Save the parliament to save the country – by Khalid Wasti
پارلیمینٹ کو بچاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ !! ملک کو بچاؤ
قائد اعظم کے پاکستان کو ایک ملاں (ملا) کا پاکستان بنانے میں جن غلیظ ذہنوں نے اپنا کردار ادا کیا اور قرارداد مقاصد کی منظوری سے لیکر اسلامی جمہوریہ بنانے تک اور عالمی جہاد کے لیئے مجاہدین کی بھرتی کرنے تک قدم بہ قدم آگے بڑھتے رہے ، آج پھر اس ملک کی جڑوں کو تیل دینے کے لیئے ایک نکتے پر اکٹھے ہو چکے ہیں – اور وہ نکتہ ہے پارلیمینٹ کی بالا دستی کو ختم کرنا –
قراد داد مقاصد کی منظوری کا نتیجہ آج دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے – پارلیمینٹ کی بالا دستی ختم ہونے کے بعد قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان جس طرح ایک مکمل تھیو کریٹک سٹیٹ (ملاں کی ریاست) بن جائے گا ، اس کے خوفناک نتائج کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا –
آج قائد اور اقبال کے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیئے ہر تعلیم یافتہ ، باشعور اور ترقی پسند افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس کوشش کو بے نقاب کرے اور اس کی مذمت کرے جو پارلیمینٹ کی بالادستی ختم کرنے کے لیئے کی جا رہی ہے –
دہشت گرد جیسے آبادیوں میں گھس کر انسانی جانوں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح جہالت ، رجعت پرستی اور انتہا پرستی کو فروغ دینے والا یہ طبقہ اسلام ، مذہب اور اللہ رسول کے نام کو ایک شیلڈ کے طور پر استعمال کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو ایکسپلائیٹ کرتا ہے – آج تو ان نعروں میں عدلیہ کی آزادی کو بھی پارلیمینٹ کی بالا دستی ختم کرنے کی سازش کے آگے ایک شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے – کہاں ہیں اسلام پسند ؟ جو خدا تعالی کی حکمرانی کے قانون کا پراپیگنڈہ کرتے تھکتے نہیں تھے ؟ ہر عقلمند آدمی با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالی نے اپنا قانون نافذ کرنے کے لیئے بنفس نفیس تو عرش سے فرش پر نہیں اترنا بلکہ خدا کے قانون کا نفاذ خدا کی زمین پر خدا کے بندوں کےذ ریعہ سے ہی ہونا ہے –
خدا کے بندوں کے نمائیندے کون ہیں ؟ بچہ بچہ جانتا ہے کہ خدا کے بندوں یعنی عوام کے منتخب نمائیدے وہی ہیں جو پارلیمینٹ میں بیٹھے ہیں نہ کہ وہ جو عدلیہ ، فوج ، پولیس یا کسی اور ادارے میں – پس اس ادارے کی بالا دستی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے جس میں عوام کے نمائیندے خدا تعالی کا حق حکمرانی استعمال کرنے کے لیئے بیٹھے ہیں –
آج پاکستان کو بچانا ہے تو پارلیمینٹ کو بچائیے ! پارلیمینٹ کو بالا دست بنائیے !! پارلیمینٹ کو اپنے تابع کرنے اور خدا کے بندوں کا حق حکمرانی ختم کرنے کی ہر ناپاک سازش کو ناکام بنانے کے لیئے دامے ، درمے ، سخنے ، قدمے جو کچھ کر سکتے ہیں کر گزریں ۔۔۔۔۔۔۔ !
Log onto http://www.azmealishan.com, register your AZM and make your pledge for a better Pakistan. Catch updates on http://twitter.com/azmealishan
Bohat aala, Wasti Bhai. May mullahs rot in hell for ever.
