جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے
یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے
بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے
یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے
ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے
یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے
شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے
Further readings
Just who is not a kafir? – by Amir Mir
Kafir factory: Shia kafir, Qadiani kafir – by Mohammed Hanif
Only 50 percent Sunnis in Pakistan accept Shias as Muslims – Pew Survey
Kafir kafir Shia kafir, jo na manay wo bhi kafir – by Zalaan
7 September 1974: When Pakistan formally became a Takfiri Republic
Takfiri Deobandi militants’ jihad against mushrik Barelvis and kafir Shias
Manqabat: Everyone who recites Kalima of Allah and Muhammad is a Muslim (Hum Muhammad kay kalma go Musalman hain)
Comments
Latest Comments
کیا شیعہ کافر ہیں؟ ناصبی دلائل کا تجزیہ
شیعہ کافر ہیں کیونکہ یہ صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں
ناصبی حضرات کی طرف سے سب سے زیادہ کشت و خون اس فتنے کی وجہ سے پھیلا ہے جب وہ “ناموسِ صحابہ” کے نام پر نہ صرف اہل تشیع پر کفر کے فتوی لگا رہے ہوتے ہیں، بلکہ انکا قتل عام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ سب قتل و غارت ناصبی حضرات کی “صحابہ پرستش” کا نتیجہ ہے ورنہ اللہ کی نازل کردہ شریعت میں اسلام و کفر کی بنیاد ہرگز ہرگز صحابہ نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اسکا رسول (ص) ہیں۔
سب و شتم کی شرعی سزا
ذیل کی دو چیزوں میں فرق کیجئے:
سب و شتم کرنا (بُرا بھلا کہنا، گالیاں دینا)
لعنت و تبرا اور غلط فعل پر تنقید کرنا
اسلامی شریعت میں کسی بھی شخص پر سب و شتم کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے۔
مگر لعنت و تبرا عین اسلامی افعال ہیں ۔ یہ “سنت الہیہ ” و “سنت رسول” ہے کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے بذات خود لعنت کی ہے اور قرآن و سنت میں انکا مکمل ثبوت موجود ہے۔ لعنت کا مطلب ہے کہ کسی کے غلط فعل یا ظلم پر اللہ سے اسکے حق میں بددعا کرنا۔ جبکہ تبرا کا مطلب ہے اس سے بیزاری ظاہر کرنا۔
مذہب اہلبیت میں کسی پر سب و شتم کرنے کی ہرگز کوئی اجازت نہیں۔ اگر کوئی جاہل شخص یہ کام سر انجام دیتا ہے تو یہ اسکا اپنا ذاتی فعلِ حرام ہے اور اسکا مذہب اہلبیت سے کوئی تعلق نہیں۔
ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق فعل حرام انجام دینے پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور اس سے بیزاری اختیار کی جا سکتی ہے، اور اگر بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر لعنت (اللہ سے بددعا) کی جا سکتی ہے، مگر سب و شتم کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا مومن کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے اور اللہ اسکے متعلق فرماتا ہے:
[سورۃ النساء، آیت 93] وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
ترجمہ:
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اوراس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے
اب چاہے یہ عمدا قتل کسی عام مسلمان سے ہو، یا پھر کسی صحابی یا صحابی زادے سے ہوا ہو، اسلامی شریعت میں اسکا ایک ہی قانون ہے اور اسکی ایک ہی سزا ہے۔
صحابہ پرستش کی بیماری میں مبتلا ہو کر اسلامی شریعت کو تبدیل کرنا
مسئلہ یہ ہے کہ آج اگر ہم کسی صحابی کے غلط فعل کا تذکرہ کرنا چاہیں، اس پر تنقید کرنا چاہیں، اس سے تبرا (بیزاری) اختیار کرتے ہوئے اللہ سے انکے حق میں بددعا (لعنت کریں) تو ناصبی حضرات فوراً پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہو گئے ہیں کیونکہ یہ صحابہ پر سب و شتم (برا بھلا کہنا، گالیاں دینا) کر رہے ہیں، حالانکہ ان تینوں چیزوں (تنقید، تبرا و لعنت) کا سب و شتم سے کوئی تعلق نہیں۔
ناصبی حضرات کی خود ساختہ شریعت کی بات الگ ہے، ورنہ اسلامی شریعت میں صحابی کے کسی غلط فعل پر تنقید کرنے سے کوئی کفر صادر آتا ہے اور نہ ہی تبرا و لعنت کرنے سے (مثلاً رسول ﷺ نے معاویہ ابن ابی سفیان پر لعنت کی تھی کہ اللہ اسکا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ پڑھئیےمکمل آرٹیکل یہاں پر)۔ یا پھر صحابی حکم بن العاص پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی (لنک)۔
بلکہ اسلامی شریعت تو اس حد تک واضح ہے کہ اگر کوئی شخص انتہا پر جا کر کسی صحابی پر سب و شتم کرتے ہوئے برا بھلا بھی کہتا ہے تب بھی وہ مسلمان ہی رہے گا اور اسکا کفر سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اسکی سزا موت ہے۔ افسوس کہ ناصبی حضرات صحابہ پرستش کی بیماری میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ بلا شرم و خوف اسلامی شریعت کو تبدیل کر کے اپنی خود ساختہ شریعت بنا کر بیٹھ گئے ہیں، جہاں وہ صحابہ کے نام پر دوسروں کو قتل کر رہے ہوتے ہیں۔
اسلامی شریعت میں صحابی پر سب و شتم کی شرعی سزا
ابو ہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں:
4916 – حدثنا محمد بن الصباح البزاز، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا سفيان الثوري، عن منصور، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار “رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:یہ کبیرہ گناہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کے خلاف ناحق بات کی جائے اور یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ ایک دفعہ گالی دینے پر دو دفعہ گالی دی جائے۔ سنن ابو داؤد، کتاب 41 (کتاب الادب)، حدیث 4859 (آنلائن لنک)
اور سنن ابو داؤد میں ہے:
4894 حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد عن العلاء عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دو گالم گلوچ کرنے والے جو کچھ ایک دوسرے کو بکتے ہیں ان سب کا گناہ پہل کرنے والے پر ہوگا جب تک کہ مظلوم جسے پہلے گالی دی گئی زیادتی نہ کرے۔ حوالہ: سنن ابو داؤد (آنلائن لنک)
