Justice Jawad S Khawaja while dictating his judgement said that “Rishwat leney wala aur dene wala donon jahanumi hein”. Rightly said.
Hey, hey, hey, wait a minute. I am remembering the “Asghar Khan Petition”, where former ISI Chief General (Retired) Asad Durrani confessed that army had given million of rupees to anti-PPP politicians, so the rule about rishwat giving doesn’t apply here, according to our ‘highly respectable judiciary”?
مثل مشہور ہے ماتا پہ گھوڑی پتا پہ گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
تو جناب حالیہ ٹریپ ااور عدلیہ کے خلاف ’’سازش‘‘ کا شکار ہونے والے سیدھے سادھے ، بھولے بھالے ’’معصوم‘‘ ڈاکٹر ارسلان کا کردار سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کے انتہائی ایماندار ،شریف النفس اور بے حد قابل والد ماجد کی ذات گرامی کا کچھ احاطہ کیا جائے تاکہ اس ’’سازش ‘‘ کو بے نقاب کرنے میں کچھ مدد ملے ۔ کسے معلوم تھا کہ 12 دسمبر 1948کو پیدا ہونے والا یہ عظیم سپوت ایک دن وطن عزیز پاکستان کا 18واں چیف جسٹس ہی نہیں بلکہ میڈیا کا تخلیق کردہ ہیرو ، شریف برادران اور تحریک انصاف کی آخری امید اور لعل مسجد والے اسلام کا خلیفہ بھی ثابت ہوگا۔ بہرحال یہ اعزاز قدرت نے سرزمین پاکستان کو ہی بخشا
بسرو چشم۔
ابتدائی ریکارڈ
نام افتخار محمد چوہدری، میٹرک تھرڈ ڈویژن، انٹرمیڈیٹ دوبار فیل (پاس کرنے کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوسکا کہ کہاں سے کیا۔ فقط ایک بیان حلفی موجود ہے جس میں چیف صاحب معترف ہیں کہ وہ انٹرمیڈیٹ میں دو مرتبہ فیل ہوئے تھے لیکن بعد میں گریجویشن کرلیا) بی اے تھرڈ ڈویژن ، جائے پیدائش مشکوک، ان کے اپنے بیان کے مطابق وہ کوئٹہ میں پیدا ہوے جبکہ معتبر ذرائع جائے پیدائش لائیل پور (فیصل آباد ) بتاتے ہیں۔ ایل ایل بی کا امتحان جامشورو سندھ سے پاس کیا۔ 1989میں وزیراعلیٰ بلوچستان جناب اکبر بگٹی مرحوم نے انہیں بلوچستان کے کوٹہ پر ایڈوکیٹ جنرل مقرر کیا ۔قسمت کی دیوی یہیں سے مہربان ہونا شروع ہوئی۔ اپریل 1999میں چیف جسٹس بلوچستان مقرر کئے گئی۔
پی سی او کے تحت حلف
جنوری 2000میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لینا چاہا تو چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت چار ججوں نے انکار کردیا اور مستعفی ہوگئی۔ چوہدری صاحب کی گویا لاٹری نکل آئی ۔ بھولے بھالے افتخار چوہدری نے مشرف کو ’’یس باس ‘‘ کہا اور سپریم کورٹ کے جسٹس مقرر ہوگئی۔ 2005میں مشرف نے انھیں بہتر خدمات کے عوض چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا۔
کرپشن کے الزامات اور معطلی
2007میں چوہدری صاحب کو کرپشن ،اقربا پروری اور سینئر وکلاء و ججوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات پر معطل کردیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔اور اس میں بھی بنیادی وجہ ’’ارسلان چوہدری‘‘ ہی بنا۔ جنرل الیکشن کے بعد 24مارچ 2008کو یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھایا اور پہلے ہی دن چوہدری صاحب کی ہائوس اریسٹ سے رہائی کا حکم جاری کیا۔ بطور چیف جسٹس ان کی بحالی کے لیے اعتزاز احسن ، حامد خان ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، اور عاصمہ جہانگیر نے تحریک چلائی ۔بدقسمتی سے یہ تمام کردار آج ’’چوہدری گردی‘‘ کا شکار ہیں۔
ارسلان کے کارنامی
