Hooligans of Islami Jamiat put Punjab University professor in hospital

‘IJT hooligans’ put PU professor in hospital

* Injured principal of College of Earth & Environmental Sciences also chairman of disciplinary committee
* PU VC calls on Punjab CM to take notice
* IJT distances itself

Staff Report

LAHORE: Islami Jamiat Taliba (IJT) students allegedly assaulted the office of Punjab University (PU) College of Earth and Environmental Sciences principal on Thursday, severely injuring Professor Iftikhar Baloch – in addition to allegedly damaging the PU vice chancellor’s residence and office.

Iftikhar is also the chairman of the PU disciplinary committee, and the university administration has alleged that students recently expelled and rusticated are responsible for the assaults.

On March 31, the PU disciplinary committee either expelled or rusticated six students for “rowdy behaviour”. Those against whom action was taken have been identified as BS Honours student Hafiz Qasim, MSc Geography student Malik Tariq, BS Applied Geology student Saqibur Rehman and B Com Honours students Hafiz Wajid Ali, Mamoonur Rehman and Rehan Khan. Addressing reporters, PU Vice Chancellor Dr Mujahid Kamran condemned the assaults, and called on the chief minister to take action against the IJT for its “illegal activities on the campus”. He said IJT members were always a hurdle in the way of disciplining the institution.

“The assaults mark the darkest day in the history of the university,” said Kamran. He said several cases had been registered against IJT students, but police “have their limitations”. Asked to elaborate, he said the government and police already had their plate full with terrorism, and “such matters fail to get their proper attention”.

He said the university administration expelled such “troublemakers … but they take refuge in university hostels”. Kamran said a group of “15 armed students” had put up at various hostels, and “coincidentally, all of them belong to the IJT”. Asked why PU security guards did not take action, the vice chancellor said guards were scattered all over the campus. “Moreover, action against armed students is the responsibility of police.”

Academic Staff Association President Mehar Saeed Akhtar, also a member of the JI, condemned the assaults, and announced a strike for an indefinite period. He said the faculty would not resume duties unless proper action was taken against “those responsible for the assaults”. He said the general body of the staff association would meet today (Friday) to make further plans. He alleged that “M Ashraf, Aurangzeb, Irfan Anjum, Haris, Salmaan Butt and Rehan Tariq” were responsible for the attack. He said an FIR would be registered against the suspects as soon as a medico-legal certificate was issued.

IJT Information Secretary Hannan Nafees claimed the IJT was not involved in the assaults, and said the “IJT rather condemns the assaults”. He said the expelled and rusticated students initially blocked Canal Road. “Taking notice of the situation, SP Sohail Sukhera cleared the road with the help of the IJT university nazim. Later, the students went to meet the vice chancellor, but stormed his office when they saw he was not there. They went on to see Professor Iftikhar … a heated argument preceded the assault on the college principal.” He said while the expulsions and rustications were “controversial”, the IJT would support the professor.

A large number of students from various departments also demonstrated against the assault on the professor. They were chanting slogans against the IJT. “We will boycott classes today (Friday) to condemn the brutal attack … an education system where teachers are not given respect cannot work,” one of the protesting students told Daily Times.

Source: Daily Times

Haroon-ur-Rashid’s article on Islami Jamiat Talaba (IJT) and Imran Khan (Jang, 6 April 2010):

اپنی آنکھ کا شہتیر…ناتمام…ہارون الرشید

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا، جیسا دودھ ویسا مکھن۔ اور اللہ کے آخری رسول کا فرمان یہ ہے: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔ کیا ہم ہمیشہ حکومتو ں کے در پے ہی رہیں گے اور معاشرے کی اصلاح کے لئے کبھی فکرمند نہ ہوں گے۔ ہمیشہ دوسروں کی آنکھ کاتنکا تاکاکریں گے، اپنی آنکھ کا شہتیر کبھی نہیں؟

