Restoration of NATO supplies: Let’s blame Zardari and Gilani!
In the aftermath of humiliating surrender of Pakistan army generals to the US army and government on the issue of NATO supplies, Pakistani military establishment has activated its propagandists in right-wing dominated Urdu media and pseudo-liberal dominated English media to shift the blame to Pakistan’s elected government.
Several journalists considered close to Pakistan army generals including but not limited to Haroon-ur-Rasheed, Altaf Hassan Qureshi, Najam Sethi etc have written dishonest articles recently in which the blame of disconnection and restoration of NATo supplies has been dishonestly shifted to Pakistan’s civilian government.
For example, in his dishonest analysis in notorious daily Jang (Urdu newspaper, previously published in English in The Friday Times), Najam Sethi writes:
“In principle, the civil-military leadership of Pakistan has decided to re-engage with America by restoring the NATO pipeline and attending the Afghanistan moot in Chicago. …From 2001-2008 when Pakistan was ruled by the military establishment under General Pervez Musharraf or from 2008-2010 when the civilians under President Asif Zardari were supposedly in charge.”
Can someone ask Najam Sethi what exactly does he mean by ‘civil-military leadership’ and where’s such species found?
اچھی خبر ہے کہ پاکستان کی سول ملٹری قیادت نے نیٹو سپلائی لائن کھولنے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کاا ٓغاز کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے تا کہ شکاگو میں افغانستان پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی جاسکے۔ تاہم غیر معمولی طور پر حالیہ دنوں میں عوامی سطح پر اس مسئلے پر تواتر سے بات کی گئی اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ ․․․”اس سے ہمارا کونسا مالی فائدہ وابستہ ہے؟“ یا پھر یہ بات بھی کی گئی ․․․”ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کی کھلی خلاف ورزی ہیں․․․“ نہ تو جنرل مشرف کے فوجی اقتدار 2001-2008 میں اور نہ ہی انتخابات کے بعد2008-2010 تک زرداری صاحب کی سویلین حکومت کے دوران ان دونوں میں سے کوئی نکتہ بھی میڈیا یا عوامی سطح پر زیر ِ بحث آیا۔
Interestingly, Sethi acknowledges in a subsequent paragraph that Pakistani military establishment conveniently uses the civilian leadership as a rubber stamp as and when it suits their interests.
“The Salala raid…was in the same vein of unilateralism. Stung, humiliated, and fearful of further unilateral acts by the Americans to undermine Pakistan’s game plan, the Pakistani military establishment drew a red line by freezing the NATO pipeline, reasoning that the Americans couldn’t afford to stay disrupted for long. For good measure, the military establishment thrust “ownership” of its besieged Afghan policy on to the elected civilian parliament and anti-American Pakistani media.”
Sethi further acknowledges that the USA’s threatening discourse forced Pakistanis generals to review their stance on NATO supplies.
“The straw that broke Pakistan’s back was a palpable threat of sanctions and an unexpected signing of a “strategic alliance” agreement between the US and the Karzai regime. The transition from “strategic ally” to “frenemy” has been swifter than the Pakistani generals had bargained for.”
However, consistent with his typical 80-20 discourse (20% dishonest propaganda hidden in 80% objective analysis), Sethi moves on to blame Pakistan’s elected government for failing to help the military.
“The civilians didn’t help by distorting the military’s calibrated plan because they took far too long to start re-engagement, thereby pushing Washington to take a harder line.”
Ironically, a right-wing columnist Irfan Siddiqi does not seem to buy the pseudo-liberal Sethi’s civil-military leadership theory. Last para in Irfan Siddiqi’s column is a slap on Najam Sethi’s notion of civil-military leadership:
میرے دوست ایاز امیر نے جو خود قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں اور نامور کالم نگار بھی۔ اپنے تازہ کالم میں یہ ساری داستان ایک جملے میں سمو دی ہے۔ طنز کا نشتر چلاتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”پارلیمینٹ ڈیسک وغیرہ بجانے اور کچھ تفریح کے لئے اچھی جگہ ہے مگر سنجیدہ قسم کے قومی معاملات پر یہاں وقت ضائع نہ کیا جائے۔“ شاید شاہراہ دستور کے کنارے سر بہ گریباں کھڑی عمارت کو بھی اپنی کم مائیگی کا اندازہ ہے۔ نیٹو سپلائی سے بجٹ کی تشکیل تک ”چاہے ہیں تو آپ کر لے ہیں“ والے من مانیاں کئے جا رہے ہیں اور سارا ملبہ ناحق مجبور و بے بس پارلیمینٹ پر ڈال کر اسے بدنام کیا جا رہا ہے جس کے پاس ”مختاری کی تہمت“ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
Ayaz Amir, a sitting MNA of right wing PML-N, demolishes the myth of civil-military leadership’s decision to restore NATO supplies created by the Najam Sethi Club.
Pseudo-liberals in Najam Sethi club are not alone in blaming the elected govt, right-wing proxies of Pak army too are repeating the same chorus.
