Arshad Sharif’s report on the Swiss case

’پاکستان کی تاریخ کا افسوسناک دن‘ ۔ جب سپریم کورٹ نے پیر کو پاکستان کے عوام کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے مقدمے میں فردِ جُرم عائد کر
دی ہے۔

یوسف رضا گیلانی ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جن پر توہینِ عدالت کے مقدمے میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ اس سے پہلے دو سابق وزراءِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔


این آر او سے مستفید ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد کی ہے۔
اس برائی کو جس کو آج آئین کی پامالی سے بھی ذیادہ اہمیت دی جارہی ہے، اسے قانونی شکل دینے میں جنرل پرویز مشرف کا مرکزی ہاتھ اوران کے فوجی اور سیاسی ساتھیوں کی تائید شامل تھی۔ اس وقت کے آئی ایس ائی کے سربراہ لیفٹٹنٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی جو اب چیف آف آرمی سٹاف ہیں ان کا مصالحتی کوششوں میں اہم کردار ہے۔

مگرافسوس آج این آر اوکو بنانے والوں، ثالثی کرنے والوں اور نافذ کرنے والے کو کوئ نہیں پوچھتا، فردِ جُرم لگتی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے اور پاکستان کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو، اور اس قانون کا بنیادی ہدف ہوتاہے آئینی طور پر منتخب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، جس کو آئین کی رو سے مکمل استثنٰی حاصل ہے اور جن کے خلاف مقدمات نہیں کھولے جاسکتے۔

سوئس مقدمات سازش کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف نواز شریف حکومت میں قائم کۓ گۓ تھے۔ نواز شریف نے خود اپنی کتاب ‘غدار کون؟’ میں تسلیم کیا ہے، کہ یہ مقدمات انٹیلی جینئس ایجنسیوں کے دباؤ میں زبردستی بنواۓ گۓ تھے۔ اس سازش کے کرداروں اور واقعات کو ارشد شریف نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں ‘بے نقاب’ کیاہے۔

ارشد شریف ایک بہادر صحافی ہیں اور پیشہ وارانہ صحافتی ذمہ داریاں ایماندارانہ طور پر ادا کرنے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں ان کو مصائب اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑی ہیں، ان کا ‘شو’ ‘رپورٹر’ بند ہوگیا اور ملازمت خطرے میں آگئ۔ آج کل وہ دنیا نیوز ٹی وی اسلام آباد کے بیورو چیف ہیں اور انہوں نے اپنا نیا ٹاک شو “کیوں؟” شروع کیاہے۔ ارشد نے یہ انکشاف اپنے پروگرام میں سوموار کو کیا۔ تاہم یہ تحقیقی سکینڈل انہوں نے ٹاپ سٹوری آن لائن کی درخواست پر لکھا ہے۔ جس کو ہم ‘کراس پوسٹ’ کرکے ویڈیو کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

سوئس کیس بارے ارشد شریف کی تہلکہ انگیز رپورٹ

اسلام آباد: منگل کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں اس فرد جرم کے بعد کہ انہوں نے صدر زرداری کے خلاف سوئس جج کو مقدمات دوبارہ کھولنے سے خط نہ لکھ کر خلاف توہین عدالت کی ہے جس کی سزا انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر جیل بھجوانا بھی ہو سکتی ہے ، چند گھنٹوں بعد یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ نواز شریف دور کے سوئٹزلینڈ میں پاکستانی سیفر ایس ایم انعام اللہ اور ان کے پاکستانی وکیل جیکس پائیتھس کی اس جج ڈینیل سے خفیہ ملاقات ہوئی تھی جو کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف مقدمات کی تفتیش کر رہا تھا اور اس میٹنگ سے متلقہ خفیہ منٹس سے پتہ چلتا ہے کہ اس جج کو خوف تھا کہ اگر اس خفیہ ملاقات کا علم میڈیا کو ہوگیا تو مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔

اس انکشاف نے پاکستان میں آگ سی لگا دی ہے ۔ یہ انکشاف اس لیے بھی بہت سارے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کسی جج کی کسی دوسرے ملک کے سفیر اور اس کے سرکاری وکیل کے درمیان کوئی خفیہ ملاقات بھی ہو سکتی ہے اور جج واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ اس پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ ہر صورت میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے سابق وکیل جیکس پائی تھاس نے فون پر جینوا سے کنفرم کیا کہ واقعی یہ خفیہ میٹنگ ہوئی تھی جس میں یہ سب گفتگو کی گئی تھی۔ تاہم وہ اس بات پر حیران تھے کہ یہ ملاقات تو خفیہ رکھی جانی تھی اور اس رپورٹر کو کیسے اس کا علم ہو گیا۔

تاہم جب سابق پاکستانی سفیر ایس ایم انعام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس رپورٹر کو بتایا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہ ہے کیونکہ ان کی یاداشت ان کا ساتھ نہیں دے رہی۔ نواز لیگ کے سینٹر پرویز رشید نے اس ملاقات کا دفاع کیا کہ ملک کے سفیر اور اس کے وکیل کا جج سے خفیہ ملاقات کرنا کوئی غیرقانونی کام نہیں تھا لہذا انہوں نے سوئس جج سے درست ملاقات کی تھی۔ اس رپورٹر کے پاس ایک سرکاری ڈاکومنٹ ہے اور اس پر خفیہ لکھا ہوا ہے۔ یہ دراصل ایک سمری ہے جو اس میٹنگ کے بارے میں ہے جو کہ مارچ پچیس انیس سو اٹھانوے کو گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے بارہ بجے تک چلتی رہی۔ اس خفیہ ملاقات میں نواز شریف دور کے پاکستانی سفیر ایس ایم انعام اللہ، تفتیس کرنے والا سوئس جج ڈینیل ڈیو، جیکس پائیتھیس ( پاکستان حکومت کا سوئس وکیل)، مسز ڈومینک اور فرانسس راجر موجود تھے۔ ملاقات اس جج کے دفتر میں ہوئی۔

اس سرکاری دستاویز کے مطابق اس ملاقات کا مقصد پاکستان کے سرکاری وکیل نے جج کو بتایا کہ اس سے خفیہ ملاقات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جج سے ملاقات کر کے پوچھا کہ اس کی وہ کیا مدد کر سکتے ہیں اور کس طرح کے دستاویزات کی اسے ضرورت پڑ سکتی ہے اور یہ بھی اس کے ساتھ بات چیت کرنا بھی تھا کہ عدالت کی کاروائی کیسے چل رہی تھی۔ اس پر سوئس جج فورا الرٹ ہو گیا اور اس نے فورا کہا کہ تو پھر اس ملاقات کو نہ صرف خفیہ رکھنا ہوگا بلکہ جو بھی یہاں گفتگو ہو گی اسے بھی خفیہ رکھا جائے گا کیونکہ اگر اس کی اس خفیہ ملاقات کا علم اخبار کو ہو گیا تو پھر مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔

یہ سن کر اس میٹنگ میں موجود تمام افراد نے وعدہ کیا کہ اس ملاقات کو خفیہ رکھا جائے گا۔
دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ سوئس جج نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ پاکستان میں ایس جی ایس سکینڈل جو سوئٹزرلینڈ کے ایک اخبار میں چھپا کے وہاں سامنے آنے کے بعد پاکستان کی حکومت کا کیا ردعمل ہے۔ اس پر سفیر انعام نے وضاحت کی کہ یہ موجودہ تحقیات قانونی طور پر ہو رہی ہیں اور حکومت پاکستان سیاسی معاملات میں کوئی جواز پیش نہیں کرنی چاہتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس موجودہ جھگڑے کا واحد مقصد یہ تھا کہ ملزمان ( بے نظیر بھٹو، زرداری اور بیگم بھٹو) نے بہت سنگین جرائم کئے تھے لہذا وہ سوئس اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون پر کوئی ردعمل دے کر ایک اور فرنٹ نہیں کھولنا چاہتے تھے۔ تاہم جج کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ان جھوٹے الزامات پر اپنا دفاع کرے تو بہتر ہوگا۔ تاہم اس میٹنگ کے خاتمے پر کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو اور زرداری پر بہت جلد فرد جرم عائد ہو گی تو پھر اخبارات میں ایک مہم چلائی جائے گی۔