چنانچہ شریعت کا اصول ہے کہ کسی مسلمان کی شان میں ناحق باتیں کرناکبیرہ گناہ ہے مگر اس کی سزا میں زیادہ سے زیادہ جواب میں ایک دفعہ گالی دی جا سکتی ہے، اور اگر جواب میں دو دفعہ گالی دے دی جائے تو یہ بھی گناہ کبیرہ ہو گا۔ یہ اسلام میں سب و شتم کرنے کی شرعی سزا ہے،اور یہ سزا اس بات سے قطع نظر ہے کہ یہ سب و شتم ایک عام مسلمان کو کیا جائے یا پھر کسی صحابی کو۔
عبد اللہ سے روایت ہے:
رسول اللہ (ص) نے فرمایا : ایک مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کر دینا کفر۔ حوالہ: صحیح بخاری، جلد ۹، کتاب ۸۸، حدیث ۱۹۷
حضرت ابو بکر خود اس بات کی گواھی دیتے ہیں۔
4365 – حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن يونس، عن حميد بن هلال، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا هارون بن عبد الله، ونصير بن الفرج، قالا حدثنا أبو أسامة، عن يزيد بن زريع، عن يونس بن عبيد، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مطرف، عن أبي برزة، قال كنت عند أبي بكر رضي الله عنه فتغيظ على رجل فاشتد عليه فقلت تأذن لي يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أضرب عنقه قال فأذهبت كلمتي غضبه فقام فدخل فأرسل إلى فقال ما الذي قلت آنفا قلت ائذن لي أضرب عنقه . قال أكنت فاعلا لو أمرتك قلت نعم . قال لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلى الله عليه وسلم . قال أبو داود هذا لفظ يزيد قال أحمد بن حنبل أى لم يكن لأبي بكر أن يقتل رجلا إلا بإحدى الثلاث التي قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم كفر بعد إيمان أو زنا بعد إحصان أو قتل نفس بغير نفس وكان للنبي صلى الله عليه وسلم أن يقتل
ترجمہ:
ابو برزہ کہتے ہیں کہ میں ابو بکرابن ابی قحافہ کے ساتھ تھا۔ اُن کا ایک آدمی سے جھگڑا ہو گیا اور گرم الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسول! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا گلا کاٹ دوں؟ میرے یہ الفاظ سن کرجناب ابو بکر کا غصہ دور ہو گیا اور وہ اٹھ کر اندر چلے گئے۔ پھر انہوں نے مجھ کو بلا بھیجا اور کہا: “تم نے ابھی کیا کہا کہ اگر میں کہوں تو تم اس کو قتل تک کر دو گے”؟ میں نے کہا،”جی ہاں”۔ اس پر حضرت ابو بکر بولے، “نہیں، میں اللہ کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ اس بات کی کسی کے لیے اجازت نہیں ہے”۔ حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب 38، حدیث4350 (آنلائن لنک)
اور سنن نسائی میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے اس شخص کو کہا “تیری ماں تجھ پر روئے کہ تو وہ کام کرنا چاہتا ہے جو رسول ﷺ کی وفات کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں رہا)۔
معاویة بن صالح اشعری، عبد اللہ بن جعفر، عبید اللہ، زید، عمرو بن مرة، ابونضرة، ابوبرزة سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ایک شخص پر سخت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ اس شخص کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! خدا کی قسم اگر تم مجھ کو حکم دو تو میں اس شخص کی گردن اڑا دوں۔ میری یہ بات کہتے ہی وہ ایسے ہو گئے کہ جیسے ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو اور ان کا غصہ اس شخص کی طرف سے زائل ہوگیا اور کہنے لگے کہ اے ابوبرزہ تمہاری ماں تم پر روئے (یہ عرب کا ایک محاورہ ہے) یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت کی اسناد میں غلطی ہوگئی ہے اور ابونضرہ کی بجائے ابونضر ٹھیک ہے اور اس کا نام حمید بن ہلال ہے حضرت شعبہ نے اس طریقہ سے روایت کیا ہے۔
کیا ناصبی حضرات کے لیے یہ اسوہ صدیقی کافی نہیں کہ وہ صحابہ کے نام پر دوسروں کو کافر بنانے اور اُن کو قتل کرنے سے باز آ جائیں؟ مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ ناصبی حضرات صحابہ پرستش کی بیماری کا ایسا شکار ہیں کہ جس میں انہوں نے صحابہ کے مرتبے کو اٹھا کر انہیں رسول ﷺ کا ہم مرتبہ بنا دیا ہے (معاذ اللہ)۔
بے شمار مواقع ایسے آئے کہ صحابہ نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی موجودگی میں ایک دوسرے کو گالیاں دیں، مگر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس جرم کی سزا کے طور پر کبھی کسی شخص کے قتل کا حکم جاری نہیں کیا۔
امام احمد بن حنبل ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں:
“ایک شخص حضرت ابو بکر کو گالیاں دے رہا تھا اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ جب وہ شخص باز نہیں آیا تو حضرت ابو بکر نے بھی اسے جواب دینا شروع کر دیا۔ اس پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اٹھ کر چلے گئے۔ ابو بکر نے کہا، “یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، جب تک وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیٹھے سنتے (اور مسکراتے) رہے۔ مگر جیسے ہی میں نے جواب دینا شروع کیا تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ناراض ہو گئے” رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا، “اے ابو بکر، جب وہ تمکو گالیاں دے رہا تھا، تو ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اسکو جواب دے رہا تھا۔ مگر جب تم نے خود جواب دینا شروع کیا تو شیطان آ گیا۔ اور میں اور شیطان ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے”۔ حوالہ: (مسند احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 436)
یہی روایت سنن ابو داؤد میں بھی موجود ہے:
4898 – حدثنا عيسى بن حماد، أخبرنا الليث، عن سعيد المقبري، عن بشير بن المحرر، عن سعيد بن المسيب، أنه قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس ومعه أصحابه وقع رجل بأبي بكر فآذاه فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثانية فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثالثة فانتصر منه أبو بكر فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انتصر أبو بكر فقال أبو بكر أوجدت على يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” نزل ملك من السماء يكذبه بما قال لك فلما انتصرت وقع الشيطان فلم أكن لأجلس إذ وقع الشيطان ” .
