اپنے منہ میاں مٹھو
اورلامیریجان ایک بڑے مصنف، شاعر، افسانہ نویس، ناول نویس، تاریخ دان، معیشت دان، سائنسدان، سیاستدان، غرض کہ ہمہ دان ہیں، اور ہمارے دوست مجید کے بقول بلاۓ جان بھی ہیں، مگر یہ آپس کی بات ہے اور ہم اس سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ پھر قافیے کچھ عجیب ہو جاتے ہیں جیسے اگالدان، پان دان وغیرہ. اورلامیریجان ہمارے ممدوح ڈاکٹر بلا کی طرح روزنامہ بھنگ میں لکھتے ہیں مگر آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ بھنگ پی کر لکھتے ہیں، جی نہیں روزنامہ بھنگ کے لکھنے اور پڑھنے والے بنا بھنگ پیے ہی نشے میں رہتے ہیں جیسے یاس یگانہ چنگیزی نے کہا تھا
:
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
اورلامیریجان اور ڈاکٹر بلا میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کے تعلقات صاحب کشف و کرامات بزرگوں سے ہیں، جو ان کو غیب کی خبریں دیتے رہتے ہیں، اور جو ابھی ہوا نہیں ہوتا اس کا پتہ ان کو پہلے سے ہی چل جاتا ہے، یہ بزرگ دنیا داری سے دور دور رہتے ہیں، بس اورلامیریجان اور ڈاکٹر بلا جیسے مشاہرین کے ذریعے سے دنیا والوں کو ان کے کرتوتوں کے نتیجے سے ڈراتے رہتے ہیں، مثلاً ایک علاقے میں ایک زبردست زلزلہ آیا اور خاصا جانی اور مالی نقصان ہوا تو اس کے بعد اورلامیریجان نے اپنے ایک کالم کےذریعے سے قارئین کو آگاہ کیا کہ ان کو تو بزرگ نے پہلے ہی آنے والی آفت کا بتا دیا تھا اور اگر یہ قوم نہیں سدھری تو ایسی اور آفتیں آنی ہیں. ہم تو یہی سوچتے رہ گئے کہ یہ بزرگ کہاں پاۓ جاتے ہیں، ان کو تو کسی قومی ادارے جیسے محکمہ موسمیات یا نشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ میں اعزازی جگہ دی جاۓ، تاکہ یہ آنے والی آفات سے اگاہ کر کے انسانی جانیں بچا سکیں اور ملکی اثاثوں کے زیاں کو ہی روک سکیں، قوم کو ڈرانے کے علاوہ کسی اور کام آ سکیں تو بہتر ہو, اس قوم کے اختیار میں ہے کیا جو یہ ڈر جانے سے کسی قابل ہوگی. ویسے بھی جتنے پیغمبر، نبی، مصلح اور انقلابی گزرے ہیں جنہوں نے دنیا میں اچھائی اور بہتری کے لئے کوششیں کیں اور بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے، قوموں کی تقدیر بدل ڈالی، بے سہاروں کا سہارا بنے، پردے کی بو بو نہیں بلکہ سبھی مرد میدان تھے، کونے میں بیٹھ کر اپنے مریدوں کو آنے والی آفات کا پتا نہیں دیتے تھے بلکہ آفات کا سامنا کرتے تھے اور اکثر حق اور سچ کی رہ میں اپنی جان سے گزر گئے. اگر لاہور داتا کی نگری کہلاتا ہے تو یقیناً سید علی ہجویری اس علاقے کے لوگوں میں بے حد مقبول ہونگے اور ایسا عوام میں رہ کر ان کا ساتھ دے کر ہی ممکن ہو سکتا ہے, کشف المحجوب لکھنے والے صاحب اسرار تو تھے ساتھ ساتھ صاحب علم و عمل اور دنیا دار بھی تھے.