عمران خان اب اچانک کیوں برسر احتجاج ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا لیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کا مطالبہ ہے کہ وہ یونیورسٹی میں امن قائم کریں۔ لاہور میں وہ قاتلانہ حملے کے شکار پروفیسر افتخار بلوچ کی تیمارداری کرنے گئے اور انہوں نے یہ کہا: صوبائی اور مرکزی حکومتیں محترم استاد پرحملے کی ذمہ دار ہیں۔جی نہیں، نہ صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں اور تنہا وہی مداوا نہیں کرسکتی۔ دوسروں کے علاوہ خود عمران خان بھی قصور وارہیں اور ان کی ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ سنگین زخم مندمل کرنے میں مدد دیں ، بتدریج جو ناسور کی طرح رسنے لگا ہے۔ چھ ماہ قبل عمران خان نے اسی یونیورسٹی کے فیصل ہال میں، تالیوں کی گونج میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ڈیڑھ برس پہلے خود پر حملہ کرنے والوں کو معاف کردیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان سے معافی مانگی ہی کس نے تھی کہ وہ عالی ظرفی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بے تاب ہوگئے۔ ثانیاً یہ کہ اپنے ساتھ کی جانی والی زیادتی وہ بھلا سکتے تھے لیکن دوسروں پر روا رکھے جانے والے مظالم؟ عام معافی کا اعلان کرنے کاحق انہیں کس نے دیا تھا؟ہم مفروضے قائم کرتے ہیں، مصلحتیں اختیارکرلیتے ہیں، خود کو دھوکہ دینے کی روش اور اس ذہنی فضا میں فیصلے کرنے کے بعد کامیابی کی تمنا پاتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں خود فریبی محض ایک وقتی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ ایک انداز ِفکر، جس کا ہم شکار ہو جاتے ہیں، خود کو، اپنی پوری زندگی کو ایک ناقص طرز ِ احساس کے سپرد کر ڈالتے ہیں اور جب ناکامی یا حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تو قربانی کا کوئی نہ کوئی بکرا تلاش کرلیتے ہیں… اکثر حکمران کہ بیشتر ناقص رہے ہیں اور انہیں موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہوتاہے۔ پروفیسر افتخار بلوچ پرحملے کی ذمہ داری میں کپتان برابر کے شریک ہیں اوراپنے حصے کا بوجھ انہیں خود اُٹھانا چاہئے۔

”آبِ گم“ اس نادر تصنیف میں، عصر رواں کے عظیم نثرنگار مشتاق احمد یوسفی نے، کسی کا ایک جملہ نقل کیاہے: آپ موت اور سورج کو بہت دیر نہیں دیکھ سکتے۔ کچھ اور چیزیں بھی ہیں، دیکھنا تو کیا، جن کے بارے میں بہت دیر تک سوچنا بھی اذیت ناک ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک شاگرد کے ہاتھوں استاد کی توہین ہے؛ چہ جائیکہ وہ ایک گروہ بنالیں، اپنے معنوی باپ کو منصوبہ بندی سے ذہنی اور جسمانی اذیت دیں، مبینہ طور پر مار ڈالنے کی کوشش کریں اور اس سے بھی زیادہ کہ شرمندہ ہونے سے بھی انکار کردیں۔ تاویل فرمائیں، دلائل ارشاد کریں اورفریاد کرنے والوں کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش۔

کسی اور کو نہیں، عمران خان نے خود اس ناچیز کو بتایا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تحریک ِ انصاف کے حامی طلبہ کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان کی ماؤں اورباپوں کو فون کرتے ہیں کہ اپنے فرزند کو روکو، ورنہ بھگتے گا۔ اس کے بعد کپتان کو کیا وہ اعلان زیبا تھا، جو انہوں نے کیا؟ جن ماؤں کے دل رنج و غم سے بھرے رہے، جو بے خواب راتوں اور اندیشوں سے بھرے دنوں کے ساتھ خوف کی زندگی گزارتی رہیں،کیا کپتان نے ان سے پوچھ لیا تھا کہ اپنے طرز ِ عمل پر مصر بلکہ فخر کرنے والوں کو معاف کردیا جائے۔ کس طرح یہ مفروضہ انہوں نے قائم کیا کہ ایسا کر گزرنے سے، وہ اپنی اصلاح کرلیں گے؟ 1970 میں جب حافظ محمد ادریس اوران کے ساتھیوں نے وائس چانسلر علامہ علاؤ الدین صدیقی کے گھر پر یلغار کی تو سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ایک اخباری بیان جاری کیا: ”ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کردی“ لیکن کپتان نے برعکس طرز ِ عمل اختیار کیا اور کسی ادنیٰ جواز کے بغیر

