Dr Shahid Masood: Theft, Slander, Lies and Phobia, all in one – An analysis by Qais Anwar
By Qais Anwar
I wrote the following article for LUBP (Let us build Pakistan) but , after watching the yesterday’s Meray Mutabiq, I could not stop myself from posting it on [another website]. ….. now more and more right wingers are mentioning LUBP on the TV. A few days ago I saw Irfan Siddiqui mentioning it. [Here is an analysis of Dr Shahid Masood’s journalism.]
شاہد مسعود ۔۔۔ سرقہ ؛ دشنام طرازی؛ دروغ گوءی؛ اور جاوے ای جاوے کا مرض
خاموش فلموں کا دور شروع ہوا تو خوبصورت چہرہ اور خوبصورت آواز دونوں ہی پردہ سکرین پر آنے کا معیار بن گءیں ۔ سریلی آواز سے محروم خوبصورت چہرے اس وقت تک انڈسٹری میں
جگہ بنانے سے محروم رہے جب تک پس منظر گانے کا رواج شروع نہ ہوا۔ ہاں مکالمہ نگار شروع سے ہی مختلف تھا۔ اداکار کا کمال یہ ہوتا تھا کہ سب یہ سمجھیں کہ گانے کی آواز بھی اس کی ہے؛ مکا لمہ بھی اس کا اور اداءیگی بھی اسکی۔ ہاں ٹا ءیٹل پر ہمیشہ اصل لوگوں کے نام لکھےجاتے۔ ٹی وی شروع ہوا تو یہ روایت برقرار رہی۔ٹاءیٹل پر مسودہ لکھنے والے ؛ ہدایت کار سمیت سب کے نام آتے رہے ۔ ہاں کبھی کبھی یہ بھی ہواکہ خبط عظمت میں مبتلا لوگ دوسروں سے لکھوا کر اپنےنام سے پیش کرلیتے ۔ ہمارے شاہد مسعود کو بھی شوق تھا کہ وہ خوبصورت لفظ استعمال کریں ۔یہ سچاءی کہ وہ کس کے لفظ بولتے ہیں اس وقت تک لوگوں سے مخفی رہی جب تک انہوں نے اپنے ایک پروگرام کے ابتداءیے میں عرفان صدیقی کا وہ کالم نہیں پڑھ دیا جو ایک دن پہلے نواءے وقت میں چھپ چکا تھا یا پھرجب تک موصوف نے خود ہی کالم نگاری پر طبع آزماءی نہ شروع کر دی۔ پہلے پہل یہ وہ کالم ہی تھے جو ان کی اصل ذہنیت کو سب کے سامنے لے آءے ۔ پاکستانی صحافت کی تاریخ میں سب سے زیادہ گھٹیا پن تک اترنے کا سابقہ اعزازروزنامہ سیاست کو حاصل تھا جو اس حد تک پہنچ جاتا تھا کہ موت کی کوٹھری میں بند ذولفقار علی بھٹو کے لیے ’پاگل ہو گیا’ جیسی شہ سرخیاں لگایا کرتاتھا ۔
لفظوں کے سرقے کے ساتھ ساتھ شاہد مسعود دروغ گوءی کو اس حد تک لے گءے کہ پیشہ صحافت سے وابستہ لوگوں نے بھی اس پر کراہت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ ابھی یہ پچھلے سال ہی کی بات ہے کہ انہوں نے جیو کے پروگرام جواب دہ میں یہ دعوی کیا کہ ڈاکٹر عشرت العباد ان کے ہم جماعت ہیں ۔ اس کا کامران خان نے یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ وہ ہم جماعت تو کیا ہم مکتب بھی نہیں رہے۔
جنرل پرویز مشرف کے استعفی کے ایک دن بعد شاہد مسعود نے رخصتی کے نام سے ایک کالم لکھا جس میں فرمایا’یہ انتہاءی مشکل تقریر تھی جس کا انتظام ایوان صدر میں صدارتی آفس سے ملحقہ کمیٹی روم میں کیا گیا تھا ۔ ایوان صدر میں صدر کے ذاتی عملے کے علاوہ صحافیوں میں صرف میں ہی وہاں موجود تھا ۔۔۔۔۔۔تقریر مکمل کرنے کے بعد صدر میری جانب بڑھے اور اور میں نے گزرے ہفتے میں دوسری بار تھینکس شاہد کے الفاظ سنے۔ تقریر کے بعد صدر مکمل طور پر ریلیکس ہو گءیےتھے ۔ جب یہاں مہمانوں کے لیے چاءے آءی تو ان کے دل گرفتہ سٹاف نے چاءے پینے سے معزرت چاہی تو صدر مشرف نے ان سے کہا کہ وہ چاءے پیءیں اور صدر نے خود بھی یہاں سب کے ساتھ چاءے پی۔ ’ شاہد مسعود کے اس کالم میں بیان کردہ واقعات کی مختلف ذراءع نے فوری طور پر تردید کر دی ۔ لیکن اس میں سب سے اہم تردید سماء ٹی وی کے حسن کاظمی کی تھی جو انہوں نے جنگ گروپ کو ایک ای میل کے ذریعے بھیجی۔ ان کے مطابق ڈاکٹر شاہد مسعود تو سرے سے وہاں موجود ہی نہیں تھے ۔میں (حسن کاظمی)وہاں اپنی میزبان عظمی الکریم کے ساتھ تھا ۔۔۔اور میرے پروڈیوسر عدیل احمد بھی وہاں موجود تھے ۔تقریر صدر کے دفتر سے نشر کی گءی تھی نہ کہ کمیٹی روم سے ۔۔۔۔۔ صدر نے میری ہم کار عظمی الکریم سے ہاتھ ملایا ۔ پھر میرے پروڈیوسر عدیل احمد اور معین خان کے ساتھ ۔۔۔۔اس وقت ان کے دفتر میں بالکل چاءے نہیں پیش کی گءی ۔۔۔۔
