ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا: ڈیرہ جیل پر حملہ اور ہماری بے بسی – از اجمل جامی
ارادہ تو یہ تھا کہ ممنون و مشکورنو منتخب صدر کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین تک پہنچائی جاتیں۔ اور پھرپنجاب کے متوقع گورنر جناب چوہدری سرور بارے بھی کچھ ‘شگوفے’ بکھیرے جاتے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل توڑنے کا جو افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس سے قطع نظری کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہو پا رہی۔ دیکھیئے یہ کوئی لمبی چوڑی رام کہانی ہر گز نہیں ہے۔ بات سیدھی سی ہے۔
کرہ ارض پر واحد اسلامی ایٹمی ریاست کے ہاں دہشت گرد بیس گاڑیوں میں دندناتے آئے اور خیبر پختونخواہ کی تیسری بڑی جیل ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریبا تین گھنٹے کے آپریشن کے بعد دو سو بیالیس قیدیوں کو اپنے ساتھ لے اڑے۔ ہم کب تک یہ راگ الاپتے رہیں گے کہ “فلاں حملہ قابل مذمت ہے، اور یہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے وغیرہ وغیرہ”۔ آئیے چند دستیاب حقائق کی روشنی میں مل کر اپنی بے بسی اور حکومتی نالائقی کا ماتم کریں۔
کئی چھوٹی خبریں اس واقعہ کی شدت تلے دب گئیں۔ مثلا یہ کہ ڈیرہ جیل میں نوے فیصد عملہ ایسا تھا جنہیں بنوں جیل حملہ کے بعد بنوں سے یہاں تعینات کیا گیا تھا، مشیر جیل خانہ جات ملک قاسم یا پھر آئی جی جیل خانہ جات ہی اس انوکھے فیصلے کی منطق سمجھا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ دو چار روز پہلے ڈیرہ جیل میں قید کالعدم تنظیموں کے اراکین کا جیل عملے کے ساتھ ٹھیک ٹھاک تصادم بھی رپورٹ ہوا تھا۔ خبر کے مطابق قیدیوں نے بیرکس میں واپس جانے سے انکار کر دیا، جوابا جیل عملے نے آنسو گیس اور شیلنگ کا استعمال بھی کیا لیکن قیدی ڈٹے رہے۔
ان کا مطالبہ یہ تھا کہ انہیں موبائل فون واپس کئے جائیں۔ بالآخر جیل عملے نے کالعدم تنظیموں کے ان قیدیوں کو موبائل فون واپس کر دیئے تھے جس کے بعد تصادم کی فضا بہتر ہوئی تھی۔ اور پھر اس واقعے کے محض دو چار روز بعد ہی ڈیرہ جیل پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہو جاتا ہے۔ اب ایسے میں کیا جیل عملے کی مجرمانہ غفلت سے نظریں چرائی جاسکتی ہیں؟
یہا ں چار سو تراسی ملزمان قید تھے اور یہ صوبے کی تیسری بڑی جیل ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں نواسی جیلیں ہیں۔ پینسٹھ کو انتہائی حساس قرار دیا جاچکا ہے۔
ڈیرہ جیل انہی میں سے ایک ہے۔ جیل انتظامیہ متعلقہ حکام کو بے شمار خطوط ارسال کر چکی ہے کہ انہیں مناسب عملہ اور سازو سامان دستیاب نہیں لیکن مجال ہے جو متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو۔ ڈیرہ جیل پر حملے کی پیشگی انٹیلی جنس اطلاعات بھی دی جا چکی تھیں۔ جس کے بعد چالیس سے زائد اہلکاروں کی نفری مزید تعینات کی گئی۔ نجانے وہ چالیس سے زائد اہلکار حملے کے وقت کہاں تھے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ڈیرہ سینٹرل جیل سے محض پچاس یا ساٹھ گز کی دوری پر پولیس لائنز بھی واقع ہے۔
حملے کے وقت پولیس لائنز کے اہلکار غالبا گہری نیند سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس سے زائد دھماکے بھی انہیں جگانے کے لیے نا کافی تھے۔ اور تو اور دہشت گرد لاوڈ سپیکر پر قیدیوں کے نام پکارتے رہے اور جوابا ان کے ساتھی نعرے لگاتے ان کے ساتھ فرار ہوتے رہے۔ تین اطراف سے کیے گئے اس حملے کی تدبیر دیکھیے، ایک سکول اور گھر پر قبضہ کیا گیا جہاں سے راکٹ فائر کیے گئے۔ مرکزی دروازے پر خود کش حملہ کیا گیا، اندھا دھند فائر کھولا گیا اور پھر جیل کے اندر پیش قدمی جس سہولت کے ساتھ کی گئی اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ یعنی اکثر دروازے تو جیسے پہلے سے ہی کھول کر رکھ دیئے گئے ہوں۔
