ایران و فلسطین کے خلاف اسرائیل و سعودی عرب کا اتحاد

Israel, Saudi ink deal to arm Syria militants

 

 

ہم ایک متحدہ عرب نہیں چاہتے ، ہم تقسیم شدہ اور ہماری حاکمیت کو تسلیم کرنے والا عرب چاہتے ہیں

برطانوی وزیر خارجہ براے نو آبادیات

عزت مآب جناب کی حکومت عرض فلسطین پر یہودی قوم کے لئے ایک ملک آباد کرنے اور اس سلسلے میں ہر ممکن قدم اٹھانے کو درست سمجھتی ہے – یہاں اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے اس اقدام کے بعد غیر یہودی افراد کے لیے ان کے مذہب کے بارے میں کسی تفریق کا معاملہ نہیں کیا جائے گا اور یہی بات باقی ملکوں میں بسنے والے یہودیوں کے لئے ہوگی –

آرتھر بالفور – برطانوی وزیر خارجہ کی جانب سےانیس سو سترہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو لکھا گیا خط

استعماری برطانوی راج نے سات مغربی ممالک پر مشتمل ایک کمیٹی بنایی جس نے اپنی رپورٹ انیس سو سات میں اس وقت کے وزیر ا عظم سر ہنری کیمبل کو پیش کی کہ مسلم حکمران اور سلطنت عثمانیہ میں رہنے والے حکمران یورپ ممالک کے لئے خطرہ ہیں اور اس سلسلے میں یہ چند اقدامات اٹھاے جایں

١ : خطے کے ممالک میں تقسیم در تقسیم کو فروغ دیا جائے

٢ : مصنوی سیاسیڈھانچے و وجودات تخلیق کیے جایں جو برطانوی سامراج کے زیر اثر کام کریں گے

٣ :کسی بھی قسم کے اتحاد سےنبٹنے کے لئے خواہ وہ مذہبی ہو قبائلی یا تاریخی اس سے نبٹنے کے لئے اقدامات کے جایں

٤ : اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ہمیں فلسطین میں ایک بیرونی قوم کو لا کے بسانا ہوگا جو مغربی دنیا کی دوست ہو اور اپنے پڑوسیوں کی طرف دشمنی اور جارح رویہ رکھے اور مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرے –

کیمبل کی رپورٹ سے -انیس سو سات

حالیہ دنوں میں ایران کی چھ عالمی طاقتوں کے مذاکرات کے بعد یہ قوی امید پیدا ہوئی ہے کہ طویل عرصے سے چلی آنے والے ایران کی تنہائی ختم ہونے کے امکانات ہیں – ایران مشرق وسطیٰ اور وسط ایشائی ریاستوں کے درمیان رابطے کے طور پر استعمال ہو سکنے کے علاوہ خطے میں تاریخی اور تمدنی لحاظ سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ عرب ممالک کشت و خون میں ڈوبے ہیں – لیکن ایران مخالف عناصر کی سرگرمیوں کو دیکھ کے یہ سب کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا

 اس کے علاوہ ایران کے حریف ممالک مغربی اتحادی ,سعودی عرب اور اسرائیل بھی ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ناکام بنانے اور رکوانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں – یہ دونوں ممالک بھی سامراج اور استعمار کی پیداوار ہیں اور دونوں ممالک ہی اپنے اپنے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں

سعودیہ کی ناراضی :

اس وقت جب ایران کے ساتھ چھ عالمی طاقتوں کے مذاکرات چل رہے ہیں سعودی عرب جس نے اپنے تیل کے ذخائر کی بنا پر لندن ، واشنگٹن اور پیرس میں بڑے پیمانے پر سرمایا کاری کر رکھی ہے وہ اس مذاکرات کے عمل سے شدید نا خوش ہے – مغربی ممالک نے جب سے شام میں برا راست دخل اندازی کے معاملے میں معذرت خوانا رویہ اپنایا ہے تب سے سعودی عرب کا رویہ کچھ کھچا کھچا سا ہے – سعودی عرب کے ساتھ ساتھ قطر کے الثانی اور کویت کے الصباح نے بھی شام میں ترکی اور اردن کی مدد سے دہشت گردوں کو بڑے پیمانے پر ہر ممکن امداد دی جنہوں نے اپنے مفادات کے لئے ہر حکم پر سر جھکا دیا جیسے کے ترکی ایک بار پھر سے سلطنت عثمانیہ قائم کرنے کا خواہاں ہے – ان کی یہ کوششیں تقریباً کامیاب ہو چکی تھی لیکن امریکا اور برطانیہ میں اندرونی مخالفت اور روس کی زبردست سفارتکاری کے نتیجے میں یہ جنگ ٹل گیی اور سعودیہ جو ایران پہ نظریں جماے بیٹھا تھا اسے منہ کی کھانی پڑی