Examples of right-wing propaganda on NATO supplies:
Altaf Hassan Qureshi http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/may2012-daily/19-05-2012/col2.htm
۔سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو ہیلی کاپٹروں کی گولہ باری میں پاک فوج کے ۲۴ افسروں اور جوانوں کی شہادت کے خلاف پوری قوم امریکی دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادیں فوری طور پرنیٹو سپلائی بند کرنے،شمسی ائر بیس امریکہ سے خالی کرانے اور ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ کیا گیاتھا۔امریکہ نے شمسی ائر بیس بھی خالی کر دیااور ڈرون حملے بھی بند ہو گئے۔حالات کی سنگینی کے تحت فروری کے وسط میں اس کی طرف سے معافی مانگنے اور معاوضہ ادا کرنے کا واضح عندیہ دیا گیا، لیکن ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا اور یوں پاک امریکہ تعلقات میں سدھار کا نہایت قیمتی موقع ضائع ہو گیا
۔ہماری اعلیٰ ترین سفارت کاری پر مامور نا اہل،کم عمر اور نا تجربے کارٹیم نے ہمیں تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا ہے۔اب نیٹوسپلائی کے بارے میں غیر معمولی تاخیر سے اور غیر معمولی دباؤ کے تحت جو بھی فیصلہ کیا جائے گا،وہ ہماری سوسائٹی کو تقسیم کرنے کے علاوہ ہماری قومی بے وقاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔خوف اور بے یقینی سے نکلنے کا ہمارے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ایک ہمہ پہلو تحریری معاہدہ کیا جائے جس میں یہ بنیادی شرائط شامل ہوں کہ پاکستان کو اب تک پہنچنے والے تمام تر مالی نقصانات ،گذشتہ ۱۰برسوں کے واجب الادابقایا جات کے ساتھ ساتھ نیٹو سپلائی کی راہداریکی ایک معقول رقم ادا کی جائے گی،اور سلالہ جیسے خونی واقعات کی روک تھام کا ایک قابل اعتماد میکانزم وضع اورافغانستان کے مستقبل میں پاکستان کا مثبت کردار تسلیم کیا جائے گا۔
Haroon Rasheed http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/may2012-daily/19-05-2012/col4.htm
۔”تو ہمارے علمائے کرام؟ “ایک مبتدی نے پوچھا۔ عارف خاموش رہا ۔ توقف کے بعد ارشاد کیا: بظاہرایمان تو ان کا بہت پختہ ہے وہ کہتے ہیں ، بھارت اور امریکہ سمیت ساری دنیا ہم پر پل پڑے ، ہمارا رب ہمارے لیے کافی ہے ، جنگِ خندق کی طرح۔
اب ایک گمبھیرسناٹا تھا اور ایک سوال :مدینہ کے قدّوسیوں نے فتح مکہ سے قبل مشرکین اور خندق کھودنے سے پہلے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا ۔ پھر یہ کہ اس خندق کے اندر فقط عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب سمیت سینکڑوں تاریخ ساز شہسوار ہی نہیں ، خود رسالت مآب تشریف فرما تھے۔ زمین پر بندے اور آسمانوں پر اللہ اور اس کے فرشتے جن پر درود بھیجتے تھے۔ ہماری خندق میں کون ہو گا؟ حضرت مولانا سمیع الحق اور حضرت مولانا فضل الرحمن ؟ ارے ہاں شیخ الاسلام ، پروفیسر ، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری بھی۔ قائد اعظم ثانی نواز شریف، ایشیائی نیلسن منڈیلا آصف زرداری اور لیپ ٹاپ بانٹنے والے سپہ سالاروں کے سپہ سالار، شیر شاہ سوری کے جانشین شہباز شریف بھی۔تب کسی نے کہا:خدا کا شکر ہے کہ جنرل کیانی جنرل کاکڑ کا جا نشین بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔ امیر تیمور یا صلاح الدین ایوبی کا نہیں ۔ خبط عظمت اور زعم تقویٰ کے ماروں میں کم از کم ایک ایسا آدمی موجود ہے جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتا ہے۔اللہ خیر کرے گا۔
For an objective analysis of restoration of NATO supplies, read Nazir Naji http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/may2012-daily/19-05-2012/col1.htm
میں انتہائی باخبر اور سنجیدہ لوگوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ امریکہ تو معافی نامے پر تیار ہو گیالیکن پاکستانی حکام نے خود ہی تاخیر کا مشورہ دیا اور اس کے بعد امریکہ نے دوبارہ غوروفکر کر کے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ آج امریکہ میں سفیر پاکستان محترمہ شیری رحمن سے منسوب ایک بیان سامنے آیا ہے کہ معافی کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ادھر وال سٹریٹ جنرل نے ایک لمبی چوڑی کہانی چھاپ دی ہے کہ امریکہ نے کتنی مرتبہ معافی مانگنے پر غور کیا اور کتنی مرتبہ یہ سوال وائٹ ہاؤس میں زیربحث آیا؟ہمارے حکمران طبقوں میں اس پر بحث چل رہی ہے کہ متعلقہ حکام نے معافی منگوانے میں تاخیر کر کے‘ اچھا موقع ہاتھ سے کیوں گنوایا؟
ہمارا غیرت بریگیڈ جو بظاہر قومی خودمختاری‘ سلامتی اور دفاع کے نعرے لگاتا ہے‘ درحقیقت وہ دانستہ یا نادانستہ سامراجی عزائم کا آلہ کار بنتا ہے۔ سلالہ کے واقعہ سے بہت پہلے یہ گروپ امریکہ سے ٹکر لینے کے نعرے لگانا شروع کر چکا تھا۔ اس کی ابتدا ڈرون حملوں سے ہوئی۔ پاکستان میں سیلاب بھی آتا تو غیرت گروپ کی طرف سے فوراً شور اٹھتا کہ یہ سب ڈرون حملوں کا ردعمل ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی‘ تو اسے ڈرون حملوں کا نتیجہ قرار دیا جانے لگا۔ جبکہ حقائق یہ تھے کہ جتنے بھی خودکش حملہ کرنے والوں کا سراغ لگایا گیا‘ ان میں سے کسی کا تعلق بھی شمالی وزیرستان کے متاثرین سے نہیں تھا ۔ البتہ فاٹااور دوسرے علاقوں سے جن نوجوانوں کو پکڑ کے خودکش حملہ آور بنایا جاتا تھا‘ ان کی تربیت شمالی وزیرستان میں ہوتی تھی۔ جبکہ یہ کہانی بالکل بے بنیاد ہے کہ یہ حملے وزیرستان میں ڈرون حملوں سے شہید ہونیوالوں کے رشتہ دار کرتے ہیں۔ ڈرون حملے تو آج بھی جاری ہیں۔ اب شہید ہونیوالوں کے رشتہ دار کہاں ہیں؟
سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد جو شدید احتجاج سامنے آیا۔ درحقیقت ہمارے ماہرین کے غلط اندازوں کا نتیجہ تھا۔ ہمارے فیصلہ سازوں کی اکثریت کو باور کرا دیا گیا تھا کہ سپلائی روٹ چند روز کیلئے بھی بند کیا تو امریکہ گھٹنوں کے بل جھک جائیگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی بھی کبھی اشاروں اور کبھی واضح الفاظ میں امید دلاتے رہے کہ صدر اوباما معافی کا لفظ استعمال کر لیں گے۔ لیکن اندر کیا ہوتا رہا؟ یہ کہانی وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہو چکی ہے۔ ”جرنل“ نے جن بیس اکیس میٹنگوں کا ذکر کیا ہے‘ ان میں معافی کا لفظ ایک بار بھی زیرغور نہیں آیا۔ مختلف متبادل الفاظ پر بحث ہوتی رہی۔ تو پھر پاکستان کو یہ امید کس نے دلائی کہ امریکہ معافی مانگ لے گا؟ شاید انہی میٹنگوں کی خصوصی اطلاعات کی بنا پر ہی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اپنی طرف سے دلائل دیتی رہیں کہ اگر آپ افغانستان میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر غیرمشروط معافی مانگ سکتے ہیں‘ تو ہمارے 24جوانوں کی شہادت پر کیوں نہیں مانگ سکتے؟ اس دلیل پر امریکیوں کی اپنی میٹنگوں میں جو کچھ کہا گیا‘ وال سٹریٹ جرنل کی تفصیلی رپورٹ میں پڑھا جا سکتا ہے۔معافی کے لفظ پرہمارے ساتھ امریکی سفارتکاروں نے جو کھیل کھیلا‘ اس کی تفصیل معلوم ہونے پر صدام حسین کو ورغلانے کی امریکی سفارتی کوششیں یاد آ جاتی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہمارے متعدد باخبر اور معتبر دانشور ایک محفل میں مصر تھے کہ معافی کا فیصلہ تو ہو گیا تھا‘ صرف ہم نے تاخیر کر کے کام خراب کیا۔ کچھ لوگ تو اب بھی یقین دلا رہے ہیں کہ صدر اوباما معافی مانگ لیں گے۔ امریکی پالیسی سازوں کی میٹنگوں کی اندرونی کارروائی پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ اندر کیا سوچا جا رہا ہے؟ معافی سے انکار کے پیچھے کونسی سوچ کارفرما ہے؟ اور آخری بات یہ کہ اس مرحلے پر امریکہ ایسی علامتی بات بھی نہیں کہے گا‘ جس سے ہمارے بڑھک باز یہ نعرہ لگانے کے قابل ہو جائیں کہ ”ہم نے امریکہ کو جھکا لیا۔“ہر سپرپاور کسی بھی دوسرے ملک کے سامنے جھکنے اور گردن اکڑانے کا فیصلہ سوچ سمجھ کے کرتی ہے۔ ہمیں امریکہ سے معافی کامطالبہ کرنے سے قبل یہ دیکھ لینا چاہیے کہ ہم امریکہ کو اپنے کس دباؤ سے مجبور کر سکتے ہیں؟ نیٹو کا سپلائی روٹ ہم نے چھ ماہ کیلئے بند کر کے دیکھ لیا اور روٹ کھلنے کے بعد اگر امریکہ نے محسوس کیا کہ پاکستان کو پھر بھی اس اختیار پر زعم ہے تو وہ ہمیں پھر اپنی طاقت آزمانے کا موقع دے گا۔ یاد رکھیئے! قوموں کے دوطرفہ تعلقات میں ہرفریق اپنی طاقت کی نسبت سے بات منوا سکتا ہے۔ نہ زیادہ نہ کم۔ باقی سب رومانس ہے۔
Also worth reading is Nazir Naji’s previous article on this topic: Pakistan kay asli mukhtar aur asli majboor
Ayaz Amir too despite his political affiliations with the PML-N offers an objective analysis: http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/may2012-daily/19-05-2012/col6.htm
ہماری وزیر ِ خارجہ مس حنا ربانی کھر نے نیٹو سپلائی لائن ، جو ہم نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد سے بند کر رکھی تھی، کو کھولنے کا عندیہ دینے کے لیے عمدہ تراشے ہوئے الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمارا مقصد اپنا موٴقف واضح کرنا تھا اور شاید ہم وہ کر چکے ہیں۔ اچھی بات ہے مگر اس کام میں بے کار چھ ماہ ضائع کردیے اور پھر پارلیمنٹ میں اس خارجہ پالیسی کے معاملے کو گھسیٹنا ایک اچھے خاصے سادہ سے واقعے کو طربیہ ڈرامہ بنا دیتا ہے۔ میں یہ بات بہت پوری سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر آپ نے کسی بات کو بھی مزاحیہ رنگ میں رنگنا ہو تو اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج دیں۔
اب چاہے یہ کوئی اسٹیج ڈرامہ ہو یا سیاسی معاملہ فیصلہ کرتے ہوئے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے بے کار چھ ماہ ضائع کردیا مگر جیسے ہی ہم نے امریکی تیور بدلتے دیکھے تو فوراً ہی گھٹنے ٹیک دیے․․․ فریڈ اسٹیر کے الفاظ میں ”ہم نے قومی وقار کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس لے لیے اور خوف سے سر جھکا لیا․“ہم چاہتے تھے کہ ہمیں شکاگو کانفرنس میں بلایا جائے اور ․․․․ یہ کس نے کہا تھا کہ نیٹو سپلائی اب کبھی نہیں کھولی جائے گی ؟ ہماری محترم وزیر ِ خارجہ صاحبہ فرماتی ہیں․․․ ”ہم فیصلے اسی طریقے سے کرتے ہیں․“ میں کہتا ہوں کہ اگر اس طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے پر ہمارے امریکی دوست خوش نہیں ہوئے تو وہ بہت ہی کٹھور ہیں۔ تاہم کوئی غیر جانبدار مبصر کہہ سکتا ہے کہ ہم نے ایسا کرتے ہوئے انتہائی حماقت کا ثبوت دیا ہے مگر ”جوچاہے آپ کا حسن ِ کرشمہ ساز کرے“ اور کرتا پھرے مگر اگلی مرتبہ اگر میں نے کسی کو قومی وقار نامی کو ئی لفظ بولتے سنا تو میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ میں خود بھی راکٹ داغنے کی تربیت حاصل کروں گا۔
جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ کوئی ڈور پس ِ پردہ رہ کر ہلاتا ہے،عمدہ موسیقار․․․ ہمارے محافظ، قومی سلامتی کے رکھوالے ایبٹ آباد پر حملے سے ششدر تھے اور چاہتے تھے کہ امریکی دوستوں کی طرف سے کیے گئے عدم اعتماد پر کچھ حساب برابر کیا جائے۔ اچھی بات ہے اور پھر اسامہ کے معاملے سے ہونے والی تضحیک کم نہ تھی۔ شیخ اسامہ کی زندگی تو ہمارے لئے ایک مسئلہ تھی ہی، جناب کی موت نے بھی ہمیں سکون کا سانس نہ لینے دیا۔ قومی مقاصد کے بلند آہنگ ترجمان، جناب کیانی صاحب ہمراہ پاشا صاحب ، ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے وہ قومی غیرت کی ناقابل ِ شکست چٹان ہوں مگر اب، افسوس، چٹان ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ اُس وقت بہت سے قومی غیرت کی للکارسے زمین و آسمان کا دل دہلا دینے والے سویلین بھی شریک ِ معرکہ تھے․․․ آج کہاں ہیں؟
تمام قوم خودمختاری کے گھوڑے پر سوار ہو گئی، جواں مرد غازی اور بے باک خواتین ٹی وی کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر میدان مار رہی تھیں اور ان سب کے پیچھے فرشتوں کی آشیر باد تھی ۔ کتنے خمار آفریں دن تھے وہ بھی ! بے قابو جذبات، بے لگام شوریدہ سری اور پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ ایسا دکھائی دیتا تھاکہ ، امریکی اور نیٹو کس شمار قطار ہیں، ہماری مژگان کا ایک ادنیٰ سا اشارہ نبض ِ ہستی روک دے گا اور پیشانی پر پڑنے والے ایک بل سے چرخ جنبش میں آجائے اور دھرتی کا دل دہل جائے گا۔ ہماری سیاست کے ماہر کلاکارمولانا فضل الرحمان رونق افروز ہوئے اور افغانستان میں ہونے والے تمام واقعات پر امریکہ کی بھرپور مذمت کی۔اُن کی تقریر نے فضا اتنی بوجھل کر دی کہ جب میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تو میں بھی آزاد فضا میں سانس نہ لے سکا۔
کاش اچھی چیزیں کچھ دیر پا ہواکریں۔ ہمیں اپنے قومی جذبات کو بہت جلد معقولیت کی حد تک لے آنا چاہیے تھا مگر ہم نے معاملہ اتنا ہاتھ سے جانے دیا کہ امریکی صبر کے پیمانے لبریز ہونے کے قریب آگئے۔ہیلری کلنٹن نے حالیہ بھارتی دورے کے موقعے پر پاکستان اور دہشت گردی کو ایک پیرائے میں بیان کیا جبکہ امریکی کانگریس میں مالی اور فوجی امداد کی بندش کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ شکاگو کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ تقریباً کیا جا چکا تھا۔ اس صورت ِ حال نے ہمیں بدحواس کر دیا اور قومی غیر ت اور خودمختاری کے غبارے میں سے یک لخت ہوا نکل گئی۔