’عدلیہ کو پارلیمانی فیصلوں کا مذاق اڑانے نہیں دیں گے‘
آخری وقت اشاعت: بدھ 7 اپريل 2010 , 13:48 GMT 18:48 PST
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/04/100407_assembly_judiciary_debate.shtml
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل پر بدھ کو قومی اسمبلی میں بحث جاری رہی اور مختلف جماعتوں کے بیشتر اراکین نے ماضی میں عدلیہ کی جانب سے فوجی آمروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینے اور ان کے آئین معطل کیے جانے کے اقدامات کو جائز قرار دینے پرعدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بحث کے دوران عدلیہ کے ماضی کے کردار پر تنقید کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے اراکین بھی شامل رہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کے بعض اراکین نے رضا کارانہ طور اپنے اختیارات پارلیمان کو سونپنے پر صدر آصف علی زرداری کو خراج تحسین پیش کیا۔
ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا کہ ریلوے کے وفاقی وزیر غلام احمد بلور نے کہا کہ ’عدلیہ کو پارلیمان کے فیصلوں کا مذاق اڑانے نہیں دیں گے اور اگر عدلیہ پارلیمان کے فیصلوں کا احترام نہیں کرے گی تو ہم پر بھی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام لازم نہیں ہوگا‘۔
بحث کے دوران مسلم لیگ (ق) کے اراکین نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کی کھل کر مخالفت کی۔ صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن شاہجان یوسف نے ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔
مسلم لیگ قاف ہی کی رکن ماروی میمن نے کہا کہ انہیں اٹھارویں ترمیم کی کئی شقوں پر اتفاق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ بل کی حمایت کریں گے۔ لیکن ان کے بقول صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کے خلاف ووٹ دیں گے۔
بحث کے دوران اکثر جماعتوں کے اراکین نے کہا کہ حالات کے تقاضے کے تحت جو آج صوبوں کو خودمختاری ملنی چاہیے وہ اس بل کے ذریعے نہیں دی گئی۔ تاہم انہوں نے جو کچھ صوبائی خود مختاری دینے کی تجویز ہے اس پر اکتفا کرتے ہوئے اُسے درست سمت میں اہم قدم قرار دیا۔
ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتوں کے اراکین نے اٹھارویں ترمیم کی مختلف شقوں کے بارے میں اپنا اختلافی موقف تو کھل کر بیان کیا، لیکن مجموعی طور پر بل کی حمایت کی۔
بحث کے دوران اکثر جماعتوں کے اراکین نے کہا کہ حالات کے تقاضے کے تحت جو آج صوبوں کو خودمختاری ملنی چاہیے وہ اس بل کے ذریعے نہیں دی گئی۔ تاہم انہوں نے جو کچھ صوبائی خود مختاری دینے کی تجویز ہے اس پر اکتفا کرتے ہوئے اُسے درست سمت میں اہم قدم قرار دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ سمیت بعض جماعتوں کے اراکین نے مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے اور صوبوں کو خودمختاری دینے کی شقوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج کی منظوری کے بعد اس پر مکمل عمل درآمد ہونے تک آئینی کمیٹی قائم رہے اور وہ اس کام کی نگرانی کرے۔
بدھ کو صبح اور شام قومی اسمبلی کا اجلاس چلایا گیا تاکہ زیادہ زیادہ سے اراکین بحث میں حصہ لے سکیں۔ مزید کارروائی جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی گئی اور امکان ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل کی شق وار منظوری جمعرات کو شروع ہوجائے گی اور جمعہ کو یہ بل منظور کرکے سینیٹ کو بھیجا جائے گا۔
