Nato supply resumption, a positive development

موجودہ سول حکومت، پاکستانی سماج اور عوام کو پاک امریکہ تعلقات کے تناؤ اور سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے نے ایک مستقل یرغمال میں رکھا ہوا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں بحرانی کیفیت ایبٹ آباد آپریشن سے ہوتی ہوئ سلالہ چیک پوسٹ حملہ پر اپنی انتہا کو پہنچی تھی۔ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے احکامات کے زریعے گھر جانا پڑا، جس کا تزکرہ ہم آئندہ کریں گے۔ آج ہم نیٹو سپلائ کی بحالی کے فیصلے کے بعد پاک امریکہ تعلقات پر بات کرنا چاہیں گے۔

یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے کہ پاکستانی کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے امریکہ کی جانب سےگزشتہ برس سلالہ حملے میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر معذرت کے بعد نیٹو کو زمینی راستے سے رسد کی فراہمی کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی اور امن اور مفاہمتی عمل کی حمایت کرنا پاکستان کے فائدے میں ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان کو افغانستان میں سے نیٹو، امریکہ اور آئساف افواج کے انخلاء کو سستا بنا کر اور مؤثر رسد کے راستے دے کر مدد کرنی چاہیے۔

کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا، جس میں نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الہی، وزیردفاعی پیداوار سردار بہادر احمد سہڑ، وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ، پاک بحریہ کے قائمقام سربراہ وائس ایڈمرل تنویر فیض، ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل محمد ظہیر الاسلام، ڈی جی آئی آفتاب سلطان اور متعلقہ سینئر حکام نے شرکت کی۔ اس سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ عسکری و سیاسی قیادت نیٹو سپلائی کی بحالی کے معاملے پر ایک صفحہ پر ہے۔

نیٹو سپلائی کی بحالی میں تاخیرکا ایک سبب امریکہ مخالف عوامی رائے عامہ کا خوف بھی تھا؛ یہ وہ عوامی رائے عامہ ہے جس کی بنیاد پاپولر سلوگن اور جذباتی نعرہ بازی پر ہے اور اس کو خاص ترتیب اور منصوبہ بندی کے ساتھ فروغ دیا گیا ہے اس کا مقصد جمہوریت کو ناکام اور ناقص نظام حکمرانی قراردے کر پاکستان میں مذہبی بنیاد پرست غیر جمہوری طبقے کو مضبوط کرنا ہے۔

پاکستان میں جمہوری ارتقاء کے اس اہم ترین موڑ پر یہ بھی ایک خوش آئند پیش رفت ہے کہ ہماری داخلی اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لیا جا رہا ہے اور عسکری و سیاسی قیادت بڑی حد تک ایک صفحہ پر ہے – ہم آج نہ صرف بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہیں بلکہ دنیا سے کٹ کر تنہائی کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ یہ بڑھتی ہوئ بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی، جمہوریت اور داخلی استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان کو ان انتہا پسند تنظیموں سے فاصلہ بڑھانا اور دنیا سے قربت پیدا کرنا ہوگی، اقتصادیات اور تجارت کی مرکزیت پر منبی خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، اسی سے ہم عالمی سطع پر ایک اہم تعمیری کردار ادا کر سکیں گے، افغانستان کے مستقبل سے جڑے اپنے مفادات حاصل کر سکیں گے اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی پر ڈال سکیں گے۔

امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا نے پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیٹو سپلائی کی بحالی پر اپنے رد عمل میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری بہتر بنانے کے عزم پر قائم ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکا کو خطے میں سلامتی کے یکساں خطرات کا سامنا ہے۔

نیٹو سپلائی کی دوبارہ کھولنے کا پاکستانی خوش آئيند فيصلہ

ايک محفوظ ، پرامن اور خوشحال افغانستان اور خطے ميں ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول کی جانب باہمی تعاون کی يہ ايک عمدہ مثال ہے۔

امریکہ اور پاکستان کا باہمی تعاون ہمارے بہت سے مشترکہ مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے جاری رہےگا اور دونوں ملک مل کر کام کرتے رہیں گے اس مد ميں بڑھتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ہمارے عوامی سطح پرتعلقات کواور مضبوط راستے پر استوار کرنا شامل ہے۔

خطے کی سلامتی اور خوشحالی کو بہتر بنانے کے ليے ہمارے درنوں ممالک کے مابين ایک پائیدار، اسٹریٹجک، اور واضح بنيادوں پر استوار تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔

جيسا کہ پاکستانی سفير شہری رحمان نے واضح کيا کہ” ہم وزير خارجہ کلنٹن کے بيان کا خير مقدم کرتے ہیں اور اميد رکھتے ہیں کہ ہمارے ممالک باہمی تعلقات کے بہتری کی جانب گامزن ہونگے – ميں پر اميد ہوں کہ دونوں ممالک کئی اہم معملات پر متفق ہو سکتے ہیں جن ميں خاص طور پر خطے ميں امن کی بحالی بھی شامل ہے۔ “

Source: Digital Outreach

سپلائی کی دوبارہ کھولنے کا پاکستانی فيصلہ اور امريکی موقف

امریکی حکومت اور انتظامیہ نیٹو کی سپلائی لائن کو دوبارہ کھولنے کے متعلق پاکستانی قابل ستائش فیصلے کی بہت قدر کرتے ہيں۔ ايک محفوظ ، پرامن اور خوشحال افغانستان اور خطے ميں ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول کی جانب يہ پاکستانی فيصلہ ہمارے باہمی تعاون اور جاری کی کوششوں کا ايک ٹھوس اظہار اور مثال ہے۔ امریکہ اور پاکستان کا باہمی تعاون ہمارے بہت سے مشترکہ مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے جاری رہےگا اور دونوں ممالک مل کر کام کرتے رہیں گے اس مد ميں بڑھتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ہمارے عوامی سطح پرتعلقات کواورمضبوط راستے پر استوار کرنا شامل ہے۔ امریکی حکومت سنجیدگی سے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات کے ليے پرعزم ہےجو پائیدار، اسٹریٹجک، اور احتیاط سے واضح مساوی بنيادوں پرمبنی ہو کيونکہ ايسے تعلقات سے ہمارے دونوں ممالک اور خطے کی سلامتی اور خوشحالی میں اضافہ کو يقينی بنايا جاسکتا ہے۔

امریکی حکومت کو بھر پور یقین ہے کہ ایک بار پھر ہم دونوں ممالک کے درميان ایک مضبوط، مثبت، اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کیطرف گامزن ديکھ سکتے ہيں۔ ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ حالیہ ماضی میں ہمارے تعلقات کچھ نادانستہ طور پر ہونے والے واقعات کی وجہ سے بحران کا شکار رہے ہے۔ وقت کی يہ ايک اہم ضرورت ہے کہ ہم صورتحال کی سنجیدگی کو سمجھنے کی کوشش کريں، جو ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنےوسائل کو خطے میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لئے ایک مشترکہ گراونڈ پر اکٹھا ہرنے کيلۓاستعمال ميں لےآئيں۔

آخر کار، ہم دونوں ممالک کو ایک ساتھ کام کرنے کی اشد ضرورت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تاکہ انتہاپسندی کی لعنت کا مقابلہ کرسکيں جس نے دونوں پاکستان اور افغانستان کے پرامن معاشروں کو يرغمال بنايا ہوا ہے۔ ہمارا حتمی مقصد خطے ميں دیرپا امن اور استحکام کو یقینی بنانا اور علاقے کوترقی کی راہ پر ڈالنے کا ہے۔ پاکستان اور امریکہ صرف اعتماد کی بنیاد پر استوار مشترکہ تعاون اور تعلقات ہی کے ذریعے ہی اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ انتہا پسند نہايت سرگرمی سے پاکستان اور افغانستان میں معصوم لوگوں کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب میں ملوث رہے ہیں۔ ہميں سمجھنا چاہيۓ کہ اگر ہم اپنے درميان مسائل کو حل کرنے ميں ناکام ہوتے ہيں تو ہم ان انتہاپسندوں اورعسکریت پسند کو انسانيت کے خلاف اپنے دہشت گردی، ظالمانہ، اور بربريت کی برے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک بہترين موقع فراہم کرتے ہيں۔

نیٹو سپلائی کی دوبارہ کھولنے کےفيصلہ پر امريکہ ميں پاکستانی سفير شہری رحمان نے بجا طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہوے کہا “ہم وزير خارجہ کلنٹن کے بيان کا خير مقدم کرتے ہیں اوراميد رکھتے ہیں کہ ہمارے ممالک باہمی تعلقات کے بہتری کی جانب گامزن ہونگے- ميں پر اميد ہوں کہ دونوں ممالک کئی اہم معاملات پر متفق ہو سکتے ہیں جن ميں خاص طور پر خطے ميں امن کی بحالی بھی شامل ہے۔”

Source: Digital Outreach

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rai Naveed
    -
  2. Junaid Qaiser
    -