The foregoing demonstrates the existence of a pseudo-liberal right-wing alliance to promote the agendas and interests of Pakistan’s military establishment.
Pity the nation which criticizes right-wing proxies of army but treats pseudo-liberal proxies as champions of liberalism and human rights.
Right from Jang Group to Jinnah Institute to The Friday Times to PTI’s PTH, Najam Sethi club is the most compromised mafia in Pakistan.
Raza Rumi @Razarumi
Lucid, hard-hitting and a #mustread analysis by @Najamsethi -> Terms of re-engagement http://bit.ly/KH8u83 #NATO #US #Pakistan #AlQaeda
Dilawar Asghar @dasghar
@najamsethi Anthr hard hitting truthful analysis on 05/15 pertning 2 NATO supply lines. Thx 4 providing Reality Check & spking facts AS IS.
Raza Rumi @Razarumi
Well put AA saheb RT @azizakhmad:@Najamsethi ‘s analyses make sense because he argues with reasons, not screaming and sermons.
Good luck, General Kayani
July 25th, 2010
Raza Rumi
http://tribune.com.pk/story/30713/good-luck-general-kayani/
http://pakteahouse.net/2010/07/25/good-luck-general-kayani/
In a hurried non-speech, the prime minister has confirmed that the incumbent army chief will stay on for three years. Unprecedented as the decision might be, it is perhaps the best option under the current circumstances. Pakistan is battling against domestic and external terrorism. Given how the army works, it is clear that the military establishment wants a continuation of national security policy.
Lack of policy continuity has been the hallmark of Pakistan’s governance. At least with General Kayani’s extension, the military operations in the northwest and approach to the Afghanistan imbroglio will also remain unchanged. This is good for Pakistan for three reasons.
First, Pakistan desperately needs uninterrupted operations to counter militancy. This is no longer a ‘foreign war’ but very much our own. Second, past efforts to sensitise the west on Pakistan’s concerns in Afghanistan should not be squandered. Finally, General Kayani’s tightrope walk at home has worked well and the democratic system has not been truncated despite the frantic calls of several media-persons. One TV anchor before he left a popular channel, had appealed to Takht-e-Rawalpindi to intervene to save the country.
The troubled civil-military equation is not going to change overnight. Realism demands that we have to deal with the army’s ubiquitous role, at least in the medium term. Civilian supremacy is not guaranteed through the merely powers of appointing army chiefs. This erroneous view needs to be challenged. Parliament will only be supreme when it governs and with transparency and delivers the goods. We also need to recognise that the dominance of the unelected institutions stunts the performance of the elected governments. How will this change? Not by manipulating service contracts but through continuation of the democratic system.
General Kayani so far has not been a party to any effort to destabilise the system. If anything, his public image is that of a moderate, professional and a no-nonsense soldier, not interested in political gerrymandering. For this very reason, the PPP government has made a calculated gamble. We are a land of constant melodrama, but instability is not written on the wall, at least for now.
The army’s interests require a stable economy and functional civilian governance. As a national institution, it should enable Pakistan’s transformation into a more manageable polity. More importantly, it ought to be aware of its limitations in governing this complex, and crumbling country. All indications so far suggest that the current military leadership is cognisant of such realities.
General Kayani has three hectic years ahead. Stabilising Pakistan’s northwest and getting Pakistan on the Afghanistan-table are already under way. However, its Balochistan and India strategies require creative reassessment; and the dated doctrines of ‘strategic depth’ need reconfiguration. Instead of civil-military power struggles, we need a broad consensus and workable formulae for effective cooperation to cleanse Pakistan’s proverbial stables.
For this reason, we wish General Kayani all the luck.
Published in The Express Tribune, July 25th, 2010.
General Kayani’s extension as army chief: A bad decision
http://criticalppp.com/archives/19675
Good riddance, General Pasha!
http://criticalppp.com/archives/74024
Jinnah Institute = The Friday Times; Their micro-off shoot is PTH blog which is full of venom against PPP.
Whether judiciary is a co-conspirator with the military or nor, in my opinion the NRO verdict is very different from the memo case. With respect to memo case, I am completely with the PPP government. I have even gone to the extent of saying that even if Hussain Haqqani did write the memo he did nothing wrong . Military hegemony is a reality in Pakistan and civilian governments do not have any leverage to control it. Pakistan has been embarrassed a lot in the international arena due to our military’s completely out of control behaviour. The killing of Osama Bin Laden near the military compound, marks the level to which military has undermined our interests, due to its selfish myopic interests. The only stakeholder who has some leverage over the military is USA and hence it is only natural that a beleaguered civilian government will try to seek its help.
But even then the memo scandal was essentially a government military standoff and not a judiciary executive standoff. If Judiciary was indeed completely in bed with the military then there was no way PPP would have survived. Even the so called conviction in the contempt case was just a 30 second sentence. I do not think that the interests of the judiciary and military always neatly correspond with each other.
I do not fully agree with Prime Minister’s stance of not writing the letter. The reason is that NRO was actually a verdict given by Supreme Court and therefore it needs to be honoured. Some of the journalists have interpreted that since Parliament is supreme therefore its intent should take precedence over the decisions. I beg to disagree as Parliament’s supremacy is in the sense of being the ultimate law making body. It cannot overrule the decisions. Moreover, the Supreme Court had initially given the government an opportunity to make NRO into a permanent law. However, the government at that time could not muster the majority.
Yes there are issues with respect to the immunity but reopening of cases is not tantamount to actual sentence. In fact writing a letter to the Swiss government is merely a nominal gesture as even if the cases are reopened, it will take years for the cases to process and reach a decision stage.
Hail Raza Raja, Raza Rumi, Najam Sethi, Hamid Mir, Umar Cheema
Hail Chief Justice Iftikhar Chaudhry, CM Shahbaz Sharif, COAS General Kayani
Hail Najam Sethi and his pseudo-liberal club
Shame on Altaf Qureshi, Haroon Rasheed and Najam Sethi.
Shame on Njam Sethi Fan Club.
Let’s keep praising the powerful. Lagay raho Najam Sethi-SherryRehman-JinnahInstitute-GeneralKayani fanclub
sherryrehman @sherryrehman
In Peshawar, students fight intolerance with art. http://tribune.com.pk/story/379650/peshawar-exhibits-intolerance-through-art/ # Pakistan positive
Retweeted by Raza Rumi
Raza Rumi @Razarumi
Ambassador Sherry Rehman on CNN’s Situation Room http://bit.ly/KtJTkf #pakistan v @USAforPAK
Received this comment from a friend:
Najam Sethi forgot that the Difae Pakistan is a brainchild of army, and also after govt hinted ast opening NATO supplies, it was ISPR press release which put the civilan govt on the back-foot.
According to Jinnah Institute’s Raza Rumi (an employee of Najam Sethi), Hamid Mir continues his great father’s legacy in journalism:
http://criticalppp.com/archives/76188
………..
For a list of Al Qaeda’s most favoured journalists (MFJs), refer to this article: http://dawn.com/2012/05/04/al-qaedas-relations-with-pakistan-were-fraught-with-difficulties/ via @ravezjunejo
Hamid Mir, Saleem Safi, Rahimullah Yusufzai and Jamal Ismail are Al Qaeda’s most trusted journalists. Are we surprised?
…….
Hamid Mir (an operative of Military Intelligence) praises Sherry Rehman, founder of Pakistan army’s Jinnah Institute:
Good to see Mosharraf Zaidi, Hamid Mir, Raza Rumi & some others praising Sherry Rehman. Helps in connecting the dots. #PseudoLiberalRightWingAlliance
Hamid Mir @HamidMirGEO
@shahzadgillani @AajKamranKhan @TalatHussain12 Twitter restored in Pakistan.This is the difference between democracy and dictatorship.
Hamid Mir @HamidMirGEO
@mosharrafzaidi @SherryRehman @UsamaKhilji Sherry Rehman played important role for the restoration of twitter in Pakistan.
Hamid Mir @HamidMirGEO
@farhadjarral @SherryRehman @SenRehmanMalik Sir may be you have more information than me but i know Sherry spoke to the boss of RM sahib
Mosharraf Zaidi @mosharrafzaidi
Ambassador @SherryRehman’s excellent Op-Ed on Pak-US relations in the Chicago Tribune – http://www.chicagotribune.com/news/opinion/ct-oped-0520-pakistannato-20120520,0,2761699.story
sherryrehman @sherryrehman
@balalhaidermy commitment to minorities, women is reflected in every major public statement. Will never stop. MNA’s job diff from Ambassado
Raza Rumi @Razarumi
Ambassador Sherry Rehman on CNN’s Situation Room http://bit.ly/KtJTkf #pakistan v @USAforPAK
Raza Rumi @Razarumi
@CMShehbaz made v impt remarks on militancy in South Punjab. Good that he is cognizant of the challenge.Urgent reform/state-building reqd!
……….
Raza Rumi parrots Najam Sethi’s lies and blames elected parliament for NATO supply blockade decision:
Raza Rumi @Razarumi
President Zardari has asked U.S. to help the Gov of Pak reach closure on the Salala episode “by following path indicated by Pak Parliament.”
beena sarwar @beenasarwar
RT @Razarumi: US should apologise,respect our parliament/settle the issue.We can then open supplies so that the US leaves Afg as planned.
Tarek Fatah @TarekFatah
Guys, u do realize it is an act of war to impose a blockade on a landlocked country like Afghanistan. @beenasarwar @razarumi Wake up.
Raza Rumi @Razarumi
@TarekFatah Understand what you are saying but as a democrat, I back the parliamentary decisions. Hope this is settled @beenasarwar
ImSoomro @ImSoomro
LOL at I Back the Parliamentary Decisions when such decisions are enforced by Pakistan army. Shame on Raza Rumi
http://criticalppp.com/archives/77192
Raza Rumi @Razarumi
@MaryamNSharif Need to send you a message pls. urgent.
10:31 AM – 21 May 12 via Twitter for Mac
Maryam Nawaz Sharif @MaryamNSharif
@Razarumi Sure!
Good post.
In today’s Express Tribune, Saroop Ijaz too wrote along the same lines:
“The truly surprising aspect of this debate is the refusal to acknowledge the role of the military establishment for creating this rather shameful fiasco of first displaying hollow unsustainable bravado and the subsequent shamefully backtracking to do the right thing. I have said this before, in times of crisis, we learn that the foreign policy is really made by the civilian authorities and hence the blame should be shouldered by them. It takes a certain sort of shamelessness or naiveté to go on attacking parliament for matters of foreign policy. The army chief is not going to the Chicago summit because of fear of adverse public opinion. Now, what does a government servant subordinate to the defence secretary have to do with garnering public support? In any event, we are told that it was parliament and the government which messed up initially, so the gallant general has nothing to worry about. There is a pattern here; the army generously takes all credit and none of the blame. In any event, if the army is against reopening of Nato supplies, what stops them from going directly to the public like they did in the Kerry-Lugar Affair — it certainly is not any respect for parliament. Another depressing thing is how easily the media uncritically decides to become a quite willing mouthpiece of the ISPR.”
http://tribune.com.pk/story/381357/the-drones-club/
Then we have Raza Rumi (simultaneously working for The Friday Times, Jinnah Institute, Pak Tea House and PML-N) who keeps blaming the parliament.
