CJ Gate: Malik Riaz represents Pakistani version of capitalism – by Nazir Naji & Javed Chaudhry
سرمائے کا نام
نذیر ناجی
گزشتہ چار سال کے تجربے سے ظاہر ہوا کہ ہمارے ہاں ریاست کو فنکشنل رکھنے والے سارے ہی آلات ناکارہ ہو چکے ہیں۔ غیرجمہوری حکومتیں آتی ہیں تو ان کے پاس ڈنڈے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ظاہر ہے ڈنڈوں سے ریاستوں کو جس طرح چلایا جا سکتا ہے‘ ہمارے ملک کو بھی چلایا جاتا رہا۔ جمہوریت آتی ہے‘ تو ریاست کے ناکارہ اور زنگ آلود نظام کو دوبارہ حرکت میں لانے کے لئے اداروں کو متحرک کرنا پڑتا ہے اور آمریت کے دوران ان میں ربط کار کے اندر جو خلل اور نقائص پڑ چکے ہوتے ہیں‘ انہیں دور کرنے کے لئے غیرمعمولی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ ان کوششوں کی کامیابی کے لئے جمہوری نظام چلانے والوں کو انتہائی صبر‘ مہارت اور بڑی حد تک عوام اور وطن کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے جذبوں سے کام لیتے ہوئے ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ ترکی گزشتہ کئی برس سے اس عمل سے گزر رہا ہے۔ اب کہیں جاکر کامیابی کے ثمرات وہاں کے عوام کو حاصل ہونے لگے ہیں۔ یہ عمل ابھی جاری ہے۔ آمریت کی باقیات کو تلف کرنے کے لئے آج بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن ترکی کی سیاسی قیادت بڑے امتحانوں سے قریب قریب نکل آئی ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو چار سال ملنے کے بعد بھی ہم اداروں کی بحالی کا عمل شروع نہیں کر پائے۔ اگر میں براہ راست خرابیوں کی نشاندہی کروں‘ تو ہر خرابی کا ذمہ دار اپنے دفاع کے لئے کھڑا ہو جائے گااور پھر مختلف طریقوں کے ذریعے ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے لگے گا۔ مگر ایسی صورتحال میں درحقیقت سب ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری جن اداروں کے سپرد ہوئی‘ انہیں چلانے والے سب کے سب اپنے اصل ٹارگٹ پر نگاہ نہیں رکھ پائے۔ کہنے کو تو ہر ایک نے کہا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا خواہشمند ہے لیکن عملاً کسی نے بھی اپنے مقصد کے حصول کے لئے شعوری کوشش نہیں کی۔ سب کے سب اقتدار کے ثمرات سمیٹنے میں لگ گئے اور یہ بھول گئے کہ جس اقتدار کی بنیادیں ہی مضبوط نہ ہوں‘ وہ تادیر ثمرآور نہیں رہتا۔ جو لوگ پارلیمنٹ میں آئے ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ تھی۔ ٹوٹے ہوئے آئینے کے ٹکڑے جمع کر کے انہیں جوڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔ مگر یہ کام کرنے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اور انہی ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کے اوپر کھڑے ہو کر دولت سمیٹنے اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں لگ گئے۔ جس کے پاس اقتدار نہیں تھا وہ اسے چھیننے کے لئے ہر جتن کرنے لگا۔ جس کے پاس تھا‘ وہ اپنے قابو آئے ہوئے اقتدار کے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا اور جس کے پاس اقتدار تو تھا مگر وہ زیادہ کا خواہش مند تھا‘ وہ دوسرے کے چھابے میں ہاتھ مارنے لگا۔ بظاہر اسمبلیاں بھی ہیں‘ جمہوریت بھی ہے‘ حکومتیں بھی ہیں‘ ادارے بھی ہیں لیکن جس طرح ایک ریاست کے اداروں کو ہم آہنگی سے کام لیتے ہوئے ریاست کو فنکشنل کرنا چاہیے‘ اس طرح کسی نے کام نہیں کیا۔ چار سالوں سے ریاست چل رہی ہے‘ اداروں کا ایک دوسرے پر ابھی تک اعتماد نہیں۔ سب نے ایک دوسرے کے خلاف گھات لگا رکھی ہے اور سب ایک دوسرے کے وار سے بچنے کے لئے ایک ایک آہٹ پر کان دھرے بیٹھے ہیں۔ کسی بھی ادارے کا جائزہ لے کر دیکھ لیں‘آپ کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پہلی ہی کوشش میں یاد آجائے گا کہ کب کس ادارے نے کس پر وار کیا اور دوسرا کس طرح اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوا؟ اداروں کی اسی باہمی کشمکش کا ایک نظارہ عدلیہ اور دیگر اداروں میں ہونے والی رسہ کشی کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ مشرف کی آمریت جب انجام کو پہنچی‘ تو اتفاق سے اسے آخری دھکا دینے کا موقع وکلا کی تحریک کو مل گیا۔ جس سے یہ تصور پیدا ہواکہ بنچ اور بار بہت بڑی سیاسی طاقت بن گئے ہیں اور وہ دوسرے اداروں کو دباؤ میں لا سکتے ہیں۔ چنانچہ عدلیہ میں اس طرح کے سخت فیصلے آنے لگے ۔ یہاں تک کہ افسروں کی ترقیوں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار بھی عدلیہ کو منتقل ہوتا نظر آیا اور ایگزیکٹو برانچ کے سربراہ بے بسی کے عالم میں اپنی اتھارٹی بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ میڈیا نے اس کشمکش میں اپنی داؤ بازیاں شروع کر دیں اور اس کے ایک حصے نے صدرزرداری کو براہ راست ہدف بنا کر انہیں ایوان صدر سے نکالنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیا اور بعض تو اتنے جوش میں آگئے کہ صدر زرداری کو ایمبولینس میں ڈال کر ایوان صدر سے نکالنے کی منظر کشی کرنے لگے۔ ایگزیکٹو کو بے چارگی کے عالم میں جھکتے اور ڈرتے دیکھ کر فوج کی طرف بھی توجہ مبذول ہوئی۔ یہ ادارہ سرحدی کے علاوہ داخلی سکیورٹی کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ دہشت گردی پاکستان میں بری طرح سے پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے مواقع پر سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دیئے جاتے ہیں اور عموماً بنیادی حقوق معطل کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر اداروں کی باہمی کش مکش میں ایگزیکٹو اتنی کمزور پڑ گئی تھی کہ وہ ہنگامی حالات نافذ نہ کر سکی۔ سکیورٹی والوں نے جو دہشت گرد اور ریاست کے دشمن اپنی تحویل میں لئے‘ انہیں عام قوانین کے تحت حراست میں رکھنا ممکن نہ تھا۔ بنیادی حقوق کی موجودگی میں وکلا کا عدلیہ سے مدد مانگنا لازم تھا۔ دہشت گردوں کی ضمانتیں منظور ہونا شروع ہوگئیں۔ سکیورٹی والے عجیب مخمصے میں پھنس گئے۔ وہ اپنی جانوں پر کھیل کر اور خون بہا کر دہشت گردوں کو پکڑتے اوروہ ضمانتیں منظور کروالیتے۔ اس سے ایک نئی کشمکش جنم لینے لگی۔ لیکن فیصلوں سے صحیح یا غلط لوگوں کو ریلیف ملنے لگی‘ تو سکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کو مطلوب ہر شخص عدالتوں کے دروازے پر دستک دینے لگا۔جس کے بعد کئی ایسے اقدامات ہوئے جن میں انصاف و قانون کے تقاضوں کے بجائے عوامی مقبولیت کا عنصر زیادہ نظر آتا تھا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب اداروں کے ٹکراؤ میں عدلیہ بھی شامل ہوگئی‘ تو اسے ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ میں نے اس موضوع پرٹکراؤ کے پہلے ہی مرحلے میں انتباہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ عدلیہ کو بے پناہ عوامی مقبولیت اور طاقت حاصل کرنے کے بعد کوشش کرنا چاہیے کہ آئین و قانون کے تحت دستیاب اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سستا اور تیزرفتار انصاف فراہم کرنے کے لئے غیرمعمولی کارکردگی دکھائے اور یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ریاستی اداروں میں عدلیہ کی حیثیت ایک بزرگ کی سی ہوتی ہے جس کا اختیار اسی وقت تک باقی رہتا ہے‘ جب تک تمام افراد خانہ اس سے خیر‘ محبت اور انصاف کی امید میں عزت و احترام سے کام لیتے رہیں۔ مگر جیسے ہی گھر کے ایک بھی فرد کو اپنے ساتھ ناانصافی کی شکایت پیدا ہوتی ہے‘ تو وہ بغاوت پر اتر آتا ہے اور اپنا غصہ بزرگ پر نکالتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس اپنی بزرگی کے احترام کے سوا کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ عدلیہ بھی ریاستی اداروں میں رگ پٹھوں کے زور میں سب سے کمزور ہوتی ہے اور جب بھی اس نے دوسرے اداروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی‘ اسے پیچھے ہٹنا پڑا اور ہماری عدلیہ نے تو محض میڈیا کے ایک حصے کے بل بوتے پر ریاست کے دیگر اداروں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ردعمل آئے گا اور عدلیہ کو افسوسناک حالت میں اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ ارسلان افتخار کا واقعہ الگ تھلگ چیز نہیں۔ یہ طاقت کے مراکزکے جوابی اقدام کا ایک عنصر ہے۔ مجھے ایک ٹی وی اینکر نے پوچھا تھا کہ ”ملک ریاض حسین کون ہے؟“ میں نے جواب دیا کہ ”پاکستان میں سرمائے کا نام ملک ریاض حسین ہے۔“ اس کا نام ہر ملک میں الگ ہوتا ہے مگر کام ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے طاقت کے مراکز کو توسیع اور تحفظ دینا۔ اگر آپ میرے پرانے کالموں کو یاد کریں توآپ نے بارہا پڑھا ہو گا کہ ”جج معصوم‘ بھولا اور دنیا کی چالبازیوں سے بے خبر ہوتا ہے۔“آج کے حالات سے کیا میری بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔ آج ان کی کیفیت پر سب سے زیادہ دکھی میں ہوں۔ وہ ہر اعتبار سے ایک مثالی جج ہیں لیکن طاقت کے کھیل میں وہ حسب روایت کمزور نکلے۔
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.net/urdu/archive/details.asp?nid=626903
ے۔ اپنے عظیم المرتبت والد کی قومی سطح پر عزت و توقیر، بین الاقوامی سطح پر احترام اور بااثر حلقوں میں موجود جذبہ انتقام کی پروا کئے بغیر ڈاکٹر ارسلان افتخار نے احمد خلیل، زاہد رفیق اور احمد حسین ایسے مشکوک کرداروں پر بھروسہ کیوں کیا جن کے بحریہ ٹاؤن سے تعلق، وزیراعظم ہاؤس سے رابطوں اور ملتان کے ترقیاتی منصوبوں میں شرکت سے پوری دنیا واقف ہے۔ وہ اپنے نادان دوستوں یا دانا دشمنوں کے مشورے پر فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان کی طرح کاروبار کی طرف مائل کیوں ہوئے، یہ کیوں بھول گئے کہ نامور باپ کے بچوں کو ہر قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے ہر قول و فعل کی زد ماں باپ پر پڑتی ہے اور والد گرامی کی بے پناہ عدالتی مصروفیات کے باوصف والدہ محترمہ نے برخوردار کی کارباری و سماجی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب عدالتی تحقیقات میں سامنے آئے گا
