آئی ایس پی آر اور جماعت اسلامی

pic

آئی ایس پی آر اور امیر جماعت اسلامی

لیل و نہار /عامر حسینی

امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر منور حسن نے حکیم اللہ محسود اور تحریک طالبان پاکستان کے دیگر مرنے والوں کو شہید اور ان گے خلاف لڑنے والوں کو غیر شہید قرار دیا تو مجھے جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالاعلی مودودی یاد آگئے کہ انہوں نے اپنی جوانی کے دنوں میں ایک کتاب “الجہاد فی السلام”لکھی تھی جب وہ جمعیت العلمائے ہند کے ترجمان اخبار “الجمعیۃ”میں کام کررہے تھے-یہ ضغیم کتاب انہوں نے یہ واضح کرنے کے لیے لکھی تھی کہ آیا اسلام دفاعی جہاد سے آگے بڑھ کر “حربی جہاد”کی اجازت دیتا ہے؟اور انہوں نے اس کتاب میں یہ ثابت کرنے پر زور دیا تھا کہ اسلام  دفاعی جہاد سے آگے بڑھ کر “ظلم اور جبر “کے خلاف “جہاد “کرنے کو فرض قرار دیتا ہے-اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ کتاب ایک طرح سے پرائیوٹ اور نجی لشکر سازی کا جواز فراہم کرنے کی بنیاد بن سکتی ہے-اور مولانا مودودی نے جب یہ کتاب تحریر کی تو ان پر سلفی مسلک کے بانی شیخ ابن تیمیہ اور ابوالکلام آزاد کے “الہلال “کا بہت اثر لگتا تھا-مولانا مودودی کی ایک اور کتاب ” تصوراحیاء و تجدید دین”میں اس سے آگے بڑھ کر ایک اور قدم جہاد کا بدعات اور غیر شرعی امور کے خلاف نظر آیا جو مجھے جماعت اسلامی کی جانب سے اپنے تئیں بدعات و غیر شرعی امور کے مرتکبین پر حملہ آور ہونے کی روش کی شکل میں عملی صورت اختیار کرتا نظر آیا-مولانا مودودی کے ان تصورات کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کی نمائندہ طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء جن حرکات اور افعال کو بدعات اور غیر شرعی خیال کرتی ان کا ارتکاب کرنے والوں پر حملہ آور ہوجاتی-اس قسم کی روش دوسری جنگ عظیم کے بعد رونماء ہونے والی جدید اسلام پسند تحریکوں اور جماعتوں میں بہت غالب نظر آئی-ہم نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی ،مولوی اسماعیل دھلوی اور حسن البنّا کی تنظیموں میں اس روش کو بہت نمایاں دیکھا-اور یہ ان تحریکوں سے ایسے سپلنٹر گروپ پیدا ہوئے جو خود مسلمان مسالک اور مسلم کمیونٹی کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں پر ہی تلواریں سونت لیں-

مسلم تاریخ میں مسلمانوں کو تاویل اور تعبیر کے سہارے قتل کرنے اور ان کے خلاف صف آراء ہونے کو جہاد کا نام دینے کی بدعت کو پہلی مرتبہ ایسے گروہ سے وابستہ کرتی ہے جسے خوارج کے نام سے جانا جاتا ہے-یہ گروہ خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف صف آراء ہوا اور ان کی شہادت بھی اسی گروہ کے ایک شقی القلب کے ہاتھوں ہوئی-اے گروہ کو علمائے اہل سنت و اہل تشیع نے اتفاق کرتے ہوئے خارجی قرار دیا-پھر ایک اور گروہ تاریخ میں ظاہر ہوا ترک ‏عثمانی خلفاء کے دور میں جس نے توحید اور بدعت کی خود ساختہ تعریف کرتے ہوئے جمہور اہل سنت و اہل تشیع کی جان و مال و آبرو کو پامال کیا اور اس کو بھی جمہور علمائے اہل سنت و تشیع نے خوارج و تکفیری کا لقب دیا اور ان کو گمراہ قرار دے ڈالا-