Comments by Bawa (pkpolitics):
جمہوریت کوئی مقدس گائے نہیں ھے لیکن یہ آمریت سے ہزار درجے بہتر ھے. کیسے؟ میں آپکو ایک مثال دیکر واضع کرنے کی کوشش کرتا ہوں. جمہوری نظام ایک ایسے تالاب کی طرح ہوتا ھے جسکا پانی بلکل صاف اور شفاف ہوتا ھے اور جسمیں آپکو خوبصورت مچھلیاں اور بد صورت کچھوے صاف دکھائی دیتے ہیں. عوام، اپوزیشن پارٹیاں، میڈیا، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس تالاب کے پاس جانے اور جھانک کر اندر دیکھنے کی آزادی ہوتی ھے. آپ چاہیں تو پانی گندہ کرنے والے کچھووں کو نکال باہر پھینک سکتے ہیں اور یہ آپکے دائرہ اختیار میں ھے. جبکہ آمریت ایک ایسے تالاب کی طرح ھے جسکا پانی گدلا ہوتا ھے. آپکو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پانی کے اندر کیا ہو رہا ہے، کونسی خوبصورت مچھلی ھے اور کونسا بد صورت کچھوا ھے. تالاب سے بد صورت کچھووں کو باہر نکال پھینکنا تو دور کی بات عوام، سیاسی پارٹیوں، میڈیا، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس تالاب کے پاس جانے اور جھانک کر اندر دیکھنے کی بھی آزادی نہیں ہوتی ھے. جمھوریت میں آپ گندے حکمرانوں کو پارلیمنٹ کی اکثریت سے، اپنے ووٹ سے یا اپنے پر زور اعتجاج سے یا عدلیہ کے ذریعے حکومت سے باہر نکال سکتے ہیں لیکن آمریت میں آپ حکمرانوں کے پاس نہیں پھڑک سکتے اور نہ ہی انہیں گھر بھیج سکتے ہیں. این آر او کی مثال لے لیں. ایک آمر نے اسے جاری کیا لیکن سیاسی پارٹیوں، عوام، میڈیا، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعتجاج کے باوجود اسے نافذ کیا گیا اب ایک جمہوری حکومت اپنی بھر پور کوشش کے باوجود عوام کے دباو کی وجہ اسے پارلیمنٹ سے پاس کروانا تو دور کی بات اسے پارلیمنٹ میں پیش بھی نہ کر سکی. آپ نے پرزور اعتجاج کرکے ججوں کو بحال کروا لیا، این آر او کالعدم قرار دلوا لیا، حکومت کو اپنے کئی فیصلے واپس لینے پر مجبور کر دیا اور صدر کے اختیارات چھین لئے. یہ فرق ھے جمہوریت اور آمریت میں
یہ سب جمہوریت ہی کی برکتیں ہیں کہ آج آپ این آر او کے تحت فائدہ اٹھانے والے تمام افراد آپ کے سامنے ہیں. آج اربوں کے قرضے معاف کروانے والے آپ کے سامنے ہیں اور آج سوئس بنک اکاونٹس کے ریکارڈ غائب کر نے والے آپکے سامنے ہیں. یہ سب لوگ نہ صرف آپ کے سامنے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ قانون کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں. حکومت کی ساری کارکردگی آپکے سامنے ہے. آمریت میں تو کور کمانڈروں تک کو پتہ نہ تھا کہ ہمارے کون کون سے ہوائی اڈے امریکہ کے پاس ہیں؟ کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ حکومت قوم کے کتنے بیٹے اور بیٹیاں ڈالروں کے عوض دشمنوں بیچ چکی ہے ؟ آج میرے ان دوستوں کی زبانیں گنگ ہو جانی چاہئیے جو جمہوریت کا بستر گول کرنے اور آمریت کو جمہوریت پر فوقیت دینے کی حمایت کرتے تھے اور جو کہتے تھے کہ ہمیں جمھوریت نہیں گڈ گورنس چاہئیے. اگر کمزور اور نحیف جمہوریت یہ کارنامے سر انجام دے سکتی ہے تو ذرا مضبوط جمہوریت کا تصور ذہن میں لائیے. جمہوریت ہی پاکستان، پاکستانی عوام اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے. جمہوریت عوام کو ہر طرح کی آزادی دیتی ہے. لکھنے کی آزادی، سوچنے کی آزادی، کہنے کی آزادی اور اپنی مرضی سے اٹھنے بیٹھنے کی آزادی. جمہوریت کہتی ہے کہ
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
جمہوریت زندہ باد
پاکستان پایندہ باد