ترجمہ:
عیسی بن حماد لیث، سعید مقبری، بشیربن محر ر، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام بھی تھے ایک شخص نے حضرت ابوبکر کے بارے میں زبان درازی کی اور انہیں ایذا دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش رہے اس نے پھر دوسری بار ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو تکلیف دی تو بھی وہ چپ رہے اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو ابو بکر نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ جونہی ابوبکر نے جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے تو ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا جب تم نے اسے جواب دیا تو درمیان میں شیطان آپڑا لہذا جب شیطان آپڑے تو میں بیٹھنے والا نہیں ہوں۔
حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب الادب (آنلائن لنک)
صحابہ کے ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے واقعات
صحیح بخاری اور دیگر کتب میں سینکڑوں واقعات ہیں جہاں صحابہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں۔ مگر اسکے باوجود نہ رسول ﷺ نے، صحابہ نے، نہ تابعین نے ۔۔۔ کسی نے بھی اسکے لیے انہیں کافر مانا اور نہ ہی ان کے قتل کا فتوی جاری کیا۔
2620 ـ حدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن سليمان، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن نساء، رسول الله صلى الله عليه وسلم كن حزبين فحزب فيه عائشة وحفصة وصفية وسودة، والحزب الآخر أم سلمة وسائر نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان المسلمون قد علموا حب رسول الله صلى الله عليه وسلم عائشة،۔۔۔، فأرسلن زينب بنت جحش، فأتته فأغلظت، وقالت إن نساءك ينشدنك الله العدل في بنت ابن أبي قحافة. فرفعت صوتها، حتى تناولت عائشة. وهى قاعدة،فسبتهاحتى إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لينظر إلى عائشة هل تكلم قال فتكلمت عائشة ترد على زينب، حتى أسكتتها. قالت فنظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى عائشة، وقال ” إنها بنت أبي بكر ”.
ترجمہ:
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ازواج دو گروہوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ ایک گروہ میں عائشہ، حفضہ، صفیہ اور سودہ تھیں، جبکہ دوسرے میں ام سلمہ اور دوسری ازواج شامل تھیں۔ مسلمانوں کو علم تھا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عائشہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس لیے اگر ان کو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو کوئی تحفہ دینا ہوتا تھا تو وہ اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حضرت عائشہ کے گھر میں پہنچ جائیں تو پھر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو تحفہ دیا جائے۔۔۔۔پھر انہوں نے ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کو بھیجا جنہوں سخت الفاظ میں کہا، ” آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ازواج درخواست کرتی ہیں کہ ان سے اور ابن ابو قحافہ کی بیٹی سے برابر کا سلوک کیا جائے۔” پھر انہوں نے حضرت عائشہ کے منہ پر بلند آواز میں انہیں بُرا بھلا (عربی لفظ : فسبتها) کہنا شروع کر دیا حتیکہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ شاید اب وہ جواب دیں۔حضرت عائشہنے پھر حضرت زینب کو جواب دینا شروع کیااور اس زور کا دیاکہ حضرت زینب خاموش ہو گئیں۔ اس پر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےحضرت عائشہ کی طرف دیکھ کر کہا، “یہ واقعی ابو بکر کی بیٹی ہے۔”
حوالہ: صحیح بخاری، جلد 3، کتاب 47، حدیث 755 (آنلائن لنک)
Sunan of Abu-DawoodHadith 4880 Narrated byAisha, Ummul Mu’minin
Ibn Awn said: I asked about the meaning of intisar (revenge) in the Qur’anic verse: “But indeed if any do help and defend themselves (intasara) after a wrong (done) to them, against them there is no cause of blame.” Then Ali ibn Zayd ibn Jad’an told me on the authority of Umm Muhammad, the wife of his father. Ibn Awn said: It was believed that she used to go to the Mother of the Faithful (i.e. Aisha). She said: The Mother of the Faithful said: The Apostle of Allah (peace be upon him) came upon me while Zaynab, daughter of Jahsh, was with us. He began to do something with his hand. I signalled to him until I made him understand about her. So he stopped. Zaynab came on and began to abuse Aisha. She tried to prevent her but she did not stop. So he (the Prophet) said to Aisha: Abuse her. So she abused her and dominated her. Zaynab then went to Ali and said: Aisha abused you and did (such and such). Then Fatimah came (to the Prophet) and he said to her: She is the favourite of your father, by the Lord of the Ka’bah! She then returned and said to them: I said to him such and such, and he said to me such and such. Then Ali came to the Prophet (peace be upon him) and spoke to him about that.