ہماری مصلحتیں ہیں، وہم ہیں اور بعض چیزوں کوہم نے مقدس سمجھ لیا ہے، خاص طور پر مذہب کا نام لینے والوں کے بارے میں اللہ کی وحدانیت، قرآن کریم اور رسول اللہ کی عظمت کے نعرے لگانے والوں کے باب میں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ خطاکار کو سزا ملنی چاہئے خواہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں اجلا ہو۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں کیسا ہی مقدس پرچم تھام رکھا ہو۔ اگر وہ واقعی خطاکار ہے اور فیصلہ کرنے والے اگر فیصلہ کردیں۔ جب خود قاضی حسین احمد اور امیر العظیم نے ان لوگوں کو مجرم ٹھہرایا تھا تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی، اتنی ہی جتنا کہ ان کا قصور تھا اور ایک قابل اعتبار ادارے کے ذریعے لیکن کوڑا کرکٹ قالین کے نیچے دھکیل دیا گیا… اب ”ہور چوپو

عمران خان نے بات کو بھلا دینے کی کوشش کی اور یہ غالباً اسلئے بھی کہ خود ان کے خاندان میں ایسے لوگ تھے جو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے حسن ظن رکھتے تھے۔ رکھتے، ضرور رکھتے لیکن جب کوئی تنازع اٹھتا ہے تو ہم اسی کے سیاق و سباق میں اسے دیکھتے ہیں۔ کسی کے نظریات اور عقیدے سے کیا تعلق ؟ اگر مدینہ منورہ کاکوئی پاک باز مسلمان، کسی بیگناہ یہودی کو قتل کر ڈالتا تو کیا وہ سزا سے بچ جاتا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ہرگز نہیں لیکن عملاً ہمارا رویہ مختلف ہے۔اسلئے کے اصول سے زیادہ ہمیں اپنی پسند اور ناپسند عزیز ہے۔ جزا و سزاپر اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر استوار قوانین نہیں بلکہ اپنے تعصبات ہمارے فیصلوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ حکومتوں پر ہمیشہ ہم برہم رہتے ہیں اور انہیں لتاڑنے میں ہمیں لطف محسوس ہوتا ہے کہ ہم انہیں اپنی زندگیوں کی ردا میں لگے زخموں کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ حکومتیں ظالم ہیں، بداطوار ہیں اور بعض اوقات تو سفاک بھی۔ ان سے لڑنا چاہئے اور جب ضروری اور ممکن ہو تو انہیں ہٹادینا چاہئے لیکن کیادوسروں کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم اپنے جرائم ان کے کھاتے میں کیسے ڈال سکتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں جو کچھ برسوں اور عشروں سے برپا ہے، ظاہر ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ تنہا اس کی ذمہ دار نہیں، دوسرے بھی ہیں، حکومتیں بھی، حد سے زیادہ مصلحت پسند اساتذہ بھی، جن میں سے بعض جمعیت کے ذریعے مقرر ہوئے اوربعض مفادات کے لئے ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ جمعیت کے انتہاپسند نظریاتی مخالف بھی جو ان چیزوں کے لئے بھی طلبہ تنظیم کو ذمہ دارٹھہراتے ہیں، جن کی یہ مرتکب نہیں اور جو اس کے بارے میں عدل کے نہیں بلکہ انتقام کے آرزو مند ہیں۔ عمران خان اوردوسرے لیڈروں کو کس نے روکا ہے کہ وہ اسباب کا تعین کریں اور مسئلے کا جامع حل تجویز کرنے کی کوشش بھی۔ یہ مگر آشکار ہے کہ جمعیت نے جامعہ پر قبضہ جما رکھاہے اوراسے جماعت اسلامی کی تائید حاصل ہے۔ خبط عظمت اور زعم تقویٰ کے مارے یہ لوگ، جنہیں اسلام اور آئین نے ہرگز کوئی اختیار نہیں بخشا، نہ صرف اپنی ترجیحات کے مطابق مقدس تعلیمی ادارے کو چلانے کے خواہشمند ہیں بلکہ ذاتی زندگیوں میں مداخلت کے مرتکب بھی۔ دلیل نہیں، وہ طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا مغالطہ یہ ہے اور اکثر مذہبی لوگ اس مغالطے کاشکار ہوتے ہیں کہ چونکہ وہ برحق ہیں ؛ لہٰذا دوسروں کو ان کا مطیع ہونا چاہئے۔ وہ قرآن ، حدیث اور سیرت کا طالب علم ہونے کادعویٰ کرتے ہیں مگر نہیں ہوتے، ورنہ وہ میثاق مدینہ پرغور کرتے، ورنہ انہیں ادراک ہوتا کہ غیرمسلم شہری کے حقوق مسلمان کے برابر نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا کہ بدگمانی بجائے خود گناہ ہے اور تعصب پر اقدام کرنے والا جہالت کا ارتکاب کرتاہے۔ وہ درس قرآن سنتے ہیں مگر قرآن کریم کے اس فرمان پر ہرگز غور نہیں کرتے: ”کسی گروہ کی دشمنی تمہیں زیادتی پرآمادہ نہ کرے“ انہیں معلوم ہوتا کہ مظلوم کی آہ اور عرش الٰہی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں اور یہ کہ اگرچہ مہلت دی جاتی ہے مگر ظلم کی سزا مل کر رہتی ہے۔ وہ اس حدیث پر تدبر فرماتے کہ خدا کی مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور یہ کہ اس میں مسلم اور غیرمسلم کاامتیاز بھی نہیں، چہ جائیکہ محض ایک مکتب ِ فکر سے اختلاف۔