یہ واضح اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بیالیس مقدمات میں ریلیف نہ ملنے کے باوجود ڈاکٹر ارسلان پر سرمایہ کاری جاری رہی اور ان کی سرگرمیوں کی قدم قدم پر ویڈیوز بنتی رہیں۔ سیدھے سادے نہیں اصل میں نہ تو کئی کردار بیک وقت متحرک ہوتے ہیں نہ ان کی ڈاکومینٹیشن ہوتی ہے اور نہ کرسٹینا لیمب سے رابطے کئے جاتے ہیں بلکہ یہ ایک مکمل سازشی منصوبہ نظر آتا ہے جو تین سال قبل کہیں نہ کہیں تیار ہوا۔ ملک ریاض اور وزیراعظم ہاؤس سے وابستہ ارسلان کے دوستوں احمد خلیل اور زاہد رفیق نے چیف جسٹس کے صاحبزادے کو دوستانہ اعتماد کے جال میں پھنسایا اور عین اس وقت افشا کا فیصلہ کیا جب وزیراعظم کی نااہلی، میمو سکینڈل اور اس نوعیت کے دیگر مقدمات کے فیصلے آنے والے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کرسٹینا لیمب کے پاکستان میں کس کس سے رابطے ہیں اور انہیں ماضی میں کن سرگرمیوں کی بنا پر ملک بدر کیا گیا تھا۔ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس سازشی منصوبے میں میڈیا بری طرح استعمال ہوا
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے…طلوع …ارشاد احمد عارف
http://jang.net/urdu/archive/details.asp?nid=626910
Share
جسٹس افتخار اور ایک نئی یلغار (1)…نقش خیال…عرفان صدیقی
مصحفی کے اس طرحدار شعر کی خوبصورتی مجھے اکسا رہی ہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ کدورتوں اور نفرتوں سے بہری اس بے ذوق جنگ کا اس شعر سے کوئی ناتا نہیں۔ چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم کہیں تو قافلہ نوبہار ٹھہرے گا باد نسیم کا غنچوں کے چٹکنے کی دلربا آواز کے تعاقب میں چلتے چلے جانا، چلتے چلے جانا کہ کہیں تو رنگ و خوشبو سے لدی اس بہار تازہ کا قافلہ رکے گا اور لمبے ہجر کی ماری لطیف ہوا لذت وصل سے ہمکنار ہوگی، کیا اچھوتا خیال ہے اور کس عمدگی سے ادا ہوا ہے۔ ایک تازہ یلغار کی زد میں آئی عدلیہ، بعض دلوں کی چمنیوں سے اٹھتا بغض و کدورت کا دھواں اور بعض خزاں رسیدہ چہروں پر یکایک کھل اٹھنے والی بشاشت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سب کچھ وہی نہیں جو دکھائی دے رہا ہے، کہانی کے پس پردہ بھی ایک کہانی موجود ہے۔ اس کہانی کے مشاق اور ہنر مند کردار بھیس بدلنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بدلتے موسموں کے تیور ایسے ہیں کہ اپنے چہرے پر کئی چہرے چڑھا لینے کی قدرت رکھنے والے فنکار بھی اپنی شناخت کو چھپا نہ پائیں گے۔ بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من انداز قدت رامی شناسم تو چاہے جس بھی رنگ کی پوشاک پہن لے اور جو بھی بھیس بنا لے، میں تجھے تیرے قد و قامت کے انداز سے پہچان جاتا ہوں۔ سو شاید چہرے بے نقاب ہونے کی رت آگئی ہے۔ جرس غنچہ کی صدا پہ سفر کرتی باد نسیم کو قافلہ نو بہار کی کوئی منزل ملے نہ ملے، اسلام آباد کے سٹیج کا یہ تازہ ناٹک بہرحال لکھے گئے سکرپٹ تک محدود نہیں رہے گا۔ بظاہر کہانی اس قدر ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک، ملک ریاض حسین نے اپنے درجنوں مقدمات سے نجات پانے یا اپنے من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے چیف جسٹس عزت مآب افتخار محمد چودھری پر بھی وہی نسخہ آزمانے کی کوشش کی جو وہ راولپنڈی اور گردو نواح کے پٹواریوں، گرداوروں اور تحصیل داروں پر آزماتے رہے ہیں۔ فائل کو پہئے لگانے، کی حکمت عملی سے ملک صاحب نے کبھی انکار نہیں کیا۔ وہ نجی محفلوں میں ہی نہیں، ٹی وی پروگراموں میں بھی عملیت پسندی کے اس فلسفے کا کھلا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کی اس بات میں خاصا وزن بھی ہے۔ کرپشن سے لت پت اس ملک میں جہاں پٹواریوں سے سیکریٹریوں اور وزراء یا شاید ان سے بھی ذرا اوپر کی سطح تک، چھوٹے بڑے دہانوں والی شارک مچھلیاں اپنے بھیانک جبڑے کھولے جھپٹ رہی ہوں، بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبے کو صاف شفاف طریقے سے آگے بڑھانا آسمان میں تھگلی لگانے کے مترادف ہے۔ یہاں تو فٹ پاتھ پر ریڑھی لگانے اور گلی کی نکڑ پر کھوکھا چلانے والے کو بھی کوچہ و بازار کے ارباب اختیار کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ سو ملک صاحب نے جو کچھ پایا، بنایا اور کمایا، سب زمینی حقائق کے گہرے شعور اور ان کی عملیت پسندی کا ثمر ہے۔ درجنوں مقدمات سے زچ، بحریہ ٹاؤن نے برسوں پہ محیط اپنی آزمودہ اور کامیاب حکمت کار کے تحت جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے قلعے میں نقب لگانے کے لئے ان کے صاحبزادے ارسلان افتخار کوشیشے میں اتارا۔ بعد کی کہانی کے خاصے اجزاء منظر عام پر آچکے ہیں۔ خلاصئہ کلام یہ ہے کہ مبینہ طور پر ارسلان افتخار پر کم و بیش بتیس کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا تو پیمانہ چھلک گیا۔ جس پر ملک صاحب نے اس سرمایہ کاری کے شواہد بعض صحافیوں اور اعتزاز احسن کو دکھائے۔ سنڈے ٹائمز کی کرسٹینا لیمب کو بھی یہ سٹوری دی گئی۔ پہلی سوچ یہ تھی کہ یہ دھماکہ عین اس دن ہو جس دن جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک بڑا عالمی اعزاز وصول کرنے لندن میں موجود ہوں لیکن کسی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے میڈیا کی سرگوشیاں سنتے ہی معاملے کا سویو موٹونوٹس لیا اور پھر ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے خود بینچ سے الگ ہوگئے۔ امکان ہے کہ اب نسبتاً بڑا بینچ اس مقدمے کی سماعت کرے گا اور اہل پاکستان کو توقع ہے کہ عدلیہ اپنی عزت و حرمت کا پرچم سربلند رکھتے ہوئے قانون و انصاف کے تقاضوں پہ کوئی آنچ نہیں آنے دے گی۔ لیکن سوالات کا ایک جنگل ہے کہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ کہانی الجھی ہوئی ہے اور بقول افتخار عارف کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا تماشا ختم ہونے میں ابھی کچھ دیر لگے گی۔ لوگ کہتے ہیں، کیا ارسلان کو ایک منصوبے کے تحت جال میں پھانسا گیا؟ اس پہ نوازشات کی بارش کی گئی۔ ہر ایک چیز کا ریکارڈ رکھا گیا۔ یہاں تک کہ وڈیو فلمز بنائی گئیں۔ اتنی محنت مشقت اور سرمایہ کاری اس لئے نہیں ہوسکتی کہ فلم ریلیز کئے بغیر کسی ڈبے میں بند کردی جائے۔ جڑا ہوا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا ارسلان افتخار اتنا ہی سادہ و معصوم تھا کہ نوازشات کی اس برسات میں جل تھل ہوتا رہا اور اسے کچھ اندازہ نہ ہو پایا کہ بحریہ ٹاؤن اس پر اس قدر مہربان کیوں ہو گیا ہے؟ آج کل تو جب کوئی آدمی دونوں ہاتھوں سے مسکراتے ہوئے ذرا جھک کر مصافحہ کرے تو ماتھا ٹھنکتا ہے کہ ضرور اسے کوئی کام ہے۔ ارسلان افتخار کیوں نہ بھانپ سکا کہ نوازش ہائے بے جا کا سبب کیا ہے؟ پھر ایک نئے سوال کی کونپل پھوٹتی ہے کہ جب ارسلان کی نااہلی عیاں ہوگئی تھی اور وہ بحریہ ٹاؤن کو کسی طرح کا کوئی ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا بلکہ چار درجن کے لگ بھگ تمام مقدمات کے فیصلے بحریہ ٹاؤن کے خلاف آئے تو ارسلان پر سرمایہ کاری کا سلسلہ کیوں جاری رہا؟ پاؤ بھر دودھ نہ دینے والی بانجھ بھینس کی کھرلی میں کئی برس تک لذیز چارہ کیوں ڈالا جاتا رہا؟ ملک صاحب خود بھی کہتے ہیں اور پاکستانی قوم بھی یہ سمجھتی ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس کا اس کھیل سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا لیکن پھر یہ چبھتا ہوا سوال کہ ایک زیرک اور جہاں دیدہ شخص اپنے بیٹے کے طور اطوار سے اس قدر بے خبر اور لا تعلق کیسے رہا؟ ہماری تہذیب و معاشرت میں تو والدین بچوں کی آنکھوں میں جھانک کر، ان کے دلوں کی دھڑکنیں تک پڑھ لیتے ہیں۔ پھر یہ سوال کہ اگر ارسلان افتخار کے لئے ایک جال بنا گیا تو کیا ملک ریاض حسین یہ جال بننے والے گروہ میں شامل ہیں؟ اگر شامل ہیں تو ان کا مفاد کیا ہے؟ پاکستان کا سب سے موثر اور سب سے مقتدر کاروباری ہوتے ہوئے، ایک عظیم الشان بزنس رکھنے والا شخص کیوں چاہے گا کہ وہ اپنی ذات اور اپنے کاروبار کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کرتے ہوئے اس طرح کی مہم جوئی کا آلہ کار بنے؟ کاروباری لوگ بنیادی طور پر حکمت کے ساتھ راستہ تراشنے والے مصلحت کیش ہوتے ہیں۔ بارودی سرنگیں بچھانا اور دھماکے کرنا ان کی فطرت میں نہیں ہوتا۔ ملک ریاض حسین کی تو پوری زندگی اس فلسفے سے عبارت رہی ہے؟ تو کیا ارسلان کی طرح ملک صاحب بھی کسی جال میں آگئے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ سوال کہ ملک ریاض حسین جیسے ہنر کار اور بحریہ ٹاؤن جیسا مثالی جہان نو آباد کرنے والے بہترین منصوبہ ساز نے جس کے لئے 32 کروڑ روپے کا کڑوا گھونٹ بھر کر سب کچھ بھول جانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اپنی ذات اپنے خاندان اور اپنے اربوں کھربوں کے کاروبار کو داؤ پر کیوں لگادیا؟ اور پھر سب سے بڑا سوال کہ کیا پس پردہ بیٹھے کچھ زخم خوردگان کے لئے افتخار محمدچوہدری اسی طرح ناقابل برداشت ہوگیا ہے جس طرح وہ روسیاہ ڈکٹیٹر کے لئے ہوگیا تھا؟ (جاری ہے)
http://jang.net/urdu/details.asp?nid=627017
بات نکلے گی تو پھر…!…لیکن …ثناء بُچہ
Sana Bucha refer to General Kayani’s brother in the last sentence:
۔لیکن وزارت بیچتے بیچتے شاید یہ حضرت سمجھنے لگے کہ انصاف بھی خریدا جا سکتا ہے ۔سیاسی جوڑ توڑ کرتے کرتے انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ اپنی مرضی کا انصاف بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اوراس کھیل میں سیڑھی بنے ڈاکٹر ارسلان افتخار ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے پر بحریہ ٹاؤن کے چیف ایگزیکٹیو سے مبینہ طور پرکروڑوں روپے لینے کے الزامات سامنے آنے پر چیف جسٹس نے ان خبروں کا ازخود نوٹس لے لیا ہے،اور مقدمے کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔ جبکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے چیف جسٹس اس مقدمے کی سماعت سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ نہیں ہو ئے علیحدہ تو چیف جسٹس کے اصول، ہماری غیرت اوربے غیرت بریگیڈ کے اپنے اپنے موقف اور سیاستدانوں کی مبہم وابستگیاں۔لیکن خلاف توقع کھیل کے مرکزی کردارشروع میں ہی سامنے آگئے ۔سابق ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل (ریٹائرڈ) شوکت سلطان،آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کے سابق انچارچ میجر جنرل (ریٹائرڈ) احتشام ضمیر، ریٹائرڈ ایئرکموڈور الیاس اور ریٹائرڈ ونگ کمانڈرایاز،ملک کے دفاع کے بعداب ملک صاحب کے دفاع میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ بحریہ کے نام کے ساتھ ساتھ اس پراجیکٹ کو کتنا کچھ دیا ہے۔ یہ تنقید نہیں ،حقیقت ہے ۔پاکستان ایک آزاد ملک ہے، اور اس کے آزاد شہری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔لیکن زیادہ تر دکھائی یہی دے رہا ہے کہ یا تو ریٹائرڈ فوجی افسران پاکستان تحریک انصاف کے سونامی میں غوطے لگا رہے ہیں یا ملک صاحب کے سمندر میں تیر اکی کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ میں نے ابھی صرف اس حوالے سے سوچنا شروع کیا ہے، مزید اگلے کالم کے لئے ادھار رہا۔ یہ تو رہی ریٹائرڈفوجیوں کی زندگی پر ایک نظر۔لیکن ذرا ایک جھلک ہماری بے غیرت بریگیڈپر بھی ۔خبر نے میڈیا نے سنسی پھیلانا شروع کی ،تو چیف جسٹس خاموش کیوں ہیں؟ ’سی جے گیٹ‘ کے نام سے سوشل میڈیا میں ہلچل مچادی گئی ۔رات کے آخری پہر میں سو موٹو لیا گیاتو تکلیف یہ کہ اسے ہائی پروفائل کیس کیو ں بنا دیا گیا؟چیف جسٹس صاحب کیس سننے کیلئے بینچ میں شامل ہوئے تو قانونی ضابطہ اخلاق یاد کروایا گیا۔الگ ہوئے تو اس پر بھی واویلا کہ اپنے بیٹے کو سزا دیتے ہوئے ہاتھ کانپیں گے؟ سیکولرسمجھی جانے والی موجودہ حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کاموقف یہ ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ۔معاملے کی سنگینی کو سمجھئے کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اورچیئر مین پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی فرماتے ہیں کہ معاملے کودبا دیجئے ،اچھالئے مت۔ شاید چیئرمین پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کی پوزیشن ہی مسئلے کی وجہ ہے ۔ اس پوزیشن پر چوہدری نثار نے ڈی ایچ اے اسلام آباد کے گھپلے کو بے نقاب کیا اور نہ ہی ندیم افضل چن صاحب ایسا چاہتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک صاحب اس وقت اس معاملے کو اچھال کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ایک معمولی حیثیت سے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون بننے والا شخص ٹائم اورٹائمنگ کی اہمیت سے ناواقف نہیں ہو سکتا۔اس وقت دو ہی باتیں بہت اہم تھیں ۔حکومت کی کرپشن اورلاپتا افراد کے مقدمات۔اول الذکر کا تعلق صدرآصف زرداری سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق فوج اورخفیہ اداروں سے ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ ملک صاحب ان دونوں ہی کے منظور نظر ہیں ۔پتا نہیں کہ اشارہ اسلام آباد سے آیا ہے یا راولپنڈی سے ،کہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھا بیٹھے۔لیکن بڑا قدم آنے والے بڑے سانحے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی لپیٹ میں صرف ایک بیٹا ہی نہیں آئے گا، بات نکلے گی تو پھر بہت دور تلک جائے گی ۔ہو سکتا ہے کہ کسی کے بھائی کانام بھی زبانوں پرآنے لگے۔کیونکہ جب ایک مقدس گائے کی قربانی کا ذکر چھڑے گا تو پھرکئی بکرے بھی چھری کے نیچے آئیں گے
http://jang.net/urdu/details.asp?nid=627028
مال اور اولاد کا فتنہ…جرگہ…سلیم صافی
”رات لاہور میں گزارنے کے بعد صبح ساڑھے بارہ بجے کی پی آئی اے کی فلائٹ سے میں نے واپس اسلام آباد آنے کا پروگرام بنایا تھا اور شیڈول کے مطابق یہاں دوبجے کو ایک میٹنگ میں شرکت کا وعدہ کیا تھا۔ بورڈنگ پاس لینے کے لئے پی آئی اے کے کاونٹر پر گیا تو وہاں عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ملازم کو موجود پایا۔ وہ ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کے اہل خانہ جنہوں نے چانس کے ٹکٹ لئے ہوئے تھے ، کے لئے بورڈنگ پاس لینے کی غرض سے وہاں موجود تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کنفرم ٹکٹوں کے بورڈنگ پاس ایشو ہونے کے بعد چانس کے مسافروں کو بورڈنگ پاس ایشو کئے جاتے ہیں اور یہ عمل فلائٹ کی روانگی سے چند لمحہ قبل مکمل کیا جاتا ہے۔ عجیب بات یہ تھی کہ ان وی آئی پی مسافروں کو انتظار کی زحمت سے بچانے کی غرض سے ائرپورٹ لانے کی بجائے انہیں گھر پر بیٹھے رہنے کا کہا گیا تھا اور انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر سیٹ مل گئی تو پھر وہ ائرپورٹ روانہ ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب بورڈنگ پاس ایشو ہوئے ، تب ان کو فون کرکے ائرپورٹ آنے کا کہا گیا ۔ ائرپورٹ کے باہر پی آئی اے کے خصوصی کوسٹر کو ان کے لئے تیارکیا گیااور سول ایوی ایشن کے عملے کے کئی افراد ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے ۔ دیگر مسافروں کی طرح میں بھی جاکر جہاز میں بیٹھ گیا لیکن ساڑھے بارہ بجے جہاز روانہ نہ ہوسکا۔ جہاز سٹارٹ ہوگیا تھا۔ باقی سب مسافر تیار تھے لیکن پتہ چلاکہ عدالتی شخصیت کے اہل خانہ کے ائرپورٹ پہنچنے کا انتظار ہورہا ہے۔ آدھے گھنٹے کی تاخیر کے بعد جہاز کے کپتان نے معذرت کیلئے اناوٴنسمنٹ کی لیکن تاخیر کی وجہ بیان نہ کرسکے۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ بعض مسافروں کا انتظار ہورہا ہے ۔ پرواز کے مقررہ وقت کے چالیس منٹ بعدیعنی ایک بج کر دس منٹ پر جہاز کے عملے کا ایک فرد میرے پاس آیا اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ ہم تو کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ ہمیں انصاف دلائیں گے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کی وجہ سے سو کے قریب مسافروں کو بھی تکلیف ہورہی ہے، ہم بھی شرمندہ ہورہے ہیں اور جہاز کا تیل بھی خرچ ہورہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ خود وی آئی پیز تو چلو وقت بچانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے لئے قوم کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہورہی ہے ؟ پھر اسی وی آئی پی کلچر کے مزید قصوں کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں لندن کی فلائٹ میں ان کی ڈیوٹی تھی ۔ اس جہاز میں ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی بیوی نے پاکستان آنا تھا۔ وہ شاپنگ کی وجہ سے لیٹ ہوگئی تھی اور ان کیلئے دو گھنٹے تک سینکڑوں مسافر جہاز میں انتظار کرتے رہے ۔ ہمارا تو خیال تھا کہ ہماری عدلیہ ان حکومتی شخصیات کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رکھے گی لیکن اب جب کہ اس کے بعض افراد خود ایسا کررہے ہیں تو پھر ہم کس کے پاس جائیں ؟ وہ یہاں تک کہہ گئے کہ اس ملک کا آخر کیا بنے گا اور ان حالات میں یہ ملک کیسے چل سکے گا؟۔ میں نے ان کو تسلی دی کہ ملک کو انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ چند لوگوں کی غلطیوں کا یہ مطلب نہیں کہ پوری قوم ایسی ہے ۔ اس قوم کی زندگی کا یہ ثبوت کیا کم ہے کہ اس عدلیہ کی بحالی کیلئے اس کے لاکھوں لوگوں نے مالی اور جانی قربانیاں دیں اور اب وہ عدلیہ بڑی حد تک حکمرانوں کو نکیل ڈال رہی ہے ۔ اس نے ابھی تک بلاشبہ وی آئی پی کلچر کا ازخود نوٹس نہیں لیا لیکن ملک کے بعض طاقتور لوگوں اور اداروں کو طلب کرکے زندگی کاثبوت ضرور دیا ہے ۔ ان کو تسلی دی کہ مجھے حسن ظن ہے کہ آج جو کچھ ہوا ، یہ اس عدالتی شخصیت کے نوٹس میں نہیں ہوگا۔ شاید نیچے کے لوگ نمبر بنانے کیلئے یہ پھرتیاں دکھارہے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ چونکہ اس شخصیت سے میرا براہ راست رابطہ نہیں ، اس لئے میں یہ واقعہ اپنے کالم میں نقل کروں گا۔ اگر تو انہوں نے اس کانوٹس لے لیا تو آپ کو اپنی مایوسی ختم کرنی ہوگی اورمیں بھی اپنے حسن ظن پر قائم رہوں گا اگر نہ لیا تو پھر میں بھی آپ کی طرح اپنا حسن ظن ختم کرلوں گا۔ لیکن میں پھر بھی ملک کے مستقبل سے متعلق سوال اٹھاؤں گا اور نہ پوری قوم سے مایوس ہوں گا۔ میں بس صرف اور صرف عدلیہ سے وابستہ توقعات کو دفن کرکے نئے منصفوں اور نئی صبح کا انتظار کرنے لگ گیا۔“ زیرنظر اقتباس گیارہ جنوری 2011ء کو جنگ میں شائع ہونے والے ”جرگہ“ سے لیا گیا ہے ۔ تب بھی مجھے یہ حسن ظن تھا کہ ضروری نہیں کہ اپنے اہل خانہ کی اس طرح کی سرگرمیوں میں خود اعلیٰ عدالتی شخصیت کی ایما شامل ہو اور آج بھی میں اس حسن ظن کا سہارا لے رہا ہوں کہ جو کچھ ہوتا رہا اس میں بیٹے کے ساتھ باپ ہر گز شریک نہیں ۔ وہ شریک ہوتے تو کسی نہ کسی مقدمے میں ملک ریاض صاحب کو رعایت ملتی لیکن خود ملک صاحب فرمارہے ہیں کہ رعایت ملنے کی بجائے ان کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی۔ لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلے سالوں کے دوران دوسروں کے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے محاسبے کا عمل بھی جاری رہتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں پچھلے دو سالوں کے دوران گزشتہ روز پہلی مرتبہ سپریم کورٹ گیا اور سچی بات یہ ہے کہ عدالت میں چیف جسٹس صاحب کو اپنے بیٹے کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے دیکھا تو دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ جس حوصلے اور استقامت کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کے کیس کی سماعت کررہے تھے، اس نے میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھا دی لیکن اس روز مجھے وہ معزولی کے دنوں سے بھی بڑھ کر ہمدردی کے مستحق نظر آئے ۔