Zardari-Manmohan meeting – A positive development

پاک بھارت رابطہٴ ایک مثبت پیش رفت


البرٹ آئین سٹائین نے کہا تھا۔

ٴٴ کسی ایٹم کو توڑنے سے زیادہ مشکل ہےٴ کسی بدگمانی کو ختم کرنا۔ٴ
ٴ
تقسیم ہند سے لے کر اب تک 64 سالہ پاک بھارت تاریخ ایک دوسرے کے متعلق بدگمانیوںٴ شکایاتٴ تنائوٴ کشیدگیٴ دشمنی ٴ تنازعات اور جنگوں پر مبنی رہی ہے۔ بدگمانیوں اور کشیدگی کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں میں سبقت کی دوڑ نے اس خطہ کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ خطہ بنادیا ہےٴ اور اس خطے کی ارب سے زائد انسانوں کی قسمت میں بھوکٴ ننگٴ غربتٴ جہالت اور دہشت گردی لکھ دی ہے۔ مگر خوش قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور استحکام سے علاقائی امن کی کوششیں بھی تیز ہوئی ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کا دورہ بھارت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقاتٴ یہ سب مثبت پیش رفت ہے اور یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ آج سرحد کے دونوں جانب امن اور سلامتی کی آرزو بھی تیزی سے ابھر رہی ہے۔ برصغیر پاک وہند کی دھرتی محض حملہ آوروں کی تاریخ ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھگت کبیر داسٴ سورداسٴ بلھے شاہٴ سرکار خواجہ غریب نوازٴ اور مادھو لعل حسین کی بھگتی تحریک اور تصوف کی تعلیمات کی تاریخ بھی سناتی ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے درست کہا ہے کہ آج ہمیں محبت کو جیتنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی ایک نئی عملیت پسندی اور تعاون کی لہر نظر آرہی ہے اور وہ بھی عملی اور حقیقت پسندی پر مبنی حل تلاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ محبت اور امن کے فروغ کے لئے جو سب سے اہم حل نظر آرہا ہے وہ باہمی تجارت کا فروغ اور معاشی رابطے ہیں۔ زرداری من موہن ملاقات میں تعلقات کے فروغٴ مسائل کے حل کے لئے مذاکرات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس ضمن میں تجارت کے فروغ کے لئے انڈیا چین ماڈل پر قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ بھی ہوگیا ہے۔ اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات اور تنائو اپنی جگہ موجود ہے مگر ساتھ ہی تجارت بھی مسلسل فروغ پارہی ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کی تجارت کا حجم 70 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے اور امید کی جارہی ہے کہ یہ 2015 ئ تک 100 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان اور بھارت کی تجارت محض 2.7 ارب ہےٴ جس میں تجارت کا بیلنس زیادہ تر بھارت کی طرف ہے ۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کی پیشن گوئی کے مطابق اگرٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ بیرئیرز ختم ہوتے ہیں تو یہ 2015 ئ تک 10 ارب روپے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہماراٴٴ دوستٴٴ ملک چین بھی ہمیں یہی مشورہ دیتا رہا ہے کہ متنازعہ امور کو قدم بہ قدم پرامن انداز میں حل کریںٴ مگر ساتھ ہی تجارتی روابط کو مسلسل فروغ دے کر مضبوط بنائیںٴ مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور انتہا پسند گروہ اس کوٴٴ نظریاتی قومی سلامتی کی ریاستٴٴ کے پیرائے میں دیکھتے رہے ہیں۔

صدر مملکت کا دورہ بھارت اور بھارتی وزیراعظم سے ملاقات ایک مثبت اور تاریخی پیش رفت ہےٴ اس ملاقات کو میں تاریخی پیش رفت اس وجہ سے لکھ رہا ہوںٴ کیونکہ دونوں جانب جمہوری حکمران ہیںٴ جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہےٴ عوام امنٴ خوشحالی ترقی چاہتے ہیںٴ جس کے لئے وہ نمائندہ جمہوری حکومت منتخب کرتے ہیںٴ پاکستان پیپلز پارٹی ایک لبرل جمہوری جماعت ہےٴ جو ہماری دیگر دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی نسبت امنٴ مکالمہٴ رواداری اور جدیدیت پر یقین رکھتی ہےٴ پارٹی نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ خطے اور بین الاقوامی سطح پر مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے تمام تنازعات اور مسائل کا حل چاہتی ہےٴ یہ بندوق کی بجائے منطق اور دلیل پر یقین رکھتی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے دورہ بھارت سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانیٴ وزیراعظم یوسف رضا گیلانیٴ وزیر خارجہٴ تاجر برادری اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کیں اور اس ضمن میں دیگر سیاسی رہنمائوں سے مشاورت بھی کیٴ یہ ایک جمہوری طرز عمل اور رویے کی عکاسی ہے۔