اور صحیح بخاری میں ابوصالح سے روایت ہے:
508 ـ حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يونس، عن حميد بن هلال، عن أبي صالح، أن أبا سعيد، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم وحدثنا آدم بن أبي إياس قال حدثنا سليمان بن المغيرة قال حدثنا حميد بن هلال العدوي قال حدثنا أبو صالح السمان قال رأيت أبا سعيد الخدري في يوم جمعة يصلي إلى شىء يستره من الناس، فأراد شاب من بني أبي معيط أن يجتاز بين يديه فدفع أبو سعيد في صدره، فنظر الشاب فلم يجد مساغا إلا بين يديه، فعاد ليجتاز فدفعه أبو سعيد أشد من الأولى، فنال من أبي سعيد، ثم دخل على مروان فشكا إليه ما لقي من أبي سعيد، ودخل أبو سعيد خلفه على مروان فقال ما لك ولابن أخيك يا أبا سعيد قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ” إذا صلى أحدكم إلى شىء يستره من الناس، فأراد أحد أن يجتاز بين يديه فليدفعه، فإن أبى فليقاتله، فإنما هو شيطان ”
ترجمہ:
ابوصالح وسمان روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جمعہ کے دن دیکھا کہ وہ کسی چیز کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ رہے تھے، پس ایک جو ان نے جو (قبیلہ) بنی ابی معیط سے تھا، یہ چاہا کہ ان کے آگے سے نکل جائے، تو حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے سینہ میں دھکا دیا، لیکن اس جوان نے کوئی راستہ نکلنے کا ماسوائے ان کے آگے کے نہ دیکھا تو پھر اس نے چاہا کہ نکل جائے، ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے سے زیادہ سخت اسے دھکا دیا، اس پر اس نے ابوسعید کو بُرا بھلا کہا (عربی لفظ: فنال) ، اس کے وہ مروان کے پاس گیا، اور ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو معاملہ ہوا تھا، اس کی مروان سے شکایت کی، اور اس کے پیچھے (پیچھے) ابوسعید (بھی) مروان کے پاس گئے، تو مروان نے کہا کہ اے ابوسعید تمہارا اور تمہارے بھتیجے کے درمیان کیا معاملہ ہے، ابوسعید نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو، جو اسے لوگوں سے چھپالے پھر کوئی شخص اس کے سامنے سے نکلنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اسے ہٹا دے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لئے کہ وہ شیطان ہی ہے۔ صحیح بخاری، جلد 1، کتاب 9، حدیث 488 (آنلائن لنک)
نوٹ: اوپر اس نوجوان کے لیے (تابعی) کا لفظ ہم نے اپنی طرف سے استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ یہ صحیح بخاری کے سعودی اہل حدیث مترجم (انگریزی) محسن خان کی طرف سے ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے:
2732 ـ حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، قال سمعت أبي أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ قال قيل للنبي صلى الله عليه وسلم لو أتيت عبد الله بن أبى. فانطلق إليه النبي صلى الله عليه وسلم وركب حمارا، فانطلق المسلمون يمشون معه، وهى أرض سبخة، فلما أتاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال إليك عني، والله لقد آذاني نتن حمارك. فقال رجل من الأنصار منهم والله لحمار رسول الله صلى الله عليه وسلم أطيب ريحا منك. فغضب لعبد الله رجل من قومه فشتما، فغضب لكل واحد منهما أصحابه، فكان بينهما ضرب بالجريد والأيدي والنعال، فبلغنا أنها أنزلت {وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما}
ترجمہ:
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کہا گیا کہ وہ عبد اللہ بن ابئ کی خبر لیں۔ چنانچہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایک گدھے پر سوار ھوئے اور مسلمانوں کی ہمراہی میں ایک بنجر میدان سے ہوتے ہوئے چلے۔ جب آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عبد اللہ بن ابئ کے پاس پہنچے تو اس نے کہا، “مجھ سے دور رہیں۔ اللہ کی قسم آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گدھے کی بدبو مجھے پریشان کر رہی ہے۔” اس پر ایک انصاری نے کہا، “اللہ کی قسم، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گدھے کی بدبو تمہاری بدبو سے اچھی ہے” اس پر عبد اللہ کے قبیلے کا ایک شخص عبد اللہ کی خاطر غصے ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں (نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی موجودگی میں) دینی شروع کر دیں۔ اس پر دونوں کے دوستوں کو غصہ آ گیا اور دونوں گروہوںمیں ڈنڈوں، ہاتھوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ھوئی: “اگر مومنین کے دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو۔”(49:9)
حوالہ: صحیح بخاری، جلد 3، کتاب 49، حدیث 856 (آنلائن لنک)
حسان بن ثابت صحابی رسول اللہ (ص) کے شاعر تھے اور جب کفار رسول اللہ (ص) کی ہجو میں شعر کہتے تھے تو حسن بن ثابت صحابی انکو جواب دیتے تھے۔ مگر یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے واقعہ افک میں حضرت عائشہ پر ناپاک دامنی کا الزام لگایا تھا۔ اس وجہ سے صحابہ انکو بُرا بھلا کہتے تھے۔ انکے متعلق صحیح بخاری اور صحاح ستہ میں بے شمار روایات ہیں:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَی عَائِشَةَ فَشَبَّبَ وَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَی مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ لَسْتَ کَذَاکَ قُلْتُ تَدَعِينَ مِثْلَ هَذَا يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ فَقَالَتْ وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنْ الْعَمَی وَقَالَتْ وَقَدْ کَانَ يَرُدُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ:
محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعیب، اعمش، ابی الضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان شاعر نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تعریف میں یہ شعر پڑھا۔ یعنی عاقلہ ہے پاک دامن ہے اور نیک بخت ہی ۔ صبح کرتی ہیں بھوکی مگر بے گناہ کا گوشت نہیں کرتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ تم تو ایسے نہیں ہو میں نے عرض کیا آپ ایسے آدمی کو کیوں آنے دیتی ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ (وَالَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ الخ) آخر آیت تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اندھے ہونے سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے (کفار کو) جواب دیتے تھے۔ حوالہ:
صحیح بخاری، کتاب التفسیر
اور حسان بن ثابت کی یہ حدیث:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَائِ الْمُشْرِکِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَيْفَ بِنَسَبِي فَقَالَ حَسَّانُ لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنْ الْعَجِينِ وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ لَا تَسُبُّهُ فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ:
محمد عبدہ ہشام بن عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرکین کی ہجو بیان کرنے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نسب کا کیا کرو گے (یعنی مشرکین میں بعض کا ہم سے نسبی تعلق ہے اگر ان کی ہجو کرو گے تو میری بھی ہجو ہوگی) حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں آپ کو اس سے اس طرح نکال دوں گا جس طرح بال آٹے سے نکالا جاتا ہے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کیا انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ کے سامنے حسان کو بُرا بھلا کہا۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے:
سعد بن معاد کھڑے ہو گئے اور کہا، “یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! اللہ کی قسم، میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس سے نجات دلاؤں گا۔ اگر وہ شخص اوس کے قبیلے سے ہو گا، تو ہم اس کا سر تن سے جدا کر دیں گے۔ اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج سے ہو گا، تو ہم کو حکم دیں، ہم اس کی تعمیل کریں گے۔” اس پر سعد بن عبادہ، جو کہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے نیک شخص تھے، قبائلی عصبیعت میں آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا، “اللہ کی قسم، تم جھوٹ بولتے ہو، تم اس کو قتل نہیں کر سکتے ہو، اور کبھی قتل نہیں کرو گے” اس پر اسید کھڑا ہو گیا اور (سعد کو) کہا،” اللہ کی قسم، تم جھوٹ بولتے ہو،اللہ کی قسم، ہم اس کو قتل کریں گے۔ اور تم خود منافق ہو اور ایک منافق کا دفاع کر رہے ہو”اس پر اوس اور خزرج کے قبائل جوش میں آ گئے اور ایک دوسرے سے لڑنا چاھتے تھے، جبکہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وہاں موجود تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کو اتنی دیر چپ کرایا کہ وہ خاموش ہو گئے۔ اس دن میں اتنا رویا کہ میرے آنسو رکتے تھے اورنہ مجھے نیند آتی تھی۔
حوالہ: صحیح بخاری، جلد 3، کتاب 48، حدیث
829
حضرت سلیمان بن صرد سے روایت ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا و قَالَ ابْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ أَحَدُهُمَا تَحْمَرُّ عَيْنَاهُ وَتَنْتَفِخُ أَوْدَاجُهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ کَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ الَّذِي يَجِدُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ فَقَالَ الرَّجُلُ وَهَلْ تَرَی بِي مِنْ جُنُونٍ
ترجمہ:
یحیی بن یحیی، محمد بن علاء، علاء ابومعاویہ اعمش، عدی بن ثابت حضرت سلیمان بن صرد سے روایت ہے کہنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں (صحابہ)نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی دی ان میں سے ایک آدمی کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں رسول اللہ نے فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ آدمی اسے کہ لے تو اس سے (یہ غصہ) جاتا رہے (وہ کلمہ یہ ہے)أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ وہ آدمی عرض کرنے لگا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ میں جنون خیال کر رہے ہیں
حوالہ: صحیح مسلم، کتاب 32، حدیث 6316
علقمہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:
أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ سِمَاکٍ ذَکَرَ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَتَلَ هَذَا أَخِي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَتَلْتَهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ قَالَ نَعَمْ قَتَلْتُهُ قَالَ کَيْفَ قَتَلْتَهُ قَالَ کُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَحْتَطِبُ مِنْ شَجَرَةٍ فَسَبَّنِي فَأَغْضَبَنِي فَضَرَبْتُ بِالْفَأْسِ عَلَی قَرْنِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَکَ مِنْ مَالٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي إِلَّا فَأْسِي وَکِسَائِي۔۔۔
ترجمہ:
اسماعیل بن مسعود، خالد، حاتم، سماک، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران ایک شخص آیا۔ ایک دوسرے شخص کو کھینچتا ہوا رسی پکڑ کر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس کو قتل کیا ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر یہ اقرار نہ کرتا تو میں گواہ لاتا۔ اس دوران اس نے کہا میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس طریقہ سے مارا اور قتل کیا ہے۔ اس نے کہا میں اور اس کا بھائی دونوں لکڑیاں اکھٹا کر رہے تھے ایک درخت کے نیچے اس دوران اس نے مجھ کو گالی دی مجھ کو غصہ آیا میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری (وہ مر گیا) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے پاس مال ہے جو کہ تم اپنی جان کے عوض ادا کرے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تو کچھ نہیں ہے علاوہ اس کمبل اور کلہاڑی کے۔ حوالہ: صحیح مسلم، کتاب 16، حدیث 4164
نوٹ: پہلے صحابی (قاتل) نے یھی وہی بہانہ کیا جو کہ سپاہ صحابہ قتل کرنے کے بعد کرتی ہے (یعنی اس نے اس لیے قتل کیا کیونکہ دوسرے نے گالی دی تھی)۔