حضرت ارسلان چوہدری صاحب کے بڑے صاحبزادے اور میجر جنرل ضیاء الحق کے داماد ہیں ۔ والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انٹرمیڈیٹ میں ’’سی‘‘ گریڈ حاصل کیااور چیف منسٹر کے کوٹہ سے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخل ہوئی۔ جون 2005میں میڈیکل آفیسر تعنیات ہوئی۔ والد گرامی کی سفارش پر صرف 26روز کے اندر محکمہ صحت میں سیکشن آفیسر مقرر ہوگئی۔ محض چند روز بعد ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ نے ڈاکٹری اور محکمہ صحت کو خیرباد کیا اور ’’ابا جی زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کرا دیے گئی۔ جہاں عام آفیسر 10سال بعد بھی ترقی کی راہ تکتا اور دعائیں مانگتا ہے یہ ’’ہونہار‘‘ سپوت ایک سال سے بھی کم عرصہ میں میرٹ کی دھجیاں اور آئین و قانون کو ہوا میں اڑاتے ہوئے گریڈ 18میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئے اے مقرر کیاگیااور وہاں سے نیشنل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ تمام حقائق سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنسمیں موجود ہیں اور انہیں پر ارسلان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا
(بحوالہ ایکسپریسجون7 )Express 7 June 2012
رسی جل گئی بل نہ گیا۔
فرزند ارجمند کی حرام ذرائع اور دوسروں کا حق غضب کرکے حاصل کی جانے والی نوکری ختم ہوجانے کے بعد بھی چوہدری جی نے کوئی نصیحت حاصل نہ کی ۔ اور اب اسے راتوں رات کروڑ پتی بنوانے کی ٹھانی ۔ اس ’’کارخیر‘‘ کے لیے ملک ریاض کا انتخاب کیا گیا۔’’فضل ربی‘‘ نے اپنا کام دکھایا اور’’رحمت‘‘ کے خزانے برسنے لگی۔ ملک ریاض نے آخر کار وہی کیا جو شکرہ بلبلوں کے ساتھ کرتا ہی۔ اور آج اسی حرام کی سیاہی ملے باپ بیٹا دونوں عبرت کا نشان بن گئی۔
قلمکاروں کی فنکاریاں
جسٹس ڈوگر نے ایک مسئلہ پر بیٹی کی سفارش کی۔ انصار عباسی جیسے رائٹ ونگ کے کالم نگاروں کا’’اسلام‘‘ فوری حرکت میں آیا۔ ڈوگر عدالت کے خطابات دیئے گئے اور اولاد کے اعلمال سے صرف نظر کرنے کی مذمت میں آیات عذاب اور احادیث کی بارش برسنے لگی۔اور آج جب افتخار صاحب کی پے درپے سفارشوں اور ہوس زر نے بیٹے کو ڈاکٹر سے مجرم بنادیا ہے تو نہ صرف وہ تمام آیات و احادیث فراموش کردی گئی بلکہ الٹا چوہدری صاحب کو ’’خلیفہ‘‘ بنانے کی سعی لا حاصل جاری و ساری ہی۔ ایک اور مسخرہ کردار ایکسپریس کا لکھاری جاوید چوہدری ہے ’’قلم برائے فروخت‘‘ کا اشتہار سجائے یہ صاحب ایک دن کالم ملک ریاض کے حق میں اور دوسرے دن چوہدری صاحب کے حق میں لکھتے ہیں ۔
ادھر مال اور ادھر اختیار دل نہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہ اسے
اسدا للہ غالب صاحب اس دوڑ میں جاوید چوہدری سے بھی آگے نکل گئے ۔ سعودی کرنل نے ائیرپورٹ پر سیکورٹی سٹاف آفیسر کو گالی دی اور احتجاج پر زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا ۔ سیکورٹی آفیسرنے جوابا قومی غیرت کا بھرپور ثبوت دیااور عربی کرنل صاحب کے کھنے سینک دیئے ۔ اس پر غالب صاحب نے اتنے کالم لکھے کہ خود سعودیوں کو شرم آگئی اور انھوں نے کالم نگار کا شکریہ ادا کیا۔ اب غاقلب صاحب ملک ریاض کو ایدھی سے تشبیہ دے رہے ہیں اور امید ہے کہ ملک صاحب بھی ان کا ٹھیک ٹھاک شکریہ ادا کریں گی۔
بدترین کون ۔فیصلہ آپ کا:
اس سارے قصہ میں ’’بدترین کردار‘‘ کا ووٹ آپ کس کو دیں گے ۔
افتخار چوہدری جو راتوں رات بیٹے کو اعلیٰ درجے کو بیورکریٹ یا کروڑ پتی بزنس مین بنانے کی کوشش کرتا رہا
نااہل بیٹا جو اپنی نالائقی عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ باپ کے کرتوت بھی آشکارا کرگیا۔
میڈیا کے وہ قابل نفرت کردار جو ہوس زر کے لیے مجرموں کو تحفظ دیتے اور دین پر عمل پیرا ہونے کے بجائے دین کو اپنے ’’سانچہ ضرورت ‘‘ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Some unanswered questions
By Editorial
Published: June 15, 2012
Another question that remains is whether any inquiry will be initiated into checking how the son of the chief justice, in the space of four years, managed to build a business. PHOTO: MYRA IQBAL/EXPRESS