بھارت جو جنوبی ایشیائ میں سب سے بڑا معاشی اور تجارتی ملک ہےٴ اس میں انڈسٹریل مرکنٹائل کلاسٴ اور تاجر برادری بہت طاقتور ہوچکی ہےٴ جو خطے میں تجارت کا پھیلائو چاہتی ہےٴ اس کا بھارتی حکومت میں بہت اثرو رسوخ ہےٴ یہ اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول کی سطح پر لایا جائے اور تجارت کو فروغ دیا جائےٴ ابھی حال ہی میں بھارتی تاجروں کی تنظیموں نے پاکستان کا دورہ کیا تھاٴ اس وفد نے مقامی تاجر تنظیموں سے ملاقاتیں کیں تھیںٴ جس کو بہت زیادہ سراہا گیا تھاٴ پاکستان کی تاجر برادری بھی تجارت چاہتی ہےٴ اسے اندازہ ہے کہ براہ راست تجارت کرنے سے انہیں تیسرے ملک کا سہارہ نہیں لینا پڑے گا اور وہ مال برداری اور دیگر اخراجات سے بچ جائیں گےٴ ادائیگوں کا توازن درست ہوگا۔ اور اس سے دونوں ملکوں کی معیشت کو فائدہ ہوگاٴ بھارت ایک بڑا ملک اور بڑی منڈی ہے۔ جس میں پاکستانی اشیائ کے لئے بہت کشش ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی تاجر برادری نے اس ضمن میں ایک ملاقات جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی کی ہے اور علاقائی تجارت کے حوالہ سے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا ہے، بدقسمتی سے دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ عوام کے برعکس کسی اور نقطہ نظر سے سوچتی رہی ہےٴ جس کی وجہ سے کشیدگی بڑھی اور مذاکرات تعاون اور تجارت کے لئے ماحول بن نہیں سکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی منتخب جمہوری حکومت کی حمایت کرنی چاہئےٴ خطے اور بین الاقوامی سطح پر بات چیتٴ رابطہ اور تجارت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جز ہونا چاہئےٴ اور جن حکمت عملیوں اور دہشت پسند گروہوں کو ہم اپناٴٴ سٹرٹیجک اثاثہٴٴ سمجھتے ہیں ان کو ہمیں خدا حافظ کہنا ہوگا۔ اور ان سے درخواست کرنا ہوگی کہ وہ امن کا راستہ اختیار کریںٴ اور جمہوری سیاست میں آکر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کریں۔ عملی اور حقیقت پر مبنی اقدامات کرنے سے ہم بہت سارے معاملات طے کرسکتے ہیں جس سے بتدریج بدگمانیاں اور کشیدگی ختم ہوگی۔

جدیدیت اور ترقیات پر مبنی اس دنیا نے ہمارے لئے کئی متبادل راستے بھی تلاش کئے ہیں۔ یہ متبادل ذرائع جو جمہوریت پر مبنی ہیںٴ جن میں ثقافتیٴ سفارتیٴ تجارتی اور سیاسی رابطے اہم ترین ہیںٴ ان کے ذریعے ہم آپس کی غلط فہمیاں اور نفرت ختم کرسکتے ہیں۔ کشادہ دلیٴ عزت و احترام اور باہمی اعتماد اور تعاون ہی وہ بنیادی ستون ہیں جنکے ذریعے باہمی اور دوستانہ رویوں کو ہر ایک سطح پر قائم کیا جاسکتا ہےٴ ہمیں ہمسائیہ ممالک سے رابطوںٴ تجارتٴ بات چیت اور رشتوں کو خاص اہمیت دینی چاہیےٴ یہ خطہ صدیوں تک تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہےٴ جہاں سرکار خواجہ غریب نواز جیسی انسان دوست صوفی ہستیاں آکر آباد ہوئیںٴ جن کا پیغام امنٴ محبت اور بھائی چارہ کا تھا جنہوں نے مذہبٴ عقیدہ اور مسلک سے بلند ہوکر انسانیت کی تعلیم دیٴ یہ ہمارا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ اور اب بھی جب صدر زرداری اجمیر شریف حاضری کے لئے پہنچے تو درگاہ کے سجادہ نشین نے دونوں ممالک کے درمیان امنٴ محبت اور تعاون کے فروغ کے لئے دعا کی۔ ان بزرگ صوفی ہستیوں کے پیغام کو اپناتے ہوئے ہمیں ثقافتی تنوع اور کثیر الجہتی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو عزت دینی چاہئے۔ کامیاب رشتوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسرے کی بات کو غور سے سنیں اور ان کے موقف کو سمجھیںٴ نئے سفر کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اپنی سابقہ سخت پوزیشنوں سے ہٹتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کریں شفافیتٴ برداشتٴ اور پرامن بقائے باہمی کے اصول کامیاب مذاکرات کے فیصلہ کن اجزائ ہوتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دیرپا کثیر الجہت موضوعات پر تعاون جنوبی ایشیائ کے خطے کی خوشحالی اور اس کے معاشی استحکام میں مدد گار ثابت ہوگا۔

Source: The Mashriq

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. farrukhqadir
    -
  3. farrukhqadir
    -
  4. farrukhqadir
    -
  5. farrukhqadir
    -
  6. Junaid Qaiser
    -