Javed Chaudhry shows how to rationalize acid attacks on women – by Zalaan

پہلی اپریل کو کسی نے مجھے جاوید چودھری کا روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والا کالم فارورڈ کیا جسے پڑھ کر میں حیران رہ گیا کے جاوید چودھری کی سوچ اتنی مجرمانہ اور گری ہوئی ہو سکتی ہے اور ہمارے اخبارات ایسی مجرمانہ ذہنیت کو پروموٹ کر رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا معاشرے میں کتنا برا اور گہرا اثر ہو سکتا ہے ، حکومتی ذمہ داری کا رونا رونے والے یہ صحافی اور اخبارات انسانی اور سماجی ذمہ داری سے اپنے آپ کو کیوں بری ازمہ سمجھتے ہیں ؟

جاوید چودری نے یوں تو کئی کالموں میں مجرموں اور جرائم کو جسٹیفائی کیا ہے ، سابقہ جماعتی اور اس کا اثر رکھنے والے جاوید چودھری نے ہمیشہ طالبان کے وحشیانہ مظالم کی پردہ پوشی کی اور ان کی حمایت کی ، قادیانیوں پر حملے ، سلمان تاثیر کو اپنے کالم کے ذریے توھین رسالت کا مجرم بنانا اور فتوے لگا کر لوگوں کو قتل پر اکسانا ، اور پھر جب قتل ہو گیا تو قاتل کو ایک ہیرو کے تو پر پیش کرنے میں جاوید چودری کے مجرمانہ کارناموں میں سے چند ایک ہیں .

پہلی اپریل کے کالم میں جاوید چودھری نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہوئے عورتوں پر تیزاب پھینکنے کو جسٹیفائی کیا اس کالم کا پیغام یہ تھا کہ تیزاب پھینکنے والا عورت کو قتل کرکہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ عورت کے کچھ ایسے گناہ ہوتے ہیں کے تیزاب پھینکنے والا اس کو سسکا سسکا کر مارنا چاہتا ہے اور کریمنل ذہن رکھنے والے جاوید چودھری کے مطابق ضرور عورت کا کوئی ایسا قصور ہوتا ہے جس پر مرد ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ، یعنی اتنا گھناونا جرم کرنے والے کو جاوید چودھری جسٹیفائی کر رہے ہیں ، یہ سوچے بغیر کہ دنیا میں اکثر مجرم اپنے آپ کو اسی طرح جسٹیفائی کرتے ہیں اور ہر جرم کے پیچھے انتقام یا اور کوئی شیطانی جذبہ ہوتا ہے مگر ایک اچھے معاشرے میں جرم ہمیشہ جرم ہوتا ہے ناکے اس کو جسٹیفائی کیا جائے

جاوید چودھری پہلی اپریل کے کالم میں اپنی ایک فرضی کہانی گھڑتے ہیں جس میں ان کا ہیرو ایک تیزاب پھینکنے والا ہوتا ہے
اپنے اس کالم میں اپنی کریمنل ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے تیزاب میں جھلسی عورت کا نقش اس طرح بیان کرتے ہیں
“اس کے آدھے چہرے کی ہڈیاں ننگی ہو گئیں ،ایک آنکھ ابل کر باہر آگئی اور گردن اور سینے تک گوشت لٹک گیا “

آگے اپنے اپنے فرضی کردار کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں اور لکھتے ہیں
“اگر ہم حلیے ،گفتگو نشست و برخاست کو دیکھیں تو وہ ایک آئیڈیل انسان تھا ،وہ چھ فٹ کا وجیہ شخص تھا ،اس نے خوبصورت ،صاف ستھرے اور غیر ملکی کپڑے پہنے ہوئے تھے ،اسکے جوتے بھی شاندار تھے ،وہ برطانیہ کی اچھی یونیورسٹی سے پڑھ کر بھی آیا تھا اور شائستگی کے ساتھ دھیمے لہجے میں گفتگو بھی کر رہا تھا “

آگے کالم میں اپنی گھڑی ہوئی کہانی میں یہ بتاتے ہیں کہ اس شخص کی بیوی نے دھوکہ کیا اور کاروبار اور گھر پر قبضہ کر لیا اور اس کے انتقام لینے کے لیہ جاوید چودھری کے ہیرو نے اس عورت پر تیزاب پھینک دیا ، جاوید چودری اپنے فرضی کردار کے ذریے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر وہ شخص اپنی بیوی کو قتل کر دیتا تو اس کے انتقامی جذبات کو تسکین نہیں مل سکتی تھی لہذا اس نے عورت پر تیزاب پھینکا تاکہ وہ سسک سسک کر زندگی گزارے .

کالم کے آخر میں جاوید چودری اپنی اصل ذہنیت دکھاتے ہوئے عورت کو اصل قصوروار ٹہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت اپنی حرکتوں سے مرد کو اتنا مجبور نہ کرے کے وہ اس پر تیزاب پھینکنے پر مجبور ہو جائے

ایک بھائی ،ایک شوہر ،ایک ماں کا بیٹا اور اور بیٹی کا باپ ہوں اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس طرح کی گری ہوئی مجرمہ ذہنیت رکھنے والے صحافی، اخبارات کے ذریے ہمارے معاشرے میں وہ عورت جو پہلے ہی مرد کے ظلم کا نشانہ بنتی ہے اپنے کالموں کے ذریے اپنے گھناونے جرائم کا جواز بنا کر پیش کریں گے

جاوید چودری جائیں اور کسی ماہر نفسیات جو خاص کر مجرمانہ نفسیات کا علاج کرتے ہیں ان سے پوچھیں ، ہر مجرم ،ہر نفسیاتی مریض اپنے جرم کو ہر طرح سے جسٹیفائی کرتا ہے ،مجرموں کی اکثریت اپنے جرائم کا جواز بناکر جرم کرتی ہے .

جاوید چودھری کے اس کالم کو پڑھ کر الله نہ کرے کہ کسی اور مرد کو اپنی بیوی یا کسی عورت پر تیزاب پھینکنے کا جواز مل گیا ہو اور وہ تیزاب ڈھونڈ رہا ہو .

انسانی جان سب سے قیمتی ہے اس کا تحفظ کرنے کے لیہ ہی قوانین بناے گئے ہیں اور یہاں جاوید چودھری عورتوں کو سمجھا رہے ہیں کہ مرد کو مجبور نہ کریں کہ وہ تیزاب پھینکنے پر مجبور ہو

میں سوچتا ہوں کہ کیا جاوید چودری کے گھر ماں ،بہن بیٹیاں نہیں ؟ الله نہ کرے کہ جاوید چودری کے خاندان کی عورت کسی مرد کے ظلم نہ نشانہ بنے اور اگر ایسے ہوا تو کیا جاوید چودھری ان سے کہے گا کہ ” ضرور تم نے کوئی قصور کیا ہوگا جبھی اس نے یہ ظلم کیا “

میرا اکسپریس نیوز سے مطالبہ ہے کہ ایسے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے صحافی کو نکال کر ایک اچھی مثال قائم کریں کیونکہ یہ محض ایک کالم نہیں بلکہ جاوید چودری جیسے لوگ جنکا اپنی لفاظی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں انفلونس ہے اپنی اس ذہنیت کی وجہ سے معاشرے کے لیہ انتہائی خطرناک ہیں

twitter : zalaan1

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Nadir Waraich
    -
  4. Amjad Cheema
    -
  5. Multan
    -
  6. SEMIRZA bachan
    -
  7. kashifnaseers
    -
  8. AHMED BALOCH
    -
  9. ash
    -