State institutions fostering the extremism
انتہا پسندی اور ریاستی ادارے
پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو ڈیڈ لاک سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے ردعمل میں نیٹو سپلائی کے بند کرنے سے پیدا ہوا تھاٴ وہ بظاہر ختم ہوتا نظر آرہا ہےٴ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اس کے بعد وزیر خارجہ کے جو بیانات آرہے تھےٴ اس سے اندازہ ہوگیا تھاٴ کہ برف پگھل چکی ہےٴ اور اب معاملات مثبت سمت میں آگے بڑھیں گے۔
صدر آصف علی زرداری کو بھی شکاگو سمٹ میں شرکت کی دعوت دے دی گئی ہےٴ جو21-20 مئی کو منعقد ہوگیٴ اور جس میں نیٹو کے 2014 ئ کے بعد کے روڈ میپ کے حوالے سے بحث ہوگیٴ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو بتدریج پاکستان کی سفارتی تنہائی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو آج عالمی سطح پر جس تنہائی اور بربادی کا خطرہ ہےٴ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عقل و فہم کی بجائے جذبات اور غیرت پر مبنی نقطہ نظر اور حکمت عملی ہے ۔پاکستان کے غیر نمائندہ ریاستی اداروں نے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنےٴ اور اقتدار میں ہمیشہ موجود رہنے کے لئے انتہا پسندی اور غیر جمہوری نقطہ نظر کو فروغ دیا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی جو ایک کاغذ کے ٹکڑے کی بھینٹ چڑھے ہیں انہوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہےٴ اس میں انہوں نے پاکستان میں انتہا پسندی کے بڑھنے کی وجوہات کی تلاش میں مختلف ریاستی اداروں کے کردار کا بھی تجزیہ کیا ہے اس سے قبل بھی حسین حقانی نے اپنی کتابPakistan Between Mosque and Military میں ریاستی اداروں اور مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے اور جس کی وجہ سے ان کے خیالات کو ہمیشہ ریاستی اداروں کی طرف سے شکوک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہےٴ کیونکہ ان کا پاکستان آج کے پاکستان سے مختلف ہے ان کا خواب ایک پروگریسو لبرل اور ترقی یافتہ پاکستان کا ہےٴ جہاں عوامی نمائندہ ادارے مضبوط اور بالادست ہوںٴ اور جہاں عوام آزادٴ ترقی یافتہ اور جدید فکر کے مالک ہوں۔
آج جب ریاست سر کے بالوں تک انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے دلدل میں دھنسی ہوئی ہےٴ اس وقت ریاست کے اداروں کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے حسین حقانی لکھتے ہیں کہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کے شدید خطرات درپیش ہیں اور پاکستانی ریاست اس کا ادراک نہیں کرپارہی ہےٴ رواں ماہ اسامہ بن لادن کی پہلی برسی کے موقع پر پاکستان مسلم دنیا کا واحد ملک تھا جہاں القاعدہ کے سربراہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے گئے ہیں۔ انتہا پسندیٴ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی حمایت میں ہمارے ہاں جو رائے عامہ ہےٴ اس کی تخلیق میں ہمارے میڈیا اور نصابی کتب نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہےٴ میڈیا میں اور اب بالخصوص ٹی وی ٹاک شوز میں اینکروں اور ان کے پسندیدہ مہمانوں نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بحث و مباحثہ کو ہائی جیک کرکے اس طرح کا قدیم فکر پر مبنی مائنڈ سیٹ تخلیق کیا ہےٴ جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جواز فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی راہ پہلے ہی ہموار ہوچکی تھیٴ مگر اس کو تقویت جنرل ضیائ الحق نے دیٴ جنرل ضیائ الحق کی خوش قسمتی کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھیٴ جنرل ضیائ الحق کی خوش قسمتی کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھیٴ جنرل ضیائ الحق کے لئے آئیڈیل فضائ اس وقت بنی جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوگیا۔ دنیا بھر کی عالمی قوتیں اور ممالک بلا واسطہ اس جنگ میں شریک ہوئے۔ سرمایہ دارانہ مفادات کے تابع اسلامی دنیا نے اس جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دے دیا اس پالیسی کے تحت پاکستان میں انتہا پسندی اور متشدد رجحانات کو فروغ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے غیر جمہوری دور میںٴٴ ڈبل گیمٴٴ کی پالیسی نے پاکستان میں انتہا پسند قوتوں کو مضبوط کیا ان دونوں ادوار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی قیمت یہاں کے عوام کو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ حسین حقانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سماجی اور اقتصادی پالیسی پر سنجیدہ گفتگو کی بجائے مغرب اور جمہوریت مخالف جذبات کو فروغ دیا جارہا ہےٴ اور اب بھی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لوگ آزاد اور طاقتور ہیں مزید برآں ہماری نصابی کتابیں انسانوں اور دیگر اقوام کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہیں حسین حقانی لکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں اسامہ بن لادن کے حوالہ سے گفتگو ہونی ہے تو اس بات پر غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی ٴ مگر اس نقطہ پر کوئی دھیان نہیں دیتا کہ دنیا کے مطلوب ترین دہشت گرد کی اس علاقے میں موجودگی جہاں فوجی افسران کی بڑی تعداد ہوٴ کیا یہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے خطرہ نہیں تھا۔
حسین حقانی نے جمہوریت پر بات کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی غیر جانبداری پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں ان کے نزدیک پاکستان کی سپریم کورٹ کو پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کے حوالہ سے تحقیقات کرنی چاہئے تھی مگر اس کے برعکس اس نے وزیراعظم کو توہین عدالت میں سزا دینے کو اہمیت دیٴ جنہوں نے عدالت کے یک طرفہ ایجنڈے پر چلنے سے گریز کیا تھا پاکستان میں 2008 ئ کے انتخابات کے بعد امید کے چراغ روشن ہوئے تھےٴ لیکن اس وقت سے حکومت ایک ایسے جیو ڈیشل ایکٹیوازم کا سامنا کررہی ہےٴ جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف خاموش ہےٴ مزید برآں جہاں میڈیا ملک کو اسلامی شدت پسندی سے بچانے کی بجائے موجودہ حکومت کی مبینہ کرپشن اور خراب کارکردگی پر دن رات لیکچرز اور پروپیگنڈہ میں مصروف ہے وہاں عدلیہ نے اپنی زیادہ تر توانائی منتخب حکومت کے خلاف استعمال کی ہےٴ اس دوران عدالت کی طرف سے ایک بھی دہشت گرد کو سزا نہیں ملی ہےٴ اور بہت سے دہشت گرد آزاد ہوچکے ہیں حسین حقانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں وکلائ کی تحریک دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہےٴ ایک وہ جو قانون کی حکمرانی چاہتا ہےٴ جس میں عاصمہ جہانگیرٴ علی احمد کرد اور اعتزاز احسن نمایاں ہیں جبکہ دوسرا گروہ عدالت کو منتخب حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان میں جذبات اور اشتعال پر مبنی پروپیگنڈہ اور گفتگو ریاست کو ایک خاص سمت میں لے کر جارہی ہےٴ ہمارے ریاستی غیر نمائندہ اداروں کا کردار اور ان کا نظریاتی جھکائو اور غیر ریاستی عناصر کا خوفٴ جو کہہ رہے ہیں کہ ہم نیٹو سپلائی کو روکنے کے لئے تشدد اور دہشت کا استعمال کریں گے یہ عناصر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ جدید دنیا سے مختلف نقطہ نظر جو مذہبی انتہا پسندی پر مبنی ہے اور افغانستان کے بارے میں آخری حل میں ہمارا عالمی برادری سے اختلاف رائے ہمیں تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہےٴ بون کانفرنس میں عدم شرکت سے نقصان ہمیں ہی پہنچا ہے۔ ایک تو ہم اپنا نقطہ نظر پیش نہیں کرسکے اور دوسرا پوری دنیا ہمیں طالبان اتحادی اور دنیا کے خطرناک ترین ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ آج کل کی دنیا میں انتہا پسندی کی معاونت اور تنہا رہنے کا تصور بہت خطرناک ہے اور خاص طور پر جب آپ کی معیشت کا انحصار بین الاقوامی اداروں اور ترقی یافتہ مغربی ممالک پر ہو۔
Source: Daily Mashriq Lahore
Watch All Talk Shows Current Affairs comedy Shows News and Live Channels Only on Newstvz.com