ہمارے ہاں یہ بھی فیشن بن گیا ہے کہ جب سب کھیل کھال کر فارغ ہو یعنی ریٹائر ہونے لگو تو باطن کی دنیا کا رخ کرو، داڑھی رکھو اور پیشانی پر محراب بنانے میں لگ جاؤ . ایک مشہور مصنف جو اعلیٰ سول سرونٹ تھے خصوصاً ایوب خان کے بڑے قریب رہے ان کی آپ بیتی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تو آمر کو حق اور سچ سے اگاہ کرتے رہے مگر اسی نے کان نہ دھرے, گناہ کماتا رہا اور قوم کو عذاب میں ڈالتا رہا، ان کی سن لیتا تو دس سال ہمارے سینوں پر مونگ دلنے کے بجاۓ جنگل کو جا نکلتا. یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ حضرت خود سب چھوڑ چھاڑ کر الگ کیوں نہ ہو گئے ، کہتے تو یہ ہیں کہ ظالم کا ساتھ دینا بھی ظلم کرنا ہے اب یہ بچے تو تھے نہیں بلکہ اعلیٰ سی ایس پی افسر تھے، اور صاحب کشف و کرامت بھی تھے جیسا کہ ان کے عزیز دوستوں نے بعد میں ان پر لکھ لکھ کر ثابت کیا, پھر بھی اپنی نوکری کی میعاد پوری کر کے اور پنشن پکی کرا کر ہی ریٹائر ہوئے اور وہ بھی تب جب خود کو روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرا لیا, ان کے ذات سے کیسے کیا فایدہ ہوا؟ ملک کی حالت بدل گئی؟ لوگ خوشحال ہو گئے ، قوم ترقی کی رہ پر لگ گئی، یہ سب فضول اور مشرکانہ سوال ہیں، بے دین شیطان ایسی باتیں کرتے ہیں، دیندار اس کے بجاے قوالی سنتے اور سر دھنتے ہیں. یقین نہ ہو تو اورلامیریجان سے پوچھ لیں. ویسے بھی آج کے زمانے میں غیب کی خبر کا پتہ لگانے کا کام خفیہ اداروں کے سپرد ہے، ہو سکتا ہے اورلامیریجان ایسے کسی بزرگ سے انجانے میں ٹکرا گئے ہوں جو اصل میں خفیہ والے ہوں. ایسے بزرگوں کو شیطانی کاموں جیسے جمہوریت یا سیاست وغیرہ سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے، یہ صرف شہنشاہی کے قائل ہوتے ہیں, اور وہ بھی صرف اپنی شہنشاہی، کوئی اور حصہ بٹورے تو ان کا طیش میں آنا برحق اور عذاب آنا لازمی. اسی لئے اورلامیریجان کا پسندیدہ شعر ہے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ایسا ماننے والے یقیناً بے حد فربہ ہوتے ہونگے، جیسا کہ ایک مرحوم گلوکار تھے، مرحوم یقیناً ایسے طرز حکومت کو پسند کرتے جس میں بندوں کو تولا جاتا کیونکہ یہ اکیلے پورے حلقے پر بھاری پڑتے. ہو سکتا ہے کہ اورلامیریجان بھی مستقبل میں وزن بڑھانا چاہتے ہوں. مگر کیا کیجیے کہ خدا نے عام آدمی زیادہ پیدا کیے ہیں اور عام آدمی موٹا ہونے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے گنا جائے تو بہتر ہے، تولے جانے کی صورت میں بیچارہ کہاں کھاتے پیتے موٹے تازے لوگوں کو پنہنچ پائے گا, اور گننا تولنے سے آسان بھی ہے، جہاں ترازو ورازو نہ ہوں وہاں کیا لوگوں کو گود میں لے کر تولیں گے؟ چلیں مردوں کو تول لیا عورتوں کا کیا کریں گے ؟ ہم اسی طرح کے کئی اور دلائل دے سکتے ہیں کہ کیوں گننا تولنے سے بہتر ہے. کچھ لوگ تولنے سے مراد علم و دانش لیتے ہیں، یہ فضول بات ہے، کیونکہ علم و دانش ہمیشہ معروضی ہوتی ہے، ہر شخص اپنے مسائل کا ادراک رکھتا اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، اس کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں ہے.
