
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ مجموع الفتاویٰ(530/28)میں تاتاریوں کے معاونین کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جو بھی ان کی (تاتاریوں)یعنی ان کے امیر لشکر یا دیگر امراء کی طرف بڑھے گا تو ان دونوں کا حکم ایک ہے اور وہ اپنے انحراف کے مطابق دین اسلام سے مرتد شمار ہوگااور سلف صالحین نے تو منکرین زکاۃ کو مرتد قرار دیا جبکہ وہ روزے رکھتے اورنماز پڑھتے تھے اور مسلمانوں سے لڑتے بھی نہ تھے تو جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے جاملے مسلمانوں سے لڑنے والابن جائے اس کا کیا حکم ہوسکتا ہے؟‘‘۔
امام ابن القیم الجوزی احکام اہل الذمہ(195/1)میں فرماتے ہیں :
’’اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس کے فیصلے سے بہتر فیصلہ ہوہی نہیں سکتا کہ یہود ونصاریٰ کو دوست بنانے والا انہیں میں سے ہوگا‘‘۔
موجودہ دور کے اہل حق علماء کرام جیسے مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی نظام الدین شامزئی رحمہم اللہ کے واضح فتاویٰ جات بھی اس موضوع پر دلالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے والا قطعی کافر و مرتد ہے –
اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ ورسول و امت کیلئے غیرت کا امتحان بھی۔
تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیے۔
اسلام اور توحید کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا۔ بنا بریں ہر وہ اتحاد جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت یا مجاہدین کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا، اس کی معاونت کرنا، اس کا پرچم اٹھانا، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔
واضح قرانی نصوص اور ائمہ دین کے اقوال واضح کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے والا کافر، مرتد اور واجب القتل ہوتا ہے-
ناپاک فوج کے خلاف جہاد کی اہم وجہ بھی اس کا یہی کفر ہے- پاکستان کے محترم مسلمانوں کو چاہیے کہ تعصب اور وطنیت کی عینک اتار کر دیکھیں کہ شریعت کی روشنی میں اس ناپاک فوج کا کیا حکم ہے-
- Sipah Sahaba calls Pakistan Army and Pakistanis kaafir and worthy of being killed.png
Comments
comments
About The Author
AleNatiq
Social Media Activist - @alexpressed - blog.ale.com.pk