مگر کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے واقعی قاتل کا یہ بہانہ قبول کرکے اس کو آزاد چھوڑ دیا؟
اور کیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے واقعی مقتول صحابی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر اور مرتد قرار دے دیا؟
الغرض سینکڑوں روایات اہلسنت کتب میں موجود ہیں جہاں صحابہ آپس میں ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں، ایک دوسرے سے جوتیوں اور ڈنڈوں سے لڑ رہے ہیں۔ (ایسے مزید روایات آپ یہاں پڑھیے)۔
ہم بات مختصر کر کے تاریخ کے چند وہ واقعات بیان کرتے ہیں جہاں معاویہ ابن ابی سفیان، اسکے گورنر، اسکی آل 90 سال تک منبر نبی سے علی ابن ابی طالب، فاطمہ ، حسن و حسین علیھم السلام پر سب و شتم کرتے رہے، حالانکہ یہ آلِ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ صحابی بھی تھے۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، – وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ – قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، – وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ – عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ:
معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] کو بُرا بھلا (تَسُبَّ)نہ کہو؟ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:[آنلائن لنک]
وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا
ترجمہ:
اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] کو بُرا بھلا کہوں تو تب بھی میں کبھی علی کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا۔
اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
“بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سِب (بُرا بھلا کہنا) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ “سباب المومن فسوق و قتالہ کفر” یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔” اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔ ”
اور معاویہ ابن ابی سفیان سے منتقل ہوتی ہوئی یہ بُرائی اسکے گورنروں میں پہنچی:
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، – يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ – عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ – قَالَ – فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا – قَالَ – فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ .۔۔۔
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
آل نبی (جو کہ صحابی بھی ہیں) ان پر سب و شتم کے بیسیوںمزید ثبوت پر مشتمل آرٹیکل آپ یہاں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔
آل نبی پر 90 سال تک یونہی بنی امیہ کھلے عام سب و شتم کرتے رہے مگر کسی امام یا فقہیہ نے انہیں اس بنیاد پر کافر نہیں کہا بلکہ ناصبی حضرات تو آج بھی بنی امیہ کے ان خلفاء کو بطور ہیرو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔
سنی علماء کے فتاوی’
حضرت عمر بن عبد العزیز:
کوفہ سے ان کے ایک عامل نے لکھا:
مجھے ایک ایسے آدمی کے متعلق مشورہ دیں کہ جس نے حضرت عمر کو گالی دی ہو۔ تو آپ نے جواب میں یوں لکھا کہ، “کسی بھی مسلمان شخص کو کسی کو گالی دینے پر قتل کرنا جائز نہیں ہے سوائے اس کہ کہ اس نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دی ہو۔ پس جس نے نبی کو گالی دی ہو، اس کا خون مباح ہو گیا۔
(1)الشفاء بتعریف حقوق مصطفی’، جلد 2، صفحہ 325، مطبوعہ رھلی
(2)سلالہ الرسالہ۔ ملا علی قاری صفحہ 18، طبع اردن
(3)طبقات الکبری جلد 5 صفحہ 369 طبع جدید بیروت
امام مالک
امام مالک کا موقف یہ ہے کہ:
“جس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دی، اس کو قتل کر دیا جائے، اور جس نے صحابہ کو گالی دی اس کو ادب سکھایا جائے گا”
الشفاء قاضی عیاض جلد 2، صفحہ ، 376 طبع بریلی
الصارم المسلول صفحہ569 بحوالہ دفاع ابو ہریرہ، طبع پشاور
امام مالک کی یہ رائے صواعق محرقہ صفحہ 259 طبع مصر میں بھی موجود ہے۔
امام نووی الشافعی
آپ جمہور علماء اہل سنت کا اتفاق رائے بیان کرتے ہوئے لکہتے ہیں:
“جمہور آئمہ اور فقہائے اہل سنت کا متفقہ مسلک ہے کہ صحابہ کرام کو گالی دینا حرام اور فواحش محرمات سے ہے مگر اس کی سزا قتل نہیں”
النووی شرح مسلم جلد 2، صفحہ 310، طبع دھلی
ملا علی قاری حنفی
فقہ حنفیہ کے ترجمان ملا علی قاری اپنی رائے یوں پیش فرماتے ہیں:
“ابو بکر و عمر کی توہین کرنے والے کو کافر کہنا اور اسے قتل کرنا نہ صحابہ سے ثابت ہے اور نہ ہی تابعین سے اور آئمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ، امام محمد اور امام ابو یوسف کے نزدیک تو ایسے شخص کی گواہی بھی قابل قبول ہے۔
حوالہ: سلالتہ الرسالہ صفحہ 19، طبع اردن
اور اسی بات پر مزید بحث کرتے ہوئے آپ اپنی کتاب “شرح فقہ اکبر” میں لکھتے ہیں:
“اور حضرت ابو بکر اور عمر کو گالی دینے سے کوئی کافر نہیں ہو جاتا جیسا کہ ابو شکور سالمی نے اپنی کتاب”تمہید میں اس قول کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں کیونکہ ہر ایک مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔ جیسا کہ حدیث رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں ثابت ہے اور اس حکم کے تحت ابو بکر و عمر اور تمام مسلم برابر ہیں۔ اور اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ کسی نے شیخین (ابو بکر و عمر) بلکہ ان کے ساتھ ختنین (علی و عثمان) کو بھی قتل کر دیا ہے تب بھی ایسا شخص اھل سنت و جماعت کے نزدیک اسلام سے خارج نہیں ہو گا۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ گالی کا درجہ قتل سے کمتر ہے۔”
حوالہ: (شرح فقہ اکبر، صفحہ 86، کانپور)
امام حافظ ابن تیمیہ الدمشقی
ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول صفحہ 759، طبع مصر میں توہین صحابہ کے عدم کفر کی دلیلیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“انبیاء کرام کے علاوہ کسی کو سب و شتم کرنے سے کفر لازم نہیں آتا ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں بعض صحابہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہے اور کوئی ان کے کفر کا قائل نہيں ہے۔”