جج نے پاکستانی سیفر اور وکیل کو بتایا کہ جتنا اس سے ممکن تھا وہ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے میں تاخیر سے کام لے رہا تھا کیونکہ ایک دفعہ اس نے فرد جرم عائد کر دی تو پھر اس کا کام مزید مشکل ہوجائے گا کیونکہ دونوں پارٹیوں کو اس فائل تک رسائی ہو جائے گی ۔ اس کا کہنا تھا جب تک فرد جرم عائد نہ ہو جائے تو پارٹیوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اٹارنی کی مدد کریں اور نہ ہ وہ فائل حاصل کر سکتے ہیں یا پھر جج سے کوئی خاص چیز پوچھ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کا کام بہت آسان ہے۔ شہادتیں اکھٹی کرنا بہت آسان ہے اور جج کو حکومت پاکستان کی ضروریات کا علم ہے کہ انہیں دستاویزات اور معلومات کی ضرورت ہے تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ اپریل یا مئی تک انتظار کریں اور مسکراتے ہوئے اس نے کہا کہ ہمارے صبر کا پھل میٹھا ہوگا۔

سوئس جج نے یہ بھی کہا اس کیس کے حوالے سے شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے اور وہ یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ ایسی فرد جرم لگا دے جس کے بارے میں وہ ابھی مطمئن نہیں ہے کہ ان کی بنیاد پر ملزمان بے نظیر بھٹو، زرداری اور بیگم بھٹو اور دیگر کو منی لانڈرنگ کے الزمات پر سزا دی جا سکتی ہے۔ منی لانڈرنگ کے فنی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے جج کا کہنا تھا کہ سوئس قوانین کے تحت کسی غیر ملکی سرکاری افسر کو اپنے ملک میں کی گئی کرپشن کے الزامات پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ تاہم اس کا خیال ہے اور یہ جینوا کے پراسیکوٹر کا بھی ہے کہ ایک غیر ملکی سول سرونٹ جس نے اپنے ملک میں رشوت لی ہے وہ سوئس قوانین کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا تاہم اس رشوت کے پیسے کو چھپانا سوئس قوانین کے تحت منی لانڈرنگ کے الزامات پر سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

اس جج نے کہا کہ اسے جو دستاویزات دی
گئی تھیں وہ اس نے دیکھ لی ہیں۔ اور مسٹر اے آر صدیقی ( سابق چیرمین سی بی آر جس پر الزام تھا کہ وہ زرداری، بی بی کے ساتھ مل کر ایس جی ایس سکینڈل کا ذمہ دار تھا) نے محض کوئی تحفہ قبول کیا تھا یا پھر اس نے کوئی رشوت لی تھی کیونکہ اگر اس نے تجفہ لیا تھا تو اس کا مطلب سوئس قانون میں یہ ہے کہ اس شخص کے پاس قانونی پاورز ہیں اور اگر اس نے رشوت لی تھی تو پھر اس پر مقدمہ چل سکتا تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ اس نے پاورز غیرقانونی طور پر استعمال کی تھی۔

اور جج کے بقول منی لانڈرنگ کے تحت اس وقت کارروائی ہو سکتی ہے کہ پہلے یہ ثابت ہو کہ اے آر صدیقی نے تحفہ لیا تھا یا پھر رشوت۔