اورلامیریجان ڈاکٹر بلا ہی کی طرح پائے کے تاریخ دان ہیں، ویسے تو یہ دستور نکلا ہے کہ صاحبان اقتدار و اختیار خاص دعوتوں میں لوگوں کو بلا کر، ہمنوالہ و ہم پیالہ ہو کر ہمنوا بناتے ہیں، اگر کوئی پائے کا صحافی کہلاتا ہو مطلب یہ بھی ہو سکتا کہ یہ صاحب پائے کی دعوت میں جاتے ہوں، اسی طرح نہاری کے صحافی، بریانی کے دانشور، حلیم کے محقق بھی عام ہیں, آم بھی ایسے رابطے اور رشتے ناتے بنانے میں بڑا کام آتا ہے، لوگ باگ بڑے بڑے کام آم کی آڑ میں نکال لیتے ہیں، آم کے آم گٹھلیوں کے دام. تو جناب اورلامیریجان اسی طرح بڑے تاریخ دان ہیں، اور جگہوں پر لوگ باگ اپنی جان اور عمر لگا دیتے ہیں، پڑھتے رہتے ہیں، تحقیق کرتے رہتے ہیں، ایم فل کرتے پی ایچ ڈی کرتے ہیں، مقالے لکھتے سر کھپاتے ہیں حتیٰ کہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تب جا کر بھی قسمت سے ہی پزیرائی ملتی ہے کہ کسی مضمون میں اتھارٹی کہلا سکیں، مگر ہمارے اورلامیریجان اور ڈاکٹر بلا اتنے دیدہ ور (ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بڑی مشکل سے پیدا ہوئے ہونگے) ہیں کہ بیک وقت کئی مضامین میں اتھارٹی ہیں، اتنے ذہین ہیں کہ ملازمت بھی کرتے رہے، کاروبار بھی کرتے رہے، فکر دنیا میں بھی سر کھپایا ، روحانیت اور دین کی خدمت میں بھی لگے رہے، پائے بھی کھاتے رہے، نہاری بھی اڑاتے رہے، ساتھ ہی ساتھ تاریخ، سیاسیات اور دیگر معاشی اور معاشرتی علوم میں اتنی دسترس بھی حاصل کر لی کہ آج ان کا فرمایا ہوا مستند مانا جاتا ہے
،
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اب رہے ایسے حضرات کہ جیسے حمزہ علوی یا ڈاکٹر دانی، ہماری ناقص رائے میں تو انہوں نے اپنی عمر یونہی ضایع کی، نہاری پائے کھاتے فلسفہ بھگارتے تو زیادہ یاد رکھے جاتے. زمانہ شناس ہوتے اور دنیا کے سر سے سر ملاتے تو زیادہ پسند کئے جاتے، کہاں علم و تحقیق میں زندگی ضایع کر دی. اورلامیریجان تاریخ سے ایسے ایسے شاہکار نکالتے ہیں کہ قارئین کے سینے فخر سے پھول جاتے ہیں، ایسے ایسے مجاہد، ایسا ایسے دانشور، ایسے ایسے عظیم لوگ جنھیں کوئی نہیں جانتا اورلامیریجان ایسی ہر رائی کو پہاڑ بنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں. ہمارے دوست مجید نے وصیت کی ہے کہ ان کے انتقال پر ملال کے بعد ان کی سوانح عمری اورلامیریجان سے لکھوائی جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس عظیم انسان کو یاد رکھیں جو ہر صاحب اقتدار کی مجبوری اور مشیر با تدبیرتھا، جس کے دروازے لوگ پڑے رہتے تھے کہ ان کی رہنمائی کر سکے، دنیا بھر کی حکومتیں جس کے پیچھے تھیں کہ ان کے آئین اور قانون کی اصلاح کر سکے، ہر ملک اسے اپنی شہریت دینے کو تیار تھا ، وغیرہ وغیرہ. اب حقیقت میں مجید کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا، یہ بات ہمارے آپ کے درمیان ہی رہنی چاہیئے
.