To call the Supreme Court’s suo motu hearing into the Arsalan Iftikhar bribery scandal a cover-up would be unfair. After all, the Court has clearly said that if it is established that the son-in-law of business tycoon, Malik Riaz, did indeed pay for the foreign trips of the chief justice’s son, then the matter should be investigated by the attorney general of Pakistan. But, at the same time, the short order spends some time on the importance of the Court’s reputation and how it must be protected at all costs. While there is no denying that that is the case, and all Pakistanis would want to see that happen, the matter more at hand was whether Malik Riaz’s very serious allegations against Arsalan Iftikhar were true or not. They seem to have been relegated given that the short order dwells in some detail on the matter of the Court’s reputation being besmirched in the eyes of the general public. Furthermore, if the matter has now been passed on to the attorney general, with the short order declaring that the court and the chief justice stand absolved of any links with Malik Riaz, can the attorney general, in his investigation of the overall matter, be expected to re-visit the alleged link? The short order also cites Malik Riaz’s contention that the money he gave to Arsalan Iftikhar did not gain him any relief in the Court. For one, this still does not address the issue that perhaps the businessman was saying this because he felt this was the only way out of the mess that he himself had perhaps created.
Another question that remains is whether any inquiry will be initiated into checking how the son of the chief justice, in the space of four years, managed to build a business, which, by his own admission, is worth some Rs900 million. So far, this case has embroiled the judiciary, the media and politicians. The one institution that has been missing is the military. Senior retired officers have worked for Bahria Town and while that is no crime at all, there has also been close cooperation, at times, between that entity and various defence housing authorities, which are headed by senior serving officers. If there is to be a transparent investigation into all aspects of this matter, it should cover all facets.
Published in The Express Tribune, June 16th, 2012.
Why all this is being done? Motive? whether to eradicate corrption? NO… just to stop the Hon’ble Chief Justice who is fighting against corruption, who is hope of poor and this nation… We all know its conspiracy… Gilani is behind it. … Riaz Thakedar game has back fired… whoever raises voice against Chief justice, Qudrut teaches him bad lesson, Musharraf became absconder, MQM mafia still trying to wash black spots of May 12, Riaz thakedar, exposed so much, Mubashir Luqman and Maher Bukhari how would have been they facing their family…
Zardari & Gilani , Military generals and Riaz thakedar, how long will you enjoy this wealth… next destination is graveyard
Justice Jawad S Khawaja while dictating his judgement said that “Rishwat leney wala aur dene wala donon jahanumi hein”. Rightly said.