اس جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے ابھی یہ بھی ثبوت اکھٹے کرنے ہیں کہ ایس جی ایس کے کون سے ملازمین پر کیا الزامات ہیں کیونکہ سوئس قوانین کے مطابق منی لانڈرنگ تو جرم ہے لیکن رشوت جرم نہیں ہے۔ اس لیے دیکھنا ہو گا کہ کس نے منی لانڈرنگ میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ جج نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ بھی حکومت پاکستان سے یہ معلومات چاہیں گے کہ بے نظیر حکومت نے اے آر صدیقی کو کیا فوائد پہنچائے اور اسے چیرمین سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے ہٹا کر اسے چیرمین سینٹرل بورڈ آف ریونیو لگایا گیا تھا۔ جج نے یہ بھی کہا کہ اسے جو دستاویزات دی گئی ہیں ان میں اے آر صدیقی کو دی گئی ملازمت کا کنٹریکٹ شامل نہیں تھا ( جج کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ کسی سرکاری ملازم کا کوئی کنٹریکٹ نہیں ہوتا کہ اس کے مراعات یر تنخواہ کم یا زیادہ کر دی جائے کیونکہ یہ وزیراعظم کو صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کسی سینئر افسر کو کہاں پوسٹ کرنا چاہتا یا چاہتی ہے اور تنخواہ اور مراعات تقریبا ایک جیسی رہتی ہیں اور ان کا تعلق گریڈ سے ہوتا ہے)۔

جج نے کہا کہ اسے سابق چیرمین سی بی آر کے کنٹریکٹ کی کاپی بھی دی جائے۔
دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفیر جسے یہ سب سول سروس کے سٹرکچر کا علم تھا اس نے بھی جج کو بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پاکستان میں کسی سول سرونٹس کا کوئی کنٹریکٹ نہیں ہوتا اور مراعات اور تنخواہوں کا انحصار سنیارٹی اور گریڈ پر ہوتا ہے۔ دستاویز سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ وہ سوئس کی مخلتف شخصیتوں کو اس کیس میں نامزد کرے گا اور پاکستانی بھی اس میں شامل ہوں گے۔ تاہم اس نے ان پاکستانیوں کے نام بتانے سے انکار کیا۔

منی لانڈرنگ نیٹ ورک کے بارے میں جاری تفتیش کے بارے میں اس جج کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دروان اس کے سامنے کچھ اور بھی منی لانڈرنگ کے کچھ کیسز سامنے آئے ہیں جن کا بھٹو یا پاکستان سے کوئی تعلق نہ ہے۔ جج کا کہنا تھا وہ ان کسیز کو بھٹو کے کیس سے جدا کرے گا تاکہ جلدی اس کیس پر کام ہو سکے ۔ جج نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ اس وقت اس کیس پر کام کو مشکل بنا رہے ہیں وہ ایس جی ایس کے ملازمین نہیں ہیں بلکہ وہ آل عاصر لودھی، لالہ جی اور قریشی ہیں۔

جج نے پاکستانی سفیر اور ان کے وکیل سے کہا کہ اسے ان افراد کے بارے میں جلد معلومات کی ضرورت ہے۔
اس سرکاری دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ پاکستانی سفیر انعام نے جج سے کہا کہ اسے اس بات میں دلچسپی ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف اس مقدمہ میں حقائق کو ثابت کیا جائے۔

سفیر کا کہنا تھا کہ اسے اس بات میں دلچسپی نہیں تھی کہ سوٹزرلینڈ میں کتنے لوگوں کو سزا ہوئی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسٹر Schlegelmilch کے لاء فرم سے ملنے والی دستاویزات سے اس کی ہاتھ کی لکھائی کی سچائی کو بھی ثابت کیا جائے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سوئس جج کا اس فائل کے بارے میں علم بہت متاثر کن تھا اور اس نے جو کمٹمنٹ اس کیس کے بارے میں دکھائی ہے وہ بھی متاثر کرنے والی تھی۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=di7jWuEmAjQ

Comments

comments

Latest Comments
  1. Kashif Naseer
    -
  2. Kashif Naseer
    -
  3. Luqman Hakim
    -
  4. imran
    -