Raza Rumi parrots Najam Sethi’s lies and blames elected parliament for NATO supply blockade decision:
Raza Rumi @Razarumi
President Zardari has asked U.S. to help the Gov of Pak reach closure on the Salala episode “by following path indicated by Pak Parliament.”
beena sarwar @beenasarwar
RT @Razarumi: US should apologise,respect our parliament/settle the issue.We can then open supplies so that the US leaves Afg as planned.
Tarek Fatah @TarekFatah
Guys, u do realize it is an act of war to impose a blockade on a landlocked country like Afghanistan. @beenasarwar @razarumi Wake up.
Raza Rumi @Razarumi
@TarekFatah Understand what you are saying but as a democrat, I back the parliamentary decisions. Hope this is settled @beenasarwar
ImSoomro @ImSoomro
LOL @ “I back the parliamentary decisions” when every honest persons knows that such decisions are enforced by Pakistan army. Shame on Raza Rumi
http://criticalppp.com/archives/77192
ایک بمقابلہ 60…سویرے سویرے…نذیر ناجی
آخر کار نیٹو سپلائی روٹ بند کرنے کی خواہش مند لابی درپردہ سازشوں میں کامیاب ہو گئی۔ ایک ٹرالر کے عوض راہداری کا معاوضہ 5ہزار ڈالر کر دیا گیا۔پہلے اس کی قیمت اڑھائی سو ڈالرفی ٹرالر تھی۔ اگر مجھے صحیح یاد ہے‘ تو ہمیں صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ ہم سپلائی روٹ کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کر رہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ پہلے جو بھی لیا جا رہا تھا وہ اپنی جگہ۔ اب ہم نے ایک دستیاب بہانے کو استعمال کرتے ہوئے بزعم خود امریکہ سے فائدہ اٹھانے کا ایک اور راستہ ڈھونڈ لیا اور وہ یہ کہ اب جی بھر کے ٹرانسپورٹ روٹ کا فائدہ اٹھاؤ اور ہمارے ماہرین کا تجزیہ یہ تھا کہ امریکہ‘ پاکستان کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہے اور اسے ہمارے مطالبات کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا۔ دنیا میں کوئی بھی کاروبار ہو‘ اگر خریدار کو سستا مال میسر ہو تب ہی وہ ہمارا خریدار بنتا ہے۔ بصورت دیگر وہ سستا مال خریدنے کو ترجیح دے گا۔جب ہم نے 5ہزار ڈالر فی ٹرالر کا ریٹ پیش کیا‘ تو نیٹو والوں نے حساب کتاب کر کے روس اور وسطی ایشیا کے راستے سے آنے والے سامان کا خرچ نکالا‘ تو اس فی ٹرک اوسط کم و بیش 5ہزار ڈالر ہی پڑتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ کئی خطرات بھی تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان ہی افغانستان کا واحد پڑوسی ہے جو دہشت گردوں کا مددگار ہے۔ جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے پائے جانے کی شکایت ہے اور جس کے براہ راست مفادات کا تقاضا دہشت گردی کو کسی نہ کسی حالت میں طوال دینا ہے۔ اگر اس اضافی بوجھ کو دیکھا جائے‘ تو نیٹو کے لئے پاکستانی روٹ استعمال کرنا متبادل روٹ کے مقابلے میں زیادہ مہنگاہو جاتا ہے۔ فطری امر تھا کہ امریکہ یہ ریٹ دیکھ کر بدک گیا اور وہ ساری باتیں جو سلالہ چیک پوسٹ کے سانحہ پر معافی مانگنے کے لئے کی جا رہی تھیں‘ انہیں ایک دم ڈیل میں سے نکال دیا گیا اور کہا گیا کہ سپلائی روٹ کی بندش پر معافی بھاری معاوضہ ادا کر کے 5ہزار ڈالر فی ٹرالر بھی بطور راہداری دینا قبول نہیں۔ ایک سپرپاور کی معافی مفت میں نہیں ملتی۔ یہ مطالبات دیکھ کر امریکہ اور نیٹو فورسز کے تمام جنگی اور اقتصادی ماہرین بوکھلا گئے اور یہ سوچنے لگے کہ پاکستان نے ایسی کونسی بالادستی حاصل کر لی ہے جو ایک دم اتنے کڑے مطالبات پر اتر آیا ہے؟ واضح رہے کہ سوویت یونین کا متبادل روٹ استعمال کرنے پرنیٹو فورسز کے اخراجات بھی کم و بیش وہی ہوں گے جو ہم نے بتائے ہیں۔
میں اس سوال پر روزاول سے لکھ رہا ہوں کہ امریکہ معافی مانگنے پر غور نہیں کر رہا۔ البتہ مالی معاملات پر کوئی سمجھوتہ ہونے کی صورت میں وہ اس سے ملتا جلتا تاثر دینے کو تیار ہے۔ جیسے کہ افسوس۔ ریگریٹ۔ دکھ یا اسی قسم کا کوئی دوسرا لفظ۔ لیکن اپالوجی ہرگز نہیں۔ اپنے عوام کو ہر وقت دھوکہ دینے والے ارباب اقتدار نے حسب عادت بغیر کسی تخمینے اور اندازے کے دعوے کرنا شروع کر دیئے کہ امریکہ نے معافی مانگنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے۔ میں حیران ہوا کرتا تھا کہ معافی تو پہلے دن ہی مانگی جا سکتی تھی۔ پھر امریکہ نے اتنے دنوں کا خسارہ کیوں اٹھایا؟ لیکن یہ ہمارے پاکستانی ماہرین کا کمال ہے کہ وہ اپنے احمقانہ اندازوں پر نہ صرف خود یقین کر لیتے ہیں بلکہ عوام سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی باتوں پر یقین کر لیا جائے گا اور خبریں بھی جاری کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جب راہداری کے نئے نرخ سامنے لائے گئے‘ تو امریکیوں نے پہلے ہی ردعمل میں معافی کے خیال کو ذہن سے نکال دیا اور صاف صاف سودے بازی شروع کر دی۔ امریکی 1500 ڈالر فی ٹرالر ادائی پر آ گئے تھے اور ان کے مذاکرات کاروں نے یہ عندیہ بھی دے دیا تھا کہ حتمی فیصلہ 1800 ڈالر پر ہو سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ بھاؤ تاؤ کی یہ تفصیل اعلیٰ سطح کی قیادت کو بھی پہنچائی گئی ہو گی۔ ماہرین کا یہی خیال تھا کہ امریکہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا ہے اور ہم اس سے دونوں شرطیں منوائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف سیاسی اور غیرسیاسی تنظیموں کی طرف سے اعلانات شروع ہو گئے کہ وہ نیٹو کی سپلائی کسی صورت نہیں کھلنے دیں گے۔ ظاہر ہے کہ راہداری کا انتظام کرتے ہوئے سامان کی سکیورٹی کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ جب یہ خوفناک دھمکیاں سامنے آئیں تو لوٹے اور جلائے جانے والے ٹینکروں اور ٹرکوں کے واقعات بھی یاد آ گئے۔ اب مسئلہ صرف راہداری کانہیں تھا‘ انشورنس کے ریٹ کا بھی ہو گیا۔ پاکستان سے ادا کی جانے والی انشورنس کی رقم ماضی کے مقابلے میں تین گنا بڑھ گئی تھی۔ یہ سارے اضافی اخراجات جمع کر کے روسی متبادل سستا ہو گیا اور پاکستان کا روٹ مہنگا اور خطرناک۔ امریکہ اور نیٹو نے جب یہ موازنہ کیا تو پاکستانی راستوں کے استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ پاکستان میں ریاست کی اتھارٹی کا امریکہ کو اچھی طرح تجربہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ بلوچستان اور سندھ‘ پنجاب اور سرحد سے گزرنے والے راستے کتنے محفوظ ہیں؟ اور کتنے مجاہدین اسلام‘ امریکی سامان لوٹنے اور ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرنے کے لئے تیار ہیں؟
جب شکاگو کانفرنس نزدیک آئی‘ تو ہمارے ماہرین نے ایک اور مطالبہ کر دیا کہ حتمی معاہدے کا فیصلہ صدر اوباما اور صدر زرداری کے درمیان ملاقات میں ہو گا۔ چنانچہ ملاقات کا وقت مانگ لیا گیا۔ لیکن جب شرائط سامنے آئیں تو اوباما بدک گئے اور روایت کے مطابق ان کا موقف تھا کہ اتنی سخت سودے بازی کے لئے ہماری ملاقات کی کیا ضرورت ہے؟ لہذا فوراً ہی ملاقات کا وقت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یہ انکار واضح اور حتمی تھا۔ اس کے باوجود ہمارے سفارتکاروں نے یہی تاثر دیا کہ یہ چونکہ خصوصی ملاقات ہے اس لئے بغیر شیڈول بھی ہو جائے گی۔دوسری طرف کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان نرخوں پر اپنی پوزیشن میں نرمی لانے کو تیار نہیں اور جو کچھ پاکستان طلب کر رہا تھا‘ امریکہ اسے اپنے لئے انتہائی مہنگا تصور کر رہا تھا۔ لہذا بغیر کچھ کہے اور بولے یہ بات ایک دوسرے کو پہنچ چکی تھی کہ سپلائی روٹ کھولنے کے سوال پر پیشرفت کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ صدر اوباما نے اپنے معاونین پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ان کی ہدایات کے مطابق معاہدے کاکوئی ڈرافٹ تیار ہو جاتا ہے‘ تو اسے دیکھنے کے بعد وہ صدر زرداری کو ملاقات کا وقت دے سکتے ہیں لیکن اگر پاکستان اپنے مطالبات پر نظرثانی کو تیار نہیں‘ تو پھر ایسی ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اب میں ایک انوکھے پیغام کی طرف آتا ہوں جو صدر اوباما نے ایک مکھی مارنے کی صورت میں دیا۔ اگر مکھی مارنے کا کام معمول کے مطابق ہو جاتا تو یہ ایک بے معنی بات تھی۔ لیکن جس طرح صدر اوباما نے اسے رجسٹرڈ کرایا‘ وہ قابل غور ہے۔ فرض کریں کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان کسی مشترکہ دشمن کے متوقع ردعمل کی بات ہو رہی تھی اور اسی وقت ایک مکھی اوباما کے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گئی‘ تو انہوں نے ذرا سی کوشش سے وہ مکھی مار دی۔ وہ چوٹ کھا کر نیچے گر گئی تو صدر اوباما نے صحافیوں کی طرف دیکھ کر ایک نہیں‘ دو نہیں‘ تین بار آنکھ ماری۔وہ مکھی مارنے کے عمل کو کیا مطلب دینا چاہتے تھے؟ اس کا کوئی مفہوم تھا بھی یا نہیں؟ لیکن سمٹ سے پہلے پیدا ہونے والے ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو تمام شرکا میں ایک بھی ایسا نہیں تھا‘ جس پر صدر اوباما اور حامد کرزئی دونوں کے جذبات یکساں ہوں۔ باقی تمام شرکا‘ تمام امور پر متفق تھے۔ صرف پاکستان کی رائے سب سے مختلف تھی۔ حتیٰ کہ روس بھی جو روایتی طور پر شمالی اتحاد کا حامی رہا ہے‘ وہ بھی نیٹو اور افغان حکومت کے درمیان نئے سمجھوتے کو یقینا ہمدردانہ نظر سے دیکھ رہا ہو گا۔ کیونکہ کانفرنس میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ نیٹو شام کے خلاف فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یقینی طور پر یہ اعلان روس کو مطمئن کرنے کی خاطر کیا گیا ہو گا اور ظاہر ہے بڑی طاقتوں کے درمیان اس طرح کی مراعات‘ جوابی مراعات کے بغیر نہیں دی جاتیں۔
http://jang.net/urdu/details.asp?nid=622399
کیا کہا۔۔۔پانچ ہزار ڈالر؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: منگل 22 مئ 2012 , 11:15 GMT 16:15 PST
Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
پاکستان کے زمینی راستے سے نیٹو کو رسد کی فراہمی تقریباً چھ ماہ سے بند ہے
کیا کہا پانچ ہزار ڈالر فی ٹرک !
ابے کیا گھاس کھا گیا ہے !
اسی بارے میں
’نیٹو سپلائی، ہزاروں مالی مشکلات سے دوچار‘
نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان
پاکستان امریکہ تنازعات نیٹو اجلاس پر حاوی
متعلقہ عنوانات
پاکستان, امریکہ
اب تک تو ڈھائی سو ڈالر فی ٹرک کی ٹپ پر کورنش بجا لاتا تھا ! ضرور تجھے کسی نے پٹی پڑھائی ہے۔۔۔اپنا قد دیکھ اور فرمائش دیکھ !