Hey, hey, hey, wait a minute. I am remembering the “Asghar Khan Petition”, where former ISI Chief General (Retired) Asad Durrani confessed that army had given million of rupees to anti-PPP politicians, so the rule about rishwat giving doesn’t apply here, according to our ‘highly respectable judiciary”?
(Danish, facebook)
بھولے باپ کا زیادہ بھولا بیٹا
تحریر : مالک اشتر
مثل مشہور ہے ماتا پہ گھوڑی پتا پہ گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
تو جناب حالیہ ٹریپ ااور عدلیہ کے خلاف ’’سازش‘‘ کا شکار ہونے والے سیدھے سادھے ، بھولے بھالے ’’معصوم‘‘ ڈاکٹر ارسلان کا کردار سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کے انتہائی ایماندار ،شریف النفس اور بے حد قابل والد ماجد کی ذات گرامی کا کچھ احاطہ کیا جائے تاکہ اس ’’سازش ‘‘ کو بے نقاب کرنے میں کچھ مدد ملے ۔ کسے معلوم تھا کہ 12 دسمبر 1948کو پیدا ہونے والا یہ عظیم سپوت ایک دن وطن عزیز پاکستان کا 18واں چیف جسٹس ہی نہیں بلکہ میڈیا کا تخلیق کردہ ہیرو ، شریف برادران اور تحریک انصاف کی آخری امید اور لعل مسجد والے اسلام کا خلیفہ بھی ثابت ہوگا۔ بہرحال یہ اعزاز قدرت نے سرزمین پاکستان کو ہی بخشا
بسرو چشم۔
ابتدائی ریکارڈ
نام افتخار محمد چوہدری، میٹرک تھرڈ ڈویژن، انٹرمیڈیٹ دوبار فیل (پاس کرنے کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوسکا کہ کہاں سے کیا۔ فقط ایک بیان حلفی موجود ہے جس میں چیف صاحب معترف ہیں کہ وہ انٹرمیڈیٹ میں دو مرتبہ فیل ہوئے تھے لیکن بعد میں گریجویشن کرلیا) بی اے تھرڈ ڈویژن ، جائے پیدائش مشکوک، ان کے اپنے بیان کے مطابق وہ کوئٹہ میں پیدا ہوے جبکہ معتبر ذرائع جائے پیدائش لائیل پور (فیصل آباد ) بتاتے ہیں۔ ایل ایل بی کا امتحان جامشورو سندھ سے پاس کیا۔ 1989میں وزیراعلیٰ بلوچستان جناب اکبر بگٹی مرحوم نے انہیں بلوچستان کے کوٹہ پر ایڈوکیٹ جنرل مقرر کیا ۔قسمت کی دیوی یہیں سے مہربان ہونا شروع ہوئی۔ اپریل 1999میں چیف جسٹس بلوچستان مقرر کئے گئی۔
پی سی او کے تحت حلف
جنوری 2000میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لینا چاہا تو چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت چار ججوں نے انکار کردیا اور مستعفی ہوگئی۔ چوہدری صاحب کی گویا لاٹری نکل آئی ۔ بھولے بھالے افتخار چوہدری نے مشرف کو ’’یس باس ‘‘ کہا اور سپریم کورٹ کے جسٹس مقرر ہوگئی۔ 2005میں مشرف نے انھیں بہتر خدمات کے عوض چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا۔
کرپشن کے الزامات اور معطلی
2007میں چوہدری صاحب کو کرپشن ،اقربا پروری اور سینئر وکلاء و ججوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات پر معطل کردیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔اور اس میں بھی بنیادی وجہ ’’ارسلان چوہدری‘‘ ہی بنا۔ جنرل الیکشن کے بعد 24مارچ 2008کو یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھایا اور پہلے ہی دن چوہدری صاحب کی ہائوس اریسٹ سے رہائی کا حکم جاری کیا۔ بطور چیف جسٹس ان کی بحالی کے لیے اعتزاز احسن ، حامد خان ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، اور عاصمہ جہانگیر نے تحریک چلائی ۔بدقسمتی سے یہ تمام کردار آج ’’چوہدری گردی‘‘ کا شکار ہیں۔
ارسلان کے کارنامی