شاہد مسعود کی ذہنی ساخت کو سمجھنے کے لیے ان کے اسی کالم کے ان الفاظ کو دیکھنا بہت ضروری ہے ’ گزرے آٹھ برسوں میں میری گفتگو اور تجزہوں کا بنیادی ہدف ہی صدر مشرف کی پالیسیاں رہیں اور میں گیارہ ستمبر کے بعد ان کے لاءحہ عمل سے لے کر نومبر ۲۰۰۷ءکے ماوراءے آءین اقدامات تک ۔ تنقید کے ڈونگرے بساتا رہا اک عجب احساس یہ تھا کہ اب وہ ہدف اپنی جگہ سے ہٹ رہا ہے جو میرے مد مقابل رہا اور نءے اہداف کا تعین اب میرے مجھ جیسے تجزیہ نگاروں کے لیے فوری دشوار ہو گا ایک خلا ء کا احساس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’شاہد مسعود کا یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں الیکٹرا نک میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی جاوے ای جاوے کے نعروں کی گونج میں تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی کھیپ وجود میں آءی ۔ ان میں سے بہت سوں نے آمر کے غیر اخلاقی اقدامات کا غیر اخلاقی اقدامات سے مقابلہ اپنے تجزیوں کا حصہ بنا لیا۔منافع کی تلاش میں اپنے ناظرین کی تعداد میں اضافے کا خواہش مند میڈیا اس طرح کے تجزیوں کو جگہ دینے کے لیے بالکل تیار تھا۔اس ماحول میں جہاں صالح ظافر جیسے لوگ جنرل مشرف کی ہاوس اریسٹ کی خبریں تک چلا دیتے تھے شاہد مسعود جیسے دروغ گوءی کے عادی کے لیے خاصی جگہ موجود تھی۔ نءی حکومت بننے کے بعد ان لوگوں کو اہم مناسب پر فاءز کرنے کی بجاءے زیادہ ضروری تھا کہ ہدف کے متلاشی شاہد مسعود جیسوں کی نو سازی پر توجہ دی جاءے ۔
rehabilitation = نو سازی
شیری رحمان شاید یہ کام کر لیتں لیکن شاہد مسعود کو پی ٹی وی کا چءیر پرسن بنا دیا گیا ۔ راوی بتا تا ہے کہ شاہد مسعود ذرداری صاحب کی پبلک ریلیشننگ کا کام بڑھ چڑھ کر نبھا رہے تھے لیکن شیری اور شاہد کی باہمی مسابقت شاہد مسعود کی شکست پر منتج ہوءی ۔ ذرداری نے شاہد مسعود کو نہیں بچا یا اور یوں شاہد مسعود کو وہ ہدف مل گیا جس کی اسے تلاش تھی۔
ہدف کی طرف بڑھتے بڑھتے شاہد مسعود پستی کی اس دلدل میں اتر گءے جس کی انتہا ان کے کالم جءے بھٹو کی شکل میں ظاہر ہوءی۔بہت سے لوگ اس کالم کا جواب دے چکے ہیں اس لیے میں یہاں اس کالم کا صرف ایک پہلو درج کرنے پر اکتفا کروں گا
اس کالم میں شاہد مسعود نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محترمہ اپنے بچوں کو آصف زرداری سے بچا کر رکھتی تھیں اور ان کے طویل عرصہ تک جیل میں رہنے پر خوش تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی بہترین درس گا ہوں سے فا رغ التحصیل خاتون یقینی طور پر اپنی اگلی نسل کو اس ذہنیت سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی جو کسی سینما کے باہر ٹکٹ بلیک میلنگ کرکے یا ڈسکو کلبوں میں مار پیٹ وغیرہ میں ملوث ہو کر پیدا ہو جاتی ہے اور تبھی جب محترمہ کو اس حقیقیت کا اندازہ ہوا کہ ان کی وہ اولاد جو برس ہا برس سے۔۔۔اس کردار سے دور رہنے کے بعد خوش قسمتی سے اس کے اثرات سے محفوظ اپنے ذہنوں میں اس کے بارے میں ۔۔۔اچھے خواب بنے بیٹھی ہے……۔ خاوند اور بیوی کے تعلق اور باپ اور اولاد کے رشتے پر اس طرح کا تبصرہ صرف شاہد مسعود ہی کر سکتے ہیں۔
اور اب اٹھاءیس نومبر 2009 کا میرے مطابق ۔ جاوے ای جاوے کا مرض عروج پر ہے؛ شاہین صہباءی ؛ انصار عباسی اور اکرم شیخ دروغ گوءی اور دشنام طرازی میں مصروف ہیں ۔ ہاں اب تیا ری عدالتوں اور حکومت کے درمیان جھگڑا کرانے کی ہے۔ وہ شاہد مسعود جو پیلز پارٹی کے کا رکنوں کو گمراہ کرنے کے لیے خود کو بی بی کا ہمدرد ظاہر کرتے ہیں آصف زرداری کی دشمنی میں بی بی کے سخت ذاتی دشمن ڈاکٹر مبشر حسن کو میدان میں لے آءے ہیں
Comments
Latest Comments
These guys represent Mujib-ur-Rehman Shami and Hussain Haqqani of the 1980s. The best thing to do with this lot is to maintain a delicate balance of discrediting them as well as ignoring them.