اس ھزیمت سے جڑے مزید پہلووں سے توآپ یقینا اب تک آشکار ہو چکے ہوں گے لہذا مزید آہ و بکا شاید رائیگاں ہی جائے۔ خیبر پختونخواہ کا ایک مقامی اخبار طالبان رہنما عدنان رشید کے حوالے سے لکھتا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پر ایک ماہ کا وقت لگا اور اس پر ایک کروڑ روپے کی لاگت آئی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ دہشت گرد جیل حملے سے واپسی پر اپنے قیمتی ہتھیار اور خود کش جیکٹس بھی چھوڑ آئے۔ یعنی انہیں ایمونیشن کی ہر گز کمی نہیں۔ دوسری جانب پولیس کے پاس موجود ہتھیاورں کا جائزہ لیجیے، بوسیدہ ہتھیار جنہیں چلانے والے خود جدید ٹریننگ سے محروم ہیں۔ ایسے میں دہشت گردوں کہ منہ توڑ جواب دینے کا سوچنے والے یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
مان لیا کہ نئی حکومت کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں جو وہ پچاس دنوں میں صوبے کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دے لیکن جناب ہمارے کچھ اداروں کا حکومتوں کی تبدیلی سے قطع لینا دینا نہیں، پولیس، انٹیلی جنس یا بیوروکریسی وغیرہ انہی اداورں میں شامل ہیں۔ ان کے ذمے تو کچھ مستقل فریضے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی کارکردگی پر کسے جواب دہ ہیں؟
انڈر سٹاف جیلیں جن کے پاس جدید اسلحے اور تربیت کی شدیدکمی ہے، محض اپنے سپاہیوں کی قربانیاں ہی پیش کر سکتیں ہیں۔ سپاہی بھی وہ جن کا پورا خاندان صرف انہی کے سہارے گزر بسر کر رہا ہوتا ہے۔ خیبر پختونخواہ پولیس نے پچھلے کئی سالوں میں جو قربانیاں پیش کیں ہیں یقینا ان کی مثال نہیں لیکن یاد رکھیے اس میں ارباب اقتدار بھی برابر کے قصور وار ہیں۔ اگر حملہ آور جدت اختیار کر سکتے ہیں تو آپ نے ان سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی؟
ہمارے ہاں تو اب تک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی باقاعدہ فورس ہی تشکیل میں نہیں آسکی۔ باقی کیا رونا رویا جائے۔ ایسے میں پھر استاد نصرت جاوید جو حل پیش کرتے ہیں اسی پر ایمان لانے کو جی چاہتا ہے۔ بے بسی اور انتہائی افسردگی کے عالم میں نصرت صاحب کا فرمانا تھا کہ “ہماری حکومت کی دہشت گردوں سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔
ہاں البتہ میاں صاحب اور عمران خان صاحب ماضی قریب میں طالبان سے مذاکرات کی آواز لگاتے رہے ہیں تو کیوں نہ ملک بھر کی تمام جیلوں میں قید دہشت گردوں کو رہا کرکے جذبہ خیر سگالی کا پیغام دیا جائے، جس سے نہ صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی بلکہ ہماری جیلیں بھی ایسے حملوں سے بچی رہیں گی۔”
حقائق تو یہ بھی ہیں کہ ہماری اکثر جیلیں بیچ آبادی کے واقع ہیں جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے۔ ہمارے ہاں جیلوں کی سکیورٹی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ بدنام زمانہ ابو غریب جیل، گوانتانامو بے یا کسی بھی ایسی جیل کا جائزہ لے لیجیے جہاں ہائی ویلیو قیدی رکھے جاتے ہوں۔ ملٹی لئیر سکیورٹی سے لیس یہ جیلیں آبادی سے دور بنائی جاتی ہیں۔ ان کے راستوں پر بھر پور سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے جیل تک پہنچنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ نجانے کیوں ہم اب تک بنیادی اقدامات ہی اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ سکیورٹی میں جدت لانا تو بہت بعد کی بات ہے۔