افغان جہاد کے نام پر سی آئی اے اور مڈل ایسٹ سے آنے والے فنڈ سے ایک لڑائی شروع ہوئی تواس وقت بھی ایسی ہی خارجی آئیڈیالوجی کا سہارا لیکر مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کی کوشش ہوئی اور اس میں ہماری ریاست پر قابض اس وقت کے ایک آمر جنرل ضیاء الحق کا بہت بڑا کردار تھا-اس نام نہاد جہاد کو جماعت اسلامی اور دیگر مذھبی تنظیموں نے سپورٹ کیا اور یہ سپورٹ اصل میں خارجی آئیڈیالوجی کے زیر اثر کی گئی تھی-اور یہ لڑائی جو سویت آرمی اور ان کی حما‏یت یافتہ افغان حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف شروع ہوئی ایک مذھبی فرقہ وارنہ لڑائی میں تبدیل کردی گئی-اور اس لڑائی کو لڑنے والوں میں اکثر جنگجو تکفیری اور خارجی آئیڈیالوجی کے زیراثر آگئے-تحریک طالبان پاکستان ،لشکر جھنگوی ،القائدہ اور ان کی طرز کے ایشیا،افریقہ میں لڑنے والے گروپ اسی قسم کے ہیں-اور مجھے پروفیسر منور حسن کا بیان ان کے بانی امیر کی سوچ یا جماعت اسلامی کی فکر کے منافی نہیں لگتا ہے-کیونکہ اگر جماعت اسلامی تکفیری اور خارجی تصور قتال و جہاد کے قریب نہ ہوتی تو یہ 70ء میں الشمس اور البدر کے نام سے نجی جہادی لشکر بناکر بنگالی مسلمانوں کا قتل عام نہ کرتی اور ان بنگالی مسلمانوں کے اسلام کی نفی نہ کرتی-اسی طرح سے جماعت اسلامی اپنے نوجوانوں کو 80ء میں افغان مسلمانوں کے خلاف جہاد کرنے کو نہ بھیجتی-آج بھی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء کے اندر پاکستان اور افغانستان کے اندر لڑائی بارے ایک تقسیم موجود ہے-جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء کے اندر یہ اتفاق ہے کہ افغانستان کی موجود حکومت کے خلاف قتال جائز ہے-اور پاکستان کی امریکہ کی دوست حکومتوں کے خلاف قتال پر اختلاف ہے-جماعت اسلامی پاکستان اور اسلامی جمعیت طلباء میں سے بہت سے نوجوان وزیرستان ،خیبر ایجنسی ،دیر،مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں تحریک طالبان پاکستان کا حصّہ بن گئے-اور ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر روس کی باجگذار ریاستوں کے خلاف قتال فرض تھا اور کرزئی حکومت کے خلاف قتال فرض ہے تو پھر پاکستان کی حکومت کے خلاف اور فوج کے خلاف بھی قتال ٹھیک ہے-جماعت اسلامی ہی کیا مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی اپنے حامیوں کی طرف سے ایسے ہی تنقیدی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-اور یہ تنقید حافظ سعید کی جماعت دعوۃ کو بھی برداشت کرنی پڑتی ہے-حقیقت یہ ہے پاکستان سمیت مسلم ملکوں میں  جہاد افغانستان کے بعد ان تمام اسلام پسند تنظیموں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی جو جہاد افغانستان کی حمائت اور اس میں شرکت کررھی تھیں-اور ان سے سپلنٹر گروپس بنکر نکلے-لشکر طیبہ کے اندر سے الیاس کشمیری گروپ نکلا اور جماعت اسلامی،سپاہ صحابہ پاکستان ،جے یو آئی کے اندر سے تحریک طالبان ،لشکر جھنگوی،الحفصہ بریگیڈ المعروف پنجابی طالبان  کی تشکیل ہوئی-اور یہ سب گروپ خود پاکستانی ریاست اور اس کی عوام کے خلاف جنگ کررہے ہیں-اور حقیقت یہ کہ سعودی نواز اکثر تنظیموں کے اندر سے فسطائی جنگجوؤں کا وجود دیکھنے کو ملا-

ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ایسے حکام بھی رہے جنہوں نے ریاست کے متوازی “پرائيوٹ جہادی ملیشیا” کی تشکیل کرنے کا راستہ ہموار کیا-اور آج ساری قوم ان حکام کی دی ہوئی سزا کو بھگت رہی ہے-یہ سزا پاک فوج،پولیس اور انٹیلیجنس افسران اور سپاہیوں کو بھی بھگتنا پڑرہی ہے-

اب ہون تو یہ چاہئیے تھا کہ ہماری غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ اور سیاسی منتخب قیادت ایک ہوکر یہ فیصلہ کرتے کہ ریاست کی سطح پر آج کے بعد پرائیوٹ جہادی ملیشاؤں کو اچھے جہادی کہہ کر تھپکی نہیں دی جائے گی جبکہ بعض ملیشیاؤں کو برے جہادی کہہ کر غائب یا مارا جارہا ہو –لیکن ایسا بدقسمتی سے نہیں ہوپایا-

پاکستانی قوم اور ریاست کے منتخب اور غیر منتخب مقتدر طاقتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مسلح گوریلا پراکسی اندر یا باہر کہیں نہیں چلائی جائے گی-

میری آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ سے بات ہوئی وہ میرے ایک آرٹیکل پر ٹویٹ کرکے یہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان کسی بھی ملک میں “جہادیوں”کو پراکسی کے طور پر استعمال نہیں کررہا وہ ہماری گفتگو کے دوران بھی یہی اصرار کرتے رہے کہ “پاک فوج،آئی ایس آئی یا کوئی اور ادارہ “گوریلا وار کو مذھبی کوٹ کے ساتھ کہیں بھی استعمال نہیں کررہی “

میں ان کی بات پر اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتا اور ان کی جانب سے پروفیسر منور حسن کے بیان کی تردید کرنے کا خیرمقدم بھی کرتا ہوں لیکن یہ بھی کہتا ہوں کہ پاکستان کی غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ کے عزائم اور ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور بے یقینی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے-اب صرف بیانات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا-عملی اقدامات کرنا ہوں گے تبھی مسئلہ حل ہوسکے گا-ورنہ میں لاکھ آئی ایس پی آر کے بیانات کی تائید اور مدح کروں شکوک و شبہات کے بادل چھٹیں گے نہیں-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Salman Gardezi
    -
  2. Nike Air Max Sale
    -
  3. Nike Air Force 1 Heels
    -
  4. Jordan 11
    -
  5. Nike Air Max 90 Hyperfus Shoes
    -
  6. Nike Kobe 8 Elite
    -
  7. Mujeres Nike Free Tr Fit
    -
  8. Nike Air Max 2014 Femme
    -
  9. Nike Dunk High Heel
    -
  10. Nike Total Air Foamposite Max
    -
  11. Nike Free Run 2 Femmes
    -
  12. Air Jordan Retro 12
    -
  13. Nike Air Max Tailwind 5
    -
  14. Nike Air Max 95
    -
  15. Nike Free 3.0
    -
  16. Air Jordan Take Flight
    -
  17. Louis Vuitton Bags
    -
  18. LV Men Damier Azur Canvas (3)
    -
  19. Miu Miu Flats
    -
  20. Top Handles
    -
  21. Supra Vaider
    -
  22. Alfred 23cm
    -
  23. Furla
    -
  24. Gucci Men Shoes
    -
  25. Ed Hardy Specialty Gorras
    -
  26. Chaussures de running Mizuno Pas cher
    -
  27. ED Hardy Niños
    -
  28. Abrigo Polo Hombre
    -
  29. Chloe Handbags
    -
  30. Maillot USA
    -
  31. Business Coach Sacs Soldes
    -
  32. Sacs Coach
    -
  33. Nike Kevin Durant
    -
  34. Nike Air Trainer 1.3
    -
  35. Nike Shox TN
    -
  36. Louis Vuitton Softsided Luggage
    -
  37. Louis Vuitton Verona
    -
  38. Asics Aaron MT
    -