Liberal voters, narrow minded leaders – by Farhan Q
پنجاب اور لاہور میں بریلوی مکتبہ فکر رکھنے والوں کی اکثریت ہے ،پر وہاں کے لوگوں نے کبھی مذہبی جماعت کو ووٹ نہیں دیے ،مطلب یہ کہ لوگ سیاست اور مذہب کو الگ رکھنا چاہتے ہیں ،
لیکن پنجاب کی بڑی سیاسی جماعتیں ،پنجاب سے اکثریت رکھنے والی فوج ،ایجنسیز اور شخصیات جیسے حمید گل ،عمران خان ،شہباز شریف ،نواز شریف ،رانا ثنااللہ ،حافظ سلمان بٹ وغیرہ اگر طالبان اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کی حمایت کرتے ہوں یا ان کے لیہ نرم گوشہ رکھتے ہوں تو ووٹرز یہ ضرور سوچ رہے ہونگے کہ ان کے ووٹ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر نہیں تھے پر ان جماعتوں کی قیادت مذہب کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہے یا ان کی حمایت کر رہی ہے اور ان کو یہ دیکھ کر ضرور مایوسی ہوئی ہوگی
پاکستان میں سیاسی مذہبی جماعتوں کا نہ تو کامیاب ماضی ہے اور نہ ہی مستقبل – اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کو عبدلوہاب کا سعودی عرب یا ملا عمر کا افغانستان بنا سکتے ہیں تو یہ بڑی بھول ہے ،پچھلی صدی میں عبدلوہاب نجدی کی حکومت صرف چند لاکھ لوگوں پر قائم ہوئی تھی وہ بھی انگریز کی مدد سے ،اور ملا عمر کی حکومت بھی بیس سال کی جنگ کے بعد افغانستان کے کچھ شہروں میں پاکستانی فوج کی مدد سے بنی ،جبکے پاکستان کروڑوں کی آبادی والا ملک ہے جہاں مختلف رنگ و نسل اور مختلف مذہبی خیالات رکھنے والے لوگ رہتے ہیں
اگر عرب ممالک کے پیسوں سے چلنے والے مدرسے میں بیٹھے عالم اور مفتی امیر المومنین بنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ،یا امریکی ڈالروں پر پلنے والے موچھوں والے کچھ فوجی اگر پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ،یا جماعت اسلامی کے بیس ہزار کارکن بیس کروڑ لوگوں پر “اسلامی حکومت ” لانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کی یہ خوہش اور خواب کبھی پورے نہیں ہو سکیں گےاور یہ لوگ بیوقوفوں کی جنّت میں رہ رہے ہیں
حکومت کا معاملہ انتظامی ہے نہ کہ مذہبی، یہی سوچ کر لوگ سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں اور مذہب اور فرقے سے بالاتر ہوکر سوچتے ہیں .پر ان سیکولر ووٹرز کی مذہبی قیادت عوام پر کیا اثر ڈال رہی ہے یہ انے والے سالوں میں ہی پتا چلے گا
میں سوچتا ہوں کہ عمران خان کو کون شیعہ ،قادیانی یا بریلوی ووٹ دیگا ؟
یا رانا ثنااللہ جو سپاہ صحابہ کے پکے حمایتی ہیں ،ان کی جماعت مسلم لیگ کے ووٹز کیا سوچ رہے ہونگے جو دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ؟؟
اگر مسلم لیگ پجاب کی حکومت اہلحدیث جماعت الدعوہ کو فنڈز دیتی ہے جن کو بریلوی ووٹرز کبھی بھی ووٹ نہ دیں تو پھر ان لبرل اور سیکولر ووٹرز کو ووٹ دیتے ہوئے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جنھیں یہ ووٹ دے رہے ہیں وہ مذہبی یا فرقہ وارانہ نہیں ہیں بلکہ مذہب اور فرقوں سے بالاتر صرف عوام کی خدمت کے لئے ہیں
۔ یہ تو داتا دربار ہے۔ محبت کرنے والے لوگوں کا مرکز۔ مگر جو زخم ان محبت کرنے والوں کی روحوں پر لگایا گیا ہے‘ دعا کریں کہ وہ خون کے بغیر مندمل ہو جائے۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ داتا کے ملنگ اگر جوابی کارروائی پر اتر آئے‘ تو خدا جانے کیا سے کیا ہو جائے؟ ایک اور بات ذہن نشین رہے کہ اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی موجودہ لہر سے صرف اہل سنت والجماعت متاثر نہیں ہوئے تھے۔ دہشت گردوں میں ہر فرقے کے لوگ نظر آتے رہے ہیں۔ میں صرف طالبان کی بات نہیں کر رہا‘ ہر طرح کے دہشت گردوں کا حوالہ دے رہا ہوں۔ فرقہ واریت پر مبنی دہشت گردی بھی اس میں شامل ہے۔ متعدد فرقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے دوسرے فرقوں کے خلاف دہشت گردی کی لیکن تحریک اہل سنت یا دوسرے الفاظ میں پیروں فقیروں اور بزرگوں سے عقیدت رکھنے والے بندگان خدا‘ کبھی خونریزی کی طرف راغب نہیں ہوئے۔ خدانخواستہ تحریک اہل سنت سے تعلق رکھنے والے مشتعل ہو گئے‘ تو پھر بات کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے۔ ہمارے ایک طرف روشن اور تابناک مستقبل ہے‘ جس کی میں اکثر خبریں دیتا رہتا ہوں۔ میں اب بھی پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں۔ مگر دوسری طرف یہ بھی اندیشہ ہے کہ ہماری سیاسی‘ مذہبی اور انتظامی قیادتوں نے ہوشمندی سے کام نہ لیا‘ تو تباہی کاخطرہ بھی کچھ کم نہیں۔
Nazir Naji, Jang, 7 July 2010