جامعہ پنجاب کی غیرقانونی اور غیرشرعی حکمرانی سے اسلامی جمعیت طلبہ نے خود کو تباہ کرلیا، سیاست میں ساکھ ہی سب کچھ ہوتی ہے اور وہ برباد ہوچکی۔ جماعت اسلامی کو اس نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اگر میری خطا معاف کی جاسکے تو عرض کروں کہ خود دین اسلام کو… ایرانی مولویوں اور افغانستان کے طالبان سے بڑھ کر۔ وہ مقتدر تھے ، ہیں، لاہور کے لوگ سوچتے ہیں کہ اقتدار کے بغیر اگر ان کا حال یہ ہے تو حکومت ملنے پر کیا ہوگا؟

ہم سب ذمہ دار ہیں۔ عدل نہیں، ہم انتقام کے لئے جیتے ہیں۔ اگر آج ہم پر آصف علی زرداری، نواز شریف اور چودھری پرویز الٰہی، الطاف حسین، اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن مسلط ہیں تو ہم اس کے مستحق ہیں۔ سبھی نا انصاف ہوسکتے ہیں لیکن ہمارا مالک تو کبھی نہیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہ دانا و بینا تھے اور ذاتی زندگی میں اُجلے اور شائستہ بھی بہت، یہ کہا تھا: جیسا دودھ، ویسا ہی مکھن اور اللہ کے آخری رسول نے ارشاد کیا تھا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال (حاکم) ہوتے ہیں۔ کیا ہم ہمیشہ حکومتوں کی اصلا ح کے درپے رہیں گے اور معاشرے کی اصلاح کبھی ہماری ترجیح نہ ہوگی؟ ہمیشہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھیں گے، اپنی آنکھ کا شہتیر کبھی نہیں؟

Related articles:
Rumpus at the Punjab University – by Qudrat Ullah

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. mir
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Sarah Khan
    -
  6. Umar Farooq
    -
  7. Sarah Khan
    -
  8. Abdul Nishapuri
    -
  9. Abdul Nishapuri
    -
  10. faisal
    -
  11. Dr Naveed Akram
    -
  12. Junaid Shah
    -
  13. Rashid Saleem
    -
  14. Sher Zaman
    -
  15. raja tahir
    -
  16. WAQAR KHALID
    -
  17. Muhammad Nisar Khan
    -
  18. Muhammad Nisar Khan
    -
  19. Akhtar
    -
  20. Azhar Mehmood
    -
  21. Azhar Mehmood
    -
  22. Azhar Mehmood
    -
  23. Azhar Mehmood
    -
  24. Azhar Mehmood
    -
  25. Azhar Mehmood
    -
  26. Abdul Nishapuri
    -
  27. Azhar
    -
  28. Shahzad
    -
  29. Shahzad
    -
  30. Hussain
    -
  31. Madni
    -
  32. Azhar
    -