اورلامیریجان آج کل ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں جس کا عنوان ہے ‘میاں مٹھو دلہنیا لے جائیں گے’ جس کی ہیروئن ایک ہندو لڑکی ہے اور ہیرو ایک مسلمان لڑکا، ایک صاحب کشف و کرامات لڑکی اٹھا لے جاتا ہے کیونکہ اسے ایک طوطے نے بتایا ہوتا ہے کہ لڑکی کی قسمت میں نجات لکھی ہے، لہٰذا اس کی شادی زبردستی لڑکے سے کر دی جائے اور اسے عشق کے نام پر جائز قرار دیا جائے لڑکی کا باپ جو کہ ولن ہے وہ شیطانی منصوبے بنا کر واویلہ کرتا اور ہنگامہ کھڑا کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو طوطا کہہ دیتا ہے. اورلامیریجان کا کہنا ہے کہ عشق و محبت ویسے تو خرابات اور یہود و ہنود کی سازش ہے مگر اس صورت میں جائز ہے اگر عورت کافر اور مرد مسلمان ہو، پھر یہ محض عشق و محبت نہیں بلکہ معرکه حق و باطل ہے اور حلق کی گہرائیوں سے حلال ہے. کہا یہ جا رہا ہے کہ اورلامیریجان صوبہ سندھ میں ہونے والے حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر یہ ناول لکھ رہے ہیں، جہاں بڑی تعداد میں ہندو لڑکیوں کو راہ راست پر لایا جا رہا ہے، خدا جانے. ویسے سندھ وہ صوبہ ہے جو باب اسلام کہلاتا ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان اس دن بن گیا تھا جب محمد بن قاسم نے سندھ میں قدم رکھا تھا، یعنی یہاں صدیوں سے آباد ہندؤں کا انجام اسی دن طے ہو گیا تھا. کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد بن قسم نے ایک عورت کی پکار پر سندھ پر حملہ کیا تھا. خدا جانے سندھ کی ان بیٹیوں کی پکار کوئی کب سنے گا. اورلامیریجان جیسے دانشور تو ہر اپنے منہ میاں مٹھو کو ہیرو بناتے جا رہے ہیں
. ایک مشہور مصنف جو اعلیٰ سول سرونٹ تھے خصوصاً ایوب خان کے بڑے قریب رہے ان کی آپ بیتی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تو آمر کو حق اور سچ سے اگاہ کرتے رہے مگر اسی نے کان نہ دھرے, گناہ کماتا رہا اور قوم کو عذاب میں ڈالتا رہا،
Qudratullah Shahab, a fake Sufi
Hindu girls are being forcibly kept in various madrassas in Sindh and are later forced to marry Muslims, Pakistan Peoples Party (PPP) MNA Dr Azra Fazl told the National Assembly on Thursday. She was speaking on issue of Faryal Shah (Rinkle Kumari) who was allegedly abducted and forced to marry and convert to Islam earlier this month in Sindh.
http://tribune.com.pk/story/350431/hindu-girls-being-forcibly-kept-in-sindh-madrassas/
بھائی جان یہاں پورا ملک ہی جعلی صوفیوں اور پیروں نے جکڑ رکھا ہئ، کس کس کا رونا روئیں۔ یہاں کے اورلا جان ہوں یا ڈاکٹر بلا، ہر مرض اور ہر موضوع پر دسترس رکھتے ہیں لیکن اعمال اور عمل میں اختلاف کےب علمبردار بھی یہی لوگ ہیں