حضرت ارسلان چوہدری صاحب کے بڑے صاحبزادے اور میجر جنرل ضیاء الحق کے داماد ہیں ۔ والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انٹرمیڈیٹ میں ’’سی‘‘ گریڈ حاصل کیااور چیف منسٹر کے کوٹہ سے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخل ہوئی۔ جون 2005میں میڈیکل آفیسر تعنیات ہوئی۔ والد گرامی کی سفارش پر صرف 26روز کے اندر محکمہ صحت میں سیکشن آفیسر مقرر ہوگئی۔ محض چند روز بعد ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ نے ڈاکٹری اور محکمہ صحت کو خیرباد کیا اور ’’ابا جی زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے مقرر کرا دیے گئی۔ جہاں عام آفیسر 10سال بعد بھی ترقی کی راہ تکتا اور دعائیں مانگتا ہے یہ ’’ہونہار‘‘ سپوت ایک سال سے بھی کم عرصہ میں میرٹ کی دھجیاں اور آئین و قانون کو ہوا میں اڑاتے ہوئے گریڈ 18میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئے اے مقرر کیاگیااور وہاں سے نیشنل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ تمام حقائق سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنسمیں موجود ہیں اور انہیں پر ارسلان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا
(بحوالہ ایکسپریسجون7 )Express 7 June 2012
رسی جل گئی بل نہ گیا۔
فرزند ارجمند کی حرام ذرائع اور دوسروں کا حق غضب کرکے حاصل کی جانے والی نوکری ختم ہوجانے کے بعد بھی چوہدری جی نے کوئی نصیحت حاصل نہ کی ۔ اور اب اسے راتوں رات کروڑ پتی بنوانے کی ٹھانی ۔ اس ’’کارخیر‘‘ کے لیے ملک ریاض کا انتخاب کیا گیا۔’’فضل ربی‘‘ نے اپنا کام دکھایا اور’’رحمت‘‘ کے خزانے برسنے لگی۔ ملک ریاض نے آخر کار وہی کیا جو شکرہ بلبلوں کے ساتھ کرتا ہی۔ اور آج اسی حرام کی سیاہی ملے باپ بیٹا دونوں عبرت کا نشان بن گئی۔
قلمکاروں کی فنکاریاں
جسٹس ڈوگر نے ایک مسئلہ پر بیٹی کی سفارش کی۔ انصار عباسی جیسے رائٹ ونگ کے کالم نگاروں کا’’اسلام‘‘ فوری حرکت میں آیا۔ ڈوگر عدالت کے خطابات دیئے گئے اور اولاد کے اعلمال سے صرف نظر کرنے کی مذمت میں آیات عذاب اور احادیث کی بارش برسنے لگی۔اور آج جب افتخار صاحب کی پے درپے سفارشوں اور ہوس زر نے بیٹے کو ڈاکٹر سے مجرم بنادیا ہے تو نہ صرف وہ تمام آیات و احادیث فراموش کردی گئی بلکہ الٹا چوہدری صاحب کو ’’خلیفہ‘‘ بنانے کی سعی لا حاصل جاری و ساری ہی۔ ایک اور مسخرہ کردار ایکسپریس کا لکھاری جاوید چوہدری ہے ’’قلم برائے فروخت‘‘ کا اشتہار سجائے یہ صاحب ایک دن کالم ملک ریاض کے حق میں اور دوسرے دن چوہدری صاحب کے حق میں لکھتے ہیں ۔
ادھر مال اور ادھر اختیار دل نہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہ اسے
اسدا للہ غالب صاحب اس دوڑ میں جاوید چوہدری سے بھی آگے نکل گئے ۔ سعودی کرنل نے ائیرپورٹ پر سیکورٹی سٹاف آفیسر کو گالی دی اور احتجاج پر زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا ۔ سیکورٹی آفیسرنے جوابا قومی غیرت کا بھرپور ثبوت دیااور عربی کرنل صاحب کے کھنے سینک دیئے ۔ اس پر غالب صاحب نے اتنے کالم لکھے کہ خود سعودیوں کو شرم آگئی اور انھوں نے کالم نگار کا شکریہ ادا کیا۔ اب غاقلب صاحب ملک ریاض کو ایدھی سے تشبیہ دے رہے ہیں اور امید ہے کہ ملک صاحب بھی ان کا ٹھیک ٹھاک شکریہ ادا کریں گی۔
بدترین کون ۔فیصلہ آپ کا:
اس سارے قصہ میں ’’بدترین کردار‘‘ کا ووٹ آپ کس کو دیں گے ۔
افتخار چوہدری جو راتوں رات بیٹے کو اعلیٰ درجے کو بیورکریٹ یا کروڑ پتی بزنس مین بنانے کی کوشش کرتا رہا
نااہل بیٹا جو اپنی نالائقی عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ باپ کے کرتوت بھی آشکارا کرگیا۔
میڈیا کے وہ قابل نفرت کردار جو ہوس زر کے لیے مجرموں کو تحفظ دیتے اور دین پر عمل پیرا ہونے کے بجائے دین کو اپنے ’’سانچہ ضرورت ‘‘ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Land Rover was given to him at gunpoint and person told him if Ibne Iftikahr told anyone,all the family mmembers will be harmed.So he kept quiet.
Fantastic Pic
Fantastic Article “Bhole Baap ka Bhola Baita”
Shame on Baap and Baita BOTH
Some unanswered questions
By Editorial
Published: June 15, 2012