7 جون کو سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کے مقدمے کی ابتدائی سماعت ختم ہوئی تو وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کے کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران بار بار یہ قرآنی آیت میرے ذہن میں گونج رہی تھی کہ ”بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہے“۔ غور سے دیکھا جائے تو یہی دو چیزیں ان دنوں پاکستان میں انتشار اور ہیجان کا باعث بنی ہیں۔ ملک ریاض صاحب مال اور اولاد کی وجہ سے برہم ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب اولاد کی وجہ سے آزمائش میں ہیں ۔ مونس الٰہی ہو کہ حمزہ شہباز ، موسیٰ گیلانی ہو کہ عیسیٰ گیلانی، سب والدین کیلئے نیک نامی کی بجائے پریشانی کا موجب بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جب ڈاکٹر ارسلان کے بعد وزیراعظم کے بیٹے کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو میں نے ساتھ بیٹھے ایک سینئر وکیل سے عرض کیا کہ کیوں نہ اب بڑوں کی اولاد کیلئے ”عدالت اولاد“ کے نام سے ایک الگ عدالت بنائی جائے تاہم انہوں نے تجویز دی کہ الگ عدالت کی بجائے بہتر ہوگا کہ اعلیٰ عدالتوں کا ایک دن بیٹوں کے کیسوں کی سماعت کے لئے مختص کی جائے۔ اس گفتگو کے نتیجے میں ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ سب کیلئے اولاد اس لئے رسوائی کا موجب بن رہی ہے کہ ہر کوئی دوسرے کے بچے کا احتساب کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے بچے کا احتساب نہیں چاہتا ۔ اگر وزیراعظم اپنا اور اپنے بیٹے کا ، شہباز شریف اپنا اور اپنے بیٹے کا ، ملک ریاض اپنا اور اپنے بیٹے کا اور جج صاحبان اپنا اور اپنے بیٹوں کا احتساب کرتے تو یہ ملک جنت بن گیا ہوتا اور آج جو سب باری باری شرمندگی اٹھارہے ہیں، اس کی نوبت بھی نہ آتی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس اچھی روایت کا آغاز کردیا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ احتساب کس قدر حقیقی احتساب ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ دوسرے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں یا نہیں ۔ مرضی ہر ایک کی اپنی ہے لیکن بہر حال بچاؤ کا واحد راستہ اب یہی ہے کہ دوسروں کے احتساب پر اصرار کی بجائے ہر کوئی اپنا اور اپنی اولاد کا احتساب کرے ورنہ وقت سب کا محاسبہ کرے گا اور وقت کا محاسبہ بڑا بے رحم ہوتا ہے۔
http://jang.net/urdu/archive/details.asp?nid=626907
پنڈورا باکس… ناتمام…ہارون الرشید
ایک کالم اور ٹاک شو نہیں بلکہ یہ ایک کتاب کا موضوع ہے ۔ کیایہ کتاب کبھی لکھی جا سکے گی ؟ کون جانتاہے ، آنے والے کل کی کون جانتا ہے ۔ و الی اللہ تر جع الامور ۔ پرانی لینڈ کروزر سے ملک ریاض حسین نے گرد و پیش پر نگاہ کی اورکہا ” بحریہ ٹاؤن کے ساتھ میں نے اپنے اکلوتے بیٹے علی سے کم محبت نہیں کی ” یہ خاموش ہو جانے کا لمحہ تھا۔ اب مزید کسی سوال کی گنجائش کہاں تھی ۔ وہ ایک خبطی آدمی ہے ، میں نے سوچا : ایک خواب اس نے دیکھاہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ روک نہیں سکتی۔ ملک ریاض حسین سے میرا تعارف وزیر اعظم معراج خالد نے کرایا تھا ۔ میری عدم موجودگی میں ؛چنانچہ میرے ساتھ وہ محتاط رہا۔ نگران وزیر اعظم سے میری دوستی ایک طویل تلخی کے بعد خود ان کے ایما پر ہوئی تھی ۔یہ دو کروڑ روپے پر دو بھائیوں کا جھگڑا تھا او رمیں نے ان میں سے ایک کی سفارش کی تھی ۔ ملک نے میری سفارش مان لی اور میں نے اس کی خواہش پر دو اڑھائی ماہ تک ایک منصوبے پر کام کیا۔ معاوضے پر اور یہ بڑا ہی حقیر معاوضہ تھا مگر مجھے روپوں کی ضرورت تھی ۔ ایک شام ، جب ایک شادی میں شرکت کے لئے مجھے فیصل آباد جانا پڑا اور ملک کو میں نے مطلع کیا تو ایک بڑے کاروباری آدمی کے لہجے میں اس نے کہا : اپنی ڈیوٹی کے ساتھ آپ انصاف نہیں کر سکتے۔ مجھے صدمہ ہوا لیکن میں خاموش رہا اور اسے موقع دیا کہ وہ کسی اور کا انتخاب کر لے جو ذہنی طورپر اسے آسودہ رکھ سکے۔ اس شخص نے کئی گنا معاوضہ وصول کیامگر حیرت انگیز طور پر ملک خوش رہا۔ وہ ایسا ہی آدمی ہے ۔ روپیہ نہیں ، اس کے لیے اطاعت اہم ہے ۔ ایک لینڈ رولر کی طرح، ترقی کے لیے بے تاب سرمایہ کار اپنا راستہ خودبناتاہے اور پوری بے رحمی کے ساتھ ۔ انسانی احساسات کی بہت پرواہ کا وہ متحمل نہیں ہوتا ۔ راستے الگ ہو گئے ۔ بس ایک ذرا سا معاملہ باقی رہ گیا ، جسے اس نے خوش اسلوبی بلکہ فراخ دلی سے نمٹا دیا؛ اگرچہ اس تعلق کی بہت بھاری قیمت مجھے اس وقت ادا کرنا پڑی جب میرے خاندان کی زمین ہتھیا کر ملک کو بیچ دی گئی ۔ وہ مسکراتا اور صورت حال کا لطف اٹھاتا رہا ۔ وہ قصور وار نہ تھا ؛اگرچہ مدد کر سکتا تھاکہ مشرف کا دور آپہنچا تھا اور عتاب کے اولین مہینوں کے بعد، اب وہ ایک بادشاہ کی طرح بروئے کار تھا۔ چاہتا وہ یہ تھا کہ میں اس سے التجا کروں مگر میں التجا کیسے کرتا ۔ عتاب کے دنوں میں ، میں بھی اتنا ہی بے نیاز رہا تھا۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کے باب میں غیر جانبدار تھے،بڑی حد تک لاتعلق۔ ایک کو دوسرے سے شکایت کا کوئی حق نہ تھا ۔ زندگی اسی کا نام ہے ۔ جنہاں باجھوں جھٹ نہیں سی لنگہدا ، او شکلاں یاد نہ رہئیاں ( جن کے بغیر ایک لمحہ بتانا مشکل تھا، ان کے نقوش تک یاد نہ رہے)۔ اپنے صاحبزادے کی شادی پر ملک صاحب میرے گھر آئے او رمیں نے ان کی بات مان لی مگر بس اتنی ہی ۔ اس کے بعد ایک آدھ بار کے سوا نہ میں نے کبھی انہیں فون کیا اور نہ کبھی انہوں نے مجھے۔ آرزو اس کی ضرور رہی مگر ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتے ، ایک بلڈوزر کی طرح سطح ہموار کر دینے والا آدمی انکسار کا مظاہرہ کیوں کرتا؟ برسوں بعد جب اس نے کوشش کی تو زمین بنجر او ربے نتیجہ رہی ۔ کھرب پتی کا واسطہ ایک احمق سے آن پڑا تھا۔ جب کسی ٹی وی ٹاک شو میں مجھ سے سوال کیا گیا تو میں نے جواب دے ڈالا اور اکثریہ اس کے لیے نا خوشگوار تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ کبھی بدمزہ ہوا اور نہ شکایت کی۔ وہ ایک عملی آدمی ہے ۔ سامنے کی حقیقت یہ تھی کہ دولت اس نے اسی طرح سمیٹی ہے ، جس طرح اس ملک میں سمیٹی جاتی ہے۔ معاشرے کے فیصلہ کن لوگوں کی تمام تر کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر۔ بہت پہلے ملک نے دریافت کر لیا تھا کہ ہر آدمی کی ایک کمزوری ہوتی ہے اور اس کمزوری سے فائدہ نہ اٹھانے والا پیچھے رہ جاتا ہے ۔ پیچھے رہ جانا ایسے آدمی کو کسی حال میں گوارانہیں ہوتا۔ فوج، خفیہ ایجنسیاں ، سیاستدان او رصحافی ، اس نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے؛ حتیٰ کہ ایک دن چوہدری شجاعت حسین نے کہا : ہم سب پرانے کاروباریوں کو شرم آنی چاہئے۔ سات برس ہوتے ہیں، ملتان کے ہوائی اڈے پر اچانک ملاقات ہوئی ۔ دور سے ہم نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور ہنسے۔ غالباً وہ اس احساس کے ساتھ کہ اس کا واسطہ ایک احمق رومان پسندکے ساتھ ہے جو دنیا کی محبت دل سے نکال نہیں سکااور با اصول ہونے کاتاثر دیتا ہے ۔ میں ہمیشہ کی طرح اس تاثر کے ساتھ کہ ہر سیزر کا ایک آخری دن ہو تاہے ۔ اس آدمی کا آخری دن کب آئے گا۔ نماز پڑھنے کو جی چاہا تو میں نے مسافر خانے کی کرسی پر نیت باندھی ، تب میں نے کسی کو عقب میں کھڑے پایا ” میرے لیے اللہ سے دعا کرنا ” ا س نے کہا “ہاں ، ہاں ” میں نے اسے جواب دیا او رچاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ ٹلنے والا کہاں تھا۔ “کون سی دعا مانگو گی؟” اس نے پوچھا “اللہ سے کہنا ، وہ ملک ریاض کے لیے ہارون کے دل میں رحم ڈال دے” وہ ایک لمحہ اس نے رائیگاں نہ کیا ۔ سرمایہ کارکے لیے وقت بھی دولت کی مانند ہو تا ہے ۔ دولت مند نے غلطی کا ارتکاب کہاں کیا ؟ جہاں سب کرتے ہیں ۔ انسانی اختیار کی ایک آخری حد ہے اور محفوظ وہی رہتا ہے جو اس راز سے باخبر ہو ۔ ملک اپنی محدودات سے واقف نہیں ۔ کم لوگ ہوتے ہیں ،اس لیے عظیم لیڈر تک ، سپر پاورز تک گنوار پن کی موت مرتی ہیں ۔ نودولتیوں کی بعض عادات اس میں نہیں پائی جاتیں ۔ وہ بدکار ہے اور نہ بادہ نوش۔ اس کی و احد ترجیح دولت ہے اور پھر اس دولت کے بل پر حاصل ہونے والی قوت کو برقرار رکھتے ہوئے مزید دولت ۔زر او ر زمین اس کا پہلا اور آخری عشق ہے ۔ وہ اپنے گھر میں آسودہ رہنے والا آدمی ہے اور اپنے ہر روز وسیع ہونے والے رسوخ سے لطف اٹھاتا ہے ۔ ایک روایتی مذہبی گھرانے کا فرزند ، جسے مذہب کی روح کے ادراک سے کبھی کوئی دلچسپی نہ تھی مگر جبلی طور پر وہ جانتا ہے کہ صدقات سے برکت بہت ہوتی ہے ۔ ملک بھوکوں کو کھانا کھلاتا اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ عدم تحفظ کے شکار اس معاشرے میں آسودہ حال مفلسوں سے زیادہ حاجت مند ہوتے ہیں ۔ وہ دن آپہنچا ہے ، بہت پہلے سے مجھے جس کا اندازہ تھا۔ یہ دن موخر تو ہو سکتا ہے مگر ٹل نہیں سکتا۔ ارادہ یہ تھاکہ میں خاموش رہوں مگر ایک اخبار نویس خاموش کیسے رہ سکتاہے ۔ اسے گواہی دینا ہوتی ہے اور اگر اللہ توفیق دے تو سچی گواہی۔ پنڈورا باکس کھل گیا ہے اور بند نہ ہو گا۔ معاملہ موخر ہو سکتا ہے، منسوخ نہیں۔ خوش قسمت حسین نے سچ کہا: یہ منکشف ہونے کا لمحہ ہے ، ایک شخص نہیں بلکہ دولت کی پوجا کرنے والے ایک پورے معاشرے کا ۔ جنرلوں ، ججوں ، جنرلسٹوں اوردوسرے قہر مانوں کا ۔ ایک کالم اور ٹاک شو نہیں بلکہ یہ ایک کتاب کا موضوع ہے ۔ کیایہ کتاب کبھی لکھی جا سکے گی ؟ کون جانتاہے ، آنے والے کل کی کون جانتا ہے ۔ و الی اللہ تر جع الامور (اورمعاملات اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں )۔
http://jang.net/urdu/archive/details.asp?nid=626767