ہاں ٹھیک ہے حسنی مبارک نے جنگِ خلیج میں ہمیں عراق کے خلاف راہداری دینے کے بدلے قرضے معاف کرا لیے تھےمگر وہ اور بھی تو بہت سے کام کرتا تھا ہمارے۔۔۔۔۔تو کرے گا وہ والے کام ؟
دیکھ بار بار چھچوروں کی طرح شام کا حوالہ نا دے۔ بشار الاسد کے ابا نے آڑے وقت میں عراق کی سرحد بند کرکے ہماری مدد کی تھی تبھی تو ہم نے اسے دھشت گردوں کی فہرست سے نکالا اور اس کے بیٹے نے سی آئی اے کی امانت القاعدہ قیدیوں سے مار مار کر اعتراف کروا لیا ۔مگر تو نے ایسی کیا توپ چلا دی کہ پانچ ہزار ڈالر فی ٹرک مانگ رہا ہے۔
میں کب کہہ رہا ہوں کہ تو نے رمزی یوسف اور ایمل کانسی کا پتہ نہیں بتایا ۔ابو زبیدہ ، خالد شیخ محمد ، ابولفراج البی ، ملا ضعیف ۔۔۔۔بکواس نا کر ۔۔۔۔ان میں سے کونسا دانہ تو نے بغیر پیمنٹ کے ہمارے حوالے کیا ؟ تجھے تو ریمنڈ ڈیوس کی بھی پیمنٹ کردی تھی بیٹے۔۔۔۔زیادہ غصہ نا دلا ورنہ ڈاکٹر قدیر اور دو مئی کا ایبٹ آباد مجھے بھی یاد ہے ۔۔۔۔سالا مانگتا ہے پانچ ہزار ڈالر فی ٹرک۔۔۔۔
معافی ؟ ہا ہا ہا ! تو تو بالکل ہی پگلا گیا ہے۔۔۔میں نے تو آج تک اپنے باپ سے معافی نہیں مانگی ۔ تو کس کھیت کی مولی ہے۔۔۔جاپان سے مانگی تھی ؟ ویتنام سے مانگی تھی ؟ عراقیوں سے مانگی ؟ کیوبا سے مانگی ؟ پانامہ سے مانگی ؟؟ چلی سے مانگی ؟ گریناڈا سے مانگی کیا ؟ ایران سے مانگی اس کا مسافر بردار طیارہ مار گرانے پر ؟ نہیں نا۔۔۔
اب تو طعنہ دے گا کہ افغانستان سے تین دفعہ مانگی ! ہاں مانگی ۔۔وہاں تو کرزئی ہے۔۔۔وقت پڑے گا تو گدھے سے بھی مانگ لوں گا۔ تجھ سے پھر بھی نہیں مانگوں گا۔۔۔۔
معافی کیوں مانگوں۔۔۔
معافی ؟؟؟؟ ہا ہا ہا !!!! تو تو بالکل ہی پگلا گیا ہے۔۔۔۔میں نے تو آج تک اپنے باپ سے معافی نہیں مانگی ۔ تو کس کھیت کی مولی ہے۔۔۔جاپان سے مانگی تھی ؟ ویتنام سے مانگی تھی ؟ عراقیوں سے مانگی ؟؟ کیوبا سے مانگی ؟؟ پانامہ سے مانگی ؟؟؟ چلی سے مانگی ؟؟ گریناڈا سے مانگی کیا ؟ ایران سے مانگی اس کا مسافر بردار طیارہ مار گرانے پر ؟؟ نہیں نا ۔۔۔۔۔۔اب تو طعنہ دے گا کہ افغانستان سے تین دفعہ مانگی !!! ہاں مانگی ۔۔وہاں تو کرزئی ہے۔۔۔۔وقت پڑے گا تو گدھے سے بھی مانگ لوں گا۔ تجھ سے پھر بھی نہیں مانگوں گا۔۔۔۔
ابے احسان فراموش ۔۔۔اکہتر میں تجھے کس نے نقشے سے مٹنے سے بچایا تھا ؟ بھول گیا ؟ تیرے ایٹمی پروگرام سے جان بوجھ کر آنکھیں کس نے بند کی تھیں ؟ بھول گیا ؟ تجھے گندم ، اسلحہ اور قرضے کون دیتا اور دلواتا رہا ہے ؟ بھول گیا ؟ تجھے کارگل کی دلدل سے کس نے نکالا ؟ گھر میں نہیں دانے، اماں چلی بھنانے ؟
اوئے ۔۔۔۔ ڈھائی سو ڈالر فی ٹرک پر کورنش بجانے والے !! تو نے کبھی پانچ ہزار ڈالر اکھٹے دیکھے بھی ہیں ؟ لے چل پکڑ دو ہزار ڈالر فی ٹرک ؟ ابے لے نا !!!! اچھا چل یہ لے ڈھائی ہزار ڈالر فی ٹرک۔یوں سمجھ لے کہ یہ پانچ سو ڈالر فالتو میں معافی تلافی کی مد میں دے رہا ہوں۔۔۔اب زیادہ مت پھیل۔۔۔اچھا کام کرے گا تو اور خرچی بھی ملے گی۔۔۔ہاں ہاں پچیس فوجیوں کے پیسے بھی مل جائیں گے۔۔۔۔
اب کیوں منہ بسورے کھڑا ہے ؟ اوئے جواب کیوں نہیں دیتا مایوسی کی لوکل ٹرین !
کیا کہا ؟ ڈھائی ہزار ڈالر میں ٹرک وارا نہیں کھاتا ۔۔لا یہ پیسے واپس کر۔۔اب تجھے ٹھینگا دوں گا۔۔بلکہ ٹھینگا بھی نہیں ملے گا۔۔
ہا ہا ہا ۔۔۔۔مجھے پتہ تھا تو کبھی بھی واپس نہیں کرے گا۔۔۔ڈھائی ہزار ڈالر بھی نہیں۔۔۔مفت میں سانپ مل جائے تو وہ بھی نہیں۔۔۔مجھے پتہ تھا۔۔۔تو مجھے ایویں ہی تنگ کررہا ہے۔۔۔ہا ہا ہا۔۔۔تو بہت شرارتی ہوگیا ہے ۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔اب سارے پیسے خود ہی نا رکھ لیجو۔۔کچھ انہیں بھی دے دیجو ۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/05/120522_us_pak_relations_wusat_zs.shtml