اس صورت حال کا سامنے ہوتے ہی سعودی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گیے اور وہ یکایک جوابی اقدامات اٹھانے کے لئے دوڑ پڑے – سب سے پہلے یکم اکتوبر کو سعودی وزیر خارجہ ترکی الفیصل نے اقوام متحدہ سے اپنا طے شدہ خطاب منسوخ کر دیا – گو کہ سعودی عرب نے اقدام کی کوئی وجہ نہیں بتایی لیکن ماہرین کا یہی خیال ہے کہ یہ شام کی صورت حال پہ سعودی عرب کا من پسند فیصلہ نہ ماننے کے امریکی قدم کا ردعمل تھا

آل سعود اران کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے ہر ممکن طریقے سے ایران اور ایران کا مفادات کے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں سے ایک سلفی وہابی دہشت گردوں کو استعمال کر کے شام کی ایران کی اتحادی حکومت کو گرانا ہے – سعودی عرب یہ جنگ جانتے کے لئے ہر قسم کے وسائل استعمال کرے گا – سعودیہ کی کوشش ہوگی کے امریکا کے بل بوے پہ ایران اور شام کو تباہ کیا جائے

سعودی عرب کی طرف سے اس سلسلے میں دوسرا قدم پہلی بار اقوام متحدہ کا غیر مستقل ممبر بننے کے بعد اپنی نشست لینے سے انکار اور اقوام متحدہ کے اجلاس سے تقریر کرنے سے انکار کرنے کی صورت میں سامنے آیا – جس میں سعودی عرب نے عالمی برادری سے مسائل حل کرنے میں ناکامی کا شکوہ کیا  خاص طور پر شام کے بحران کے بارے میں سعودی خواھشات کا پورا نہ ہونا اس کی ایک بڑی وجہ تھی -سعودی انٹلیجنس کے چیف بندر بن سلطان نے بھی یورپی سفارت کروں کے ساتھ اپنی ملاقات میں اس امر پہ ناراضی کا اظہار کیا اور شام میں اسد حکومت کے خلاف امریکا کے اقدامات نہ کرنے کا گلہ کرتے ہوے سعودیہ کے پرانے حریف ایران کے ساتھ تعلقات پہ بھی بات کی-

 لیکن اس کے امکانات بھی بہت کم ہیں کہ سعودی اس بارے میں کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں ہیں – وہ صرف وہابی اور تکفیریوں کے استعمال سے شیعہ  اور احمدی یعنی غیر وہابی اور غیر تکفیری مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خون ریزی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں – تاہم تاریخ شاہد ہے کہ سعودی حکمران اپنے مغربی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیشہ حاضر رہے ہیں جنہوں نے انھیں اقتدار میں لایا اور ہر وقت ان کی مدد و حفاظت کی –

امریکی پالیسیز پہ سعودی بے قراری کوئی نیی بات نہیں ہے – اس سے پہلے بھی رضا پہلوی کے دور میں روس سے آنے والے سرخ لہر کو روکنے کے لئے ایران کی مدد لی گیی اس وقت بھی بھی سعودی اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکے تھے – جارج گاس کے مطابق یہ موجودہ حالت قطی طور پہ حیران کن نہیں ہیں – یہ دو وجوہات کا نتیجہ ہیں –
١ : یہ ایک حقیقت ہے کہ ان تعلقات میں سعودی عرب کمزور فریق ہے
٢: یہ ایک غلط فہمی ہے جو کہ سعودیہ سے زیادہ امریکا میں پائی جاتی ہے کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے یہ اتحاد نا گزیر ہے – گاس لکھتا ہے کہ امریکا کے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات امریکی سلامتی کے لئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں

نیتن یاہو کا تنازعات کو ہوا دینا

ایک طرف جہاں سعودی عرب وہابی سلفی تکفیریوں کو اسلحہ اور حمایت فراہم کر رہے ہیں ایران کی اتحادی شامی حکومت کو گرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے – دوسری طرف نیتن یاہو اسرائیلی وزیر ا عظم بھی سعودی حکمرانوں کی طرح مغربی ملکوں پہ زور دے کے ایران کو عالمی دنیا میں تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس معاملے میں سعودی عرب اور اسرائیل کا موقف ایک ہے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں نیتان یاہو نے کہا –

سابقہ یرانی صدر محمود احمدی نژاد بھیڑیے کی خال میں بھیڑیا تھا اور موجودہ یرانی صدر حسن روحانی بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہے – ایک ایسا بھیڑیا جو اپنے اوپر بھیڑ کی کھال ڈال رہا ہے میری خواہش ہے کہ میں حسن روحانی کے الفاظ کو سچ سمجھ سکتا لیکن ہمیں ایران کے اقدامات پہ غور کرنا ہوگا

خود کیمائی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیل کا وزیر ا عظم نیتن یاہو کہتا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے –

ہم تاریخی اہمیت کے حامل لوگ ہیں ، ہم نے کڑی محنت کے بعد چار ہزار سالہ کوشش کے بعد اپنے آبائی اعلاقے میں اپنے لئے ایک مملکت بنایی ہے اور اس کو سب سے زیادہ خطرہ ایک ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ایران سے ہے

نیتن یاہو کے ان بیانات نے سعودی عرب کو بھی اپنے تحفظات اور ایران کے خلاف اپنی دشمنی کے اظہار کا موقعہ فراہم کر دیا ہے – نیتن یاہو نہ کہ پورا اسرائیل امریکا کے شام پر حملے کرنے کے حق میں تھا – جب یہ منصوبہ ٹل گیا اور چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات بھی شروع ہوگے تو نیتن یاہو اپنے سعودی اتحادی بندر بن سلطان کی طرح غصے سے بلبلا اٹھا اور نیو کونز کے ساتھ ساتھ نو آبادیاتی نظام کے حامیوں اور ہنری کیمبل کے چیلوں کی مدد لینے کے دوڑ پڑا –

ایک مشترکہ منصوبہ

سعودیہ کے سلفی وہابیوں اور اسرائیل کے صیہونیوں کے مفادات یکجا ہیں – ایران کو تنہا رکھنا اگر اسے تباہ نہیں کیا جا سکتا- اور یہ دونوں اس سلسلے میں دونوں طرف سے جال بچھا رہے ہیں – سعودی عرب جو کے موجودہ دنیا میں واحد ملک ہے جو ایک خاندان کے نام سے چل رہا ہے وہ اسلامی دنیا میں ایران کی موجودہ پوزیشن سے خوفزدہ ہے اور اسے ڈر ہے کہ ایران اس کی جگہ نہ لے لے -آل سعود جو کے نجد کے بدو تھے جنہوں نے بزور طاقت ہاشمیوں کو بے دخل کر کے ملک پہ قبضہ کر لیا تھا – ہاشمی جو کے ہاشم ابن عبد مناف کی اولاد میں سے تھے جو رسول پاک (ص) کے دادا ہیں ، ہاشمیوں کو بے دخل کر کے سعودیوں نے عبدللہ بن عبدل وہاب کی ” خادمین حرمین شریفین ”کا لقب استعمال کرنے والی چال چل کر کامیابی حاصل کر لی

سعودی عرب نے اپنے نا پاک مقاصد کو کامیاب بنانے کے لئے وہابی اسلام کی ترویج کے لئے بے بہا پیسہ لگایا اور ایران اور ایرانی قوم جو کے ایک اکثریتی شیعہ قوم ہے کو کافر قرار دیا اور اس سلسلے میں اس نے نو آبادیاتی آقاؤں اور ان کے ہر مفاد کے تحفظ کے لئے خود کو پیش کر دیا –
اسرائیل بھی شاید وہابیوں کو نہ پسند کرتا ہوگا مگر ایران کی طرف اس کی نفرت بھی سعودی عرب سے کچھ کم نہیں ہے – اگر ایران کا ڈر نہ ہوتا تو اب تک اسرائیلی صیہونی فلسطینیوں کو راکھ بنا کر اڑا چکے ہوتے جب کہ باقی عرب ممالک جو وہابی سلفی ہیں وہ اسرائیل کو ہر ممکن امداد دیتے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں صرف بیان بازی کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس ایران فلسطین کی ہر ممکن امداد کرتے ہوے اسے اسرائیل کے خلاف منظم ہونے میں بھی مدد دے رہا ہے –

آج کے دن تک بھی سعودی عرب کی اسرائیل کے ہاتھ پہ کی گیی بعیت موجود ہے -سعودی عرب کے وہابی نظریات کے مطابق شیعہ کو کافر قرار دینا ان کا پہلا مقصد ہے اور اس کے لئے وہ ہمیشہ سے شیعہ مخالف دہشت گردی کی حمایت کرتے رہے ہیں – سعودی عرب نے نے ایران کی دشمنی میں رسول پاک (ص) کی حدیث کو بھی بلا دیا ہے جس میں کلمہ گو کا خون بہانے سے ممانعت کی گیی تھی – سعودی عرب کی ایران کے ساتھ مخاصمت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے بدو خود برطانوی سامراج کے غلام رہے ہیں جبکہ ایران ایک بہت اہم اور تاریخی اہمیت کا ملک ہے جو کبھی برطانوی سامراج کے زیر سایہ نہیں رہا – اسرائیل کی ایران سے دشمنی کی وجہ یہ بھی ہے کہ باقی عرب ملکوں کے برعکس ایران نے گیارہ سپتمبر کے بعد کی دنیا میں بھی فلسطینیوں کی حمایت ترک نہیں کی

نیتن یاہو اور اس کے ساتھ صیہونیوں کی طرف سے ایران کے خلاف سازشوں کے سلسلہ تب سے نہایت شدت کے ساتھ جاری ہے جب سے لبنان کے شیعہ گروہ حزب اللہ کے ہاتھوں دو ہزار چھ میں اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑی ہے – حزب اللہ جس کو ایران کی حمایت حاصل تھی اس نے جنوبی لبنان اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کو عبرت ناک شکست دی جس کے بعد اسرائیل کو یہ اندازہ ہوا کہ جب تک ایران کو کمزور نہیں کیا جائے گا تب تک فلسطین کی تحریک آزادی کو دبانا نہ ممکن ہے – اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسرائیل اور سعودی عرب کے وہابی تکفیری بدو دونوں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں –

اور یہ تعاون کوئی خفیہ نہیں ہے – نیتن یاہو اپنے ایک بیان میں کہ چکا ہے کہ ایران کے خلاف وہ سعودی عرب اور دوسرے وہابی عرب مملک کی حمایت سے امریکا پہ اس سلسلے میں دباؤ ڈالے گا کہ ایران کے لئے معاملات میں کوئی نرمی نہ برتی جا سکے-

 اس بات کا امکان ہے کہ نیتن یاہو اس بات سے واقف ہو گا لیکن برطانوی اور فرانسیسی سامراج نے اس حقیقت سے خود نظریں چرا رکھی ہیں کہ تیرویں صدی میں منظر عام پہ آنے والا ابن تیمیہ ہی وہ پہلا مذہبی رہنما تھا جس نے جنگ کو مقدس جنگ یعنی جہاد کا نام دیا اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کی بنیاد رکھی – ابن تیمیہ کے مطابق سعودی نظریے میں وہابیوں کو چار دشمنوں سے لڑنے کا درس دیا گیا ہیں ان میں یہودی ، زرتشت ، مسیحی سب سے پہلے ہیں اس کے بعد شیعہ اور پھر وہ مسلمان جو سعودی اور وہابی نظریات سے اختلاف کرتے ہیں اور ان نظریات کے مطابق اپنی زندگی نہیں گزار رہے – اور سب سے آخر میں وہ لوگ جو وہابی نظریات کے مطابق اسلام سے منحرف ہو چکے ہیں لیکن خود کو پھر بھی مسلمان کہتے ہیں – ان سب سے جنگ و جدال و قتل کرنا وہابی اسلام کے نظریات کے عین مطابق بلکہ اس کی بنیاد ہے –

ایک برطانوی جاسوس جس نے اس اتحاد کو پروان چڑھایا

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی برطانوی سامراج کو عرب میں اپنا کردار بڑھانے اور مفادات حاصل کرنے کا سنہری موقعہ نظر آیا جس میں اس کی نگاہ کرم ابن سعود اور آل سود خاندان پہ آ کے ٹھہری – آل سود نے ہاشمیوں کو بے دخل کر پہلے خود اقتدار پہ قبضہ کیا اور پھر برطانوی سامراج کی خوشنودی کے لئے خادمین حرمین شریفین کی چھتری تلے ہر قدم اٹھایا جس میں سے صیہونیوں کے لئے ایک ریاست کی راہ ہموار کرنا پہلے قدم تھا –

سعودیوں کے لئے اس حکومت کی بنیادیں استوار کرنے کا بنیادی کام برطانوی جاسوس اور نمائندے بیل نے سرانجام دیا – انیس سو انیس میں پیرس میں ہونے والے کانفرنس میں بیل نے عرب ممالک کو سلطنت عثمانیہ سے آزاد کرا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی – بیل کی سربراہی میں سعودیہ سے وہابی سلفیوں کا ایک وفدبھی بھیجا گیا جس میں سعودی عرب کے شہر طائف کے رہنے والے مکّہ کے مفتی کا تیسرا بیٹا بھی شامل تھا –

جنوری ، تین انیس سو انیس کو فیصل اور چین وائزمین نے عرب یہودی تعاون کی کمیٹی کے کاغذات پہ دستخط کے جس میں سعودیوں اور یہودیوں نے ایک دوسرے کے مفادات کی یقین دہانی کرائی اور اسی معاہدے میں بالفور کے منصوبے کے مطابق عرب دنیا میں اسرائیل یا یہودیوں کے لئے ایک ریاست کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کیا گیا –

جس میں یہ بیان بھی دیا گیا

ہم عرب صیہونی تحریک کی حمایت کا کرتے ہیں ہماری نظر میں صیہونی تحریک کے مقاصد اور مطالبات بہت مناسب اور بہتر ہیں – ہم اس قرار داد کی حمایت بھی کرتے ہیں جس میں صیہونی تحریک کی جانب سے ایک صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لانے کا منصوبہ ہے – ہم یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم صیہونیوں کے ان منصوبوں کی حمایت جاری رکھیں گے اور ہر ممکن مدد اور تحفظ دینے کی کوشش کریں گے اور اس کے جواب میں ہم اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں –

تب سے اب تک بیل کے تیار کردہ منصوبہ سازوں نے ہر موقعہ پر ایک دوسرے کے تحفظ کے لئے اور ایک دوسرے کے مفادات کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی ہے – رشیا ٹوڈے کی پاؤلا سلیر کے مطابق اسرائیل اور سعودی عرب دونوں اپنے مشترکہ مفادات کو مختلف طریقوں سے حاصل کر رہے ہیں – اسرائیل پراپیگنڈے کے زور پر اور سعودی پیٹرو ڈالر کے زور پہ اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں – سامراجی طاقتوں کی مہربانی سے انہوں نے خطے کو دو ایسی ریاستوں کا تحفہ دیا جو حد درجہ انتہا پسند ہیں اور دونوں آپس میں اتحادی ہیں جن کے مفادات مشترک ہیں اور عرب ملکوں میں سب سے متنازعہ خاندان آل سود سعودی عرب پہ حکومت کر رہا ہے

اتحاد اور مضبوط ہوگیا

انیس سو اڑتالیس سے آج تک سعودی عرب نے فلسطین اور فلسطینیوں کے خلاف ہر ممکن سازش کر کے ان کی جد و جہد آزادی کو ناکام بنایا اور اس سلسلے میں سعودی سفارت کاروں اور شہزادوں کی اسرائیلی نمائندوں سے لا تعداد ملاقاتیں ہوئی ہیں – ایک سینیئر ملٹری عھدے دار کے مطابق سعودی عرب کے انٹلیجنس چیف بندر بن سلطان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور انیس سو نوے سے ہی کافی قریبی رکھے ہیں

جبکہ کچھ مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ روابط انیس سو چھہتر سے سے قائم ہیں جس میں سعودی حکومت نے تیونس کے وزیر خارجہ کے توسط سے اسرائیل سے رابطہ کر کے اسے اپنے قبضہ شدہ علاقوں کو چھوڑنے کے بدلے بھاری رقوم کی لالچ دی گیی –

سعودیہ کی اسرائیل کی حمایت اسرائیل کی فلسطین کے خلاف فوجی کاروائیوں میں بھی جاری رہی ہے – دو ہزار نو میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پہ حملہ کی بھی سعودی عرب کی جانب سے حمایت کی جا رہی تھی -سعودی کی جانب سے ایران پہ حملے کے لئے اسرائیل کے ساتھ مسلسل ملاقاتیں رہی ہیں –

دو ہزار چھ میں جنوبی لبنان میں اسرائیل اور شیعہ گروہ حزب اللہ کے درمیان ہونے والی چونتیس روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی وزیر ا عظم نے ایک بیان میں سعودی عرب کے باد شاہ کی تعریف کی اور کہا کہ میں سعودی عرب کے باد شاہ عبدللہ سے بہت متاثر ہوں اور وہ اس صورت حال میں اپنی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں – یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ جب حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصروف لبنان اور فلسطین کے مفادات کا تحفظ کر رہی تھی تو سارے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین اور حزب اللہ کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف رہے – جولائی دو ہزار دس میں اسرائیلی انٹلیجنس کے چیف نے سعودی عرب کا دورہ کیا جس میں دونوں ممالک نے اپنے مشترکہ مفادات اور ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی ضرورت پہ زور دیا اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت ایران پہ حملہ اور ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا –

سعودی اور اسرائیل کا تعلقات میں حالیہ دنوں میں بہت تیزی دیکھنے میں آی ہے جس میں سب سے اہم کردار بندر بن سلطان کا ہے – بندر بن سلطان کو انٹلیجنس کا چیف بھی اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے لگایا گیا ہے ورنہ اس سے پہلے شہزادے مکرم کو چیف لگانے کا سوچا جا رہا تھا – فلسطینی ویب سائٹ المنار کے مطابق اس بات کا فیصلہ سعودی اور باقی وہابی ملکوں کے نمائندوں نے مشترکہ طور پر سوئٹزر لینڈ میں کیا تھا –

 

Source :

http://www.larouchepub.com/other/2013/4043saud_isr_v_pal_iran.html

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nike Shox Deliver
    -
  2. Nike Air Max 90 VT
    -
  3. Nike Shox TL3
    -
  4. Others
    -
  5. Nike Free 5.0
    -
  6. Nike Air Max 2011
    -
  7. Retro Jordan Shoes Big Ups
    -
  8. Women Jordan Shoes
    -
  9. New Balance 1500 Mens
    -
  10. Air Jordan 11 Faible
    -
  11. Nike Air Max 95 DYN FW
    -
  12. Nike Air Max 1 Tape
    -
  13. Burberry kvinder Windbreaker
    -
  14. Jordan B'MO
    -
  15. MBT Chaussures Femme
    -
  16. Christian Audigier Dress
    -
  17. Air Jordan 13 Retro
    -
  18. Gucci Shoulder Bags
    -
  19. Fatina Jaber
    -
  20. hermes
    -
  21. Tee Shirt Christian Audigier Homme
    -
  22. Gucci Sandals
    -
  23. Dolce&Gabbana
    -
  24. Ed Hardy Relojes
    -
  25. Prada
    -
  26. Levis Vaqueros Mujer
    -
  27. Jimmy Choo Shoes
    -
  28. Christian Louboutin Wedges Pas Cher
    -
  29. Casadei
    -
  30. Nike Free 3.0 Homme
    -
  31. Nike Zoom Structure + 16 Zapatos
    -
  32. Nike Air Max 2013
    -
  33. Nike More Style Women(283)
    -
  34. Longchamp Le Pliage
    -