علامہ ابن حجر الہیثمی المکی
مصر کے مشہور محدث ابن حجر تحریر کرتے ہیں۔
“میں نے کسی اہل علم کے کلام میں یہ بات نہیں پائی کہ صحابی کو گالی دینا قتل کو واجب کر دیتا ہو سوائے اس کہ کے ہمارے بعض اصحاب اور اصحاب ابو حنیفہ کے اطلاق کفر کے متعلق آتا ہے۔ مگر انہوں نے بھی قتل کی تصریح نہیں کی۔ اور ابن منذر کہتے ہیں کہ میں کسی شجص کو نہیں جانتا ہوں کہ جو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد کسی کو گالی دینے والے کا قتل واجب گردانتا ہو۔ ”
صواعق محرقہ صفحہ 255، طبع مصر
علامہ علاء الدین الحصکفی الحنفی
آپ اپنی کتاب در المختار باب الامامت صفحہ 76 طبع دھلی میں رقمطراز ہیں۔
“اور جتنے لوگ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں وہ کافر نہیں ہوتے۔ حتی کہ خارجی بھی کافر نہیں جو ہماری جان و مال کو حلال جانتے ہیں۔ اور جو لوگ صحابہ کو سب کرنا جائز جانتے ہیں اور صفات باری تعالی کے منکر ہیں اور خدا کے دیدار کے جواز کے منکر ہیں یہ لوگ کافر نہیں کیونکہ ان کا اعتقاد تاویل اور شبہ پر مبنی ہے۔ اور ان کے کافر نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی گواہی مقبول ہے۔ (یعنی کافر ہوتے تو ان کی گواہی مسلمانوں میں قبول نہ ہوتی۔ چونکہ ان کی گواہی مقبول ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہیں)۔
علامہ عبد الحئ لکھنوی
بر صغیر کے یہ مشہور عالم ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
“مفتی بہ اور صحیح ترین قول شیعہ کی عدم تکفیر کا ہے۔ اور ابو بکر اور عمر کو سب کرنا موجب کفر نہیں ہے۔ یہی قول ابو حنیفہ کے مذھب کے مطابق ہے۔”
اس کے بعد ابو شکور سالمی کی کتاب التمہید فی بیان التوحید کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔
” اور جو یوگ یہ کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) افضل ہیں شیخین سے تو یہ بدعت ہے کفر نہیں۔ اور جو کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) کے مخالف مثل عائشہ و معاویہ کے لعنت بھیجنا واجب ہے، یہ سب بدعت ہے کفر نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تاویل سے صاور ہوا ہے۔ اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کو سب کرنے کی وجہ سے شیعہ کو کافر کہنا محققین کے مذھب کے سراسر خلاف ہے”
(مجموعہ الفتاوی’ جلد 1، صفحہ 3 اور 4، طبع لکھنؤ)
مولانا رشید احمد گنگوہی
ان کے نزدیک صحابہ کو ملعون اور مردود کہنے والا سنت و جماعت سے خارج نہیں ہوتا۔ سوال و جواب ملاحضہ فرمائیں۔
سوال۔ صحابہ کو ملعون اور مردود کہنے والا،کیا اپنے اس کبیرہ گناہ کی وجہ سے سنت و جماعت سے خارج ہو جائے گا؟ جواب۔ وہ اپنے اس کبیرہ گناہ کی وجہ سے سنت و جماعت سے خارج نہیں ہو گا۔
(ملخصا” از فتاوی’ رشیدیہ، جلد 2، صفحہ 130، طبع دھلی)
مولانا محمد رفیق اثری مدرس دارالعلوم محمدیہ ملتان لکھتے ہیں۔
“صحیح یہ ہے کہ قتل کی سزا صرف نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات پر بیہودہ گوئی پر دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ابو بکر نے فرمایا کہ نبی کے بعد کسی کو کہ استحقاق نہیں ہے کہ اس پر تنقید کی وجہ سے ناقد کو قتل کر دیا جائے۔ (سنن نسائی)”
(السیف المسلؤل مترجم صفحہ 520، طبع ملتان)
اہل حدیث کے نامور عالم حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی بحوالہ صارم المسلول لکھتے ہیں۔
“نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دینے کی سزا قتل ہے کسی امیر المومنین کو گالی دینے والے کو محض اس بناء کے قتل نہیں کیا جا سکتا”
(احیاء االمیت مع تنویر الابصار صفحہ 46 طبع لاہور)
جسٹس ملک غلام علی (جماعت اسلامی)
“میں کہتا ہوں کہ سب و شتم کا آغاز اور اس کے جواب میں سب و شتم کا آغاز جس نے بھی کیا بہت برا کیا۔ آج بھی جو ایسا کرتا ہے بہت برا کرتا ہے۔ لیکن یہ جرم بغاوت کے مترادف نہیں ہے۔ اور نہ اس کی سزا قتل ہے۔ بعض علمائے سلف اس بات کے قائل تو ہوئے ہیں کہ شاتم رسول واجب القتل ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ کسی دوسرے کی بد گوئی کرنا یا گالی دینا اسلام میں ہر گز قتل کا موجب نہیں ہے۔”
(خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ صقحہ 272، طبع، لاہور)
مندرجہ بالا بیان سے کہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شریعت مقدسہ میں توہین صحابہ پر قتل یا کوئی اور سزا ہوتی تو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ضرور اس کو جاری کرتے۔
http://wilayat.net/index.php/ur/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B2/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%9F-%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81/1544-2012-05-29-19-58-07
Are Shias Kafir? Very informative archive (in Urdu):
http://wilayat.net/index.php/ur/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B2/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%9F-%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81
Jo Shia Ulma-e-Karam, i.e. Baqar Majlisi apni tasaneef me Ahle-Sunnat ko kafir likhtay hain wo bhi galat hain
جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ajdeyldzic
[url=http://www.gy1r543h2d4wx8esx06my8k70d49z96us.org/]ujdeyldzic[/url]
jdeyldzic http://www.gy1r543h2d4wx8esx06my8k70d49z96us.org/
シチズン xc 男性
マイケルコース 雑誌掲載バッグ
ジバンシー 緑 トレーナー
ドクターマーチン セール nsビル
バレンシアガ 風 靴
クロエ 銀座 店舗
バーバリー 式
ゴローズ ブログ 金子
靴 サイズ 幼児
d&g tシャツ コピー
north face スノーブーツ
ズッカ 時計 11 00歌詞
シャネル 保存袋
トリーバーチ 財布 最安
Figuring out where the cheapest coupons are these days is important in today’s economy. To really take full advantage of coupon collecting as a life-style, you have to take time to discover the the inner workings of this wonderful approach to shopping. The following article has the things you need to know.
Coach Factory Outlet
アニエスベー 財布 紫 メンズ
ルブタン スマホケース
tissot prs516 gt
ゴヤール サンルイ 紫
ロンシャン 白 レザー
レイバン ライトグレー
wow gold cheats free
chanel 家具
ジミーチュウ インスタ dm
d&g 時計 取扱 新潟
mcm 素材
wow gold guide tailoring
ラルフローレン 大丸心斎橋
ゴヤール を持つ芸能人
アルマーニ スーツ 20代
コンバース 限定色
ズッカ 古着
フェラガモ コピー版
グッチ tv
ニクソン 財布 二つ折り
アルマーニ スーツ ベルト
アークテリクス silo
アナスイ 女
ザノースフェイス 岡山
ゴローズ 工具
マーク ゴム ぱちもん
Last up was Megan Cummins who presented soap.
ray ban rb4147
Without confidence there is no way to “give yourself” to the situation.
ray ban uk
Decide on a variety less space-consuming than your family flames for excellent installing.
ray ban 2140
ノーノーヘア vip pv
ダンヒル 、スーツ、ボタン
miumiu 服 中古
フェラガモ お得に買う
サングラス 眼鏡 上から
クロエ お宝
アナスイ 鏡 diy
アークテリクス レプリカ
Today we have established Tri-Star relating to a great provide who is going to creating simply put.
nike air max outlet
Be neutral on topics that have nothing to do with work.
nike air max 90 womens
The chart helps visualize the risk/reward equation while the Rule of 20 provides objective calculations of the upside or downside to fair value.
nike air max 90 white
It truly is essential to treat the wow gold ahead of bringing for more time lasting very good glance.
Not only fiber, these foods are complex carbohydrates that are needed for energy.
nike air max hyperfuse
Using a virtual IP address assigned by this network will also change your IP address, and thus your ID online.
nike air max white
ドクターマーチン 越谷レイクタウン
ゴヤール バック関東
ティファニー 財布 革
オメガ 番号 意味
アークテリクス hyllus
ガガミラノ 時計 偽物 2ch
ガガミラノ は防水
ロエベ アマソナ芸能人
シャネル 新聞
コール ハーン フラグメントデザイン 中古
ズッカ 腕時計 デジタル 電波
ラルフローレン 眼鏡ケース
フィットフロップ メンズ
エンジェルクローバー 時計 ピンク dvd
Do not disregard your company’s rules just because you are the boss.
cheap nike air max
Ibland blir det uppenbart att du mste byta namn p ditt fretag.
cheap michael kors purse
And exactly obviously.
cheap nike air max
Hi, the whole thing is going well here and
ofcourse every oone is sharing information, that’s truly fine, keep
up writing.
Also visit my page – homepage (Brian)
ゴヤール バッグ ロゴ
I actually hadn heard of this one until it was pretty much over.
ray ban sale
http://www.stansurestrata.com.au/shoes/nike-roshe-for-womens.html nike roshe for womens
Its name should create a good impression for your customers, so it is necessary to put much thought and care in creating a suitable name.
ray ban 3386
BibliomaniaBibliomania, also called book-madness, was a term first coined by a physician known as Dr.
ray ban sale
Earlier this year the CEO’s Tweets came under scrutiny for possibly tipping his Twitter followers to material nonpublic inside information (see here for details).
ray ban cockpit
The Devil’s Advocate is a 1997 American thriller-horror film directed by Taylor Hackford starring Keanu Reeves, Al Pacino and Charlize Theron, and based on a novel by Andrew Neiderman.
ray ban uk
フォリフォリ リング シルバー
脱毛器 エスピル
ロベルタ japan xvラグビー
グッチ 刻印 数字
アシックス バスケ白青紐
万年筆 書き味 比較
ザノースフェイス usa
ズッカ エコバッグ ファスナー
セイコー スピリット型落ち
As sign of grieving – Flowers has also been used as gifts in funerals.
air max shoes
Except for individuals that would love to be bedazzled by these fishes, they wish to make koi as a pet collection.
nike air max 90 sale
It cheers up dull moods and sets mood for party.
nike air max black
It can be watched in a constant playing mode directly through the Internet source.
michael kors handbags
When speaking to the world of home owners my partner and i, tooth when you find yourself excellent.
michael kors uk
Brad Tavares finally lands a good left hook and a couple of other lighter punches.
michael kors watch
クロエ ペアリング
ダンヒル エリート
ノーノーヘア 140 rar
armani パーカー
アナスイ リング 通販 http://www.deliberije.nl/djnuue/6382-aeqo.html
dior グロス 池袋 http://www.mapsoft.com/deliberately-56184-siyb.html
シチズン 置時計 クリスタル http://www.deliberije.nl/citizen-citizen-citizen-motorize-5%iml%79.html
bally 銀座 閉店 http://www.bajamedical.info/mdn/gqjz-0813-988-27.html
However, it has long, dark evergreen leaves and fruit that is the size and consistency of an apricot.
nike air max 95
Several things can be done to give any Pakistani man a better time with communicating with someone.
ray ban glasses frames
” — MARILYN MONROE, 1954Though Marilyn Monroe’s difficult journey along the path to Hollywood stardom is often traced back to her early career as a model, her connections to the movie industry go back much further.
ray ban sunglasses outlet
– Follow the Check-Up Schedule: When you buy a Ford Fiesta, you will be informed about a check-up schedule for you car.
ray ban 2140
The American red fox is Vulpes fulva; the Old World red fox, V.
ray ban sunglasses outlet
Lenders have their own set of criterion with unique terms and conditions and consequently, each loan has an one of a kind set of criterion for financing.
ray ban 2132
フェリージ トレンチコート
フェラガモ こどもくつ
ゴヤール パリ 免税
ズッカ アウトレット 店舗 幕張
ティファニー ルシダ 刻印
テンデンス 流行 songs
シチズン 3万 プレゼント
The wow gold tend to be modern fastest wow gold and can be superb, These are generally different and look great!
バーバリー 中古洋服 http://humanpoweredhelicopters.org/stingingcell/hlab-1554-teo.html
ミッシェルクラン 時計 販売店 http://aradhanaacademy.com/racism-21696-dnff.html
サングラス ドライブ 9月 http://www.manefeldt.com/container-48643-ubhg.html
wow gold dupe 6.0.3 apk http://www.excuzaitaly.com/8727/gloomy-wowgold-immigrate-vigtcqg-wowgold-evvbrolhvpjf.html
スウォッチ アウトレット 4°c http://emeraldbaybrdb.com/swatch-02614-ucjk.html
Another reason power efficient Freeport part unquestionably Clark Freeport Catch a glimpse of tucked within Angeles, Pampanga.
nike air max command
Realize this is why your property is an inexpensive almost any commodious rooftop.
ray ban rb3025