حملے کے گھنٹوں بعد مزید فورسز ان ایکشن نظر آئیں، فضائی نگرانی بھی خوب دیکھنے کو ملی، اور کرفیو بھی ناٖفذ کر دیا گیا۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ حملہ آور محض چند گھنٹوں کے اندر اندر قبائلی علاقوں میں جا پہنچے اور یہاں اب کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔ جیسے دہشت گرد کہیں غلطی سے آس پاس کی آبادی میں محصور ہو کر رہ گئے ہوں۔
دوسری جانب حملہ آوروں کی بربریت کا اندازہ کیجیے کہ وہ جاتے ہوئے شیعہ مسلک کے پانچ قیدیوں کے گلے کاٹ گئے اورلیڈی کانسٹیبلز بھی ساتھ لے گئے۔ گلاب بی بی کے بارے تو عدنان رشید نے اقرار کیا ہے کہ وہ ان کے قبضے میں ہے۔ نجانے یہ کونسا مذہب ہے جس کی تعلیمات پر طالبان عمل پیرا ہیں۔
حملہ رات کو کیا گیا، اگلے دن صدارتی انتخاب تھا۔ عمران خان صاحب بھی ووٹ ڈالنے آئے۔ اس موقع پر جب ان سے ڈیرہ جیل حملہ کے بارے پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ ہم تو مولانہ کی گزری حکومت کا گند صاف کر رہے ہیں۔ اور جب مولانا بولے تو انہوں نے یہ فتوی صادر کیا کہ خیبر پختونخواہ میں حکومت چلانا خان صاحب کی پارٹی کے بس کا کام نہیں۔ یعنی ہمارے یہ زیرک سیاستدان ایسے افسوسناک سانحے پر بھی پوائنٹ سکورنگ سے باز نہیں آتے۔
اور تو اور جب محترمہ عاصمہ شیرازی نے صوبے کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے استفسار کیا کہ کیا طالبان ہمارے دشمن ہیں تو موصوف اس بارے کوئی بھی واضح نقطہ نظر بیان کرنے سے قاصر رہے۔ یعنی نہ تو وہ طالبان کی کھل کر مذمت کر سکے اور نہ ہی انہیں دشمن گردان کر ان کے خلاف لڑنے کا بیان جاری کر سکے۔ جہاں سیاستدانوں کی بصیرت ایسی ہو وہاں ایسے واقعات کا پیش آنا شاید کسی اچنبھے کی بات نہیں۔
مزید سن لیجیے، کمشنر ڈی آئی خان مشتاق جدون اور وزیراعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک نے اس (افسوسناک) حملے کی فی الفور انکوائر ی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ جاننے کے بعد دھاڑیں مارنے کو جی چاہ رہا ہے کیونکہ ایسا ہی کوئی بیان بنوں جیل حملے کے بعد بھی سننے کو ملا تھا۔ کون جانے بنوں جیل حملہ انکوائری میں کیا لکھا گیا تھا۔ یقینا کچھ سفارشات بھی سامنے آئی ہوں گی۔ ان پر عمل درآمد غالبا مریخ والے کریں گے۔
یہ بھی سنتے جائیے کہ اب ہمارے راہنماوں کی پسندیدہ اڈیالہ جیل پر بھی سکیورٹی رسک منڈلا رہے ہیں اور لاہور والوں نے کوٹ لکھپت جیل سے ملحقہ آبادیوں میں سرچ آپریشن کیا ہے۔ سنا ہے حسب معمول کچھ مشکوک افراد گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ کہیے کیا آپ بھی استاد نصرت کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں۔ یا پھر اپنی بے بسی پر ماتم کرتے رہنا ہماری تقدیر میں لکھا جا چکا ہے؟
اور کیا رونا روئیں کہ بد قسمتی سے اب شاید ہماری ‘امینوٹی’ بھی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ۔۔۔
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ۔۔۔
(اجمل جامی بحیثیت اینکر اور نمائندہ خصوصی دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ممبئی حملہ اور پاک بھارت میڈیا کے کردار پر ان کا تحقیقی مقالہ کتاب کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ ملکی سیاسی اور معاشرتی منظر نامے پر لالٹین اردو پوائنٹ اور دنیا بلاگز کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں)