پاکستان میں سول سوسائٹی اورآن لائن بلاگرز نشانے پر – از احمد رشید
نوٹ: ہم کچھ اضافہ اور ترمیم کے ساتھ بی بی سی اردو پر شائع ہونے والا جناب احمد رشید کا مضمون پوسٹ کر رہے ہیں ترمیم میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی میں تکفیری دیوبندی شدت پسند، نہ کہ سنی مسلمان، ملوث ہیں – اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ پاکستان میں ریاستی تشدد اور انتہا پسندی کی مزاحمت کرنے والے سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کے ارکان نہ صرف دائیں بازو کے تشدد پسندوں کے نشانے پر ہیں بلکہ ریاست کے پر وردہ چند جعلی لبرلز بھی سول سوسائٹی اور آن لائن بلاگرز کو ہراساں اور خاموش کرنے میں مصروف کار ہیں
اب جبکہ پاکستان عام انتخابات سے قبل ایک انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی حقوق اور سِول سوسائٹی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور شخصیات کو دائیں بازو کے عناصر، جعلی لبرلز، خفیہ ادارے اور انتہا پسند گروپ زیادہ ہراساں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں جعلی لبرلز کی بڑی تعداد کا تعلق اسلام آباد میں موجود ایک تھنک ٹینک سے ہے جس کی بنیاد کراچی کی ایک متمول خاتون نے کچھ سال پہلے رکھی تھی – یہ نام نہاد لبرلز ہیں جو سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے تکفیری دیوبندی مولویوں کو امن اور ترقی کے سفیر کے طور پر پیش کرتے ہیں اور بیک وقت فوج، پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے قصیدے پڑھتے ہیں ان میں سے اکثر جیو ٹیلی ویژن کے ایک معروف تجزیہ کار کے شاگرد ہیں یا ان کے میگزین میں لکھتے ہیں ان میں سے ایک خاتون جعلی لبرل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لشکر جھنگوی کے بانی اکرم لاہوری دیوبندی کی قریبی عزیزہ ہیں
ملک کے سماجی اور سیاسی منظرنامے پر غیر سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی جگہ سکڑتی نظر آرہی ہے۔ ان میں سے بہت سے کارکنوں کومسلسل دھمکیاں دی جاتی ہیں، کئی کو قاتلانہ حملوں میں ہلاک کیا گیا ہے، اور بہت سے کارکنوں کو ان حالات میں روپوش ہونا پڑا ہے۔
ان کارکنوں کے لیے عدم تحفظ کی یہ صورتحال ایسے وقت میں پائی جاتی ہے جب ملک کو ایسے کارکنوں کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ریاست تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
اسی کے ساتھ ملک میں عدم برداشت و عدم رواداری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے قانون و بحث کے بجائے تشدد و اسلحے سے کام لیتے ہیں۔
جولائی سنہ 2012 سے اب تک پولیو کے خاتمے کے لیے قطرے پلانے والی مہم کے کم سے کم انیس کارکنوں کو طالبان اور دیگر مذہی شدت پسندوں نے قتل کیا ہے۔
اس میں سب سے سنگین واقعہ دسمبر کا ہے جس میں پولیو مہم کے پانچ کارکنوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے ان کارکنوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔
لیکن ان ہلاکتوں کے سلسلے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے اور لگتا ہے کہ حکومت انہیں روک بھی نہیں سکتی ہے۔ اس سال تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیو کے خلاف مہم کے کارکنوں کے ساتھ تعینات پولیس والوں کو خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
کردار کشی کی مہم
“جولائی سنہ 2012 سے اب تک پولیو کے خاتمے کے لیے قطرے پلانے والی مہم کے کم سے کم انیس کارکنوں کو طالبان اور دیگر مذہی شدت پسندوں نے قتل کیا ہ”
اکتوبر میں سوات کی چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسفزئی پر طالباننے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ وہ اس حملے میں بچ گئی تھیں لیکن پھر ان کو برطانیہ منتقل کر دیا گیا جہاں ان کا مزید علاج جاری ہے۔ حکومت نے ان کے خاندان کو بھی پاکستان سے برطانیہ منتقل کر دیا۔
ملالہ یوسفزئی کو نوبل کے امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے لیکن ان کے لیے ابھی بھی اپنے ملک واپس لوٹنا خطرناک ہے۔
اسی طرح حقوق ا نسانی کی نامور شخصیات کو ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
دائیں بازو کے سیاستدان عمران خان او ان کی جماعت پی ٹی آئی نے حالیہ دنوں میں ایسا ہی حملہ وکیل اور حقوق انسانی کے کارکن عاصمہ جہانگیر پر کیا۔
انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عاصمہ جہانگیر کو عبوری انتظامیہ میں وزیر اعظم نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ ’جانبدار‘ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کو کسی جماعت نے اس عہدے کے نامزد نہیں کیا تھا۔
چھ فروری کو عاصمہ جہانگیر نے پی ٹی آئی کے الزامات اور بیانات کے جواب میں کہا تھا کہ ان کی ساری باتیں نہ صرف غیر منطقی ہیں بلکہ بدنیتی پر مبنی بھی ہیں۔تحریک انصاف نے جواب میں کہا تھا کہ وہ ’ان کے بیان کو نوٹ‘ کر رہے ہیں۔
“حقوق ا نسانی کی نامور شخصیات کو ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے”
اس کی ایک اور مثال انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں نمائندے کی کردار کشی کو کوشش ہے۔ حال میں تنظیم اور نمائندے علی دایان حسن دونوں پر یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ ان کی حالیہ رپورٹ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
پاکستان کی فوج نے اس رپورٹ کو ’جھوٹ، جانبدار اور پروپیگنڈا‘ قرار دیا تھا۔ فوج نے الزام لگایا کہ ہیومن رائٹس واچ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
فوج نے کبھی پہلے اس طرح کی زبان نہیں استعمال کی ہے۔ فوج کا یہ بیان ہیومن رائٹس واچ کی عالمی رپورٹ کے بارے میں جاری کیا گیا۔ چھ سو پینسٹھ صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پاکستان کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی اور انٹیلیجنس کے ادارے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں شدت پسند گروپوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں پر حملہ کریں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ دو ہزار بارہ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور صوبہ بلوچستان میں فوج نے بلا خوف و خطر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
“اگر انتخابات ہوتے ہیں تو غیر سرکاری تنظیموں کا مبصر کے طور پر کردار اہم ہوگا جیسے کہ ماضی میں بھی رہا ہے۔ تاہم ان تنظیموں کے لیے عدم تحفظ کی صورتحال اور حکومت کی ان کو سکیورٹی دینے میں ناکامی کے ساتھ ان ان تنظیموں کے کام اور بیانات پر کچھ حلقوں کے عدم برداشت اور پر تشدد رد عمل کی وجے سے مبصرین خاصے پریشان ہیں”
سکیورٹی افواج پر یہ الزامات سپریم کورٹ اور صحافتی تنظیموں سمیت کئی گروپ چند سالوں سے عائد کر رہے ہیں۔ پچھلے سال مارچ کے مہینے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے فوج کے خفیہ اداروں کو ٹوکا بھی تھا۔
خواتین اور اقلیتوں پر حملے
سنہ 2012 میں پاکستان میں چار سو سے زیادہ شیعہ مسلک کے افراد کو سنی شدت پسندوں نےکلِکنشانہ بنا کر ہلاک کیا، جن میں بیشتر کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ برادری سے تھا۔ اس سال شیعہ ہزارہ برادری کے سو افراد ایسے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس سلسلے پر قابو نہیں پا سکتی۔
پاکستان میں سنہ دو ہزار بارہ میں شدت پسندوں نے چار سو سے زیاد شیعہ افراد کو نشانہ بنا کر قتل کیا
حال ہی میں ٹویٹر اور بلاگز پر سرگرم شیعہ، سنی، احمدی و دیگر متحرک کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جنوری کے مہینے میں کوئٹہ میں لشکر جھنگوی کے تکفری دیوبندی دہشت گردوں کے حملے میں معروف شیعہ ہزارہ بلاگر عرفان خودی علی شہید ہوۓ ان کے شہید ہونے کے کچھ عرصہ بعد اسلام آباد میں موجود ایک جعلی لبرل خاتون نے جو لشکر جھنگوی کے بانی اکرم لاہوری دیوبندی کی قریبی عزیزہ بتائی جاتی ہیں لیٹ اس بلڈ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ شیعہ بلاگرز کے خاندانوں کو دھمکیاں دینے پر اتر آئیں اور انہوں نے ایک دیوبندی مولانا کو کچھ معلومات بھی فراہم کیں جس کے بعد کئی افراد بشمول عبدل نیشاپوری، پیجا مستری، زینب بنت علی، شیعہ ہزارہ وائس وغیرہ ٹویٹر سے ریٹائر ہو گئے
ادھر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں 800 سکول بند ہو چکے ہیں اور بلوچستان میں بھی تشدد کی وجہ سے بھی سینکڑوں پرائمری سکول بند ہیں۔ اساتذہ یہ علاقے چھوڑ چکے ہیں اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرنی والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی یہاں سے جانے پر مجبور ہوئی ہیں۔
جولائی 2012 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کرنے والی ایک معروف کارکن فریدہ آفریدی کو قاتلانہ حملے میں ہلاک کیا گیا۔ جنوری 2013 میں صوبے کے ایک مقامی تنظیم کے چھ خواتین سمیت سات افراد کو ایسے حملے میں قتل کیا گیا۔ ان حملوں کے ملزموں کو گرفتار نہیں جیا جا سکا ہے۔
غیر ملکیوں پر بھی حملے
امدادی تنظیموں کے غیر ملکی کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپریل 2012 میں ریڈ کراس کے لیے کام کرنے والے برطانوی مسلمان ڈاکٹر خلیل ڈیل کو اغوا کر کے قتل کیا گیا تھا۔ سنہ دو ہزار بارہ میں ساٹھ سے زیادہ غیرملکی کارکن پاکستان سے چلے گئے یا تو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے یا اس لیے کہ حکام نے ان کے ویزوں میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا۔
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے کئی افردا نے معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے خلاف میّیا مہم چلائی
غیر ملکی تنظیموں پر شک و شبہات میں اضافہ اس لیے بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کے خون کے نمونے کو حاصل کرنے کے لیے ایک جعلی این جی او کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔
تشویتشناک ماحول
توقع ہے کہ آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں عام انتخابات ہو جائیں گے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ حالات خطرناک ہیں۔ کچھ جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے اور حکمراں جماعت کہتی ہےکہ یہ کچھ قوتوں کی خوفناک سازش ہے تاہم وہ ان قوتوں کی شناخت نہیں کرتے۔
اگر انتخابات ہوتے ہیں تو غیر سرکاری تنظیموں کا مبصر کے طور پر کردار اہم ہوگا جیسے کہ ماضی میں بھی رہا ہے۔ تاہم ان تنظیموں کے لیے عدم تحفظ کی صورتحال اور حکومت کی ان کو سکیورٹی دینے میں ناکامی کے ساتھ ان ان تنظیموں کے کام اور بیانات پر کچھ حلقوں کے عدم برداشت اور پر تشدد رد عمل کی وجے سے مبصرین خاصے پریشان ہیں۔
Source: Free Speech Pakistan (FSP)