Another question that remains is whether any inquiry will be initiated into checking how the son of the chief justice, in the space of four years, managed to build a business. PHOTO: MYRA IQBAL/EXPRESS
To call the Supreme Court’s suo motu hearing into the Arsalan Iftikhar bribery scandal a cover-up would be unfair. After all, the Court has clearly said that if it is established that the son-in-law of business tycoon, Malik Riaz, did indeed pay for the foreign trips of the chief justice’s son, then the matter should be investigated by the attorney general of Pakistan. But, at the same time, the short order spends some time on the importance of the Court’s reputation and how it must be protected at all costs. While there is no denying that that is the case, and all Pakistanis would want to see that happen, the matter more at hand was whether Malik Riaz’s very serious allegations against Arsalan Iftikhar were true or not. They seem to have been relegated given that the short order dwells in some detail on the matter of the Court’s reputation being besmirched in the eyes of the general public. Furthermore, if the matter has now been passed on to the attorney general, with the short order declaring that the court and the chief justice stand absolved of any links with Malik Riaz, can the attorney general, in his investigation of the overall matter, be expected to re-visit the alleged link? The short order also cites Malik Riaz’s contention that the money he gave to Arsalan Iftikhar did not gain him any relief in the Court. For one, this still does not address the issue that perhaps the businessman was saying this because he felt this was the only way out of the mess that he himself had perhaps created.
Another question that remains is whether any inquiry will be initiated into checking how the son of the chief justice, in the space of four years, managed to build a business, which, by his own admission, is worth some Rs900 million. So far, this case has embroiled the judiciary, the media and politicians. The one institution that has been missing is the military. Senior retired officers have worked for Bahria Town and while that is no crime at all, there has also been close cooperation, at times, between that entity and various defence housing authorities, which are headed by senior serving officers. If there is to be a transparent investigation into all aspects of this matter, it should cover all facets.
Published in The Express Tribune, June 16th, 2012.
Why all this is being done? Motive? whether to eradicate corrption? NO… just to stop the Hon’ble Chief Justice who is fighting against corruption, who is hope of poor and this nation… We all know its conspiracy… Gilani is behind it. … Riaz Thakedar game has back fired… whoever raises voice against Chief justice, Qudrut teaches him bad lesson, Musharraf became absconder, MQM mafia still trying to wash black spots of May 12, Riaz thakedar, exposed so much, Mubashir Luqman and Maher Bukhari how would have been they facing their family…
Zardari & Gilani , Military generals and Riaz thakedar, how long will you enjoy this wealth… next destination is graveyard